Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 27
وَ اتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ١ؕۚ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ١۫ۚ وَ لَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا
وَاتْلُ : اور آپ پڑھیں مَآ اُوْحِيَ : جو وحی کی گئی اِلَيْكَ : آپ کی طرف مِنْ : سے كِتَابِ : کتاب رَبِّكَ : آپ کا رب لَا مُبَدِّلَ : نہیں کوئی بدلنے والا لِكَلِمٰتِهٖ : اس کی باتوں کو وَ : اور لَنْ تَجِدَ : تم ہرگز نہ پاؤگے مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا مُلْتَحَدًا : کوئی پناہ گاہ
آپ پڑھیں اس چیز کو جو وحی کی گئی ہے آپ کی طرف آپ کے رب کی کتاب نہیں ہے کوئی تبدیل کرنے والا اس کے کلمات کو ، اور ہرگز نہ پائیں گے آپ اس کے سوا کوئی جائے پناہ ۔
(کتاب الہی کی حقانیت) اصحاب کہف کا واقعہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے وحی الہی یعنی قرآن پاکی اہمیت کا ذکر کیا ہے اور معترضین کے اعتراضات کا علاج تجویز کیا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” واتل ما اوحی الیک من کتاب ربک “۔ آپ پڑھیں اس چیز کو جو وحی کی گئی ہے آپ کی طرف آپ کے پروردگار کی کتاب ، صحیح بات تو اسی کتاب میں ہوگی جو لوگ اس کے خلاف باتیں کرتے ہیں ، وہ یقینی نہیں ہیں قطعی اور یقینی علم نہ تو لوگوں کی سنی سنائی باتوں میں ہے ، نہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے آپ اس کتاب پر اعتقاد رکھیں ، اس کی تلاوت کریں اور اسی کو اپنا نصب العین بنائیں ۔ قرآن پاک وحی جلی اور ہر چیز کی بنیاد ہے باقی تمام چیزیں اس کی تشریح و توضیح ہیں جو چیزیں اللہ نے اپنے پیغمبر کے قلب مبارک پر اتاریں ہیں وہ وحی خفی ہے اور اس کتاب کی تشریح ہے امام بن تیمیہ (رح) فرماتے ہیں ” والسنۃ تفسر القرآن وتبینہ “۔ سنت ایک ایسی چیز ہے جو قرآن پاک کی تفصیل بیان کرتی ہے گذشتہ سے پیوستہ درس میں اصحاب کہف کے متعلق اللہ کا فرمان گزر چکا ہے (آیت) ” فلا تمارفیھم “ آپ اس معاملہ میں ان لوگوں سے جھگڑا نہ کریں (آیت) ” ولا تستفت فیھم “۔ اور نہ ان میں سے کسی سے پوچھیں ، اصل بات وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتلائی ہے ، لہذا تمام معاملات میں اسی کتاب پر اعتماد ہونا چاہئے ۔ (کتاب الہی کی حفاظت) فرمایا اس کتاب کی حیثیت اس قدر قطعی اور یقینی ہے (آیت) ” لامبدل لکلمتہ “۔ کہ اس کے کلمات کو کوئی تبدیل کرنے والا نہیں ہے اس کتاب میں اللہ نے اپنے سچے دین کو غالب کرنے جو وعدہ فرمایا ہے وہ یقینا پورا ہو کر رہا ، حالانکہ مشرکین اور اہل کتاب ہمیشہ اس دین کو مٹانے کی کوشش کرتے رہے ، دلیل اور برہان کے اعتبار سے تو یہ دین تمام ادیان پر ہر وقت غالب ہے تاہم اللہ نے سیاسی طور پر بھی دین اسلام کو دنیا میں غالب کرکے اپنے وعدے کی تکمیل کردی ، غیر مسلم اقوام نے اللہ کے اس آخری پیغام میں تغیر وتبدل کی لاکھ کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوسکی ، اس سلسلہ میں یہودی ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں ابھی قریبی زمانہ میں جب اسلام کی روشنی افریقی ممالک میں پھیلی تو قرآن پاک کے نسخوں کی ضرورت محسوس ہوئی یہودیوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قرآن حکیم کے تحریف شدہ نسخے وہاں پہنچائے تاکہ لوگوں کو ان کے ذریعے اسلام سے منحرف کیا جاسکے مگر ان کی یہ سازش کامیاب نہ ہوسکی اللہ تعالیٰ نے مصر کے ناصر مرحوم کو توفیق بخشی جس نے قرآن کریم کے صحیح نسخے چھپوا کر لاکھوں کی تعداد میں افریقی ممالک میں تقسیم کیے اور اس طرح یہودیوں کی سازش ناکام ہوگئی ، یہ لوگ تراجم میں گڑبڑ کرنے کی کوشش کرتے ہیں نیز تحقیق کے نام پر مسلمانوں میں قرآن پاک سے متعلق غلط فہمیاں پیدا کر نیکی کوشش کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ ہر دور میں ایسے بندے پیدا کرتا رہا ہے جو اس قسم کی سازش کو بےنقاب کرکے قرآن کا اصل پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ ہر آنے والے دور میں ایسے عادل لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو باطل پرستوں اور غالیوں کی غلط تاویلات کا تعاقب کرتے رہیں گے ، فرمایا کسی دور میں بھی گمراہ لوگوں کو ایسا غلبہ کبھی حاصل نہیں ہوگا کہ حق بالکل ہی معدوم ہوجائے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کی حفاظت کا ذمہ خود اٹھا رکھا ہے اور اس کا جو مفہوم حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے سمجھا وہ آج تک محفوظ ہے ، بہرحال اللہ نے فرمایا کہ اس کتاب کے کلمات کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا ، قرآن پاک کی حفاظت کا انتظام اللہ نے مختلف طریقوں سے کر رکھا ہے ، اس کے الفاظ ، اعراب اور قرات کی حفاظت ہوئی ، ہر زمانے میں اس کی تفسیر و توضیح ہوتی رہی ، مسلمانوں نے صرف ونحو جیسے علوم ایجاد کیے جن کے ذریعے قرآن پاک کی ٹھیک ٹھیک وضاحت ہوتی رہی قرآن پاک کے کلمات اور صیغوں کی حفاظت ہوئی اور اس کی قرات میں کوئی خلل واقع نہ ہوا ، فقہ اور اصول فقہ جیسے علوم وفنون مدون ہوئے تاکہ قرآن پاک کے معانی ومطالب کو سمجھنے میں آسانی ہو ، فصاحت وبلاغت کے علوم کے ذریعے قرآن کی عبارت کو عمدگی سے سمجھنے میں مدد ملی ، پھر دین میں غلط باتوں کے در آنے کی نشان دہی ہوئی صحیح کو ضعیف سے ممتاز کیا گیا ، فقہائے کرام نے اجتہاد کے ذریعے مسائل کا استنباط کیا اور اس طرح قرآن حکیم کو صحیح طور پر سمجھنے میں مدد ملی ۔ قرآن پاک کے اصول ایسے پائیدار ہیں کہ اللہ نے فرمایا (آیت) ” وذلک دین القیمۃ “۔ (البینۃ ۔ 5) یہ مضبوط اور مستحکم دین ہے اس میں ایسی کوئی لچک نہیں کہ کوئی شخص اس کی حرام کردہ چیز کو حلال یا حلال کو حرام کر دے ، اس کے بتائے ہوئے حلت و حرمت کے قوانین ایسے مضبوط ہیں کہ کوئی فرد واحد ، جماعت یا حکومت ان کو تبدیل نہیں کرسکتی ، اس سلسلے میں ساری مخلوق عاجز ہے اور اس کے کلمات کو کوئی بھی تبدیل نہیں کرسکتا ۔ (اللہ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں) فرمایا (آیت) ” ولن تجد من دونہ ملتحدا “۔ اور آپ ہرگز نہ پائیں گے اس کے سوا کوئی جائے پناہ ، اللہ تعالیٰ کے احکام و فرامین کی نافرمانی کرنے والے مجرمین کو کہیں پناہ نہیں مل سکتی ، ” ملتحدا “ لحد کے مادے سے ہے جس کا معنی بغلی قبر ہوتا ہے ، لحد دراصل قبر کا انتہائی کنارہ ہوتا ہے ، اور دین میں الحاد بھی انتہائی کنارہ ہی ہوتا ہے ، جب انسان گمراہی میں پہنچ جاتا ہے تو اس کا معنی وہ آخری کنارہ ہے جہاں کوئی انسان پناہ پکڑ لے مگر فرمایا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کے سوا کہیں سہارا اور پناہ گاہ میسر نہیں آسکے گی ، جس نے اللہ کی حکم عدولی کی اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اب اس کے لیے کوئی ٹھکانا نہیں ہے ۔ (ضعفاء کی ساتھ ہم نشینی) کفار ومشرکین کمزور اور غریب مسلمانوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ، ان کے ساتھ بیٹھنا اپنی توہین تصور کرتے تھے ، اس لیے وہ حضور ﷺ سے کہتے کہ جب تک سلمان فارسی ؓ ، عبداللہ بن مسعود ؓ صہیب ؓ ، عمار بن یاسر ؓ وغیرہ جیسے غریب لوگ آپ کی مجلس میں موجود ہیں ہم آپ کے پاس نہیں بیٹھ سکتے ، اگر آپ ہمیں اپنی بات سنانا چاہتے ہیں تو ان غلاموں یا آزاد شدہ غلاموں کو اپنی مجلس سے اٹھا دیں اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو ان اولین جانثاران اسلام کی قدروقیمت سے آگاہ فرمایا اور ان ضعفا کی ہم نشینی کسی صورت میں بھی ترک نہ کر نیکی تلقین فرمائی ، ارشاد ہوتا ہے ، (آیت) ” واصبر نفسک مع الذین یدعون ربھم بالغدوۃ والعشی “۔ آپ صبر کریں اور اپنے آپ کو روکے رکھیں ان لوگوں کے ساتھ جو اپنے پروردگار کو صبح وشام پکارتے ہیں یعنی اسلام کے ان جانثاروں کو اپنی مجلس سے الگ نہ کریں دوسرے مقام پر ہے کہ اگر آپ نے انکو الگ کیا تو آپ زیادتی کرنے والے ہوجائیں گے ، دیکھو ! نوح (علیہ السلام) کی قوم کے امراء نے بھی آپ کے متبعین کے متعلق یہی بات کی تھی (آیت) ” ما نرک اتبعک الا الذین ھم اراذلنا بادی الرای “۔ (ھود۔ 27) ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے متبعین گھٹیا قسم کے لوگ ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں ، آپ کا پیروکار کوئی بڑا آدمی تو نہیں ہے سب کمین لوگ ہیں ، بھلا ان کی موجودگی میں ہم آپ کے ساتھ کیسے بیٹھ سکتے ہیں وہاں بھی اللہ نے نوح (علیہ السلام) کی زبان سے یہی کہلوایا کہ میں ان غریب لوگوں کو اپنی مجلس سے دھکیل دوں گا تو میں ظلم کرنے والوں میں سے بن جاؤں گا ، یہاں بھی اللہ نے فرمایا کہ صبح وشام اللہ کا ذکر کرنے والوں کو اپنی مجلس سے دور نہ کریں ، یہی لوگ آپ کا قیمتی سرمایہ ہیں جو اس وقت ایمان لائے جب مخالفت اور ایذاء رسانیوں کی تند وتیز آندھیاں چل رہی تھیں ۔ (رضائے الہی کی طلب) فرمایا یہ ایسے لوگ ہیں (آیت) ” یریدون وجھہ “ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے طالب ہیں ، ان کے پیش نظر کوئی دنیاوی مقصد نہیں ہے بلکہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی کی تلاش میں رہتے ہیں جو کہ بلند ترین مقام ہے یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں معزز ترین لوگ ہیں کیونکہ ان کا منتہائے مقصود اعلی ورافع ہے جس سے اللہ راضی ہوگیا اسے سب کچھ مل گیا ، (آیت) ” ورضوان من اللہ اکبر “۔ اللہ کی رضا تو سب سے بڑھ کر ہے کسی فرد جماعت یا قوم کی فلاح اسی میں ہے ۔ اکثر لوگ دنیا کی ترقی کے پیچھے ہی پڑے رہتے ہیں ، اسلام اس کا مخالف تو نہیں لیکن دنیا میں منہمک ہو کر اگر انسان کا اصل مقصد ہی فوت ہوگیا تو پھر اس مادی ترقی کا کیا فائدہ ؟ لوگ امریکہ اور دوسرے امیر ملکوں پر رشک کرتے ہیں کہ انہیں دنیا کی تمام ضروریات بافراط میسر ہیں اور وہ عیش و آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں مگر اس چند روزہ زندگی کے بدلے اگر ابدی زندگی خراب ہوگئی تو بڑے ہی نقصان کا سودا ہے اگرچہ ترقی یافتہ لوگ بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں مگر ان میں بھی حقیقت کا فقدان ہوتا ہے کیا امریکہ اور برطانیہ میں غریب لوگ نہیں ہیں ؟ روس کا دعوی بھی غلط ہے کہ سب کو ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہیں ، وہاں بھی بعض کو اچھے مواقع مل جاتے ہیں اور بعض محروم رہ جاتے ہیں ۔ بعض عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہیں اور بعض تنگی میں گزر اوقات کرتے ہیں ان کے ضمیر کچلے ہوئے ہیں ، آزادی فکر حاصل نہیں وہ تو جانوروں کی طرح مجبور محض ہیں ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ قیصر و کسری کے زمانے میں انسانوں سے بیلوں اور گدھوں کی طرح کام لیا جاتا تھا مگر انہیں اتنا وقت نہیں تھا کہ اپنی عاقبت کے متعلق بھی کچھ سوچ سکیں ، جو وقت محنت مزدوری سے بچ جاتا ہے وہ لعب ولہو کی نذر ہوجاتا ہے ، اللہ کی رضا نہ ان کا مقصود ہے اور نہ وہ اس کے لیے کوشش کرتے ہیں بہرحال اللہ نے ان غریب اہل ایمان کی تعریف فرمائی ہے کہ وہ اللہ کی خوشنودی کے طلبگار رہتے ہیں ۔ (درمیانی حالت ہی بہتر ہے) حضور ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے بارے میں اللہ نے اجتماعی طور پر فرمایا ہے (آیت) ” یبتغون فضلا من اللہ ورضوانا “۔ (الفتح ، 29) کہ وہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں ، امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) کی اصطلاح میں فضل کا معنی ارتفاق یعنی دنیوی زندگی اچھے طریقے سے بسر کرنے کا طور طریقہ ہے ، اور رضوان سے مراد خدا تعالیٰ کا قرب ہے جسے وہ مختلف طریقوں سے حاصل کرتے ہیں ، اسی طرح ایمانداروں کے پاس بہتر طور پر زندگی بسر کرنے کا طریقہ بھی ہونا چاہئے ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ انسان کی تیں حالتیں ہیں بالکل معمولی حالت میں تنگی کی زندگی بسر کرنے کو تقشف کہتے ہیں ، اس کو بھی پسند نہیں کیا گیا دوسری حالت رفاہیت بالغہ کی ہے جس کا مطلب ہے کہ انسان کو انتہائی درجے کی خوشحالی حاصل ہو ، وہ بہترین مکان میں رہائش اختیار کرے بہترین لباس پہنے ، خوراک بھی بہترین ہو اور سواری بھی نہایت عمدہ ہو ، یہ حالت بھی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے ” خیرالامور اوسطھا “ ۔ درمیانی حالت ہی اچھی ہے ، لباس ہر شخص کو ملنا چاہئے مگر نہ بہت کم تر اور نہ زیادہ شان و شوکت والا ، اگر جائز ذرائع سے کسی کو اچھا لباس میسر آتا ہے تو بیشک استعمال کرے مگر ہر وقت اچھے سے اچھے لباس ، مکان ، سواری اور عیش و عشرت کے پیچھے پڑے رہنا رفاہیت بالغہ اور ملوکیت کی علامت ہوگا ، اس سے غریبوں کا حق تلف ہو کر سوسائٹی میں بگاڑپیدا ہوتا ہے لہذا بہتری اسی میں ہے کہ دنیا کے بہترین لوازمات حاصل کرنے کی بجائے انسان درمیانی حالت پر اکتفا کرے ، اجتماعی نظام اسی صورت میں درست ہو سکتا ہے ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ جس بستی کی آبادی دس ہزار نفوس کی ہوجائے وہاں مختلف پیشوں (OCCUPATIONS (آکوپٹیشن) میں توازن قائم کرنا ضروری ہوجاتا ہے صحیح پیشوں کی حوصلہ افزائی اور غلط پیشوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے تاکہ معاشرے میں اونچ نیچ ختم ہو اور سب کو ترقی وتعلیم کے یکساں مواقع میسر ہوں انسانوں کو جانوروں کی طرح کام پر نہیں لگانا چاہئے بلکہ انہیں اتنا وقت ضرور ملنا چاہئے جس میں وہ اپنی عاقبت کی بہتری کے لیے سوچ وبچار کرسکیں (آیت) ” وتبتل الیہ تبتیلا “۔ (المزمل ، 8) اور کچھ دیر کے لیے اپنے پروردگار کے ساتھ بھی لو لگا سکیں ، بہرحال اللہ نے فرمایا کہ اے پیغمبر ! ﷺ آپ اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ روک رکھیں جو صبح شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اس کی رضا کے متلاشی رہتے ہیں ۔ (غرباء کی طرف نگاہ شفقت) اللہ نے اپنے پیغمبر کو یہ بھی فرمایا (آیت) ” ولا تعد عینک عنھم “۔ آپ اپنی نگاہ شفقت ایسے مخلص لوگوں سے دور نہ کریں بلکہ ہر وقت ان پر نگاہ شفقت رکھیں (آیت) ” نرید زینۃ الحیوۃ الدنیا “۔ کیا آپ دنیا کی زندگی چاہتے ہیں ؟ یہ مقصود نہیں ہے بلکہ اصل مقصود اللہ کی رضا ہے اور اسی کی فکر کرنی چاہئے ، جب کبھی حضور ﷺ کے دل میں ذرا بھی خیال پیدا ہوا کہ ان ضعفاء کو تھوڑی دیر کے لیے علیحدہ کر کے امراء کو بھی اسلام کی حقانیت سے خبردار کیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے اس کی نفی کردی ، فرمایا آپ یہ نہ خیال کریں کہ امرا کے ایمان قبول کرلینے سے اسلام پر بڑی رونق آجائے گی نہیں بلکہ ایمان کی رونق تو اللہ تعالیٰ کی یاد سے آئے گی محض مال و دولت سے اسلام ترقی نہیں کرسکتا ، اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر حضور ﷺ نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میری امت میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے ساتھ ہم نشینی کا مجھے حکم دیا گیا ہے چناچہ آپ ہمیشہ انہی لوگوں میں بیٹھنا پسند کرتے تھے ۔ ابو داؤد طیالسی نے اپنی مسند میں اس حدیث کو بیان کیا ہے جس کا ذکر امام ابن کثیر (رح) نے بھی کیا ہے ۔ لان اجالس قوم یذکرون اللہ عزوجل من صلوۃ الغداۃ الی طلوع الشمس احب الی مما طلعت علیہ الشمس “۔ ” یہ کہ میں بیٹھ جاؤں ان لوگوں کے ساتھ جو صبح کی نماز سے لے کر طلوع سورج تک اللہ کا ذکر کرتے ہیں یہ میرے نزدیک ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ۔ ” ولان اذکر اللہ من صلوۃ العصر الی غروب الشمس احب الی من ان اعتق ثمنیۃ من ولد اسمعیل دیۃ کل واحد منھم اثنا عشر الفا “۔ یہ کہ نماز عصر سے لے کر غروب شمس تک بیٹھ کر اللہ کا ذکر کروں یہ میرے نزدیک اس سے بہتر ہے کہ میں اولاد سماعیل (علیہ السلام) سے آٹھ غلام آزاد کرو جن میں سے ہر ایک کی دیت بارہ ہزار ہو ۔ خدا تعالیٰ کا ذکر اتنی بلند چیز ہے اور یہ غریب لوگ ہی ہیں جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں رہتے ہیں اللہ نے فرمایا کہ آپ ان کے ساتھ بیٹھنے کی کوشش کریں ، اور یہ نہ خیال کریں کہ بڑے لوگوں کو اہمیت دینے سے اسلام کی ترقی ہوجائے گی ، حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نبیوں پر اولین ایمان لانے والے ہمیشہ غریب لوگ ہی ہوئے ہی بڑے لوگ تو بالکل آخر میں آتے ہیں جب ان کے لیے فرار کے تمام راستے مسدود ہوجاتے ہیں ، ابو سفیان ؓ اور دیگر بڑے بڑے اکابرین فتح مکہ کے بعد ہی ایمان لائے ، اور جو لوگ روز اول سے تکالیف برداشت کر رہے تھے ان کا مرتبہ بہت زیادہ ہے ، وہ ہر امتحان میں کامیاب ہوئے ، مال وجان قربان کیا ، ہجرت کی صعوبتیں برداشت کیں ، وطن چھوڑا مگر دین کو سینے سے لگائے رکھا ، اللہ انہی کے ساتھ ہم نشینی کی ہدایت کی ہے ۔ (یاد الہی سے غفلت) مزیدار ارشاہ ہوا (آیت) ” ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذ کرنا “۔ اور آپ اس شخص کی بات نہ مانیں جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے یہ وہی لوگ ہیں جو حضور ﷺ کے بدترین دشمن تھے ، فرمایا ہم نے انہیں اپنی دیا سے غافل کردیا ہے مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ نے ان کی ضد اور عناد کی وجہ سے سزا کے طور پر انہیں اپنی یاد سے غافل کردیا ، یہودیوں کے متعلق بھی فرمایا (آیت) ” وجعلنا قلوبھم قسیۃ “۔ (المائدۃ ، 13) ان کی نافرمانی کی وجہ سے ہم نے ان کے دلوں کو سخت کردیا ہے اور یہ حق کی طرف رجوع ہی نہیں کرتے ۔ بعض فرماتے ہیں کہ اغفلنا کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس کے دل کو غفلت کی طرف منسوب کردیا ہے عربی زبان میں یہ لفظ نسبت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے کمیت شاعر نے کہا ہے ۔ طائفۃ قد اکفرونی بحبکم وطائفۃ قالوا مسیء ومذنب : تہاری محبت کی وجہ سے ایک گروہ نے مجھے کفر کی طرف منسوب کیا ہے اور دوسرے گروہ نے مجرم اور گنہگار کہا ہے جس طرح اکفرونی کا مطلب کفر کی طرف منسوب کرنا ہے اسی طرح اغفلنا ہے غفلت کیطرف منسوب کرتا ہے ۔ مثل السائر والے امام ابن جریر (رح) فرماتے ہیں کہ (آیت) ” من اغفلنا “ کا معنی صادفنا قلبہ غافلا “ ہے یعنی جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل پایا ہے غافل کیا نہیں بلکہ غافل پایا ہے ، غفل اس تیر کو بھی کہتے ہیں جس پر کوئی نشان نہ ہو ، زمانہ جاہلیت میں جوئے کے دن تیر استعمال کیے جاتے تھے جن میں سے سات تیروں پر ایک سے سات تک نمبر لکھے ہوئے تھے اور باقی تین تیر خالی ہوتے تھے وہ غفل کہلاتے تھے اور یہاں مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے اور ایمان سے غفل یعنی خالی بنادیا ہے آپ اس کی بات نہ مانیں بعض مفسرین اغفلنا کا معنی رسوا کردینا کرتے ہیں اور جملے کا مطلب یہ کہ جو شخص اللہ کی یاد سے غفلت برتتا ہے وہ ذلیل ورسوا ہوجاتا ہے ۔ (خواہشات کا اتباع) فرمایا ایسا شخص (آیت) ” واتبع ھوہ “ اپنی خواہش کے پیچھے چلتا ہے وہ شخص حق کا متلاشی نہیں ہوتا ، نہ کسی صحیح اصول کا طالب ہوتا ہے بلکہ ہمیشہ اپنی نفسانی خواہش کی تکمیل چاہتا ہے ، ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا (آیت) ” ولا تتبعوا خطوت الشیطن “۔ (البقرۃ ، 168) شیطا کے نقش قدم پر مت چلو ، کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے عقائد باطلہ اور بدعات کی پیروی دراصل شیطان ہی کا اتباع ہے ، کیونکہ اللہ کی خوشنودی کا راستہ تو صرف وہی ہے جو حضور ﷺ نے بتلایا ہے ، ہر خوشی اور غمی میں وہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے ، اگر خواہشات کے پیچھے چلو گے تو تباہ ہوجاؤ گے اور خدا کی خوشنودی حاصل نہیں ہو سکے گی ، غرضیکہ فرمایا کہ آپ اس شخص کی بات نہ مانیں جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل پایا اور اس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی ۔ فرمایا (آیت) ” وکان امرہ فرطا “ ایسے شخص کا معاملہ تو حد سے بڑھا ہوا ہے وہ افراط وتفریط کا شکار ہے جو کہ بڑی ہی مذموم چیز ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر خاتم النبیین کو بھی یہ ادب سکھلایا ہے اور پھر آپ کے واسطہ سے باقی امت کو بھی کہ وہ غریب اور نادار اہل ایمان کو حقیر نہ سمجھیں بلکہ ان کے ساتھ ہم نشینی اختیار کریں ، ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کریں دولت مندوں کی خوشامد نہ کریں اور غرباء کو نظر انداز نہ کریں حضور ﷺ نے دعا میں بھی یہ الفاظ سکھلائے ہیں ” اللھم احینی مسکینا وامتنی مسکینا واحشرنی فی زمرۃ المسکین “ ۔ اے اللہ ! مجھے مسکین ہی زندہ رکھ اور مسکین کی حالت میں وفات دے اور امیر حشر بھی مسکینوں کے ساتھ ہی فرما ، آپ ﷺ نے ” حب المسکین “ کی بھی دعا فرمائی یعنی باری تعالیٰ مجھے مسکینوں کے ساتھ محبت رکھنے کی توفیق عطا فرما ، الغرض اللہ نے امراء کی نسبت غرباء کو ترجیح دی ہے اور انہیں کے ساتھ روابط قائم رکھنے کی تلقین فرمائی ہے ۔
Top