Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 118
اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ١ۚ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
اِنْ : اگر تُعَذِّبْهُمْ : تو انہیں عذاب دے فَاِنَّهُمْ : تو بیشک وہ عِبَادُكَ : تیرے بندے وَاِنْ : اور اگر تَغْفِرْ : تو بخشدے لَهُمْ : ان کو فَاِنَّكَ : تو بیشک تو اَنْتَ : تو الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر بخش دے تو (تیری مہربانی ہے) بےشک تو غالب اور حکمت والا ہے
ان تعذبہم فانہم عبادک اگر تو ان کو عذاب دے (تو بےجا نہیں) وہ تیرے بندے ہیں۔ مالک حقیقی جیسا چاہے ‘ اپنی ملک میں تصرف کرسکتا ہے اس پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا پھر انہوں نے تیرے علاوہ دوسروں کی پوجا کی باوجودیکہ تو نے ان کو پیدا کیا اور دوسروں کے گن گائے حالانکہ تو نے ان کو پرورش کیا اور نعمت عطا فرمائی۔ (اس صورت میں تو سزا دینا خلاف عدل ہو ہی نہیں سکتا) ۔ (1) [ ابن مردویہ کی روایت ہے کہ حضرت ابوذر ؓ نے فرمایا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ قربان رات آپ نے نماز کے اندر قیام کی حالت میں قرآن کی ایک آیت (بار بار) اتنی پڑھی کہ اگر ہم میں سے کوئی ایسا کرتا تو ہم اس پر غصہ کرتے فرمایا میں نے اپنی امت کے لئے دعا کی تھی راوی نے پوچھا پھر کیا جواب ملا فرمایا مجھے ایسا جواب ملا کہ اگر اس کی اطلاع لوگوں کو ہوجائے تو بہت لوگ نماز چھوڑ دیں۔ راوی نے عرض کیا کیا میں اس کی بشارت لوگوں کو نہ دے دوں فرمایا کیوں نہیں۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ : اگر یہ پیام آپ لوگوں کو بھیج دیں گے تو وہ عبادت کو چھوڑ کر اسی پر بھروسہ کر بیٹھیں گے یہ سن کر حضور ﷺ نے آواز دے کر راوی کو واپس بلا لیا اور یہ آیت (ان تعذبہم فانہم عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم) تلاوت فرمائی اسی کو ( نماز میں بار بار) تلاوت فرما رہے تھے مسلم اور نسائی نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت سے بھی ایسی ہی حدیث نقل کی ہے۔] وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم اور اگر تو ان کو معاف کر دے گا تو بیشک تو ہی غالب اور حکمت والا ہے یعنی تو ہی غالب قوت والا اور عذاب وثواب پر قادر ہے۔ تیری طرف سے معافی کسی کمزوری کی بنا پر نہیں ہوگی کہ اس کو عیب قرار دیا جاسکے۔ حاصل مطلب یہ کہ اگر تو عذاب دے تو یہ انصاف ہوگا اور معاف کر دے تو تیری مہربانی ہوگی۔ ایک شبہ عذاب اور مغفرت ہر ایک کو ان (شرطیہ) کے ساتھ ذکر کرنا بتارہا ہے کہ دونوں کا امکان ہے حالانکہ مشرک کی مغفرت نہ ہونے کی صراحت آیت میں آچکی ہے۔ ازالہ مشرک کی مغفرت اگرچہ فی نفسہٖ ممکن ہے لیکن اللہ نے چونکہ عدم مغفرت کی صراحت کردی ہے اس لئے ناممکن ہوگئی گویا عدم امکان اللہ کے قول کی وجہ سے ہوگیا مگر اس سے مغفرت کا فی ذات استحالہ تو ثابت نہیں ہوتا۔ نہ اس میں کافروں کے لئے مغفرت کی دعا ہے اسی لئے العزیز الحکیم فرمایا الغفور الرحیم نہیں فرمایا بلکہ تمام امور کو اللہ کے سپرد کرنا اور ہر چیز کو اللہ کے ارادہ اور حکمت سے وابستہ قرار دینا مقصود ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ کی قرأت ان تغفرلہم فانہم عبادک وان تعذبہم فانک انت العزیز الحکیم ہے گویا آپ نے العزیز الحکیم کے ساتھ تعذبپڑھا ہے تغفر نہیں پڑھا اسی لئے بعض علماء نے کہا کہ آیت میں (بر قرأت مشہورہ بمعنی کے لحاظ سے) تقدیم و تاخیر ہے (یعنی تغفر سے عبادک کا اور تعذب سے العزیز الحکیم کا معنوی ربط ہے مطلب اس طرح ہے کہ تو غالب و حکیم ہے اس لئے تو عذاب دے سکتا ہے اور وہ تیرے بندے ہیں اس لئے ان کو معاف کرسکتا ہے۔ لیکن ہم بتا چکے ہیں کہ مشہور قرأت ہی (معنوی لحاظ سے) زیادہ مناسب ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابراہیم کی یہ دعا جو اللہ نے نقل فرمائی ہے تلاوت فرمائی : رب انہن اضللن کثیرا من الناس فمن تبعنی فانہ منی ومن عصانی فانک غفور رحیم اور حضرت عیسیٰ کا یہ قول جو اللہ نے نقل فرمایا ہے تلاوت فرمایا : ان تعذبہم فانہم عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم پھر دعا کی الٰہی میری امت (کو بخش دے) میری امت (کو بخش دے) اور رونے لگے اللہ نے فرمایا جبرئیل ( علیہ السلام) محمد ﷺ سے جا کر دریافت کرو۔ ( اگرچہ) تیرا رب بخوبی واقف ہے کہ رونے کی کیا وجہ ہے۔ جبرئیل ( علیہ السلام) نے آکر حضور ﷺ سے دریافت کیا رسول اللہ ﷺ نے وہ دعا بتادی جو عرض کی تھی اللہ نے حکم دیا جبرئیل ( علیہ السلام) محمد ﷺ کے پاس جا کر کہہ دے کہ ہم تیری امت کے سلسلہ میں تجھے خوش کریں گے ناراض نہیں کریں گے۔
Top