Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 16
وَ اِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ فَاْوٗۤا اِلَى الْكَهْفِ یَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یُهَیِّئْ لَكُمْ مِّنْ اَمْرِكُمْ مِّرْفَقًا
وَاِذِ
: اور جب
اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ
: تم نے ان سے کنارہ کرلیا
وَ
: اور
مَا يَعْبُدُوْنَ
: جو وہ پوجتے ہیں
اِلَّا اللّٰهَ
: اللہ کے سوا
فَاْوٗٓا
: تو پناہ لو
اِلَى
: طرف میں
الْكَهْفِ
: غار
يَنْشُرْ لَكُمْ
: پھیلادے گا تمہیں
رَبُّكُمْ
: تمہارا رب
مِّنْ
: سے
رَّحْمَتِهٖ
: اپنی رحمت
وَيُهَيِّئْ
: مہیا کرے گا
لَكُمْ
: تمہارے لیے
مِّنْ
: سے
اَمْرِكُمْ
: تمہارے کام
مِّرْفَقًا
: سہولت
اور جب تم ان (اپنی قوم) سے الگ ہوگئے ہو ، اور ان سے بھی جن کی یہ پوجا کرتے ہیں اللہ کے سوا تو اب رجوع کرو غار کی طرف پھیلائے تمہارے لیے تمہارا پروردگار اپنی رحمت سے اور بنا دے تمہارے لیے تمہارے معاملے میں نرمی ۔
ربط آیات : اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے متعلق فرمایا کہ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے اللہ نے ان کے لیے ہدایت کا سامان زیادہ کردیا ، پھر ان کے دلوں کو مضبوط کردیا جب انکو مشرک اور ظالم بادشاہ کے سامانے پیش کیا گیا تو انہوں نے کھڑے ہو کر صاف صاف کہہ دیا کہ ہمارا پروردگار وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے ، ہم اس کے سوا کسی دوسری ذات کو معبود ماننے کے لیے تیار نہیں اگر ہم ایسا کریں گے تو سخت زیادتی کرنے والے ہوں گے ، ہماری قوم کے جن لوگوں نے اللہ کے سوا معبود بنا رکھے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں فرمایا اس شخص سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ پر افتراء باندھتا ہے ، خدا تعالیٰ کی الوہیت میں دوسروں کو شریک بنانا افتراء علی اللہ ہے ، قیصر ڈلیسیس نوجوانوں کی یہ باتیں سن کر متعجب ہوا کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو میری سلطنت میں میرے سوا کسی دوسرے کو معبود مانتے ہیں تاہم اس نے ان نوجوانوں کے متعلق اپنا فیصلہ التوا میں ڈال دیا ۔ (بادشاہ کے سامنے پیشی) اس التواء کے متعلق مفسرین نے مختلف باتیں بیان کی ہیں بعض کہتے ہیں کہ بادشاہ نے ایک دن کی مہلت دی بعض تین دن اور بعض چند دن کا ذکر کرتے ہیں بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ بادشاہ کہیں باہر دورے پر جا رہا تھا تو اس نے اپنی واپسی تک اپنا فیصلہ مؤخر کردیا تاکہ دیکھے کہ اس دوران میں یہ نوجوان اپنے عقیدے سے باز آتے ہیں یا نہیں بہرحال نوجوانوں کو بادشاہ کی غیر حاضری میں صلاح مشورہ کرنے کا موقع مل گیا ، چناچہ انہوں نے آپس میں طے کیا کہ اب ہمارا یہاں رہنا مناسب نہیں اگر اپنے عقیدہ توحید پر قائم رہتے ہیں تو بادشاہ قتل کرا دے گا ، اور اگر ہم بادشاہ کی بات مان کر اپنے عقیدے کو چھوڑ دیں تو پھر دائمی خسارے میں پڑجائیں گے اور ہمیں کبھی بھی فلاح نصیب نہیں ہوسکے گی ، لہذا بہتر ہے کہ ہم یہاں سے کہیں جا کر روپوش ہوجائیں تاکہ اپنا عقیدہ بھی بچا سکیں اور بادشاہ کے قہر سے بھی بچ جائیں بعض مفسرین یہ بھی فرماتے ہیں کہ جب ان نوجوانوں نے بادشاہ کے بھرے دربار میں اپنے عقیدے کا اظہار کیا تو بادشاہ نے فوری طور پر ان کا سرکاری لباس اتروا دیا ، گویا ان کو سرکاری حیثیت سے معطل کردیا اور حتمی فیصلہ کے لیے چند دن کی مہلت دیدی ۔ (روپوشی کا منصوبہ) بہرحال موقع غنیمت جان کر یہ نوجوان وہاں سے بھاگ نکلے راستے میں ان کی ملاقات ایک چرواہے سے ہوگئی ، اس نے ان کی پریشانی کو بھانپ لیا اور پوچھا کہ کیا بات ہے ، پہلے تو انہوں نے کچھ بتانے سے لیت ولعل کیا ، لیکن بالآخر انہوں نے دل کی بات کہہ دی کہ وہ اس طرح بھاگ کر آئے ہیں چرواہے نے کہا کہ میں بھی تمہارے عقیدے پر ہوں اور تمہارے ساتھ ہی چلنے کو تیار ہوں چناچہ اس نے بکریوں کا ریوڑ وہیں چھوڑا اور ان نوجوانوں کے ساتھ ہو لیا البتہ اس کا کتا بھی اس کے ہمراہ چل پڑا ، انہوں نے ہر چند کتے کو بھگانا چاہا ، مگر وہ کسی صورت میں ان کی ہمراہی چھوڑنے پر تیار نہ ہوا ، جب انہوں نے کتے کو زیادہ تنگ کیا تو اللہ نے اسے قوت گویائی عطا فرمائی اور وہ بول کر کہنے لگا کہ مجھے بھگاؤ نہیں ، میں بھی اللہ کے دوستوں کے ساتھ ہی رہنا پسند کرتا ہوں ، مجھے اپنے ساتھ لے چلو ، جب تم آرام کیا کرو گے تو میں تمہارا پہرہ دیا کروں گا ، چناچہ چرواہے کا کتاب بھی ان کے ساتھ ہو لیا ۔ (کتے کا شرعی حکم) شریعت نے کتے کو ناپسندیدہ جانور قرار دیا ہے ، حضور ﷺ نے سختی کے ساتھ فرمایا ہے کہ کوئی شخص بلاضرورت شوقیہ طور پر کتا نہ پالے کہ ایسا کرنے والے کی ہر روز دو قیراط نیکیاں کم ہوتی رہیں گی اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں دو بری مثالیں بیان فرمائی ہیں ، ایک گدھے کی اور دوسری کتے کی ، گدھے کی مثال تو یہودیوں کی بےعملی سے متعلق ہے کہ ان کی حالت یہ ہے (آیت) ” کمثل الحمار یحمل اسفارا “۔ (الجمعہ) جیسے گدھے پر کتابیں لدی ہوئی ہیں ، جس طرح ایک گدھا کتابیں اٹھانے کے باوجود ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا ، اسی طرح یہودی اہل کتاب ہونے کے باوجود ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا ، اسی طرح یہودی اہل کتاب ہونے کے باوجود اس کتاب سے مستفید نہیں ہوتے ، اسی طرح کتے کی مثال حرص لالچ اور شہوت پرستی کی ظاہر کرتی ہے ، موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں ایک بڑا نیک آدمی تھا لیکن حرص اور شہوت پرستی کا اسیر ہو کر موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابل آگیا ، اللہ نے فرمایا (آیت) ” فمثلہ کمثل الکلب “۔ (الاعراف ، 176) ایسے شخص کی مثال کتے کی ہے کہ حرص کی وجہ سے ہر چیز کو سونگتا رہتا ہے اور شہوت کی وجہ سے ہر وقت ہانپتا رہتا ہے ۔ (آیت) ” سآء مثلا القوم الذین کذبوا بایتنا “۔ (الاعراف 177) یہ ایسے لوگوں کی بدترین مثال ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا ۔ حضور ﷺ نے کتے کی ایک اور مثال بھی بیان فرمائی ہے کہ جو شخص کسی کو کوئی چیز تحفہ کے طور پر دے دیتا ہے اور پھر اسے واپس لیتا ہے تو اس کی مثال ” کمثل الکلب یقیء ثم یعود “ کتے کی مثال ہے جو قے کر کے خود ہی چاٹ لیتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا ” لیس لنا مثل السوئ “۔ ہماری مثال بری نہیں ہونی چاہئے یعنی ہمیں کتے کی خصلت کو نہیں اپنانا چاہئے ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ کتا ایک ایسا جانور ہے جس کو شیطان کے ساتھ بڑی مناسب ہے اسی لیے فرمایا کہ اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اس برتن کو مٹی سے خوب مانجو اور پھر تین دفعہ دھو ڈالو ورنہ برتن پاک نہیں ہوگا ، البتہ سات مرتبہ دھونا مستحب ہے ۔ شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ کتا اگرچہ برا جانور ہے مگر بعض کتے اچھے بھی ہوتے ہیں ، اس کی مثال اصحاب کہف کے کتے کی ہے وہ اللہ کے دوستوں کی معیت میں رہا اور جو حیرت انگیز واقعات ان کے ساتھ پیش آئے وہ اس کتے کے ساتھ بھی پیش آئے اس کو بھی اللہ نے اصحاب کہف کی طرح لمبی زندگی عطا فرمائی ، شیخ سعدی (رح) نے گلستان میں مثال کے طور پر بیان کیا ہے ۔ پسرنوح بابدان بنشت خاندان نبوتش گم شد : سگ اصحاب کہف روز چند پئے نیکاں گرفت مردم شد : حضرت نوح (علیہ السلام) کا بیٹا بروں کی صحبت میں بیٹھا تو اپنے خاندان کی بدنامی کا باعث بنا ، جب کہ اصحاب کہف کا کتا نیک آدمیوں کے ساتھ رہا تو آدمیوں جیسی خصلت کا مالک بن گیا ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) کے والد شیخ عبد الرحیم (رح) اولیاء اللہ میں سے تھے راستے چلتے ہوئے کسی تالاب یا جوہڑ وغیرہ کے کنارے سے گزرنے لگے تو سامنے سے کتا آگیا آپ نے اس کتے کو قدرے حقارت کی نگاہ سے دیکھا اللہ نے اس کتے کو فورا گویائی عطا فرمائی اور اس نے کہا اللہ کے بندے ! تم مجھے حقیر سمجھتے ہو ، میں بھی تو تمہاری طرح اللہ کی مخلوق ہوں ، شاہ صاحب (رح) نے فورا توبہ کی ، آپ جوہڑ کے کنارے کھڑے ہوگئے اور پہلے کتے کو گزرنے کا راستہ دیا اور کہا کہ سلامتی کے ساتھ گزر جاؤ ، اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے خنزیر آگیا آپ نے راستہ چھوڑ دیا اور کہا کہ سلامتی سے گزر جاؤ لوگوں نے کہا کہ حضرت ایسے برے جانور کے ساتھ آپ کا یہ حسن اخلاق ، فرمایا بیشک یہ اللہ کی نگاہ میں معتوب جانور ہے مگر میں اپنا اخلاق کیوں چھوڑوں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے منقول ہے ” لو سخرت بالکلب لخشیت ان اکون کلبا “۔ اگر میں کتے کے ساتھ تمسخر کروں تو مجھے ڈر ہے کہ خدا مجھے کتا ہی نہ بنادے ۔ (غار میں قیام) بہرحال کتا بھی اصحاب کہف کے ساتھ ہو لیا اور انہوں نے پہاڑ کی غار میں پناہ حاصل کی ، اللہ نے اس غار کا حال بھی بیان کیا ہے ، اللہ کے دوستوں کا اور اس کتے کا بھی ، اللہ نے اپنے دوستوں کو جو کرامت اور بزرگی بخشی اور ان کی حفاظت کا جو غیر معمولی انتظام فرمایا ، اللہ نے اس کا ذکر بھی کیا ہے ، غار میں پہنچ کر انہوں نے آپس میں طے کیا کہ انہوں میں سے ایک وقتا فوقتا بھیس بدل کر غار سے باہر جائے ، کھانے پینے کا سامان لائے اور ملکی حالات سے بھی آگاہی حاصل کرتا رہے ، چناچہ ان میں سے ایک زیادہ ہوشیار آدمی فقیروں کے لباس میں باہر نکلا ، شہر میں جا کر خوردونوش کا کچھ سامان خریدا ادھر