Tafseer-e-Mazhari - At-Tahrim : 12
وَ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَ كُتُبِهٖ وَ كَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ۠   ۧ
وَمَرْيَمَ : اور مریم ابْنَتَ عِمْرٰنَ : بیٹی عمران کی الَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ : وہ جس نے حفاظت کی فَرْجَهَا : اپنی شرم گاہ کی فَنَفَخْنَا : تو پھونک دیا ہم نے فِيْهِ : اس میں مِنْ رُّوْحِنَا : اپنی روح سے وَصَدَّقَتْ : اور اس نے تصدیق کی بِكَلِمٰتِ : کلمات کی رَبِّهَا : اپنے رب کے وَكُتُبِهٖ : اور اس کی کتابوں کی وَكَانَتْ : اور تھی وہ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ : فرماں بردار لوگوں میں سے
اور (دوسری) عمران کی بیٹی مریمؑ کی جنہوں نے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اپنے پروردگار کے کلام اور اس کی کتابوں کو برحق سمجھتی تھیں اور فرمانبرداروں میں سے تھیں
و مریم ابنت عمران . ” اور (مسلمانوں کی تسلی کے لیے) اللہ مریم بنت عمران کا حال بیان کرتا ہے جس نے اپنے ناموس کو محفوظ رکھا۔ سو ہم نے اس کے ناموس (یعنی چاک گریبان) کے اندر اپنی روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کے پیغاموں کی (جو ملائکہ کے ذریعہ سے اس کو پہنچے تھے) اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت گزاروں میں سے تھی۔ “ اَلَّتِیْ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا : یعنی مردوں سے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا۔ فَنَفَخْنَا : ہم نے پھونک دی یعنی ہمارے حکم سے جبرئیل نے مریم کے گریبان میں پھونک دیا ‘ جس کا اثر شرمگاہ تک پہنچا اور مریم حاملہ ہوگئی۔ بندوں کے تمام افعال کا خالق اللہ ہی ہے اور اللہ کے حکم سے ہی جبرئیل نے پھونکا تھا اور پھونک کا خالق اللہ ہی تھا اس لیے پھونکنے کی نسبت بجائے جبرئیل کے اپنی طرف کردی۔ مِنْ رُّوْحِنَا : مِن زائد ہے ‘ بغیر کسی کے توسط کے اللہ نے روح کو پیدا کیا۔ پس تخلیق روح کا تعلق براہ راست اللہ سے ہوا۔ اخفش کے نزدیک کلام مثبت ہے اور من زائد ہے لیکن سیبویہ کے نزدیک اس جگہ مِن تبعیضیہ ہے جیسے : یَغْفِرَلَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ میں مِن بعضیہ ہے۔ یعنی کچھ گناہ اللہ معاف فرما دے گا۔ بِکَلِمٰتِ رَبِّھَا : کلمات سے مراد ہیں وہ صحیفے جو انبیاء پر نازل ہوئے یا وحی انبیاء مراد ہے۔ دونوں صورتوں میں اللہ کے بھیجے ہوئے قوانین اور شریعتیں مراد ہوں گی جو اللہ نے بندوں کے لیے نازل فرمائیں۔ وَ کُتُبِہٖ : یعنی لوح محفوظ کی تحریریں یا وہ کتابیں جو اللہ نے پیغمبروں پر نازل کیں۔ مِنَ الْقَانِتِیْنَ : یعنی مریم ان لوگوں میں سے تھیں جو اطاعت شعار اور عبادت گزار اور پابند طاعت ہیں۔ قانتین (بصیغۂ جمع مذکر) کا استعمال تغلیباً ہے (عورتیں بھی قانت ہوتی ہیں اور مرد بھی ‘ صراحۃً مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا۔ ضمناً عورتیں بھی اس کے اندر آگئیں) یا صیغۂ مذکر کے ذکر سے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت مریم کامل مردوں سے کم نہیں تھیں ‘ ان کی ہم پلہ تھیں۔ یہاں تک کہ ان کو کامل مردوں میں شمار کیا گیا۔ حضرت ابو موسیٰ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کامل مرد تو بہت ہیں ‘ کامل عورتیں سوائے آسیہ زوجۂ فرعون اور مریم بنت عمران کے اور کوئی نہیں اور عائشہ ؓ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسے دوسرے کھانوں پر ثرید کی برتری۔ (رواہ احمد و الشیخان فی الصحیحین والترمذی و ابن ماجہ) ثعلبی اور ابو نعیم کی روایت میں حدیث مذکور بالفاظ ذیل آئی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : کامل مرد تو بہت ہی ‘ کامل عورتیں صرف چار ہیں : آسیہ بنت مزاحم زوجۂ فرعون ‘ مریم بنت عمران ‘ خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد ﷺ کا ئشہ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسے کھانوں پر ثرید کی برتری۔ میں کہتا ہوں کامل ہونے سے مراد غالباً کمالات نبوت تک پہنچنا ہے۔ صحیحین کی روایت میں گویا اقوام گزشتہ کی خبر دی گئی ہے کیونکہ ان میں (کامل مرد یعنی) انبیاء بکثرت ہوئے اور کمالات نبوت تک پہنچنے والی (گزشتہ امتوں میں) صرف آسیہ اور مریم ہوئیں۔ حضرت انس راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا بھر کی عو رتوں میں سے مریم بنت عمران ‘ خدیجہ بنت خویلد ‘ فاطمہ بنت محمد ﷺ اور آسیہزنِفرعون تمہارے لیے کافی ہیں (یعنی صرف یہ ہی چار عورتیں کامل ہیں) ۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا (گزشتہ اقوام کی) عورتوں میں مریم بنت عمران سب سے بہتر عورت تھیں اور ہماری عورتوں میں سب سے بہتر خدیجہ بنت خو یلد ہیں۔ (متفق علیہ) حضرت امّ سلمہ ؓ راوی ہیں کہ فتح مکہ کے سال رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ کو طلب فرمایا اور ان کے کان میں کچھ ارشاد فرمایا۔ حضرت فاطمہ سن کر رونے لگیں ‘ پھر حضور ﷺ نے ان سے کوئی بات اور فرمائی جس کو سن کر وہ ہنس پڑیں۔ جب حضور کی وفات ہوگئی تو میں نے حضرت فاطمہ سے رونے اور پھر ہنسنے کا سبب دریافت کیا ‘ تو کہنے لگیں ‘ رسول اللہ ﷺ نے (پہلے) فرمایا تھا کہ عنقریب حضور ﷺ کی وفات ہوجائے گی ‘ میں یہ سنکر رونے لگی۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سوائے مریم بنت عمران کے تمام جنتی عورتوں کی میں سردار ہوں گی۔ یہ سن کر میں ہنس دی۔ (رواہ الترمذی) حضرت مریم ‘ ( علیہ السلام) حضرت آسیہ ‘ ( علیہ السلام) حضرت خدیجہ ؓ ‘ حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کی باہم برتری کی تفصیل سورة آل عمران کی آیت : یَا مَرْیَمُ اِنَّ اللہ اَصْطَفٰکِ وَطَھَّرَکِ وَاصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الْعَالَمِیْنَ کی تفسیر کے ذیل میں ہم کرچکے ہیں۔ فائدہ دونوں تمثیلوں میں حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ پر تعریض ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے خلاف اس بات پر باہم تعاون کیا جو حضور ﷺ کو پسند نہیں تھی اور سخت ترین زجر بھی ہے اور اس امر کی طرف اشارہ بھی ہے کہ دونوں کے ایمان کا تقاضا ہے اور دونوں پر لازم ہے کہ گزشتہ دونوں مؤمن عورتوں کی طرح ہوجائیں اور رسول اللہ ﷺ کی زوجیت پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں۔ الحمد اللہ سورة التحریم کے ختم کے ساتھ تفسیر مظہری اردو جلد یازدہم (11) کی تکمیل ہوئی
Top