Mazhar-ul-Quran - Al-Ankaboot : 2
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ
اَحَسِبَ : کیا گمان کیا ہے النَّاسُ : لوگ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا : کہ وہ چھوڑ دئیے جائیں گے اَنْ : کہ يَّقُوْلُوْٓا : انہوں نے کہہ دیا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَهُمْ : اور وہ لَا يُفْتَنُوْنَ : وہ آزمائے جائیں گے
کیا1 لوگوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ صرف یہ کہہ دینے سے چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی (قسم قسم کے مصائب سے) آزمائش نہ ہوگی۔
مسلمانوں کی آزمائش کا ذکر۔ (ف 1) شان نزول : نبی ﷺ کے مکہ سے ہجرت فرمانے کے بعد کچھ مسلمان مکہ میں ایسے رہ گئے تھے جن کو مشرک لوگ ہجرت سے بھی روکتے تھے اور مکہ میں بھی امن سے نہیں رہنے دیتے تھے بلکہ طرح طرح کی تکلیفیں ان مسلمانوں کو ہر وقت دیتے تھے جن تکلیفوں سے وہ مسلمان تنگ دل تھے ان کی ہمت بڑھانے کے لیے مدینہ میں یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ جب مدینہ سے ان کے دوست صحابہ نے ان کو ان آیتوں کے نازل ہونے کا حال لکھ کر مکہ میں بھیجا تو وہ مشرکین سے لڑ کر ہجرت کے لیے مکہ سے نکلنے کو مستعد ہوئے اور کچھ مدینہ میں مہاجرین بن کر پہنچ گئے فرمایا کہ دارآخرت کی طرف کامیابی کے ساتھ جاناآسان بات نہیں اس میں بڑی بڑی جانفشانیاں کرنی پڑتی ہیں اور بڑی سختیوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے اس لیے اس سورت میں الم سے ایک خاص مطلب کی طرف اشارہ کرکے یہ فرمادیا کہ کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ لا الہ اللہ کہہ دینا اور صرف ایمان لاکربیٹھ رہنا کافی ہے ، اور ان کی کوئی آزمائش نہ ہوگی ضرور ہوگی اس لیے کہ ان سے پہلے بھی ایمانداروں نے بڑی بڑی مصیبتیں اٹھائی ہیں آزمائے گئے ہیں گھربار لوٹے گئے ہیں ماریں پڑی ہیں دیس سے نکالے گئے ہیں اس سے اہل اسلام کو مضبوط کیا جاتا ہے کہ اسلام میں تکالیف دیکھ کر نہ گھبرائیں ، ایسی آزمائشوں میں سچے جھوٹے کا امتیاز ہوتا ہے نبی کے عہد میں خصوصا ہجرت سے پہلے ایمانداروں کو بڑی بڑی مصیبتوں کا منہ دیکھنا پڑتا تھا۔ (حقانی) ۔
Top