Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 19
وَ كَذٰلِكَ بَعَثْنٰهُمْ لِیَتَسَآءَلُوْا بَیْنَهُمْ١ؕ قَالَ قَآئِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ١ؕ قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ١ؕ قَالُوْا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ١ؕ فَابْعَثُوْۤا اَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هٰذِهٖۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ فَلْیَنْظُرْ اَیُّهَاۤ اَزْكٰى طَعَامًا فَلْیَاْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَ لْیَتَؔلَطَّفْ وَ لَا یُشْعِرَنَّ بِكُمْ اَحَدًا
وَكَذٰلِكَ
: اور اسی طرح
بَعَثْنٰهُمْ
: ہم نے انہیں اٹھایا
لِيَتَسَآءَلُوْا
: تاکہ وہ ایکدوسرے سے سوال کریں
بَيْنَهُمْ
: آپس میں
قَالَ
: کہا
قَآئِلٌ
: ایک کہنے والا
مِّنْهُمْ
: ان میں سے
كَمْ لَبِثْتُمْ
: تم کتنی دیر رہے
قَالُوْا
: انہوں نے کہا
لَبِثْنَا
: ہم رہے
يَوْمًا
: ایک دن
اَوْ
: یا
بَعْضَ يَوْمٍ
: ایک دن کا کچھ حصہ
قَالُوْا
: انہوں نے کہا
رَبُّكُمْ
: تمہارا رب
اَعْلَمُ
: خوب جانتا ہے
بِمَا لَبِثْتُمْ
: جتنی مدت تم رہے
فَابْعَثُوْٓا
: پس بھیجو تم
اَحَدَكُمْ
: اپنے میں سے ایک
بِوَرِقِكُمْ
: اپنا روپیہ دے کر
هٰذِهٖٓ
: یہ
اِلَى
: طرف
الْمَدِيْنَةِ
: شہر
فَلْيَنْظُرْ
: پس وہ دیکھے
اَيُّهَآ
: کون سا ان میں سے
اَزْكٰى
: پاکیزہ تر
طَعَامًا
: کھانا
فَلْيَاْتِكُمْ
: تو وہ تمہارے لیے لے آئے
بِرِزْقٍ
: کھانا
مِّنْهُ
: اس سے
وَلْيَتَلَطَّفْ
: اور نرمی کرے
وَ
: اور
لَا يُشْعِرَنَّ
: اور وہ خبر نہ دے بیٹھے
بِكُمْ
: تمہاری
اَحَدًا
: کسی کو
اور اسی طرح ہم نے اٹھایا ان کو تاکہ وہ سوال کریں آپس میں کہا ایک کہنے والے نے کہ تم کتنی دیر تک ٹھہرے ہو ، انہوں نے کہا کہ ہم ٹھہرے ہیں ایک دن یا دین کا بعض حصہ کہا انہوں نے تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے جتنی دیر تم ٹھہرے ہو پس بھیجو اپنے میں سے ایک کو یہ روپیہ دے کر شہر کی طرف پس دیکھے وہ کون سا کھانا پاکیزہ ہے ، پس لائے وہ رزق اس میں سے اور چاہئے کہ نرمی کرے اور نہ بتلائے تمہاریی بارے میں کسی کو ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کی اپنی قوم سے علیحدگی کا حال ذکر کیا ، اللہ کے ان نیک بندوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہم اپنے سچے دین پر قائم رہ کر ظالم بادشاہ کا تشدد برداشت نہیں کرسکتے ، لہذا بہتر ہے کہ ہم یہاں سے بھاگ جائیں اور کسی پہاڑ کی غار میں روپوش ہوجائیں ، چناچہ اس منصوبہ کے تحت یہ لوگ شہر کے قریب ہی پہاڑ کی ایک غار میں پناہ گزیں ہوگئے ، وہ وقتا فوقتا اپنے میں سے ایک آدمی کو شہر بھی بھیجتے رہے تاکہ ایک تو وہ ان کے لیے خوردونوش کا سامان لاسکے اور دوسرے شہر کے حالات معلوم کرسکے ، چناچہ ان پر نیند طاری ہونے سے قبل جو شخص شہر سے ہو کر آیا اس نے بتایا کہ شہر میں سرکاری طور پر تمہاری تلاش شروع ہوچکی ہے ، مختلف مقامات پر چھاپے مارے جا رہے ہیں ، لہذا ہمارے لیے بڑا مشکل وقت آگیا ہے ، یہ سن کر وہ سخت پریشان ہوئے اور اسی دوران اللہ نے ان پر طویل نیند طاری کردی اور وہ تین سو نوسال تک سوئے رہے ۔ گذشتہ آیات ہی میں غار کے اندر کی کیفیت بھی بیان ہوچکی ہے غار کا رخ اس طرح تھا کہ جب سورج طلوع ہوتا تو غار کی دائیں طرف سے اور جب غروب ہوتا تو بائیں طرف سے ہو کر نکل جاتا جس کی وجہ سے غار میں پڑے ہوئے آدمیوں کو سورج کی شدت نہ پہنچتی اور اس طرح ان کے اجسام گلنے سڑنے سے محفوظ رہے ، اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر تم اصحاب کہف پر ایک نظر ڈالو تو معلوم ہوگا کہ وہ لوگ جاگتے ہیں حالانکہ وہ خوابیدہ ہیں ، ان کے جسموں کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ ان کی کروٹیں بھی بدلتا رہا ، اور ان کا کتاب بھی اگلے بازو پھیلائے غار کی چوکھٹ پر بیٹھا رہا ، اللہ تعالیٰ کو ان اصحاب کی حفاظت منظور تھی ، اس لیے سینکڑوں سال تک اس غار کی طرف کسی کو آنے کا موقع نہ دیا ۔ (نیند سے بیداری) اب آج کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کی نیند سے بیداری کا حال بیان کیا ہے تین سو سال سے زائد عرصہ کے دوران بڑے تغیرات واقع ہوئے کئی نسلیں بدلیں ، سلطنتیں تبدیل ہوگئیں ، آبادیوں میں ردوبدل ہوگیا ، مگر ان اصحاب کو اس دوران بھوک اور پیاس کا احساس تک نہ ہوا ، حضرت عزیر (علیہ السلام) کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا ، وہ بھی سو سال تک سوئے رہے جب بیدار ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے پوچھا کتنی دیر ٹھہرئے ہو ، کہنے لگے ایک دن یا اس کا کوئی حصہ فرمایا نہیں بلکہ سو سال گزر چکے ہیں ؤپ کو بھی اتنا عرصہ بھوک پیاس محسوس نہیں ہوئی تھی ، یہ اللہ کی قدرت کی نشانی ہے ، وہ ایسا کرنے پر قادر ہے ، اس سلسلہ میں قادیانی حیات مسیح (علیہ السلام) پر اعتراض کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ جب آپ آسمانوں پر زندہ ہیں تو اس کے خورد ونوش اور بول وبراز کا کیا انتظام ہے ؟ یہ بالکل فضول اعتراض ہے جو اللہ اس زمین پر بعض لوگ کو بھوک پیاس کا احساس نہیں ہونے دیتا ، وہ آسمان پر ایسا کیوں نہیں کرسکتا ، عیسیٰ (علیہ السلام) تو دوسرے آسمان پر فرشتوں کی طرح اللہ کی تسبیح بیان کر رہے ہیں انہیں اس مادی جہاں والے کھانے پینے کی کیا حاجت ہوسکتی ہے ؟ قدیم ماہرین فلکیات بھی کہتے ہیں کہ تغیرات کا جہاں فلک قمر ہے ، تمام تغیرات چاند کی سطح سے نچلے حصے میں واقع ہوتے ہیں ، اس سے اوپر نہیں تاہم اگر اوپر بھی تغیر وتبدل واقع ہوتا ہو تو اللہ تعالیٰ کے لیے کون سی مشکل بات ہے کہ وہ کسی فرد کو تغیرات سے مستثنی کر دے ، اصحاب کہف اور عزیر (علیہ السلام) کے واقعات زندہ مثالیں موجود ہیں ، بہرحال نیند سے بیدار ہونے کے بعد جب اصحاب کہف اس مادی جہان میں واپس آئے تو انہیں بھوک بھی محسوس ہوئی چناچہ جیسا کہ آگے ذکر آرہا ہے ، انہوں نے سامان خورد ونوش حاصل کرنے کے لیے اپنے میں سے ایک آدمی کو شہر روانہ کیا ۔ (کتے کے خواص) تین سو سالہ خوابیدگی کے دوران جو حالات اصحاب کہف پر گزرے وہی حالات ان کے کتے پر بھی وارد ہوئے اور وہ ان کے ساتھ ہی محو خواب رہا اور غار کے دھانے پر بازو پھیلائے بیٹھا رہا ، جیسا کہ میں نے گذشتہ درس میں عرض کیا تھا کہ کتا کوئی پسندیدہ جانور نہیں ہے ، حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ شوقیہ کتا رکھنے والے کے اعمال سے ہر روز دو قیراط نیکیاں کم ہوتی رہتی ہیں ، البتہ حفاظت یا شکار کے لیے کتا پالا جائے تو اس کا حکم دوسرا ہے ویسے کتوں سے محبت کرنا اچھی بات نہیں ہے کیونکہ اسے شیطان کے ساتھ زیادہ مناسبت ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ نمازی کے سامنے سے گدھا ، عورت یا کتا گزرے تو نماز میں خلل واقع ہوتا ہے لہذا نماز پڑھتے وقت حسب ضرورت اپنے سامنے سترہ رکھ لیا کرو ۔ کتا اگرچہ ناپسندیدہ جانور ہے مگر ذی روح ہونے کی حیثیت سے اس کی تکلیف کا احساس کرنا نیکی میں داخل ہے حضور ﷺ نے ایک واقعہ بیان فرمایا کہ کوئی شخص راستہ چل رہا تھا ، راستے میں اس نے ایک کنوئیں پر پیاس بجھائی ، پاس ہی ایک کتا بھی پیاس کے مارے ہانپ رہا تھا اس شخص کے پاس پانی نکالنے کے لیے کوئی ڈول وغیرہ تو نہیں تھا ، اس نے اپنے جوتے میں پانی نکال کر کتے کو پلا دیا اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ عمل قبول کیا اور اس شخص کو بخش دیا ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے حضور سے دریافت کیا کہ اگر ہم جانوروں کے ساتھ نیکی کریں تو کیا ہمیں اس کا فائدہ ہوگا ؟ فرمایا ، ہر جگر رکھنے والی چیز کے ساتھ احسان کرو گے تو یہ صدقہ میں داخل ہوگا جب جانوروں کے ساتھ حسن سلوک سے نجات حاصل ہو سکتی ہے تو انسانوں کے ساتھ احسان کرنا تو بہت زیادہ مفید ہوگا ۔ (نیند کا عرصہ) الغرض ! اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کی نیند سے بیداری کو اس طرح بیان فرمایا (آیت) ” وکذلک بعثنھم “ اور اس طرح ہم نے ان کو اٹھایا یعنی نیند سے بیدار کیا ، اللہ تعالیٰ نے جس طرح انہیں اپنی قدرت کاملہ سے لمبی نیند سلا دیا تھا ، اسی طرح انہیں بیدار بھی کردیا ، (آیت) ” لیتسآء لوا بینھم “ تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے اس نیند کے متعلق سوال کریں چناچہ (آیت) ” قال قآئل منھم “ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا (آیت) ” لکم لبثتم “۔ بھلا بتاؤ تو تم یہاں کتنا عرصہ ٹھہرے ہو ، یعنی کتنی دیر سوئے ہو ۔ (آیت) ” قالوا لبثنا یوما او بعض یوم “ انہوں نے جواب دیا کہ ہم ایک دن یا دن کا کچھ عرصہ ٹھہرے ہیں ، ظاہر ہے کہ غار کے اندر جب ان پر نیند طاری ہوئی تو دن کا ابتدائی حصہ تھا اور جب وہ بیدار ہوئے تو دن کا آخری حصہ تھا ، بعض نے سمجھا کہ ابھی سورج غروب نہیں ہوا لہذا انہوں نے کہا کہ ہم ابھی پورا دن بھی نہیں سوئے اور جنہوں نے گمان کیا کہ سورج غروب ہوچکا ہے ، وہ کہنے لگے کہ ہم ایک پورا دن سوئے رہے ہیں ۔ قالو “ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاملہ میں زیادہ بحث مباحثہ کی ضرورت نہیں (آیت) ” ربکم اعلم بما لبثتم “ تمہارا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ تم کتنا عرصہ سوئے رہے ہو ، کہنے لگے اس معاملہ کو اللہ پر ہی چھوڑ دو ، (غیر ضروری تفصیلات) جیسا کہ کسی گذشتہ درس میں عرض کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس قسم کے واقعات کی تمام جزئیات بیان نہیں فرمائیں بلکہ صرف اتنا حصہ ہی بیان کیا ہے جو انسانوں کی عبرت کے لیے کافی ہے ، اصحاب کہف کی تعداد کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے کوئی حتمی بات بیان نہیں کی ، آگے آرہا ہے کہ لوگ ان کی تعداد کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں تاہم مفسرین نے مختلف شواہد کی بناء پر اصحاب کہف کا تعین کیا ہے مثلا بعض مفسرین نے ان کی سات تعداد کے متعلق یہ استدلال پیش کیا ہے کہ (آیت) ” قال قآئل منھم “ میں کہنے والا یعنی عرصہ نیند کے متعلق سوال کرنے والا ایک شخص ہے اور آگے جواب میں ” لبتنا “ جمع کا صیغہ ہے جو کم از کم تین افراد پر بولا جاتا ہے ، آگے پھر (آیت) ” قالوا ربکم اعلم میں جمع کا صیغہ ہے تو فرماتے ہیں کہ ایک سائل اور دو دفعہ تین تین آدمی جواب دینے والے ، کل مل کر سات بنتے ہیں ۔ لہذا اصحاب کہف کی تعداد سات ہے ۔ بہرحال تعداد کا تعین کوئی ضروری امر نہیں ہے جسمیں ضرور ہی کرید کی جائے ، اسی طرح کتے کے نام میں اختلاف پایا جاتا ہے ، اس پر بحث کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ، امام ابن جریر طبری (رح) اور امام جلال الدین سیوطی (رح) فرماتے ہیں کہ اس قسم کی غیر ضروری تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے عقیدے ، عزیمت اور استقامت کا ذکر کردیا ہے ہمارے لیے اتنی تفصیل ہی کافی ہے کہ یہ چند نوجوان تھے جنہوں نے کفر وشرک کو ترک کیا اور اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے غار میں پناہ حاصل کرلی ، اللہ تعالیٰ نے انکو عظیم بزرگی عطا فرمائی ۔ امام ابن کثیر (رح) نے تاریخ ابن عساکر (رح) کے حوالے سے امام حسن بصری (رح) کا قال نقل کیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے جو قربانی کے لیے مینڈھا پیش کیا گیا اس کا نام جریر تھا اس طرح سلیمان (علیہ السلام) کے ہدہد کا نام انفذ تھا ، اصحاب کہف کے کتے کا نام قطمیر بتایا جاتا ہے جس بچھڑے کی بنی اسرائیل نے پوجا کی تھی اس کا نام محمود تھا اسی طرح یہ روایت بھی مشہور ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو ہندوستان میں اور مائی حوا ؓ کو جدہ میں اتارا گیا ، پھر سانپ کو اصفہان میں اور شیطان کو بیسان