Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 23
وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًاۙ
وَلَا تَقُوْلَنَّ : اور ہرگز نہ کہنا تم لِشَايْءٍ : کسی کام کو اِنِّىْ : کہ میں فَاعِلٌ : کرنیوالا ہوں ذٰلِكَ : یہ غَدًا : گل
اور نہ کہیں آپ کسی چیز کے بارے میں کہ کرنے والا ہوں میں اس کو کل ۔
(شان نزول) گذشتہ آیت میں اصحاب کہف کی تعداد کا ذکر تھا اس بارے میں زیادہ کرید کرنے سے منع فرمایا گیا کہ ایسے معاملہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سونپنا ہی زیادہ مناسب ہے ، آج کے درس میں اصحاب کہف کے غار میں ٹھہرنے کی مدت کا بیان ہے البتہ درمیان میں ایک بات نصیحت کے طور پر فرمائی گئی ہے کہ کسی کام کا ارادہ کرتے وقت ساتھ انشاء اللہ کہہ کر اسے اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا چاہئے کیونکہ اس کی منشاء کے بغیر کوئی کوئی انجام نہیں دیا جاسکتا ، اسی بات کا تعلق اصحاب کہف کے واقعہ کے ساتھ بھی ہے گذشتہ دروس میں بیان کیا جا چکا ہے کہ مشرکین نے یہودیوں کے ایما پر حضور ﷺ سے روح ، اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق تین سوال کیے تھے ، حضور ﷺ نے خیال فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کے جوابات سے جلدی ہی آگاہ کر دیگا ، لہذا آپ نے مشرکین سے فرمایا کہ ان سوالات کا جواب کل دوں گا ، مگر ساتھ انشاء اللہ نہ کہا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف روایات کے مطابق چند دن یا پندرہ دن یا اٹھارہ دن کے لیے وحی کا سلسلہ منقطع رہا اور آپ مشرکین کے سوالات کا جواب نہ دے سکے ، اس پر انہوں نے آپ کے خلاف پراپیگنڈا کرنا شروع کردیا تمسخر اڑایا اور طعنہ زنی کہ کہ آپ کا ” کل “ کب آئے گا ؟ آج کی پہلی دو آیات کا تعلق اسی واقعہ سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس ضمن میں نصیحت فرمائی ہے ۔ (مشیت الہی کے ساتھ وابستگی) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ولا تقولن لشایء انی فاعل ذلک غدا “۔ آپ کسی چیز کے بارے میں یوں نہ کہیں کہ میں اسے کل کرنے والا ہوں ” الا ان یشآء اللہ “ بلکہ یوں کہیں کہ اگر اللہ نے چاہا گویا اپنے مستقبل کے فعل کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع کردینا چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا تو میں فلاں کام انجام دوں گا سورة تکویر میں بھی اللہ نے واضح فرما دیا ہے (آیت) ” وما تشآءون الا ان یشآء اللہ رب العلمین “۔ (التکویر ، 29) تمہارے چاہنے سے کوئی بات نہیں بنتی جب تک کہ اللہ نہ چاہے ، انسان کوئی بھی پلاننگ کرے ، جب تک اللہ کی مشیت نہیں ہوگی ، کوئی کام بھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا لہذا اپنے تمام امور کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ ہی منسلک کرنا چاہئے ۔ انشاء اللہ کے ساتھ بعض فقہی مسائل بھی وابستہ ہیں ، مثلا کسی شخص نے کسی کام کے لیے قسم اٹھائی اور ساتھ انشاء اللہ کہہ دیا تو اس نے وہ کام اللہ کے سپرد کردیا ، اب اگر وہ اپنی قسم پوری نہیں کر پاتا تو حانث ہو کر ماخوذ نہیں ہوگا کیونکہ یہ سمجھا جائے گا کہ اس کام کی تکمیل میں اللہ تعالیٰ کی مشیت شامل نہیں تھی ، اور اگر بغیر انشاء اللہ کے قسم اٹھالی ہے تو عدم تکمیل پر حانث سمجھا جائے گا اور اسے قسم کا کفارہ ادا کرنا پڑیگا حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی سو بیویاں تھیں انہوں نے قسم اٹھائی کہ میں ایک ہی رات میں تمام بیویاں کے پاس جاؤں گا اور ان سے پیدا ہونے والے تمام بچوں کو اللہ کی خاطر جہاد میں لگاؤں گا ، آپ نے ساتھ انشاء اللہ نہ کہا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تکمیل عمل کے باوجود صرف ایک بیوی کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور وہ بھی فالج زدہ جس سے جہاد میں شمولیت کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی (آیت) ” والقینا علی کرسیہ جسدا ثم اناب “۔ (ص ، 34) اسی بات کی طرف اشارہ ہے یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر سلیمان قسم اٹھاتے وقت انشاء اللہ کہہ دیتے تو آپ کی مراد پوری ہوتی سو بچے پیدا ہوتے جو سارے کے سارے خدا کے راستے میں جہاد کرتے مگر اس بھول کی وجہ سے وہ اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہو سکے غرضیکہ کوئی بھی کام ہو اسے انشاء اللہ کہہ کر مشیت ایزدی کے ساتھ منسلک کردینا چاہئے ۔ (انشاء اللہ کے فقہی مسائل) مفسرین ، مجتہدین اور فقہاء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ کسی کام کا رادہ کرنے کے کتنی دیر بعد تک انشاء اللہ کہنا کار آمد ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ، حضرت مجاہد ؓ ، سعید بن جبیر (رح) ابو العالیہ (رح) اور بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ کسی کام کا ارادہ کرنے کے ایک سال بعد تک بھی اگر کسی شخص انشاء اللہ کہہ دیتا ہے تو اسے اس کام کے ساتھ منسلک سمجھا جائے گا ، البتہ امام حسن بصری (رح) امام طاؤس (رح) وغیرہ فرماتے ہیں کہ جس مجلس میں کسی کام کا ارادہ کیا ہے اگر اسی مجلس کے دوران انشاء اللہ کہہ دے تو درست ہے ، ورنہ مجلس برخواست ہونے کے بعد انشاء اللہ کہنا اس کام کے ساتھ مطابقت نہیں رکھے گا ، علاوہ ازیں امام ابوحنیفہ (رح) امام ابراہیم نخعی (رح) ، عطا (رح) اور امام شعبی (رح) وغیرہ فرماتے ہیں کہ انشاء اللہ صرف اسی صورت میں درست تسلیم ہوگا جب یہ کسی کام کا ارادہ کرنے کے ساتھ متصلا کہہ دیا جائے ، اگر انشاء اللہ کا لفظ وقفے کے ساتھ کہا تو یہ معتبر نہیں ہوگا ۔ امام صاحب (رح) کے کسی مخالف نے خلیفہ منصور کے پاس شکایت کی کہ آپ کے جد امجد حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کسی کام کے ارادے سے ایک سال بعد تک بھی انشاء اللہ کہنے کو روا سمجھتے تھے ، مگر امام ابوحنیفہ (رح) اس کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ صرف وہی انشاء اللہ معتبر ہوگا جو کسی کام کے ارادے سے متصلا کہا گیا ہو ، خلیفہ نے امام صاحب (رح) کو طلب کرکے وضاحت چاہی تو آپ نے فرمایا ہاں میرا مسلک یہی ہے جو آپ نے بیان کیا ہے ، مگر آپ جس بات پر اصرار کر رہے ہیں وہ آپ کے خلاف جاتی ہے ، وجہ یہ ہے کہ لوگ جب آپ کے ہاتھ پر بیعت کرکے آپ کی اطاعت کا عہد کرتے ہیں تو اس کے ساتھ انشاء اللہ تو نہیں کہتے ، لہذا یہ حتمی بات ہوتی ہے اور اس کے خلاف کرنے