Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 4
وَّ یُنْذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًاۗ
وَّيُنْذِرَ : اور وہ ڈرائے الَّذِيْنَ قَالُوا : وہ جن لوگوں نے کہا اتَّخَذَ : اللہ نے بنا لیا ہے اللّٰهُ : اللہ وَلَدًا : بیٹا
اور ڈرائے ان لوگوں کو جو کہتے ہیں کہ اللہ نے اولاد بنائی ہے ۔
ربط آیات : گذشتہ درس میں قرآن پاک کے نزول کا ذکر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل ترین بندے پر ایک عظیم المرتب کتاب نازل فرمائی جس میں کسی قسم کی غلطی تضاد ، تخالف یا خلاف واقع بات نہیں ہے ، یہ کتاب سابقہ کتب سماویہ اور اللہ کے بندوں کی مصلحتوں کی محافظ اور نگران ہے ، نزول کتاب کا مقصد اللہ نے یہ بیان فرمایا ، تاکہ اللہ کا بندہ اللہ کی طرف سے آنے والی سخت گرفت سے لوگوں کو آگاہ کرے اور اہل ایمان کو خوشخبری دے کہ اعمال صالحہ انجام دینے والے لوگوں کے لیے اچھا اجر ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔ (تخویف برائے تجویز کنندگان اولاد) اب آج کی پہلی آیت میں اللہ نے نزول کتاب کا دوسرا مقصد بیان کیا ہے (آیت) ” وینذرالذین قالوا اتخذ اللہ ولدا “۔ کہ وہ ڈر سنائے ان لوگوں کو جو کہتے ہیں کہ اللہ نے اولاد بنا رکھی ہے پہلی وعید عام لوگوں کے لیے تھی کہ سب کو اللہ کی گرفت سے ڈرا دیا جائے اور یہ خصوصی تخویف صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرتے ہیں ان میں اول نمبر نصاری ہیں ، یہ باپ ، بیٹا اور روح القدس کے عقیدے والے تثلیث پرست لوگ ہیں ، دنیا میں ان کی کثیر آبادی ہے اور یہی لوگ حماری تہذیب یعنی پیٹ اور شہوت کے امام ہیں ، ان میں سے بعض تو تثلیث کے قائل ہیں جو کہتے ہیں (آیت) ” ان اللہ ثالث ثلثۃ “ (المائدہ۔ 73) یعنی خدا تعالیٰ تینوں میں تیسرا ہے اور بعض نے یوں کہہ دیا (آیت) ” ان اللہ ھو المسیح ابن مریم “۔ (المائدۃ ۔ 72) خدا تو بعینہ مسیح ابن مریم ہے ، یہ ہندوؤں کے اوتار والا عقیدہ ہوگیا کہ خدا تعالیٰ بعض شخصیتوں میں حلول کرجاتا ہے ، پھر عیسائیوں نے یہ بھی کہا (آیت) ” وقالت النصری المسیح ابن اللہ “۔ (التوبۃ ، 30) یعنی مسیح (علیہ السلام) اللہ کا بیٹا ہے ، اور اس طرح انہوں نے خدا تعالیٰ کا جزو مان لیا۔ دوسرا گروہ جنہیں ڈرانا مقصود ہے ، وہ یہودیوں کا ہے انہوں نے بھی خدا کا بیٹا تجویز کیا (آیت) ” وقالت الیھود عزیر ابن اللہ “۔ (التوبۃ ، 30) یہودیوں نے کہا کہ عزیر (علیہ السلام) خدا کا بیٹا ہے اور اس طرح وہ بھی عقیدہ ابنیت میں ملوث ہوگئے ، یہودی سارے تو اس عقیدے کے قائل نہیں ، تاہم ایک عزیری فرقہ ہے جو آپ کو خدا کا بیٹا مانتا ہے ، حضرت عزیر (علیہ السلام) بابل میں قید کردیے گئے ، پھر جب کافی عرصہ کے بعد آپ باہر آئے تو تورات معدوم ہوچکی تھی ، چناچہ انہوں نے تورات حرفاحرفا لوگوں کے سامنے پیش کردی اس پر وہ لوگ کہنے لگے کہ یہ کام خدا کا بیٹا ہی کرسکتا ہے ، چناچہ انہوں نے یہی عقیدہ واضع کرلیا ،۔ بعض وحدت الوجودی بھی عقیدہ حلول کے قائل ہیں ، وہ کائنات کی تمام چیزوں کو خدا تعالیٰ کا مظہر یا اوتار مانتے ہیں لہذا یہ بھی مشرک ہیں ، البتہ وحدت الوجود کا صحیح عقیدہ یہ ہے کہ تمام چیزوں کا قیم صرف خدا تعالیٰ ہے چناچہ خواجہ علی ہجویری (رح) اپنی کتاب کشف المجوب میں بیان کرتے ہیں کہ صوفیا کے بارہ فرقے ہیں ، ان میں سے دو فرقے گمراہ ہیں جو خدا تعالیٰ کو انسانی روپ میں مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسانی شکل میں حلول کر آیا ہے اس کے علاوہ باق دس فرقے حق پر ہیں ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کی اولاد تجویز کرنے والوں کے لیے اس کتاب کے ذریعے خاص طور پر تخویف دلائی گئی ہے چونکہ اس ضمن میں بدترین عقیدہ نصاری کا ہے جو عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع الی السماء ، کے کچھ عرصہ بعد پولس نے وضع کیا تھا ، لہذا سب سے زیادہ تخویف بھی انہی کے حصے میں آتی ہے اس وقت نصاری کی اپنی تعداد بھی بہت زیادہ ہے اور اگر اس میں یہودیوں کے عزیری فرقہ اور ہندؤوں کے اوتاری فرقہ کو بھی شامل کرلیا جائے تو پھر تعداد بہت بڑھ جاتی ہے حقیقت یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کی اپنی تعلیم یہ ہے (آیت) ” یبنی اسرآء یل اعبدوا اللہ ربی وربکم انہ من یشرک باللہ فقد حرم اللہ علیہ الجنۃ وماوہ النار “۔ (المائدۃ 72) اے لوگو ! عبادت صرف اللہ کی کرو ، جس نے بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا تو اللہ نے اس پر جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانا دوزخ میں ہوگا ، غرضیکہ یہ اولاد تجویز کرنے والے نصاری ہوں یا یہودی ، حلولی ہوں یا اوتاری یا اشتراکی سب مشرک ہیں اور اللہ نے نزول کتاب کا مقصد یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ کا کامل ترین بندہ ایک تو عام لوگوں کو آنے والے عذاب سے ڈرا دے اور دوسرا خاص طور پر ان لوگوں کو ڈرائے جنہوں نے اللہ کے لیے اولاد تجویز کرکے شرک کا ارتکاب کیا ہے ۔ (کفارکا غلط عقیدہ) نصاری میں مشرکانہ عقائد کا حال یہ ہے کہ ان کے جہال لوگ تو عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا تعالیٰ کی حقیقی اولاد مانتے ہیں اور جو اہل علم ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدا نے آپ کو بیٹا بنا کر ہر قسم کے اختیارات دے دیے ہیں ، وہ مشکل کشائی اور حاجت روائی کرتے ہیں جس کو چاہیں عطا کردیں اور جس سے چاہیں چھیں لیں ، وہ نافع اور ضار ہیں ، ان کو ہر چیز پر تصرف حاصل ہے اس طرح یہ دونوں گروہ شرک کے مرتکب ہوئے اور سب سے بڑھ کر انہوں نے یہ عقیدہ ایجادکر لیا کہ مسیح (علیہ السلام) سولی پر چڑھ کر ساری نسل انسانی کے لیے کفارہ بن گئے ہیں اور نجات اسی کو حاصل ہوگی جو اس عقیدہ پر ایمان لائے گا ، ایسا شخص دنیا میں کچھ بھی کرتا پھرے ، وہ جنت میں پہنچ جائے گا ، یہ خلاف فطرت اور نامعقول عقیدہ ہے اور اس عقیدے نے بھی دنیا کو تباہ وبرباد کیا ہے ، بھلا یہ کہاں کا انصاف ہے کہ گناہ کوئی کرے اور سزا کسی دوسرے کو ملے ، قرآن پاک میں اس بات کی بار بار وضاحت کی گئی ہے (آیت) ” لا تزر وازاۃ وزراخری “۔ (بنی اسرائیل ۔ 15) کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا بلکہ ہر شخص کو اپنے اعمال کی جوابدہی خود کرنا ہوگی حضور ﷺ کا فرمان بھی ہے ” لاتجنی علیہ ولا یجنی علیک “ تیرا بوجھ بیٹا نہیں اٹھائے گا اور بیٹے کا بوجھ تجھ پر نہیں ڈالا جائے گا ، یہ اولاد ماننے والوں کے لیے خاص انداز ہوگیا ۔ (مسلمانوں کے غلط عقائد) ہم اہل کتاب اور دیگر مشرکین کی بات تو کرتے ہیں مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ وہ مسلمان خود شرک میں مبتلا ہو کر گمراہ ہوچکے ہیں جن کو اللہ کی آخری کتاب میں سابقہ اقوام کے شرک سے خبردار کیا گیا اور ڈرانے کا حکم دیا گیا ، عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھ لیا تھا ، تو آج کا نام نہاد مسلمان اولیاء اللہ سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کی آس لگائے بیٹھا ہے ، ان کے نام کی نذریں مانی جاتی ہیں ، ان کے مزاروں پر چڑھاوے چڑھتے ہیں قبروں کو غسل دیا جاتا ہے ، اور ان کی چادر پوشی کی جاتی ہے ، ان کو نافع اور ضار سمجھا جاتا ہے گویا اللہ نے تصرف کی ساری چابیاں اولیاء اللہ کو منتقل کردی ہیں یہ شرک ہے جو بدترین گناہ ہے ، اللہ نے فرمایا (آیت) ” ان الشرک لظلم عظیم “۔ (لقمان) شرک بہت بڑا ظلم ہے ، عیسائیوں اور ہندوؤں نے اللہ کے بندوں کو خدا کا جزو مان لیا (آیت) ” وجعلوا لہ من عبادہ جزئا “۔ (الزخرف ، 15) مشرکین عرب کا ایک گروہ کہتا تھا کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وجعلوا بینہ وبین الجنۃ نسبا “۔ (الصفت۔ 158) انہوں نے اللہ تعالیٰ اور جنات کے درمیان رشتہ داری قائم کرلی ، آج مسلمانوں نے بھی ” نور من نور اللہ “۔ کا عقیدہ وضع کرکے سابقہ مشرکین کے قدم پر قدم رکھ دیا شرک ہی ایک ایسا بدترین گناہ ہے جس کو مٹانے کے لیے اللہ نے ایک لاکھ سے زیادہ انبیاء مبعوث فرمائے ۔ (بلادلیل دعوی) فرمایا جو لوگ اللہ کے لیے اولاد تجویز کرتے ہیں (آیت) ” مالھم بہ من علم ولا لابآء ھم “۔ ان کے پاس اس دعوی کے لیے کوئی علم نہیں ہے یعنی نہ ان کے پاس کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ نقلی نہ صرف انہوں نے بلکہ ان کے آباؤ اجداد نے بھی بلادلیل یہ عقیدہ قائم کر رکھا تھا ، بھلا خدا تعالیٰ کو اولاد کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ کیا وہ نسل کا بھوکا ہے کہ بڑھاپے میں اولاد کام آئے گی یا وہ محتاج ہے کہ اولاد اس کی خدمت کرے گی ؟ خدا تعالیٰ تو ان چیزوں سے منزہ ہے ۔ وہ خود مدبر اور متصرف ہے گذشتہ سورة کی آخری آیت میں بھی گزر چکا ہے کہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے کوئی اولاد نہیں بنائی اور اس کی بادشاہی میں اس کا کوئی شریک نہیں ، سورة یوسف میں موجود ہے کہ اللہ کے سوا تم جن کی عبادت کرتے ہو وہ تو محض نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے رکھ لیے ہیں (آیت) ” ما انزل اللہ بھا من سلطن “۔ (آیت ۔ 40) اللہ نے اس کے لیے کوئی دلیل نہیں اتاری اور تمہارا دعوی بالکل باطل ہے ، فرمایا (آیت) ” کبرت کلمۃ تخرج من افواھم “۔ خدا کی اولاد ٹھہرانے والی ایک بڑی بات ہے جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہے ان کے پاس محض یہی باطل دلیل ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد ایسی ہی کرتے ہیں ، حالانکہ اللہ کا فرمان ہے (آیت) ” اولوکان ابآؤ ھم لا یعقلون شیئا ولا یھتدون “۔ (البقرۃ : 17) اگرچہ ان کے آباؤ و اجداد عقل و شعور اور ہدایت سے خالی ہوں مگر یہ انہی کا اتباع کیے جا رہے ہیں ، سورة الانبیاء میں اللہ نے فرمایا ہے کیا انہوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو معبود بنا لیا ہے اے پیغمبر ” (آیت) ” قل ھاتوا برھانکم “۔ (آیت۔ 24) ان سے کہہ دیجئے کہ لاؤ اگر تمہارے پاس کوئی دلیل ہے مگر وہ دلیل کہاں سے لائیں گے حقیقت یہ ہے (آیت) ” ان یقولون الا کذبا “۔ ان کا اولاد تجویز کرنے کا دعوی نرا جھوٹ ہے کسی کو کدا کا بیٹا بنانا اور فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہنا سراسر جھوٹ ہے اللہ نے خود عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے کہلوایا (آیت) ” انی عبداللہ “۔ (مریم ، 30) میں تو خدا تعالیٰ کا بندہ ہوں ، بیٹا نہیں اور جن کو یہ خدا کی بیٹیاں سمجھتے ہیں “ (آیت) ” بل عباد مکرمون “۔ (الانبیاء ، 26) وہ تو اللہ کے مکرم بندے ہیں فرشتے خدا کی عبادت گزار مخلوق ہے ، وہ خدا کے سامنے عاجزی کرتے ہیں ہیں اور اسی سے ترقی درجات کی درخواست کرتے ہیں ، جس طرح شجر ، حجر ، جن انسان اور جانور اللہ کے محتاج ہیں اسی طرح فرشتے بھی اس کے محتاج ہیں تو فرمایا ابنیت کا گندہ عقیدہ سراسر جھوٹ ہے ۔ (حضور ﷺ کے لیے تسلی) اگلی آیت میں حضور ﷺ کو تسلی دی گئی ہے ، آپ ﷺ لوگوں کو شرک میں مبتلا دیکھ کر ہر چند سمجھانے کی کوشش کرتے ، جب آپ کی تبلیغ کا ان پر کوئی اثر نہ ہوتا تو آپ کو سخت صدمہ پہنچتا ، بعض اوقات آپ اس صدمہ سے نڈھال ہوجاتے ، اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی (آیت) ” فلعلک باخع نفسک علی اثارھم ان لم یؤمنوا بھذا الحدیث اسفا “۔ شاید آپ ان کے پیچھے اپنا گلا گھونٹ لیں ، اس بات پر افسوس کرتے ہوئے کہ یہ لوگ قرآن پر ایمان کیوں نہیں لاتے ، ” ھذا الحدیث “۔ سے مراد اللہ کا مقدس کلام قرآن پاک ہے ۔ حضور ﷺ مشرکین کی شرک پر ہٹ دھرمی اور پھر ان کی جہنم رسیدگی پر بڑا کڑھتے تھے مگر اللہ نے تسلی دی (آیت) ” ولا تسئل عن اصحب الجحیم “۔ (البقرۃ ۔ 