Mualim-ul-Irfan - Al-Faatiha : 3
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ
الرَّحْمٰنِ : جو بہت مہربان الرَّحِيم : رحم کرنے والا
جو بیحد مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
(صفت رحمان اور رحیم ) فرمایا تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پرورش کنندہ ہے نیز الرحمن الرحیم وہ بیحد مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے ۔ یہاں پر رحمان اور رحیم دو صفات کا ذکر کیا گیا ہے اور دونوں مبالغے کے صیغے ہیں ، البتہ لفظ رحمان میں عمومیت پائی جاتی ہے ۔ امام (ب 2 تفسیر بیضادی ص 7 ج 1) اور بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ رحمان کو رحمان الدنیا کہا جاتا ہے کیونکہ اس جہان میں اللہ تعالیٰ کی عمومی رحمت ہر کس وناکس کے لیے ہے اور اس میں مومن اور کا فر کا کوئی امتیاز نہیں ہے ۔ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتیں بلا تخصیص ہر ایک کو میسر ہیں یہ اس کی صفت رحمانیت کا ظہور ہے تاہم جہاں تک صفت رحیمیت کا تعلق ہے یہ اپنی تمام تر اضافیت کے باوجود اہل ایمان کے لیے مخصوص ہے اس لیے اس کو رحیم الآخرۃ ) کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا ظہور اس کے خاص بندوں پر ہوگا جو اس دنیا میں ایمان لائے ، اس کی وحدانیت کو تسلیم کیا اور اس کے احکام کے مطابق زندگی بسر کی آخرت میں ایسے لوگوں پر بےحدوبیشمار انعامات ہوں گے ، اللہ تعالیٰ ان کو نجات دے گا ۔ اور بلند مقام پہنچائے گا ۔ بہرحال رحمان اور رحیم دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں ۔ مفسرین کرام فراماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ان صفات کو سمجھنے کے لیے روز مرہ پیش آنے والی مثالیں کافی ہیں ۔ ایک (ب 1) دفعہ جنگ کے موقع پر ایک عورت کا شیرخوار بچہ گم ہوگیا ہے بیچاری ماں بچے کی جدائی میں نیم پاگل ہوگئی ۔ دیوانہ وار ادھر ادھر دوڑنے لگی اور جو بھی شیر خواربچہ ملتا اس کو اپنا بچہ سمجھ کر سینے سے لگاتی ۔ حضور ﷺ نے دیکھا تو صحابہ ؓ سے فرمایا کہ دیکھو اس عورت کا بچہ گم ہوگیا ہے اور یہ اس کے لیے کس قدر پریشان ہے کیا اس عورت کے لیے ممکن ہے کہ اتنے پیارے بچے کو یہ خود آگ میں ڈال دے صحابہ ؓ نے عرض کیا حضور ! ایسا تو نہیں ہو سکتا جو عورت اپنے بچے کے لیے اس قدرتڑپ رہی ہے وہ اسے آگ میں کسیے ڈال سکتی ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا ۔ یادرکھو ! خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر اس ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے ۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ خودہی انہیں جہنم میں ڈال دے ۔ یہ تو خود انسان ہیں جو اپنے مالک کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں اور کفر وشرک کا ارتکاب کرکے اپنے آپ کو جہنم کا سزاوار بناتے ہیں ۔ حقیقت یہ کہ اللہ تعالیٰ تو انسانوں پر نہات ہی مہربان ہے۔ ایک دفعہ دوران سفر ایک صحابی کہیں سے چڑیا کے بچوں کو پکڑ کر اپنی چادر میں ڈال لایا ، چڑیا سخت پر یشان ہوئی اور چادر کے اوپر منڈلانے لگی ۔ جب اس صحابی نے چادرکو کھولا تو چڑیا فورا بچوں پر گرپڑی اس نے بچوں کی محبت میں خود اپنی گرفتاری کی بھی پرواہ نہ کی ، یہ واقعہ جب حضور ﷺ کے سامنے بیان کیا گیا تو آپ نے فرمایا ، ایسا نہ کرو ، جاؤ ان بچوں کو اسی درخت پر چھوڑ آؤجہاں سے اٹھایا تھا ۔ پھر آپ نے یہ بات سمجھائی کہ دیکھو ! اللہ تعالیٰ نے جانوروں میں بھی اتنی محبت رکھی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر زیادتی کو برداشت نہیں کرسکتے ، خدا تعالیٰ نے انہیں اتنا شعوردے رکھا ہے ۔ حدیث شریف (ب 1) میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گائے بھینس اور بکری وغیرہ کے دل میں اس قدر محبت ڈال دی ہے کہ وہ زمین پر باؤں رکھنے د سے پہلے تسلی کرلیتی ہے کہ کہیں اس کا بچہ نیچے نہ آجائے پھر آپ نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سو حصے ہیں جن میں سے صرف ایک حصہ اس نے اپنی تمام مخلوق پر تقسیم کیا ہے اور باقی ننانوے حصے اپنے پاس رکھے ہیں اس دنیا میں انسانوں حیوانوں چرندوں اور پرندوں کے دلوں میں اپنی اولادوں کے لیے جتنی محبت موجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا صرف ایک حصہ جب قیامت کا دن آئے گا تو اللہ تعالیٰ اس ایک حصے کو باقی ننانوے حصوں کے ساتھ ملاکر پورے سو درجے کی مہربانیاں اپنے اہل ایمان بندوں پر فرمائے گا۔ اب جب کہ انسانی سوساٹی پر اللہ تعالیٰ کی بہت سی مہربانیاں جلوہ گرہیں تو ہر انسان خصوصا اہل ایمان پر صفت رحمانیت اور رحیمیت کے اثرات نظر آنے چاہیی ۔ (ایک دوسرے پر رحم ) اس کی عملی صورت کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے (ب 2 ترمذی ص 14 ج 2) ار حموامن فی الارض یرحمکم من فی السماء تم زمین میں رہنے والے انسانوں پر رحم کرو۔ بلند یوں میں رہنے والا پروردگار تم پر رحم فرمائے گا ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا (ب 3 بخاری ص 887 ج 2) من لایرحم لا یرحم جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا ، اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتاخود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (ب 1 مسلم ص 318 ج 2) انی حرمت الظلم علی نفسی میں ظلم کو اپنے نفس پر حرام کر رکھا ہے فلا تظالموا اے لوگو ! تم بھی دوسرے پر ظلم نہ کیا کرو ۔ کوئی کسی پر زیادتی نہ کرے ۔
Top