سے آدمی قابل مؤاخذہ ہوجاتا ہے ، اگر انشاء اللہ کہنا عہد کے ایک سال بعد تک مؤخر کیا جانا روا سمجھا جائے تو پھر لوگ آپ کی بیعت کرنے کے بعد گھر جا کر انشاء اللہ کہہ سکتے ہیں اور اس طرح وہ کسی وقت بھی اس بیعت سے نکل سکتے ہیں اور آپ انہیں اس بیعت پر قائم رہنے کے لیے مجبور نہیں کرسکتے اور آپ انہیں اس بیعت پر قائم رہنے کے لیے مجبور نہیں کرسکتے کیونکہ انہوں نے انشاء اللہ کہہ کر معاملہ اللہ کے سپرد کردیا ، لہذا اللہ چاہے گا تو وہ آپ کی اطاعت میں رہیں گے ، ورنہ نکل جائیں گے یہ بات خلیفہ کی سمجھ میں آگئی اور اس نے شکایت کنندہ کو دربار سے نکال دیا کہ تم فضول باتیں کرتے ہو ۔ (بھول جانے کی صورت میں) غرضیکہ جس کا کام بھی ارادہ کیا جائے یا کوئی قسم اٹھائی جائے تو اسے انشاء اللہ کے ساتھ فورا منسلک کردینا چاہئے ، اگر ایسا کرے گا تو وعدہ خلافی کی صورت میں جھوٹا نہیں ہوگا ، اور قسم کی صورت میں حانث نہیں ہوگا ، اللہ نے حضور ﷺ کو بھی یہی بات سکھائی کہ آپ یوں نہ کہیں کہ میں یہ کام کل کروں گا بلکہ ساتھ انشاء اللہ کہہ کر اسے اللہ کی مشیت پر موقوف کردیا کریں کیونکہ قادر مطلق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس کی منشاء ہوگی تو کوئی کام پایہ تکمیل تک پہنچے گا ، ورنہ نہیں اللہ تعالیٰ نے ساتھ یہ بھی فرمایا (آیت) ” واذکر ربک اذا نسیت “ اور اگر آپ عین موقع پر انشاء اللہ کہنا بھول جائیں تو جس وقت یاد آئے اسی وقت اعادہ کرلیں بھول جانے کا قانون یہ ہے کہ یاد آوری کے بعد ان الفاظ کو ادا کرلے بھول کر نماز چھوڑ دینے کے متعلق بھی یہی حکم ہے کہ جس وقت یاد آئے فورا ادا کرلے ، اگر نماز کا وقت ابھی باقی ہے تو وہ نماز ادا تصور ہوگی اور اگر وقت گزر چکا ہے تو پھر قضا کے حکم میں آئیگی اگر کوئی شخص سو گیا ہے اور نماز کا وقت نکل گیا ہے تو بیداری پر فورا ادا کرلے ، اس قسم کا واقعہ خود حضور ﷺ کے ساتھ بھی دوران سفر دو یا زیادہ مرتبہ پیش آیا ۔ ایک مقام پر قافلے نے رات گزارنے کا ارادہ کیا ، رات کو پہریدار بھی مقرر کیے جو صبح نماز کے وقت جگا دیں مگر پہریدار خود بھی سو گئے جس کی وجہ سے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی نماز فجر قضا ہوگئی ، چناچہ آپ نے یہ نماز بعد میں پڑھی انشاء اللہ کہنے کا بھی یہی مسئلہ ہے کہ اگر بھول گیا تو جب یاد آئے فورا کہہ لے ۔ (نبوت و رسالت کی دلیل) اور دوسری بات یہ (آیت) ” وقل عسی ان یھدین ربی لاقرب من ھذا رشدا “۔ کہ آپ یہ بھی کہہ دیں کہ امید ہے کہ میرا پروردگار راہنمائی فرمائے گا ، اس سے زیادہ قریب تر نیکی کے راستہ کی دراصل یہ حضور ﷺ کی نبوت و رسالت کی صداقت کی دلیل بیان کی جا رہی ہے آپ کا اصحاب کہف کا واقعہ ٹھیک ٹھیک بیان کردینا ہی آپ کی صداقت کی دلیل ہے کیونکہ یہود ومشرکین نے یہ سوال کرکے آپ کا امتحان لینا چاہا تھا جب آپ نے صحیح جواب دے دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں اور اس کے بتلانے سے ہی آپ نے اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا ہے ، یہ تو سینکڑوں سال پرانا واقعہ تھا ، اللہ تعالیٰ قریبی زمانہ کے کسی واقعہ کو بھی آپ کی رسالت کی دلیل کے طور پر پیش کرسکتا تھا ، چناچہ حضور ﷺ کی