Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 31
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا
اِنْ : اگر تَجْتَنِبُوْا : تم بچتے رہو كَبَآئِرَ : بڑے گناہ مَا تُنْهَوْنَ : جو منع کیے گئے عَنْهُ : اس سے نُكَفِّرْ : ہم دور کردیں گے عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہارے چھوٹے گناہ وَنُدْخِلْكُمْ : اور ہم تمہیں داخل کردیں گے مُّدْخَلًا : مقام كَرِيْمًا : عزت
اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے اجتناب رکھو گے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کردیں گے اور تمہیں عزت کے مکانوں میں داخل کریں گے
ان تجتنبوا کبئر ما تنہون عنہ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے بچے رہو گے جن کی تم کو ممانعت کی جا رہی ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کبیرہ وہ گناہ ہے جس پر اللہ نے دوزخی ہونے کی یا (اپنے) ناراض ہونے کی یا لعنت کرنے کی یا عذاب کی مہر کردی ہو۔ ضحاک نے بھی اسی طرح فرمایا کبیرہ وہ گناہ ہے جس پر اللہ نے دنیا میں کسی سزا یا آخرت کے عذاب کی وعید دی ہو۔ میں کہتا ہوں کبائر کے تین درجات ہیں : (1) سب سے بڑا کبیرہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک سمجھنا۔ رسول اللہ ﷺ جو چیز لے کر آئے تھے اگر اس کا ثبوت قطعی دلیل سے ہوجائے تو اس کی تکذیب بھی شرک کے حکم میں داخل ہے (یعنی سب سے بڑا گناہ ہے) خواہ صراحت کے ساتھ تکذیب ہو اور کوئی تاویل (اسلام میں کھینچ کر لانے کی) نہ کی گئی ہو تو اس کو کفر کہا جاتا ہے اور اگر (اسلام میں کھینچ کر لانے) کی کوئی توجیہ کی گئی ہو۔ (مگر حقیقت میں وہ تکذیب رسول ہو) تو اس کو ہوا پرستی اور بدعت (قبیحہ) کہتے ہیں (یہ بھی کفر ہے دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی صورت کفر التزامی یعنی قصداً کفر کی ہے اور دوسری صورت کفر لزومی کی۔ یعنی قائل نے التزام کفر نہیں کیا نہ کفر کا وہ قائل ہے بلکہ اس کے قول پر تکذیب رسول اور کفر لازم آتا ہے) رافضی ‘ خارجی ‘ قدریہ (انسان کو اپنے افعال و اعمال کا خالق قرار دینے والے جیسے جہمیہ اور معتزلہ) اور مجسمہ (اللہ کا جسم اور اعضاء ماننے والے) ان سب کے اقوال مؤخر الذکر شق میں داخل ہیں (یعنی عقائد و افکار کے اعتبار سے بدعتی اور ہوا پرست ہیں) اسی بنیاد پر حضرت علی ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا سب سے بڑا کبیرہ گناہ ہے اللہ کا ساجھی قرار دینا اور اللہ کے پوشیدہ عذاب سے بےخوف ہوجانا اور اللہ کی رحمت سے ناامید ہوجانا اور اللہ کے کرام سے نراس بن جانا۔ میں کہتا ہوں کہ اللہ نے فرمایا ہے اللہ کے پوشیدہ مواخذہ سے صرف گھاٹا اٹھانے والے ہی بےخوف ہوتے ہیں اور سوائے گمراہوں کے اپنے رب کی رحمت سے اور کوئی ناامید نہیں ہوتا۔ اللہ کی رحمت سے صرف کافر ہی نراس ہوتے ہیں۔ (1) [ بزار اور طبرانی نے اوسط میں حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کبائر کیا ہیں ؟ فرمایا : اللہ کا (ذات وصفات میں) ساجھی قرار دینا اور اللہ کی رحمت سے ناامید ہوجانا اور اللہ کی پوشیدہ گرفت سے بےباک بن جانا۔] کبیرہ کا دوسرا درجہ دوسری قسم کا کبیرہ وہ گناہ ہے جس سے اللہ کے بندوں کی جان یا مال یا آبرو کا نقصان ہو۔ سفیان ؓ ثوری نے فرمایا کبائر وہ ہیں جن کی وجہ سے تمہارے اور اللہ کے بندوں کے درمیان حق تلفیاں ہوں یہ اللہ کے حقوق تلف کرنے سے بھی بڑا گناہ ہے کیونکہ اللہ تو بڑا ہے اس (کی رحمت) سے ہر چیز چھوٹی ہے سب گناہ معاف کر دے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے عرض کیا تھا ‘ اے اللہ ! تیری مغفرت میرے گناہوں سے زیادہ سمائی والی ہے۔ اللہ نے خود فرمایا ہے : وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلََّ شْیءً (میری رحمت میں ہر چیز کی سمائی ہے) حضرت عائشہ ؓ صدیقہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کے پاس تین رجسٹر ہیں ایک رجسٹر (کے اندر درج شدہ لغزشوں) کی تو اللہ کو پرواہ نہیں اور دوسرے رجسٹر (کے اندر درج شدہ گناہوں) میں سے اللہ کچھ نہیں چھوڑے گا اور تیسرے دیوان (کے مندرجات) کو اللہ نہیں بخشے گا۔ ناقابل معافی رجسٹر تو شرک کا (رجسٹر ہے اور جس رجسٹر کی اللہ کو پرواہ نہیں وہ اللہ کی حق تلفیوں کا رجسٹر ہے جیسے روزہ نہ رکھنا ‘ نماز ترک کرنا۔ اللہ جس کو چاہے گا معاف کر دے گا اور درگزر فرمائے گا اور جس رجسٹر میں سے اللہ کچھ بھی ترک نہیں کرے گا وہ بندوں کی باہمی حق تلفیوں کا رجسٹر ہے لامحالہ بدلہ دینا ہوگا (اگر بندہ خود اپنا حق معاف کر دے تو خیر) رواہ احمد والحاکم۔ طبرانی نے ایسی ہی حدیث حضرت سلمان ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کی ہے اور بزار نے حضرت انس ؓ کی روایت سے بھی ایسا ہی نقل کیا ہے۔ حضرت انس بن مالک ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ قیامت کے دن ایک منادی عرش کے اندر سے ندا دے گا اے امت محمد ﷺ بلاشبہ اللہ نے سب مؤمن مردوں اور عورتوں کے سب گناہ معاف کردیئے ہیں تم آپس میں اپنے حقوق بخش دو اور جنت میں میری رحمت سے داخل ہوجاؤ۔ رواہ البغوی۔ حضرت ابوبکرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں قربانی کے دوران خطبہ میں فرمایا تمہارے خون تمہارے مال ‘ تمہاری آبرؤیں باہم حرمت والی ہیں جیسے آج کا دن ‘ تمہارے اس شہر میں اس ماہ میں حرمت والا ہے (یعنی کسی کی جانی ‘ مالی اور عزت کی حق تلفی جائز نہیں جس طرح حرم کے اندر کسی قسم کا گناہ درست نہیں) رواہ البخاری والمسلم۔ ترمذی نے بھی یہ حدیث عمرو بن عاص کی روایت سے نقل کی ہے اور اس کو صحیح کہا ہے۔ اسامہ ؓ بن شریک کی روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہم رکاب حج کرنے نکلا لوگ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کر رہے تھے کوئی کہتا تھا یا رسول اللہ میں نے طواف سے پہلے سعی کرلی کوئی کہتا تھا میں نے بعض چیزوں کو مقدم کرلیا کوئی کہتا تھا میں نے بعض چیزوں کو پیچھے کیا حضور ﷺ : فرماتے جا رہے تھے کوئی ہرج نہیں کوئی گناہ سوائے اس شخص کے جس نے ناحق کسی مسلمان کا مال کاٹا ہو۔ یہی شخص گناہ میں پڑا اور تباہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْدُّوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعَدَّلَہُمْ عَذَابًا مُّہِیْنًا وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَااکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُہْتَانًا وَّاِثْمًا مُبِّیْنًاجو لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ : کو اذیت دیتے (یعنی ناراض کرتے) ہیں دنیا اور آخرت میں ان پر اللہ کی پھٹکار ہوگی اور اللہ نے ان کے لئے ذلت آفریں عذاب تیار کر رکھا ہے اور جو لوگ مسلمان مردوں اور عورتوں کو بلا جرم کئے دکھ دیتے ہیں وہ لوگ اپنے اوپر بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ اس آیت میں دونوں قسم کے کبائر کا بیان ہے (اوّل آیت میں) کفر کا اور (دوسری آیت میں) بندوں پر ظلم کا۔ آیت زیر تفسیر کو آیت یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَاکُلُوْا اَمْوَالُکُمْ بَیْنَکُمُ بالْبَاطِلِ ۔ وَلاَ تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْکے بعد ذکر کرنے سے اس طرف اشارہ ہے کہ بندوں پر ظلم خواہ جانی ہو یا مالی بہرطور بزرگ ترین گناہوں میں سے ہے۔ جن صحیح احادیث میں کبیرہ گناہوں کی گنتی آئی ہے ان میں بیشتر مظالم اور شرک کا ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت انس ؓ اور حضرت عبداللہ ؓ بن عمرو کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کبیرہ گناہ ہے اللہ کا ساجھی بنانا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور کسی کو (ناحق) قتل کرنا اور دانستہ جھوٹی قسم کھانا۔ جھوٹی قسم کا لفظ حضرت عبداللہ ؓ بن عمرو کی روایت سے بخاری نے ذکر کیا ہے اور حضرت انس ؓ کی روایت میں جھوٹی قسم کی جگہ جھوٹی شہادت کا لفظ آیا ہے اس روایت کو شیخین نے بیان کیا ہے۔ ابن مردویہ نے حضرت انس کی روایت سے لکھا ہے کہ کبائر سات ہیں (تین مذکورۂ بالا اور ان میں) چار زیادہ بیان کئے ہیں کسی پاکدامن عورت پر زنا کی تہمت ‘ یتیم کا مال کھانا ‘ سود کھانا اور جہاد سے بروز مقابلہ فرار۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سات ہلاکت آفریں باتوں سے بچو ‘ صحابہ ؓ نے عرض کیا وہ کون سی ہیں فرمایا اللہ کا ساجھی بنانا ‘ جادو ‘ ناحق ایسے شخص کو قتل کرنا جس کو قتل کرنے سے اللہ نے منع کردیا ہے ‘ سود کھانا ‘ یتیم کا مال کھانا ‘ جہاد کے دن بوقت مقابلہ پیٹھ دکھانا اور پاکدامن بھولی بھالی مؤمن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔ رواہ البخاری والمسلم۔ ابن راہویہ کی روایت میں والدین کی نافرمانی اور کعبہ میں الحاد کا مزید ذکر ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا کون سا گناہ ہے فرمایا کسی کو اللہ کا مثل قرار دینا حالانکہ اللہ نے ہی تجھے پیدا کیا ہے اس شخص نے عرض کیا اس کے بعد کون سا فرمایا اپنے بچہ کو اس اندیشہ سے قتل کردینا کہ وہ تیری روزی میں شریک ہوجائے گا اس شخص نے عرض کیا پھر کون سا فرمایا ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرنا۔ حضور ﷺ کے اس بیان کی تصدیق میں اللہ نے نازل فرمایا : وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اٰلَہًا اٰخَرَ وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ الاَّ بالْحَقِّ وَلاَ یَزْنُوْنَرواہ البخاری والمسلم۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں زنا کو ہمسایہ کی بیوی سے اس لئے مشروط کیا کہ اس میں ہمسایہ کی حق تلفی ہے۔ دوسری حدیث میں حضور ﷺ نے فرمایا پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنے کے مقابلہ میں دس عورتوں سے زنا کرنا آسان (یعنی کم درجہ) ہے۔ رواہ احمد عن المقداد بن الاسود۔ اس روایت کے راوی ثقہ ہیں۔ طبرانی نے بھی اس کو کبیر اور اوسط میں بیان کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بزرگ ترین کبیرہ گناہوں میں سے اپنے ماں باپ کو گالی دینا ہے کسی نے کہا اپنے والدین کو کس طرح گالی دی جاسکتی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا آدمی کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے پھر وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے آدمی کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔ رواہ البغوی وغیرہ۔ حضرت ابوبکرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو تین اکبر الکبائر نہ بتاؤں صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ضرور بتائیے۔ فرمایا اللہ کا ساجھی بنانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ حضور ﷺ یہ فرمانے کے وقت تکیہ لگائے ہوئے تھے پھر بیٹھ گئے اور فرمایا سن لو اور جھوٹ بولنا سن لو اور جھوٹ کہنا سن لو اور جھوٹی بات کہنا۔ حضور ﷺ : مسلسل یہ الفاظ اتنی بار مکرر سہ مکرر فرما رہے کہ ہمارا خیال ہوا کہ اب حضور ﷺ خاموش ہوجائیں (کیونکہ ہم پورے طور پر سمجھ چکے تھے) رواہ البخاری۔ فائدہ : حضور اقدس ﷺ نے قوت کے ساتھ جھوٹ بولنے پر جو تہدید کی اس کی وجہ یہ تھی کہ جھوٹ بہت سے کبائر کو شامل ہے شرک باللہ جھوٹی شہادت ‘ جھوٹی قسم ‘ تہمت زنا ‘ جھوٹا دعویٰ ‘ رسول اللہ ﷺ پر دروغ بندی (یہ سب جھوٹ کے اقسام ہیں) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے جو شخص قصداً مجھ پر دروغ بندی کرے اس کو اپنا ٹھکانہ دوزخ میں کرلینا چاہئے۔ رواہ البخاری والمسلم۔ غیبت ‘ زنا سے بھی زیادہ سخت ہے۔ رواہ البیہقی عن ابی سعید و جابر مرفوعاً ۔ چغلی (بھی جھوٹ کی قسم ہے) حضرت عبدالرحمن بن غنم اور حضرت اسماء کی مرفوع روایت ہے کہ بدترین بندگان خدا وہ لوگ ہیں جو چغلیاں کھاتے پھرتے ہیں۔ رواہ احمد۔ فاسق کی مدح بھی (جھوٹ کی ایک قسم ہے) حضرت انس ؓ کی مرفوع روایت ہے کہ جب فاسق کی تعریف کی جاتی ہے تو اللہ غضب ناک ہوجاتا ہے اور عرش میں لرزہ آجاتا ہے۔ رواہ البیہقی۔ جو مستحق لعنت نہ ہو اس پر لعنت کرنا (بھی ایک طرح کا جھوٹ ہے) کیونکہ غیر مستحق پر لعنت کرنے سے لعنت لعنت کرنے والے پر لوٹ آتی ہے۔ رواہ الترمذی عن ابن عباس و ابوداؤد عن ابن عباس وابی الدرداء مرفوعاً ۔ کسی پر طعن کرنا اور فحش بکنا بھی (جھوٹ ہی کی قسم ہے) حضرت ابن مسعود ؓ کی مرفوع روایت ہے کہ مؤمن نہ طعنے باز ہوتا ہے نہ زیادہ لعن کرنے والا نہ فحش بکنے والا نہ بےحیا۔ رواہ الترمذی۔ ان کے علاوہ اور معاصی بھی (کبیرہ) ہیں اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا جو شخص مجھے اس (زبان) کی جو دونوں جبڑوں کے درمیان ہے اور اس (شرمگاہ) کی جو دونوں ٹانگوں کے درمیان ہے ضمانت دے دے گا (یعنی زبان اور شرمگاہ کو ناجائز استعمال سے روکنے کا ذمہ دار بن جائے گا) میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوجاؤں گا۔ رواہ البخاری عن سہل بن سعد۔ امام مالک (رح) اور بیہقی (رح) نے صفوان ؓ بن سلیم کی مرسل روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کیا مؤمن بزدل ہوتا ہے۔ فرمایا ہاں ! عرض کیا گیا کیا مؤمن بخیل ہوتا ہے فرمایا ہاں ! عرض کیا گیا کیا پکا جھوٹا ہوتا ہے فرمایا نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں خواہ وہ نماز پڑھتا روزہ رکھتا اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہو بات کہے تو جھوٹی کہے ‘ وعدے کرے تو اس کے خلاف کرے۔ اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ رواہ مسلم والبخاری۔ صحیحین میں حضرت عبداللہ بن عمرو کی مرفوعً روایت مذکور ہے کہ چار باتیں ہیں جس میں یہ ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا اور جس میں کوئی ایک بات ہوگی اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی تاوقتیلہ اس کو چھوڑ نہ دے (اس کو کامل یا ناقص منافق قرار دیا جائے گا) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ‘ بات کرے تو جھوٹ کرے۔ معاہدہ کرے تو توڑ دے جھگڑے کے وقت فحش بکنے لگے۔ کبیرہ کا تیسرا درجہ وہ ہے جس کا تعلق (خالص) اللہ کے حق سے ہے جیسے زنا اور شراب خواری۔ ابن ابی حاتم نے لکھا کہ حضرت ابن عمر ؓ سے شراب کے متعلق پوچھا گیا فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا تو حضور ﷺ نے فرمایا تھا یہ بزرگ ترین گناہ کبیرہ اور فواحش کا سرچشمہ ہے جو شراب پی لیتا ہے وہ نماز بھی چھوڑ دیتا ہے اور (کبھی) اپنی ماں ‘ پھوپھی اور خالہ پر بھی جا پڑتا ہے۔ عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بھی ایسا ہی نقل کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب زانی زنا کرتا ہے تو مؤمن ہونے کی حالت میں نہیں کرتا اور چور مؤمن ہونے کی حالت میں چوری کرتا ہے اور نہ مؤمن ہونے کی حالت میں شرابی شراب پیتا ہے اور نہ لٹیرا بحالت ایمان لوگوں کا مال لوٹتا ہے کہ لوگ اس کو لوٹتے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں (اور انتہائی یاس کی حالت میں اپنے مال کو بچا نہ سکیں) اور تم میں سے کوئی بحالت ایمان مال غنیمت میں خیانت نہیں کرتا۔ پس ان باتوں سے بچو۔ پرہیز رکھو۔ متفق علیہ۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت میں اتنا زائد ہے کہ بحالت ایمان قاتل قتل نہیں کرتا۔ رواہ البخاری۔ میں کہتا ہوں کہ لواطت کا حکم زنا کی طرح ہے اللہ نے (اس کی مذمت میں) فرمایا ہے اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ مَاسَبَقَکُمْ بِہَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِیْنَکیا تم ایسی بےحیائی کا کام کرتے ہو کہ تم سے پہلے جہاں بھر میں کسی نے نہیں کیا۔ چوری سے زیادہ سخت رہزنی ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے اِنَّمَا جَزَآءُ الَّذِیْنَ یُخَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ الخ یہ آیت راہ زنی ہی کے متعلق ہے۔ کہ ناپنا تولنا بھی چوری کے حکم میں ہے اللہ نے فرمایا ہے وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَکم تولنے کم ناپنے والوں کے لئے وَیْلہے۔ خیانت بھی بڑی خباثت ہے اور نفاق کی نشانی ہے۔ (2) [(حاشیہ از مولف) نمبر 1 خیانت ‘ چوری اور کم تولنا ‘ کم ناپنا کبیرہ کے نمبر دوئم کے ذیل میں داخل ہے، 12۔ نمبر 2 ترمذی اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے رسول اللہ ﷺ کا فرمان نقل کیا ہے کہ بلا عذر دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا کبائر میں سے ہے۔ ابن ابی شیبہ نے حضرت عمر اور حضرت ابو موسیٰ اور حضرت ابو قتادہ کی روایت سے بھی اسی طرح ذکر کیا ہے۔ از مؤلف ] کسی گناہ کو حقیر سمجھنا اور پرواہ نہ کرنا بھی بڑا گناہ ہے کیونکہ صغیرہ گناہ کو بھی حقیر سمجھنا مغفرت سے دور کردیتا ہے اور (حکم خداوندی سے) سرکشی پر دلالت کرتا ہے اور کبھی کبھی کفر تک پہنچا دیتا ہے لیکن اگر اپنے گناہ کو بڑا سمجھتا اور (عذاب) سے ڈرتا رہے تو اس کو مغفرت کا استحقاق ہوجاتا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مؤمن اپنے گناہ کو ایسے جانتا ہے جیسے اس کے سر پر پہاڑ رکھا ہو اور منافق اپنے گناہ کو ناک پر بیٹھی ہوئی مکھی کی طرح سمجھتا ہے کہ ذرا سا اشارہ کیا اور وہ اڑ گئی۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا تھا تم لوگ کچھ اعمال ایسے کرتے ہو جو تمہارے نزدیک بال سے بھی زیادہ باریک (حقیر) ہوتے ہیں لیکن رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہم ان کو تباہ کن جرائم میں سے شمار کرتے تھے۔ رواہ البخاری عن ابی سعید بسند صحیح و احمد مثلہ۔ اس تنقیح سے ثابت ہوتا ہے کہ جس نے کبیرہ گناہوں کا حصر سات میں کیا (صرف سات گناہوں کو کبیرہ کہا) اس نے غلطی کی۔ اگر صغیرہ گناہ پر جما رہے یا اس کو حقیر سمجھے تو وہ بھی کبیرہ بن جاتا ہے۔ ابن ابی حاتم نے لکھا ہے کہ سعید بن جبیر نے فرمایا کسی نے حضرت ابن عباس ؓ سے دریافت کیا ‘ کیا کبیرہ گناہ سات ہیں فرمایا سات سو کے قریب ہیں۔ مگر استغفار کے ساتھ کوئی کبیرہ (کبیرہ) نہیں رہتا اور جم جانے کے ساتھ کوئی صغیرہ (صغیرہ) نہیں ہوتا (بلکہ کبیرہ ہوتا ہے 2 ؂) یہ بھی فرمایا کہ جس عمل سے اللہ کی نافرمانی کی جائے وہ کبیرہ ہے لہٰذا جو شخص اگر اس طرح کا کوئی عمل کر گزرے تو اس کو اللہ سے استغفار کرنا چاہئے کیونکہ اللہ دوزخ کے اندر اس امت میں سے کسی کو ہمیشہ نہیں رکھے گا سوائے اس کے جو اسلام سے پھر گیا ہو یا کسی فرض (کی فرضیت) کا اس نے انکار کردیا ہو یا تقدیر کو نہ مانا ہو۔ میں کہتا ہوں کہ حضرت ابن عباس ؓ نے جو یہ فرمایا کہ استغفار کے ساتھ کوئی کبیرہ نہیں رہتا۔ اس سے آپ کی مراد وہ کبیرہ ہے جس کا تعلق اللہ کے حقوق سے ہو وہ کبائر جن کا تعلق انسانوں کے حق سے ہو (تو ان کی معافی کے لئے صرف استغفار کافی نہیں بلکہ) ان میں حقوق کی واپسی اور مظلوم کو راضی کرنا بھی ضروری ہے۔ فائدہ : بعض (عارفوں) کا قول ہے کہ کبھی بندہ اس درجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ پھر کسی گناہ سے اس کو ضرر نہیں پہنچتا۔ اس قول سے یہ مراد نہیں ہے کہ بعض لوگ شرعاً مکلف نہیں رہتے اور ان کے لئے حرام حلال ہوجاتا ہے یہ عقیدہ تو کفر و الحاد ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ قلب کی صفائی اور نفس کے تزکیہ کے بعد بعض آدمی ہر وقت مرتبۂ حضور پر فائز رہتے ہیں ان سے کوئی گناہ سرزد ہی نہیں ہوتا اور اگر کبھی ہوجاتا ہے خواہ چھوٹا گناہ ہو یا بڑا تو وہ ان کی نظر میں بہت بڑا ہوتا ہے اور وہ اتنے نادم اور غمگین ہوتے ہیں گویا ان کی جان مال گھر بار اولاد سب تباہ ہوگئی یہی ندامت ‘ توبہ اور اندوہ اندرونی مزیدہ نزول رحمت اور ترقی مرتبہ کا ذریعہ ہوجاتا ہے۔ ان ہی لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دیتا ہے۔ عارف رومی نے جو حضرت معاویہ ؓ اور شیطان کا باہمی قصہ فجر کی نماز کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے اس کی صحت کی سند تو مجھے معلوم نہیں لیکن تمثیل کے لئے صرف مان لینا ہی کافی ہے (ایک روز شیطان نے معاویہ ؓ کو فجر کی نماز کے لئے بیدار کردیا آپ نے شیطان سے پوچھا تیرا کام تو ادائے فرائض سے غافل بنانا ہے تو نے اپنے کام سے ہٹ کر یہ کیا حرکت کی کہ نماز کے لئے مجھے جگا دیا شیطان نے جواب دیا مجھے اندیشہ تھا کہ اگر آپ کی نماز قضا ہوجائے گی تو آپ کو اتنا رنج اور غم ہوگا اور اتنی ندامت ہوگی کہ اداء فراض سے آگے آپ کے مرتبہ کو بڑھا دے گی) ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم نے گناہ نہ کئے تو اللہ ایسے لوگوں کو پیدا کر دے گا جو گناہ کریں گے اور پھر معافی کے طلب گار ہوں گے اور اللہ ان کو بخش دے گا۔ گویا اس حدیث میں بھی اسی حالت کی جانب اشارہ ہے۔ فائدہ : تمام گناہوں کی بنیاد دل کی سختی ہے دل کی سختی ہی سے اللہ کی جانب سے غفلت اور نفسانی رذائل کی پیدائش ہوتی ہے اور اس سے درندگی اور ہوس پرستی کی تخلیق ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آدمیوں کے بدن کے اندر ایک بوٹی ایسی ہے کہ جب وہ ٹھیک ہوتی ہے تو سارا بدن ٹھیک ہوتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتی ہے تو سارے جسم کا انتظام بگڑ جاتا ہے وہ بوٹی دل ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : وَقَال الشَّیْطَانُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ وَمَاکَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطَانٍ الاَّ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلاَ تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْا اَنْفُسَکُمْ (جب آخری فیصلہ ہوجائے گا تو شیطان کہے گا کہ اللہ تعالیٰ نے بلاشبہ تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے جو تم سے وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا مگر تم پر میری کوئی زبردستی نہ تھی میں نے تو تم کو صرف دعوت دی تھی تم نے میری دعوت قبول کرلی اب تم مجھے برا نہ کہو خود اپنے آپ کو ملامت کرو) گناہوں سے بچاؤ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دلوں اور نفسوں میں پاکیزگی اور ہمہ وقت حضور نہ پیدا ہوجائے مگر ایسا اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک مشائخ طریقت کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کشش نہ ہو لہٰذا تم کو مشائخ کا دامن پکڑ لینا چاہئے ان کے ساتھ بیٹھنے والا بدنصیب نہیں ہوسکتا اور نہ ان کا ندیم نامراد رہ سکتا ہے۔ واللہ اعلم۔ نکفر عنکم سیاتکم . ہم تم سے تمہارے گناہ دور کردیں گے یعنی چھوٹے گناہ جیسے نامحرم کی طرف نظر کرنا ‘ اس کو چھونا اس کا بوسہ لینا وغیرہ وغیرہ معاف کردیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دونوں آنکھیں زنا کرتی ہیں اور دونوں ہاتھ زنا کرتے ہیں اور دونوں پاؤں زنا کرتے ہیں (مگر آخر میں) شرمگاہ ان کی تصدیق کردیتی ہے ‘ یا تکذیب کردیتی ہے ‘ انشاء اللہ ان سب کا اتار نماز روزہ سے ہوجائے گا۔ بلاشبہ نیکیاں برائیوں (کے عذاب) کو دور کردیتی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانچوں نمازیں (اپنے درمیانی اوقات کے لئے) اور جمعہ کی نماز (پچھلے) جمعہ کی نماز تک کے تمام گناہوں کا اتار کردیتی ہے بشرطیکہ آدمی کبائر سے بچا رہے۔ رواہ مسلم۔ وندخلکم مدخلا کریما . یعنی ہم تم کو عمدہ جنت میں داخل کریں گے یا یہ ترجمہ ہے کہ ہم تم کو جنت میں خوبی کے ساتھ داخل کریں گے (اوّل صورت میں مُدْخَلاً ظرف مکان ہوگا اور دوسری صورت میں مفعول مطلق) مجاہد نے بیان کیا کہ حضرت ام سلمہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مرد تو جہاد کرتے ہیں اور ہم جہاد نہیں کرتیں اور مردوں کا میراث میں ہم سے دو گناہ حصہ ہے۔ اگر ہم بھی مرد ہوتیں تو ان کی طرح ہم بھی جہاد کرتیں اور ان کی برابر ہمارا بھی میراث میں حصہ ہوتا اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔ رواہ الترمذی والحاکم وصححہ۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ جب میراث کے متعلق آیت : للذکر مثل حظ الانثیین نازل ہوئی تو عورتوں نے کہا مرد قوی ہیں ہم کمزور ہیں ہم زیادہ ضرورت مند ہیں ان کو کمائی کی قوت ہم سے زیادہ ہے اس لئے میراث کا حق ہم کو زیادہ ہونا چاہئے اس وقت آیت ذیل ولا تتمنوانازل ہوئی۔ قتادہ اور سدی نے بیان کیا ہے کہ جب آیت : للذکر مثل حظ الانثیین نازل ہوئی تو مردوں نے کہا ہم کو امید ہے کہ آخرت میں بھی ہماری نیکیوں کا ثواب عورتوں کی نیکیوں سے دو گناہ ہوگا جس طرح اللہ تعالیٰ نے میراث کے اندر ہمارا حصہ عورتوں سے زیادہ رکھا ہے (اسی طرح آخرت میں بھی ہمارا حصہ زائد ہوگا) اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top