Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 153
وَ الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِهَا وَ اٰمَنُوْۤا١٘ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَالَّذِيْنَ : اور جن لوگوں نے عَمِلُوا : عمل کیے السَّيِّاٰتِ : برے ثُمَّ : پھر تَابُوْا : توبہ کی مِنْۢ بَعْدِهَا : اس کے بعد وَاٰمَنُوْٓا : اور ایمان لائے اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب مِنْۢ بَعْدِهَا : اس کے بعد لَغَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور جنہوں نے برے کام کیے پھر اس کے بعد توبہ کرلی اور ایمان لے آئے تو کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار اس کے بعد (بخش دے گا کہ وہ) بخشنے والا مہربان ہے
والذین عملوا السیات ثم تابو من بعدہا وامنوا ان ربک من بعدہا لغفور رحیم : اور جن لوگوں نے برے کام کرنے کے بعد توبہ کرلی اور (سچے دل سے) ایمان لے آئے تو آپ کا رب اس توبہ کے بعد گناہ کو معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ اتخذوا العجل یعنی جنہوں نے گوسالہ کو معبود بنایا۔ غضب یعنی عذاب اس سے مراد ہے وہ حکم جو ان کو دیا گیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کردیں۔ وذلۃ ذلت سے مراد ہے گھروں سے نکل جانا جلاوطن ہوجانا۔ اس مطلب پر سینالہم میں سین استقبال کے لئے ہوگی اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے غضب ناک ہونے کے بعد ہی کا زمانہ جس میں بنی اسرائیل کو سزا دی گئی مراد ہوگا۔ لیکن عطیہ عوفی کا قول ہے کہ ان الذین اتخذوا العجل سے مراد ہیں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ کے یہودی۔ باپ دادا کے ناشائستہ افعال کا ذکر کر کے ان کو عار دلائی گئی ہے اور انہی یہودیوں سے فرمایا گیا ہے کہ تم کو آخرت میں اللہ کی طرف سے عذاب ہوگا اور دنیا میں ذلت پڑے گی چناچہ بنی قریظہ اور بنی نضیر پر یہ ذلت پڑی کہ ایک قبیلہ کو قتل کیا گیا اور دوسرے قبیلہ کو جلاوطن کیا گیا حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ذلت سے مراد ہے جزیہ۔ والذین عملوا السیئات یعنی حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی قوم میں سے جنہوں نے گوسالہ پرستی کی پھر توبہ کی اور مؤمن ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے حکم کے موافق آپس میں ایک نے دوسرے کو قتل کیا۔ من بعدہا یعنی توبہ کے بعد۔ لغفور رحیمبلاشبہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے خواہ گناہ کتنے ہی بڑے اور زیادہ ہوں (سب معاف فرما دے گا)
Top