Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 36
وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙ
وَاعْبُدُوا : اور تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ وَلَا تُشْرِكُوْا : اور نہ شریک کرو بِهٖ : اس کے ساتھ شَيْئًا : کچھ۔ کسی کو وَّ : اور بِالْوَالِدَيْنِ : ماں باپ سے اِحْسَانًا : اچھا سلوک وَّ : اور بِذِي الْقُرْبٰى : قرابت داروں سے وَالْيَتٰمٰي : اور یتیم (جمع) وَالْمَسٰكِيْنِ : اور محتاج (جمع) وَالْجَارِ : ہمسایہ ذِي الْقُرْبٰى : قرابت والے وَالْجَارِ : اور ہمسایہ الْجُنُبِ : اجنبی وَالصَّاحِبِ بالْجَنْۢبِ : اور پاس بیٹھنے والے (ہم مجلس) وَ : اور ابْنِ السَّبِيْلِ : مسافر وَمَا : اور جو مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : تمہاری ملک (کنیز۔ غلام اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا مَنْ : جو كَانَ : ہو مُخْتَالًا : اترانے والا فَخُوْرَۨا : بڑ مارنے والا
اور خدا ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسائیوں اور اجنبی ہمسائیوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ احسان کرو کہ خدا (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا
واعبدوا اللہ . اور اللہ کی عبادت کرو (جوہری کی) صحاح میں ہے کہ عبودیت کا معنی ہے کمزوری اور عجز کا اظہار۔ لیکن عبادت کے معنی میں عبودیت کے مفہوم سے زیادہ زور ہے عبادت کا معنی ہے انتہائی کمزوری اور عاجزی کا اظہار (اسی لئے عبودیت کا اطلاق انسانوں پر بھی ہوسکتا ہے مگر) عبادت کا استحقاق صرف اسی کے لئے ہے جو عظمت و ربوبیت کی چوٹی پر فائز ہے۔ ولا تشرکوا بہ شیئا . اور کسی چیز کو (عبادت میں) اس کا شریک نہ قرار دو ۔ شیئاً میں تنوین تحقیر کو ظاہر کرنے کے لئے ہے یعنی اللہ کی بزرگی غیر متناہی ہے اس کے مقابلہ میں ہر ممکن خواہ کتنا ہی بڑا ہو حقیر ہے (پس تم حقیر کو الہٰ اعظم کی عبادت میں شریک نہ بناؤ) اس مطلب پر شیئاً مفعول بہ ہوگا یہ بھی ممکن ہے کہ مفعول مطلق محذوف ہو اور شیئاً اس کی صفت ہو یعنی اللہ کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کرو نہ ظاہر نہ پوشیدہ۔ عبادت کی دو قسمیں ہیں (1) اضطراری۔ یعنی ہر چیز چاروناچار اللہ کے حکم سے وابستہ ہے کسی کو اس سے (تخلیقی طور پر) سرتابی کی مجال نہیں۔ (2) اختیاری۔ آیت میں عبادت اختیاری کا ہی حکم دیا گیا ہے عبادت الٰہی سے مراد ہے اللہ کے اوامرو نواہی کی پابندی۔ صوفیہ کا قول ہے کہ عبادت کا معنی یہ ہے کہ جس طرح غسال کے ہاتھوں میں مردہ ہوتا ہے اسی طرح اللہ کے احکام کی تعمیل میں بندہ اپنے کو بےاختیار و بےارادہ بنا دے رب کے ہر حکم پر راضی ہو یہاں تک کہ اس کی نظر میں اللہ کے احکام تکومینیہ (تخلیقیہ اور خطریہ) اور احکام تشریعیہ (اوامرو نواہی) کا مرتبہ ایک جیسا ہو (یعنی جس طرح اللہ کے احکام تخلیقیہ میں بندہ کے اختیار کو کوئی دخل نہیں اسی طرح اللہ کے احکام تشریعیہ کی پابندی کے لئے بھی وہ اپنے کو مجبور سمجھے) اللہ نے فرمایا ہے جب اللہ اور اللہ کا رسول کسی بات کا فیصلہ کردیتے ہیں تو پھر کسی مؤمن مرد و عورت کی اپنی اختیاری مرضی نہیں رہتی۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ کا بیان ہے میں اونٹنی پر رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار تھا کہ حضور ﷺ نے فرمایا معاذ ؓ ! کیا تجھے معلوم ہے کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی جانے۔ فرمایا بندوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ اس کی عبادت کریں کسی کو اس کا ساتھی نہ قرار دیں۔ معاذ ؓ کیا تو جانتا ہے کہ اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے جب کہ انہوں نے ایسا کیا ہو (یعنی اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنایا ہو) میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی جانے فرمایا بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ (ایسے لوگوں کو) عذاب نہ دے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں لوگوں کو اس کی بشارت نہ دے دوں فرمایا ان کو عمل کرنے دے ( اگر یہ بشارت دے دی تو بھروسہ کر بیٹھیں گے اور اعمال کو ترک کردیں گے) رواہ البغوی۔ صحیحین میں بھی یہ حدیث مذکور ہے۔ صوفیہ کے نزدیک عذاب دینے سے مراد ہے ہجر و فراق کا عذاب دینا۔ یعنی اللہ پر غیر مشرک بندوں کا حق یہ ہے کہ ان کو ہجر و فراق کا دکھ نہ دے۔ وبالوالدین احسانا . اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو ‘ حضرت معاذ ؓ کا بیان ہے مجھے رسول اللہ ﷺ نے دس باتوں باتوں کی نصیحت فرمائی تھی۔ اللہ کا ساجھی نہ قرار دینا خواہ تجھے قتل کردیا جائے یا جلا دیا جائے۔ ماں باپ کی نافرمانی نہ کرنا۔ خواہ وہ بیوی اور مال کو چھوڑ دینے کا حکم دیں۔ الحدیث رواہ احمد۔ وبذی القربی . اور قرابت داروں سے اچھا سلوک کرو۔ حضرت سلمان ؓ بن عامر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسکین کو خیرات دینا تو (صرف) خیرات ہے اور (مسکین) قرابت داروں کو دینا خیرات بھی ہے اور صلۂ رحم بھی (یعنی دوہرا ثواب ہے) رواہ احمد والنسائی وابن حبان والحاکم والترمذی وابن ماجہ وابن خزیمہ ‘ ترمذی نے اس حدیث کو حسن اور ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے ابن خزیمہ کی روایت کے الفاظ بھی اسی کے قریب ہیں۔ اس آیت سے ظاہر ہو رہا ہے کہ غنی پر والدین اوراقارب کا نان نفقہ واجب ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے یسئلونک ما ذا ینفقون قل العفولوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ راہ خدا میں کیا خرچ کریں آپ کہہ دیجئے کہ جو حاجت سے زیادہ ہو وہ سب دے دو ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بہترین خیرات وہ ہے جو غنی (یعنی اپنی حاجت پوری ہونے) کے بعد ہو اور دینا اس سے شروع کرو جس کی کفالت تمہارے ذمہ ہو۔ رواہ البخاری عن حکیم وابی ہریرۃ ورواہ مسلم عن حکیم۔ والدین کے علاوہ دوسرے قرابت داروں کے مصارف کے لئے دینا اس وقت واجب ہے کہ وہ کمائی سے عاجز ہوں ‘ مثلاً کوئی بچہ ہو ‘ لنگڑا ہوا اپاہج ہو یا عورت ہو ‘ والدین کو دینے کی یہ شرط نہیں ہے۔ کوئی شخص مال دار ہو اور اس کے اقرباء بھوکے مر رہے ہوں اور یہ ان کو نہ دے یہ حرکت تقاضائے احسان کے خلاف ہے ایسے وقت میں دینا واجب ہے۔ والیتمی والمساکین . اور یتیموں اور مسکینوں سے اچھا سلوک کرو۔ یتیموں اور مسکینوں کو مال کی زکوٰۃ دینی تو واجب ہے اور زکوٰۃ کے علاوہ کچھ خیرات کرنی مستحب ہے۔ حضرت سہل بن سعد ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت کے اندر میں اور یتیم کی سرپرستی کرنے والا اس طرح ہوں گے۔ حضور ﷺ نے کلمہ کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے یہ الفاظ فرمائے تھے اور دونوں انگلیوں کے درمیان قدرے شگاف چھوڑ دیا تھا۔ رواہ البخاری۔ حضرت ابوامامہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے محض اللہ واسطے یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا تو جس حصہ پر اس کا ہاتھ لگا ہوگا اس کے ہر بال کے عوض اس کو دس نیکیاں ملیں گی اور جس نے کسی یتیم لڑکے یا لڑکی سے اچھا سلوک کیا جو اس کے پاس ہو تو وہ اور میں جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح (قریب قریب) ہوں گے۔ حضور ﷺ نے دونوں انگلیوں کو (قدرے) الگ الگ کر کے بتایا۔ رواہ البغوی۔ والجبار ذی القربی . اور قربت رکھنے والے پڑوسی سے اچھا سلوک کرو توبیٰ سے مراد یا قربت مکانی ہے یعنی متصل ہمسایہ یا قربت نسبی یعنی قرابت دار پڑوسی یا قربت دینی مراد ہے یعنی مسلمان پڑوسی۔ والجار الجنب . اور دور کے پڑوسی سے بھی اچھا سلوک کرو اس سے مراد یا وہ شخص ہے جو متصل ہمسایہ نہ ہو بلکہ مکان دور ہو (مگر محلہ اور گلی ایک ہو) یا وہ ہمسایہ مراد ہے جو قرابت دار نہ ہو یا وہ پڑوسی مراد ہے جو مسلمان نہ ہو۔ حضرت جابر ؓ بن عبداللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پڑوسی تین ہیں ایک پڑوسی وہ ہے جس کے تین حق ہیں ‘ ہمسائیگی کا حق قرابت داری کا حق اور مسلمان ہونے کا حق۔ دوسرا پڑوسی وہ ہے جس کے دو حق ہیں۔ ہمسائیگی کا حق اور اسلام کا حق۔ تیسرا پڑوسی وہ ہے جس کا صرف ایک حق ہے یعنی ہمسایہ ہونے کا اور یہ شخص وہ ہے جو کتابی کافر ہو (یعنی ایک پڑوسی وہ ہے جو مسلمان اور رشتہ دار بھی ہو دوسرا وہ ہے جو مسلمان ہو۔ تیسرا وہ ہے جو کافر ہو ‘ فقط پڑوس میں رہتا ہو اوّل تین وجوہ سے حق دار ہے ‘ دوسرا دو وجوہ سے اور تیسرا صرف ہمسایہ ہونے کی وجہ سے) رواہ الحسن بن سفیان والبزار وابوالشیخ فی کتاب الثواب ابو نعیم فی الحلیہ۔ ابن عدی نے کامل میں حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کی روایت سے ایسی ہی حدیث بیان کی ہے مگر دونوں حدیثیں ضعیف ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے دو پڑوسی ہیں میں کس کے گھر بطور ہدیہ کچھ بھیجوں (یعنی دونوں میں زیادہ مستحق کون ہے) فرمایا جس کا دروزہ تجھ سے زیادہ قریب ہو۔ (بخاری) حضرت ابوذر ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تو شوربا پکائے تو اس میں پانی بڑھا دے اور اپنے پڑوسیوں کا لحاظ رکھ۔ مسلم۔ حضرت ابن عمر ؓ : کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جبرئیل ﷺ مجھے پڑوسی کے متعلق برابر نصیحت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے خیال کیا کہ یہ پڑوسی کو میراث کا حق دار بنا دیں گے۔ بخاری۔ والصاحب بالجنب مجاہد ‘ عکرمہ اور قتادہ کے نزدیک اس سے مراد ہے رفیق سفر اور ابن جریح اور ابن زید نے کہا جو اپنے فائدہ کے لئے تیرے ساتھ ہو وہ صاحب بالجنب ہے اس وقت یہ لفظ شاگرد اور استاد بھائی دونوں کو شامل ہوگا۔ حضرت علی ؓ عبداللہ اور ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ اس سے مراد بیوی ہے جو مرد کے پہلو کے ساتھ ہوتی ہے۔ وابن السبیل . بعض علماء کے نزدیک اس سے مراد مسافر ہے اور اکثر علماء کے نزدیک مہمان۔ حضرت ابوشریح خزاعی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کو اپنے ہمسایہ سے اچھا سلوک کرنا چاہئے اور جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کو اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرنی چاہئے اور جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہئے کہ زبان سے کلمۂ خیر نکلے یا خاموش رہے۔ رواہ البغوی۔ حضرت ابوشریح کعبی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کا اللہ اور روز آخرت پر ایمان ہو اس کو اپنے مہمان کی ایک شبانہ روز ضیافت کرنی چاہئے اور مہمانی (کا حکم) تین دن تک ہے اس کے بعد خیرات ہے مہمان کے لئے جائز نہیں کہ میزبان کو تنگ کرنے کے لئے اس کے پاس پڑا ہی رہے۔ صحیحین۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کو مہمان کی خاطر تواضع کرنی چاہئے اور جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کو اپنے ہمسایہ کو دکھ نہ دینا چاہئے اور جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ بھلائی کی بات کہے یا خاموش رہے۔ صحیحین۔ وما ملکت ایمانکم . اور اپنے باندی غلام کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ میں کہتا ہوں اس حکم میں مویشی بھی داخل ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا باندی غلام کے کھانے پہننے کا حق (آقا پر) ہے اور اس بات کا بھی حق ہے کہ طاقت کی برداشت سے زائد اس پر کام کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔ رواہ مسلم۔ حضرت ابوذر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (باندی غلام) تمہارے بھائی ہیں جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہارے زیردست کردیا ہے پس جس کے زیردست اللہ نے اس کے بھائی کو کردیا ہو تو اس پر لازم ہے کہ جو کھانا خود کھائے وہی اپنے زیردست بھائی کو کھلائے اور جو خود پہنے وہی اس کو پہنائے اور طاقت سے زیادہ اس پر کام نہ ڈالے اگر اس کی طاقت سے زیادہ کام ہو تو خود بھی اس کی مدد کرے۔ بخاری و مسلم۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کا خادم آگ کی گرمی اور دھواں برداشت کر کے کھانا پکا کر لائے تو اس کو ساتھ بٹھا کر کھلانا چاہئے اگر کھانا بہت ہی کم ہو تو ایک دو لقمے ہی اٹھا کر ضرور اس کو دینا چاہئے۔ رواہ مسلم۔ حضرت ابو مسعود ؓ انصاری کا بیان ہے کہ میں اپنے غلام کو مار رہا تھا پیچھے سے میں نے کسی کی آواز سنی ابو مسعود سمجھ لے کہ جتنا قابو تیرا اس پر ہے تیرے اوپر اللہ کا اس سے زیادہ قابو ہے ‘ میں نے منہ پھیر کر دیکھا تو رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے میں نے فوراً کہا یا رسول اللہ ﷺ یہ اللہ واسطے آزاد ہے۔ فرمایا اگر تو ایسا نہ کرتا تو آگ کی لپٹ تجھے پہنچ ہی گئی تھی یا یہ فرمایا کہ آگ نے تجھے چھو ہی لیا تھا۔ رواہ مسلم۔ حضرت ام سلمہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ مرض (وفات) میں فرما رہے تھے۔ نماز اور باندی غلام (کا لحاظ رکھو) رواہ البیہقی فی شعب الایمان ‘ امام احمد اور ابوداؤد نے حضرت علی ؓ کی روایت سے اسی طرح کی حدیث نقل کی ہے۔ حضرت جابر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین باتیں ہیں جس کے اندر یہ تینوں ہوں گی اللہ اس کی موت آسان کر دے گا اور اس کو جنت میں داخل فرما دے گا۔ کمزور سے نرمی کرنا ماں باپ پر شفقت کرنا اور باندی غلام سے اچھا سلوک کرنا۔ رواہ الترمذی۔ حضرت عبداللہ ؓ بن عمرو کی روایت ہے کہ ایک شخص نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم خادموں کو کتنی بار معاف کریں ‘ یہ سن کر حضور ﷺ خاموش رہے۔ اس نے دوبارہ عرض کیا۔ آپ پھر بھی خاموش رہے۔ جب تیسری مرتبہ اس نے عرض کیا فرمایا روزنہ ستّر بار معاف کرو۔ رواہ الترمذی۔ ابوداؤد نے حضرت عبداللہ ؓ بن عمرو اور حضرت سہل ؓ بن حنظلہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ اثناء راہ میں رسول اللہ ﷺ نے ایک (لاغر) اونٹ دیکھا جس کا پیٹ پیٹھ سے لگ گیا تھا فرمایا ان بےزبان جانوروں کے معاملہ میں خدا کا خوف کرو۔ اگر یہ سواری کے قابل ہوں تو سوار ہو اور چھوڑ دینے کے قابل ہوں تو چھوڑ دو (سوار مت ہو) حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو بتاؤں کہ تم میں سب سے برے کون لوگ ہیں (برے ہیں وہ لوگ) جو تنہا خور ہیں ‘ غلام کو کوڑے سے مارتے ہوں اور اپنا عطیہ روک کر رکھتے ہوں (کسی کو کچھ نہ دیتے ہوں) رواہ رزین۔ حضرت ابوسعید ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خادم کو مارتے وقت آدمی اللہ کو یاد کرلے (کہ وہ کتنا قادر اور طاقتور ہے اور اس کے باوجود بندہ کے قصوروں سے درگزر فرماتا ہے) پس تم بھی (باندی غلام کو مارنے سے) ہاتھ اٹھا لو۔ رواہ الترمذی۔ ان اللہ لا یحب . اللہ پسند نہیں کرتا یعنی نفرت کرتا ہے عدم محبت سے مراد بغض و نفرت ہے۔ من کان مختالا فخورا . ایسے لوگوں کو جو اپنے کو بڑا سمجھتے اور شیخی کی باتیں کرتے ہوں۔ مختال سے مراد وہ شخص ہے جو تکبر کرتا اپنے قرابت داروں ‘ پڑوسیوں اور ساتھیوں سے ناک چڑھاتا اور ان کی طرف التفات نہ کرتا ہو اور فخور وہ شخص ہے جو دوسروں پر اپنی فوقیت جتاتا ہو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک آدمی دو چادریں (یعنی پورا سوٹ) پہنے مٹکتا اتراتا چلا جا رہا تھا۔ اللہ نے اس کو زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت کے دن تک اس میں گھستا چلا جائے گا۔ حضرت ابن عمر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص غرور سے اپنا کپڑا (زمین پر) گھسیٹتا چلتا ہے۔ قیامت کے دن اللہ اس کی طرف نظر (رحمت) نہیں فرمائے گا۔ بخاری و مسلم۔ حضرت عیاض بن حمار اشجعی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ نے میرے پاس وحی بھیجی ہے کہ تم لوگ آپس میں تواضع کرتے رہو (یعنی ایک دوسرے کے سامنے جھکا رہے) کوئی کسی پر بڑائی نہ کرے ‘ نہ زیادتی کرے۔ رواہ مسلم۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اے گروہ اہل اسلام اللہ سے ڈرتے رہو۔ کوئی شبہ نہیں کہ جنت کی ہوا ہزار سال کی مسافت سے محسوس کی جائے گی مگر نہ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا اس کو پائے گا نہ رشتہ داری قطع کرنے والا نہ بوڑھا زانی اور نہ وہ شخص جو غرور سے اپنا تہبند گھسیٹتا چلتا ہے۔ بڑائی صرف رب العلمین کو زیبا ہے۔ الحدیث۔ رواہ الطبرانی فی الاوسط۔
Top