ادھر کی کچھ باتیں سنیں اور پھر غار میں واپس آگیا ، ایسا کتنی مرتبہ ہوا ، اس کی کچھ تفصیل نہیں ملتی ، البتہ ایک دن اس آدمی نے واپس آکر بتایا کہ شہر میں ہماری روپوشی کا چرچا ہے ہماری وسیع پیمانے پر تلاش شروع ہوگئی ہے اور بادشاہ نے حکم دیا کہ ہمیں ہر صورت میں گرفتار کیا جائے ، ظاہر ہے کہ اس قسم کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشویش کا باعث بنی ، وہ اسی فکر میں غلطان تھے ، کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر لمبی نیند طاری کردی جس کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے (آیت) ” فضربنا علی اذانھم “۔ ہم نے ان کے کانوں پر تھپکی دے دی اور وہ گہری نیند سو گئے ان کی یہ نیند سینکڑوں سال تک قائم رہی ان کا کتا بھی غار کے منہ پر پاؤ پھیلائے بیٹھا رہا اور اس پر بھی نیند طاری ہوچکی تھی ۔ (تلاش میں ناکامی) بادشاہ کے حکم کے مطابق اس کے کارندوں نے اللہ کے ان دوستوں کی وسیع پیمانے پر تلاش شروع کردی ، بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ بعض لوگ اس غار کے دہانے تک بھی پہنچ گئے انہوں نے اندر کسی کو موجودگی کا شبہ ہوا تو انہوں نے غار کے منہ پر دیوار تعمیر کر کے اسے بالکل بند کردیا ، مگر یہ روایت صحیح معلوم نہیں ہوتی ، اصل بات یہ ہے کہ اللہ نے اصحاب کہف کی حفاظت کا انتظام اس طرح کردیا تھا کہ اس غار تک کوئی پہنچ ہی نہیں سکا ، اس قسم کے واقعات پہلے بھی گزر چکے ہیں ، مثلا اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر (علیہ السلام) پر سو سال تک موت طاری کرنے کے بعد اٹھایا اور اس عرصہ وہاں پر کسی کا گزر نہیں ہونے دیا ، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے اور اس میں کسی انسان کا کوئی دخل نہیں ، ہجرت پر روانہ ہوتے وقت خود حضور ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ تین دن تک غار ثور میں ٹھہرے رہے کفار نے آپ کی تلاش میں کونہ کونہ چھان مارا حتی کہ غار کے منہ تک پہنچ گئے اور غار کے اندر سے ان کے پاؤں نظر آرہے تھے ، مگر اللہ نے آپ کی حفاظت کا ایسا انتظام کردیا کہ کسی نے غار کے اندر جھانک کر دیکھنے کی کوشش ہی نہ کی ، مکڑی کا جالا اور کبوتری کے انڈے غار کے منہ پر دیکھ کر کفار کہنے لگے کہ یہ جالا تو حضور ﷺ کے والد کی پیدائش سے بھی پہلے کا معلوم ہوتا ہے ، بھلا اس کے اندر کون جاسکتا ہے ، اس وقت حضرت صدیق کو کچھ پریشانی بھی لاحق ہوئی تاہم حضور ﷺ نے تسلی دی اور فرمایا (آیت) ” لاتحزن ان اللہ معنا “ (التوبۃ ، 40) غم نہ کریں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے ۔ اسی طرح اللہ نے اصحاب کہف کی حفاظت کا انتظام بھی فرما دیا اور اس غار تک کسی متلاشی کی رسائی نہیں ہونے دی بادشاہ کی طرف سے تلاش کرتے کرتے خدا جانے سال یا دو سال گزر گئے ناکامی ہوئی آخر کار بادشاہ کے حکم سے ان گم شدگان کے نام اور کوائف ایک تختی پر لکھ کر سرکاری محافظ خانے میں محفوظ کردیے گئے کہ اس طرح چند نوجوان روپوش ہوگئے ہیں جن کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ، ان کو اصحاب رقیم اس لیے کہا گیا ہے کہ ان کے نام تختی پر لکھ کر محفوظ کردیے گئے تھے ۔ (اصحاب کہف کی مشاورت) آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اسی واقعہ کا ذکر کیا ہے ، جب ان نوجوانوں کو بادشاہ کے سامنے حاضری کے بعد کچھ مہلت میسر آئی تو انہوں نے آپس میں صلاح مشورہ کیا ، کہنے لگے ، (آیت) ” واذاعتزلمتوھم “۔ اور جب تم ان کفار ومشرکین سے کنارہ کش ہوچکے ہو (آیت) ” وما یعبدون الا اللہ “۔ اور ان سے بھی الگ ہوچکے جن کی یہ اللہ کے سوا پوجا کرتے ہیں تم نے اللہ کے سوا کسی دوسری ذات کو معبود بنانے سے انکار کردیا ہے تو اب تمہارا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں لہذا (آیت) ” فآوا الی الکھف “۔ کسی غار کی طرف رجوع کرو ‘ وہاں جا کر چھپ جاؤ اور پھر اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو ، (آیت) ” ینشرکم ربکم من رحمتہ “۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنی رحمت پھیلا دے گا کیونکہ تمہارے دل نور ایمان سے بھرے ہوئے ہیں اور اللہ نے تمہارے دلوں کو مضبوط کردیا ہے تمہیں اپنے مالک کی ذات پر مکمل بھروسہ ہے وہ تم پر اپنی رحمت کا سایہ کرے گا (آیت) ” ویھیء لکم من امرکم مرفقا “۔ اور تمہارے معاملہ میں تمہارے لیے نرمی ، سکون اور آرام کی بات مہیا کرے گا لہذا کوئی فکر نہ کرو اور کسی غار میں چل کر پناہ حاصل کرلو ، چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور جیسا کہ میں نے تفصیل میں عرض کی وہ نوجوان اس غار میں روپوش ہوگئے ۔ (غار کی حالت) اب اس غار کی حات بھی اللہ بیان فرمائی ہے اے مخاطب (آیت) ” وتری الشمس اذا طلعت تزور عن کھفھم ذات الیمین “۔ تم دیکھو گے کہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو غار کی دائیں جانب کترا جاتا ہے ، امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں کہ غار کا رخ مشرق مغرب کی بجائے شمالا جنوبا تھا ، یہی وجہ ہے کہ سورج کے طلوع و غروب کے وقت وہاں دھوپ کی تپش نہیں جاتی تھی اللہ نے غار کی کیفیت اس طرح کی بنائی تھی کہ جب سورج طلوع ہوتا تو دائیں طرف سے بقدر ضرورت روشنی تو اندر جاتی مگر دھوپ کی تمازت انہیں تکلیف نہیں پہنچاتی تھی اور سورج دائیں طرف کترا کر نکل جاتا تھا ، (آیت) ” واذا غربت تقرضھم ذات الشمال “۔ اور جب سورج غروب ہونے کے قریب آتا تو بائیں طرف کترا کر نکل جاتا اور غار کے مکینوں کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی تھی ، اللہ تعالیٰ نے غار کے اندر اس طرح آڑیں کھڑی کردی تھیں کہ تھوڑی سی دھوپ اندر پہنچی اور پھر جلدی ہی سامنے آڑآگہی اور سورج دائیں یا بائیں طرف کو ہو کر نکل گیا ، البتہ روشنی اور ہوا غار میں خوب پہنچ رہی ہے (آیت) ” وھم فی فجوۃ منہ “ اور وہ غار میں کشادہ جگہ پر لیٹے ہوئے تھے ، انہیں کوئی گھٹن وغیرہ محسوس نہیں ہوتی تھی اور پورے آرام اور سکون کے ساتھ محو خواب تھے ۔ (ہدایت اور گمراہی) فرمایا (آیت) ” ذلک من ایت اللہ “۔ یہ سب اللہ کی نشانیوں میں سے ہے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی نشانیاں وقتا فوقتا ظاہر کرتا رہتا ہے تاکہ انہیں دیکھ کر لوگ اس کی وحدانیت کی پہچان سکیں اور راہ راست پر گامزن ہوجائیں ، فرمایا حقیقت یہ ہے (آیت) ” من یھد اللہ فھو المھتد “۔ ہدایت اسے نصیب ہوتی ہے ، جسے اللہ ہدایت عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ ہدایت اسے دیتا ہے جو اس کا طالب ہو ، (آیت) ” ومن یضلل فلن تجد لہ ولیا مرشدا “۔ اور جسے اس کی ضد عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے تو اس کے لیے نہ کوئی کارساز ہوگا اور نہ ہی کوئی راہ راست پر لانے والا ، جب تک اللہ کے ساتھ تعلق درست نہیں ہوگا کسی شخص کو ہدایت نصیب نہیں ہوسکتی اور نہ وہ گمراہی سے بچ سکتا ہے لہذا ہر وقت اللہ تعالیٰ سے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق طلب کرنا چاہئے ، اصحاب کہف نے اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کیا ، اس سے توفیق مانگی تو اللہ نے ان کے لیے ہدایت کا سامان پیدا کردیا ، یہ درمیان میں اللہ نے اصول بھی بیان فرما دیا کہ ہدایت اور گمراہی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے لہذا ہدایت کے لیے اسی کے سامنے دست سوال دراز کرنا چاہئے ۔ (غار میں اصحاب کہف کی حالت) ارشاد ہوتا ہے اے مخاطب ، (آیت) ” وتحسبھم ایقاضا وھم رقود “۔ تم ان اصحاب کہف کو بیدار گمان کرو گے حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں ، اندر جھانک کر دیکھو تو ان کی آنکھیں کھلی نظر آئیں گی گویا کہ وہ جاگ رہے ہیں اور پھر یہ بھی ہے کہ ایک ہی جگہ پر پڑے پڑے ان کے جسم گل سڑ سکتے تھے جس کا اللہ نے یہ انتظام فرمایا (آیت) ” ونقلبھم ذات الیمین وذات الشمال “۔ اور ہم انہیں پلٹتے ہیں دائیں طرف اور بائیں طرف ، مفسرین نے اس ضمن میں مختلف باتیں کی ہیں بعض کہتے ہیں کہ ہر دس سال کے بعد اللہ تعالیٰ اصحاب کہف کی کروٹیں بدل دیتا تھا ، بعض نے نوسال کا ذکر کیا ہے ، بعض نے سال بھر میں دو دفعہ اور بعض نے محرم کے دن کروٹیں بدلنے کا ذکر کیا ہے بہرحال یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کو کس وقت کس چیز کی ضرورت تھی اور ان کی حفاظت کا کیا انتظام ضروری تھا ، امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت میں جب تک اصحاب کہف کو غار میں رکھنا مطلوب تھا ، اس وقت تک کسی شخص کو وہاں پہنچنے یا انہیں چھیڑنے کی توفیق نہیں دی ، اللہ تعالیٰ نے ان کی حالت ایسی بنا دی تھی کہ بال اور ناخن بڑھ چکے تھے ، اگر کوئی شخص انہیں ایک نظر دیکھ لیتا تو دہشت کے مارے وہاں ٹھہر نہ سکتا ، فرمایا ان کی حالت یہ تھی کہ تم انہیں بیدار سمجھو گے ، حالانکہ وہ تو سوئے ہوئے تھے اور ہم ان کی کروٹیں بدل رہے تھے ۔ اور ان کے ساتھ کتے کی حالت یہ تھی (آیت) ” وکلبھم باسط ذراعیہ بالوصید “۔ اور ان کا کتا اپنے اگلے بازو پھیلائے غار کی چوکھٹ پر تھا وہ اتنا دہشت ناک منظر تھا کہ فرمایا اے مخاطب ! (آیت) ” لواطلعت علیھم “۔ اگر تو ان کو جھانک کر دیکھے (آیت) ” لولیت منھم فرارا “۔ تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے گا (آیت) ” ولملئت منھم رعبا “۔ اور تیرا سینہ ان کے رعب سے بھر جائے گا اللہ نے انکی ایسی کیفیت بنا رکھی تھی کہ تم انہیں دیکھنے کی تاب نہ لاسکتے ۔
Top