119) اہل دوزخ کے متعلق آپ سے کوئی پرس نہیں ہوگی کہ یہ لوگ کیوں جہنم کا ایندھن بنے ، بلکہ خود ان سے دریافت کیا جائے گا (آیت) ” ما سلککم فی سقر “۔ (المدثر ، 42) کہ تم جہنم میں کس وجہ سے آئے ؟ اللہ نے حضور ﷺ سے فرمایا (آیت) ” بلغ ما انزل الیک من ربک “ (المائدۃ 67) آپ اپنا فریضہ تبلیغ ادا کرتے رہیں جہاں تک راہ راست پر لانے کا تعلق ہے (آیت) ” انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشآء “ (القصص ، 56) آپ اپنی پسند کے مطابق کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جس کو چاہے ہدایت دے دے ۔ کسی کو منزل مقصود تک پہنچانا آپ کا کام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے یہ تسلی کا مضمون ہوگیا ۔ (زمینی رونق برائے آزمائش) فرمایا (آیت) ” انا جعلنا ما علی الارض زینۃ لھا “۔ بیشک ہم نے زمین پر کی ہر چیز کو اس کے لیے رونق بنایا ہے ، زمین پر موجود پھل پھول ، نباتات ، حیوانات ، جمادات ، مع دنیات ، زر و جواہر سب کچھ اس کی زینت اور رونق ہے اور یہ چیزیں پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے (آیت) ” لنبلوھم ایھم احسن عملا “۔ تاکہ ہم تم کو آزمائیں کہ اس رونق میں پھنس کر کون اچھے عمل کرتا ہے اور کون ایسا ہے جو آخرت سے روگردانی کرتا ہے توحید خداوندی سے منہ موڑتا ہے اور برے عقائد کون اختیار کرتا ہے اس لیے حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ تم میں سے زیادہ عقل مند وہ آدمی ہے جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے بچتا ہے اور اس کی اطاعت میں جلدی کرتا ہے حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ دنیا میٹھی بھی اور سرسبز بھی ، اللہ تعالیٰ نے باغات ، کھیت اور چراگاہیں پیدا کرکے تمہیں اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے (آیت) ” فینظر کیف تعملون “۔ پھر وہ دیکھتا ہے کہ تم کیسے کام انجام دیتے ہو ، نیکی کی طرف راغب ہوتے ہو یا لہو ولعب میں الجھ کر رہ جاتے ہو حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا ” الا فاتقوا لدنیا واتقوالنساء “ خبردار ! دنیا اور عورتوں کے فتنے سے بچتے رہو ، فرمایا بنی اسرائیل میں گمراہی کا فتنہ عورتوں کی وجہ سے ہی پیدا ہوا ، ان فتنوں میں مبتلا ہو کر اپنے اعلی مقصد کو نہ بھول جانا ، خدا کی توحید اور آخرت سے بیگانہ نہ ہوجانا ، اللہ تمہیں آزمانا چاہتا ہے ۔ اور یہ بھی یاد رکھو ، (آیت) ” وانا لجعلون ما علیھا صعیدا جرزا “۔ اور بیشک ہم بتانے والے ہیں جو کچھ اس زمین پر ہے چٹیل میدان جب قیامت برپا ہوگی تو زمین میں کوئی اونچ نیچ ، ٹیلہ ، پہاڑ ، درخت ، دریا ، سمندر وغیرہ نہیں ہوگا بلکہ ہر چیز فنا ہوجائے گی ، اور زمین چٹیل میدان رہ جائے گی ، مطلب یہ ہے کہ یہ زمین اور اس کی تمام رونقیں عارضی ہیں اور ایک دن فنا ہونے والی ہیں ، لہذا ان میں پھنس کر اللہ کی یاد کو نہ بھلا بیٹھنا ورنہ سخت نقصان اٹھاؤ گے ، یہ تو سب کچھ تمہاری آزمائش کے لیے ہے ۔
Top