Mualim-ul-Irfan - Al-Faatiha : 4
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ
مَالِكِ : مالک يَوْمِ : دن الدِّينِ : بدلہ
جو مالک ہے انصاف (جزا) کے دن کا
(روز جزا) آگے ارشاد ہے ملک یوم الدین جو جزا کے دن کا مالک ہے ۔ دین کا معنی اطاعت بھی ہوتا ہے اور ملت بھی اسی لیے دین الانبیاء سے مراد انبیاء (علیہم السلام) کی ملت ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ دین کا معنی بدلہ اور جزا بھی ہوتا ہے اور اس کا معنی انصاف بھی ہوتا ہے اس مقام پر یہی معنی مراد ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر بیحد مہربانیاں کی ہیں ، ان پر بڑے انعامات فرمائے ہیں ان کے لیے ہدایت کے راستے متعین کے ہیں مگر یہ پھر ی دنیا میں ظلم و زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں ایک دوسرے کا حق غصب کرتے ہیں جس کا ازالہ بسا اوقات اس دنیا میں نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ چونکہ احکم الحاکمین ہے ، وہ اپنے بندوں پر ظلم و زیادتی کو برداشت نہیں کرتا ، لہذا اس نے اپنے پاس انصاف کا ایک دن مقررکر رکھا ہے جس دن اس دنیا میں کی گئی ہر زیادتی کے متعلق ٹھیک ٹھیک فیصلہ ہوگا اور ہر ایک کو اس کی کارکردگی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اسی کو یوم الدین کہا گیا ہے اور اس دن کا مالک بھی خود خدا تعالیٰ ہے اس دن ہر ایک کو پورا انصاف مہیا ہوگا اس دنیا میں تو غلط فیصلے بھی ہوجاتے ہیں کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور کسی کی حق رسی نہیں ہوتی مگر انصاف کے دن آخر ی اور قطعی فیصلے ہوں گے اور ہر ایک کو انصاف دلا یا جائے گا۔ حضورعلیہ السلام کا ارشاد مبارکہ ہے (ب 2 ترمذی ص 67 ج 2) لوگو ! حقوق اداکر و ، ورنہ قیامت کے دن بہت رسوائی ہوگی ۔ انسانوں کا معاملہ تو اور ہے اللہ تعالیٰ جانوروں کو بھی انصاف دیے بغیر نہیں چھوڑے گا ، حدیث میں آتا ہے کہ ایک بےسینگ بکری کو سینگ والی بکری سے انصاف دلایا جائے گا کیونکہ اس کے ساتھ اس دنیا میں زیادتی کی گئی تھی۔ انسان تو مکلف ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر نعمت سے سرفراز فرمایا ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس دنیا میں کسی پر زیادتی ہو اور اس کا بدلہ نہ دلایا جائے۔ انصاف کے دن سب کا ساتھ ٹھیک ٹھیک انصاف ہوگا اور ہر ایک کو اس کے کیے کی جزا ملے گی۔
Top