میں نازل کیا گیا یہ سب سریانی یا عبرانی روایات ہیں جو قابل اعتماد نہیں ہیں ، ہمیں ایسی چیزوں کی تفصیل میں جانے کی کوئی ضرورت ہے اور نہ کوئی اس میں فائدہ ہے ، امام ابن کثیر (رح) یہ بھی فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا ” ما من شیء یقربکم من الجنۃ ویباعدکم من النار “ یعنی جنت سے قریب کرنے والی اور دوزخ سے دور کرنے کوئی چیز نہیں جو میں نے تمہیں بتلا نہ دی ہو ، لہذا اب غیر ضروری باتوں میں کرید کرنے کی کوشش نہ کرو ۔ (کھانے کا انتظام) بہرحال نیند سے بیداری کے بعد اصحاب کہف کو بھوک محسوس ہوئی تو کہنے لگے (آیت) ” فابعثوا احدکم بورقکم ھذہ الی المدینۃ “۔ اپنے میں سے کسی ایک کو یہ سکہ دے کر شہر میں بھیجو یہاں پر لفظ واحد کی بجائے احد استعمال کیا گیا ہے عربی زبان میں واحد کا اطلاق رئیس پر ہوتا ہے ، اگر لفظ واحد آتا تو مطلب ہوتا کہ اپنے میں سے بڑے آدمی کو بھیجو مگر احد سے مراد یہ ہے کہ اپنے میں سے کسی ایک آدمی کو بھیجو ورق چاندی کو کہتے ہیں وہ سکے کی شکل میں ہو یا ویسے ہی ڈلی ہو ، قدیم زمانے میں سونے کا دینار اور چاندی کا درہم ہوتا تھا اس لیے محض ورق سے مراد چاندی کا سکہ ہی لیا جاتا تھا ، پرانے زمانے میں تو یہ سکے خالص سونے چاندی کے ہوتے تھے ، برصغیر کا روپیہ بھی خالص چاندی کا ہوتا تھا مگر اب ان سکوں میں دیگر دھاتوں کی ملاوٹ بھی کردی گئی ہے اور دنیا بھر میں بڑی رقوم کے لیے سکوں کی بجائے کاغذی نوٹ استعمال ہوتے ہیں ، بہرحال انہوں نے کچھ سکے دے کر ایک آدمی کو کھانا لانے کے لیے بھیجا مفسرین فرماتے ہیں کہ گھروں سے نکلتے وقت یہ لوگ کچھ نقدی بھی ہمراہ لے گئے تھے تاکہ بوقت ضرورت کام آسکے چناچہ وہ طویل نیند سونے سے پہلے بھی اس پونجی کو استعمال کرکے کھانے پینے کی اشیاء منگواتے رہے اور بیدار ہونے کے بعد بھی انہوں نے ایسا ہی کرنا چاہا ۔ مفسرین کرام نے اس سے بعض ضمنی مسائل بھی اخذ کیے ہیں ، امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ جس رقم سے اصحاب کہف کھانا وغیرہ لاتے تھے ظاہرہ ہے کہ وہ سب کی مشترکہ پونجی تھی اگر چہ ان کا حصہ اس میں برابر برابر نہ تھا ، اس سے معلوم ہوا کہ چند آدمی مل کر ایک فنڈ قائم کرسکتے ہیں جو سب کی طرف مشترکہ طور پر منسوب ہوگا ، اسی طرح وہ خورد ونوش میں بھی اشتراک کرسکتے ہیں اگرچہ ان میں سے ہر ایک ایک جتنا تو نہیں کھاتا ہوگا بلکہ ہر آدمی اپنی طلب کے مطابق کھانا کھاتا ہے تو اس طرح اگر کھانا کھانے میں کمی بیشی ہوجائے تو اس سے مشترکہ فنڈ میں کوئی فرق نہیں پڑے گا ، البتہ قحط کے زمانے میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اس معاملہ میں خاص ہدایات دیں ، آپ بعض آدمیوں کو اکٹھا کھانا کھاتے دیکھ کر تلقین فرماتے تھے ، کہ حضور ﷺ نے دو دو کھجوروں کا ایک ایک لقمہ بنانے سے منع فرمایا ہے تاکہ دوسرے کا حق ضائع نہ ہو ، ہاں اگر مل کر کھانے والے اجازت دے دی کہ ہر شخص کو حسب خواہش کم وبیش کھانے کی اجازت ہے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا ۔ بہرحال اصحاب کہف نے اپنے میں سے ایک کو وکیل بنا کر سکہ اس کے حوالے کیا کہ یہ لے کر شہر میں جائے (آیت) ” فلینتظر ایھا ازکی طعاما “۔ اور دیکھے کہ کون سا کھانا پاکیزہ ہے ازکی کا معنی اچھا اور صاف ستھرا بھی ہوسکتا ہے مگر مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس سے مراد احل واطیب “ ہے یعنی جو حلال ہو ، یہ مومن آدمی ہیں اور حرام کھانا استعمال نہیں کرسکتے ، اگر غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا گوشت ہو تو وہ بھی مردار کے حکم میں آئے گا اور حلال نہیں ہوگا ، اسی طرح غصب شدہ مال سے حاصل کیا گیا یا چوری کا کھانا بھی درست نہیں ہوگا ، اسی لیے فرمایا کہ جا کر دیکھے کون سا کھانا حلال اور طیب ہے (آیت) ” فلیاتکم برزق منہ “ پس اس میں سے کچھ کھانا لے آئے ۔ اور ساتھ یہ بھی کہا ” ولیتلطف “ اور چاہیے کہ وہ آدمی نرمی اختیار کرے ، کوئی ایسی بات یا حرکت شہر میں جا کر نہ کرے جس سے ان کے راز فاش ہوجانے کا خطرہ ہو مطلب یہ تھا کہ ان کا نمائندہ ایسی تدبیر کی ساتھ اشیاء خریدے کہ کسی کو شبہ نہ پڑے اور لوگ اسے اجنبی مسافر ہی سمجھیں ، (آیت) ” ولا یشعرن بکم احدا “۔ اور اسے چاہئے کہ تمہارے متعلق کسی شخص کو کوئی خبر نہ دے سارا کام بڑی احتیاط سے کرے تاکہ ہماری روپوشی کے متعلق کسی کو علم نہ ہو سکے ، یہ حفاظتی تدابیر سمجھا کر ایک آدمی کو شہر میں بھیجا گیا ، کہتے ہیں کہ ان میں سے یملیخا زیادہ ہوشیار آدمی تھا اس لیے اس کام پر انہوں نے اس کو مامور کیا ، یہاں سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ بیداری کے بعد انہوں نے اپنے اجسام میں کوئی غیر معمولی تغیر نہیں پایا تھا بعض روایات میں آتا ہے کہ ان کے بال اور ناخن بہت بڑھ چکے تھے اگر ایسا ہوتا تو وہ ایک آدمی کو شہر بھیجنے سے پہلے اس بات کا ضرور نوٹس لیتے کہ اس حالت میں لوگ اسے دیکھیں گے تو ان کا راز کھل جائے گا ، انہوں نے کوئی ایسی چیز محسوس کیے بغیر اس طرح آدمی کو شہر بھیجا جس طرح وہ سونے سے پہلے بھیجتے رہے تھے ۔ (شہر میں پیش آمدہ حالات) جب یملیخا پونجی لے کر شہر پہنچا تو اسے وہاں پر اجنبیت محسوس ہوئی ، اس کی جانی پہچانی کوئی شکل و صورت وہاں نظر نہ آئی شہر کی ہئیت بھی بہت حد تک بدل چکی تھی وہ قدرے حیران ضرور ہوا ، تاہم اس نے اپنی مرضی کا کھانا خریدنے کے لیے جب دکاندار کو سکہ دیا تو اس نے کہا کہ یہ تو کھوٹا ہے اس نے دوسرا سکہ دیا تو وہ بھی ایسا ہی تھا تین سو سال میں بادشاہوں کے ساتھ سکے بھی تبدیل ہوچکے تھے ، سکے پر قیصر ڈیسئس کی تصویر دیکھ کر دکاندار مزید حیران ہوا ، اتنے میں بہت سے لوگ جمع ہوگئے ، بعض کہنے لگے کہ اس شخص کو کوئی پرانا خزانہ مل گیا ہے انہوں نے کہا کہ سچ سچ بتاؤ یہ سکے کہاں سے لیے ہیں ، ورنہ تمہیں پویس کے حوالے کردیا جائے گا یملیخا سخت پریشان ہوا اور اس کے