ہجرت کا واقعہ ایسا ہے جو اس سورة کے نزول سے کچھ عرصہ بعد پیش آیا جس طرح اصحاب کہف تین سو نو سال تک غار میں پناہ گزیں رہے اسی طرح حضور ﷺ سفر ہجرت کی ابتداء میں تین دن تک غار ثور میں رکے رہے ، تمام تر کوشش کے باوجود کفار آپ کو تلاش نہ کرسکے ، تین دن کے بعد آپ غار ثور سے نکل کر مدینہ کے راستے پر چل نکلے ، تو گویا یہ تین دن کا واقعہ تین سو سالہ واقعہ سے تو قریب تر ہے اور حضور ﷺ کی نبوت و رسالت کی دلیل ہے ۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ، مخالفین کی ایذا رسانیاں اور اللہ کے بندوں کی روپوشی اور گرفتاری کے واقعات دنیا میں ہمیشہ رونما ہوتے آئے ہیں ، جب انگریزوں نے ظلم وستم کی انتہاء کردی اور ہمارے بزرگوں کی گرفتار کا حکم دیا تو اس قسم کے کئی واقعات پیش آئے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (رح) کو سزائے موت کا حکم ہوچکا تھا ، آپ روپوش ہوگئے اور پھر مکہ مکرمہ ہجرت کر گئے ، مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) بھی تین دن تک روپوش رہنے کے بعد باہر نکل آئے اللہ نے ان کی حفاظت فرمائی اور وہ گرفتار نہیں کیے جاسکے ، مولانا رشید احمد گنگوہی (رح) آٹھ نوماہ تک قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرکے رہا ہوئے حاجی صاحب نے انگریزوں کے ساتھ آخری ٹکر لی تھی مگر اللہ تعالیٰ کو برصغیر میں انگریزوں کا اقتدار مزید سو سال تک منظور تھا اس لیے آپ کو کامیابی نہ ہوسکی ۔ ّ (غار میں ٹھہرنے کی مدت) انشاء اللہ کا مسئلہ بیان کرنے کے بعد آگے پھر اصحاب کہف کا ذکر ہے اس آیت کریمہ میں ان کے غار میں قیام کی مدت کا تذکرہ ہے فرمایا (آیت) ” ولبثوا فی کھفھم ثلث مائۃ سنین “۔ وہ اپنی غار میں تین سو سال ٹھہرے رہے (آیت) ” وازدادوتسعا “۔ اور زیادہ کیا ، انہوں نے اس پر نوسال ، اس طرح کل تین سو نو سال ہوئے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ان کے غار میں رہنے کی مدت تو تین سو سال ہی تھی البتہ بعض لوگوں نے بیان کرنے میں نو سال کا اضافہ کردیا ، یہ حضرات نو سال کو مبالغہ آرائی پر محمول کرتے ہیں تاہم زیادہ تر مفسرین یہ فرماتے ہیں کہ نوسال کا فرق شمسی اور قمری سالوں کے لحاظ سے ہے ، اصحاب کہف شمسی سال کے حساب سے تین سو سال ٹھہرے ، جب کہ قمری سالوں کے حساب سے ان کی تعداد تین سو نو سال بن جاتی ہے کیونکہ ہر شمسی صدی میں قمری لحاظ سے تین سال بڑھ جاتے ہیں ۔ فرمایا قل اے پیغمبر ! ﷺ آپ جواب میں کہہ دیں ، (آیت) ” اللہ اعلم بما لبثوا “۔ اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ اصحاب کہف کتنی مدت ٹھہرے رہے ، تاریخی اور تفسیری روایات میں تو بہت سی باتیں ملتی ہیں جن کی صحت کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا ، لہذا اللہ نے جتنی بات بنا دی ہے وہی درست ہے ، اس بات کا تعلق علم غیب سے ہے جو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا یہاں پر بھی اللہ نے وضاحت فرمادی ہے ، (آیت) ” لہ غیب السموت والارض “ آسمانوں اور زمین کو غیب اسی کے پاس ہے ، اللہ تعالیٰ کی ذات سے تو کوئی چیز پردہ غیب میں نہیں ہے البتہ جو چیز آسمانی مخلوق کی نظروں میں غیب ہے ، اللہ تعالیٰ اس کو بھی جانتا ہے اور جو اشیاء زمینی مخلوق انسان ، جن ، فرشتوں وغیرہ کی نظروں میں غیب ہے اللہ تعالیٰ ان سے بھی خوب واقف ہے ، اسی لیے فرمایا کہ آسمانوں اور زمین کا غیب اسی کے لیے ہے ، اس صفت میں اس کا کوئی شریک نہیں ، ذرے ذرے کا علم صرف خدا تعالیٰ کے پاس ہے کیونکہ (آیت) ” ان اللہ بکل شیء علیم “۔ علیم کل صرف وہی ذات ہے ۔ (خدائی بصارت اور سماعت) فرمایا (آیت) ” ابصربہ “ اللہ تعالیٰ خوب دیکھتا ہے (آیت) ” واسمع “ اور وہ خوب سنتا ہے ، خدا تعالیٰ کا دیکھنا اور سننا بھی عجیب و غریب ہے جو انسان کی عقل میں نہیں آسکتا ، انسانوں اور دوسری مخلوق کو دیکھنے کے لیے آنکھوں اور سننے کے لیے کانوں کی ضرورت ہوتی ہے ، ایتھر اور دیگر مادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ، جن کے ذریعے کوئی آواز کان تک پہنچتی ہے ، اسی طرح دیکھنے کے لیے روشنی کا ہونا اور پھر کسی چیز کا نگاہ کے سامنے ہونا ضروری ہے مگر اللہ تعالیٰ ہر قسم کے آلے سے پاک ہے اللہ تعالیٰ سننے کے لیے نہ کانوں اور دیگر لوازمات کا محتاج ہے اور نہ دیکھنے کے لیے اسے روشنی کی ضرورت ہے وہ ہر چیز پر حاوی اور محیط ہے ، اس لیے وہ ہر چیز کو ہر آن سن رہا ہے اور دیکھ رہا ہے ، اس کے دیکھنے اور سننے کی کیفیت انسانی فہم میں نہیں آسکتی ، فرمایا (آیت) ” مالھم من دونہ من ولی “ بندوں کے لیے اللہ کے سوا کوئی کارساز نہیں ہے جو اسکی بگڑی بنا سکے ، اس کے علاوہ تصرف کی مالک کوئی ذات نہیں ، وہی کارساز مطلق ہے اس صفت کو کہیں ولی کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے اور کہیں وکیل کے ساتھ ہر چیز کا ولی اور وکیل فقط اللہ تعالیٰ ہے ، اسی لیے فرمایا (آیت) ” لا الہ الا ھو فاتخذہ وکیلا “۔ (المزمل ، 9) اسی کے سوا کوئی معبود نہیں ، لہذا اسی کو اپنا کارساز بناؤ ، ہر چیز اسی کے قبضہ قدرت میں ہے ، نافع وضار ، علیم کل ، قادر مطلق ، متصرف اور مدبر صرف وہی ہے اچھی اور بری پوری مخلوق میں اس کے سوا کوئی کارساز نہیں ۔ (بلاشرکت غیرے فیصلہ) فرمایا (آیت) ” ولا یشرک فی حکمہ احدا “۔ وہ اپنے فیصلے اور حکم میں کسی دوسرے کو شریک نہیں کرتا ، وہ کسی کا محتاج نہیں ، لہذا ہر چیز کا فیصلہ بھی وہ خود کرتا ہے ، گذشتہ سورة میں بھی گزر چکا ہے کہ اس کا کوئی معاون اور مددگار نہیں ہے ، اور آگے اس سورة میں بھی آرہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کسی معاملہ میں کوئی معاون نہیں اور نہ ہی اس کو ضرورت ہے اس کا ہر فیصلہ اپنی مشیت کے مطابق ہوتا ہے ، اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے فیصلے میں کسی دوسری ذات کو شریک بنائے گا تو وہ مشرک بن جائے گا کیونکہ یہ بات (آیت) ” ان الحکم الا اللہ “۔ (الانعام ، 57) کے خلاف ہے حکم صرف اللہ کا ہوتا ہے ، وہ جو بھی فیصلہ کرے اس میں کسی مخلوق کو شریک نہیں بناتا ، وہ خود مختار ہے اور ہر فیصلہ کرنے پر مکمل قدرت رکھتا ہے ، اصحاب کہف کا واقعہ اس کی مشیت اور فیصلے کی مثال ہے ، اس کے سوا کون ہے جو کسی جاندار کو سینکڑوں سال تک بغیر کھائے پئے زندہ رکھ سکے ؟ یہ تو اللہ نے اپنی قدرت کی نشانی ، ظاہر فرمائی ہے ، وہ ایسا احکم الحاکمین ہے جو اپنے فیصلے میں کسی کو شریک نہیں کرتا ۔
Top