دل میں آئی کہ اب اسے ظالم بادشاہ کے روبرو پیش ہونا پڑے گا اور ان کا راز کھل جائے گا اس شخص نے اپنے والدین اور بعض عزیزوں کے نام بھی لیے مگر تین سو سال پرانے آدمیوں کو اس وقت کون جانتا تھا بہرحال چاروناچار اس نے ساری بات کہہ دی اور لوگوں نے پکڑ کر اسے بادشاہ وقت کے سامنے پیش کردیا اس نے بادشاہ کو ساری بات بتا دی کہ وہ اور اس کے ساتھی فلاں غار میں پناہ گزیں ہیں ، اس پر سرکاری ریکارڈ سے وہ تختیاں نکالی گئیں جن پر ان کے نام اور کوائف درض تھے اور ان کی روپوشی کے بعد محفوظ کردی گئی تھیں ، بادشاہ عیسائی مذہب رکھتا تھا اور رحمدل بھی تھا ، وہ ساری بات سمجھ گیا کہ یہ وہ وہی لوگ ہیں جو تین سو سال پہلے ظالم اور مشرک بادشاہ کے ڈر سے غار میں چھپ گئے تھے ، بادشاہ نے اسے تسلی دی اور ہر ممکن مدد کا وعدہ کیا ، پھر بادشاہ کے کہنے پر وہ شخص غار کی نشاندہی کے لیے چل پڑا ، اس کے ساتھ لوگوں کا ایک بڑا ہجوم بھی تھا جب غار کے قریب پہنچے تو غار کے اندر موجود نوجوانوں نے محسوس کیا کہ ان کا راز فاش ہوچکا ہے اور ان کا تعاقب کیا جا رہا ہے چناچہ انہوں نے نماز شروع کردی اتنی دیر میں یملیخا خود غار کے اندر داخل ہوا اور اپنے ساتھیوں کو حالا ت سے آگاہ کیا اور ساتھ یہ بھی بتلا دیا کہ یہ لوگ ہمارے دشمن نہیں ہیں بلکہ ہماری زیارت کے لیے آئے ہیں ، (اصحاب کہف کی موت) اس کے بعد کی روایات میں اختلاف ہے عام مشہور یہ ہے کہ جب اصحاب کہف کو لوگوں نے آنے کی خبر ہوئی تو وہ وہیں لیٹ گئے اور اللہ نے اسی وقت ان پر موت طاری کردی ، اللہ نے اپنی قدرت کا نمونہ دکھانا تھا جو دکھا دیا ، اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ سے یہ بھی واضح کردی کہ بعض بعدالموت برحق ہے جس طرح اللہ نے ان لوگوں کو تین سو سال کے بعد دوبارہ کھڑا کردیا ، اسی طرح وہ پوری نوع انسانی کو قیامت کے دن زندہ کرکے اپنے سامنے کھڑا کرلے گا ۔ آگے اللہ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اصحاب کہف نے اپنے راز کی پردہ پوشی کے لیے تمام تر حفاظتی تدابیر کیوں اختیار کیں اور اپنے ساتھی کو محتاط رویہ اختیار کرنے کی تلقین کی ، اس کی وجہ انہوں نے یہ بتلائی (آیت) ” انھم ان یظھروا علیکم “ اگر یہ لوگ تم پر غالب آگئے اور تم پکڑے گئے (آیت) ” یرجموکم “ تو وہ تمہیں سنگسار کردیں گے پتھر مار مار کر ہلاک کردینا سخت ترین سزا ہے جو شادی شدہ زانی کے لیے مقرر ہے کہنے لگے یا تو تمہیں یہ سزا دیں گے (آیت) ” اویعیدوکم فی ملتھم “ یا وہ تمہیں اپنے دین میں واپس لے جائیں گے ، یعنی تمہاری جان کی امان اسی صورت میں ممکن ہوگی کہ تم شرک اور کفر والا پرانا دین اختیار کرلو ، اور اگر ایسا کرو گے (آیت) ” ولن تفلحوا اذا ابدا “ تو تم کبھی فلاح نہیں پاسکو گے ، نجات سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجاؤ گے ، اس لیے اپنے ساتھ سے کہا کہ نہایت حفاظتی تدابیر اختیار کرنا کہ کہیں پکڑے نہ جاؤ ۔
Top