Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 54
وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا : اور البتہ ہم نے پھیر پھیر کر بیان کیا فِيْ : میں هٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے مِنْ : سے كُلِّ مَثَلٍ : ہر (طرح) کی مثالیں وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان اَكْثَرَ شَيْءٍ : ہر شے سے زیادہ جَدَلًا : جگھڑنے والا
اور البتہ تحقیق ہم نے پھیر پھیر کر (مختلف طریقوں سے) بیان کی ہیں اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر قسم کی مثالیں اور ہے انسان زیادہ جھگڑالو۔
ربط آیات : گذشتہ سے پیوستہ درس میں اللہ تعالیٰ نے مال اولاد کو دنیا کی زندگی کی رونق سے تعبیر کیا تھا اور تلقین کی تھی کہ ان چیزوں میں منہمک ہو کر اپنے مقصود حقیقی سے غافل نہ ہوجانا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں باقیات الصالحات ہی بہتر ہیں ، مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ کا ذکر اور تسبیح کے کلمات ، تمام عبادات اور نیکی کے کام باقیات الصالحات میں داخل ہیں ، مفسر قرآن اور مشہور تابعی حضرت عطاء (رح) فرماتے ہیں کہ نیکی نیتی بھی باقیات الصالحات میں شامل ہے ۔ اس کے بعد گذشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کی گمراہی کا ذکر کیا اور انسانوں کو آگاہ کیا کہ ابلیس اور اس کی اولاد تمہاری دشمن ہے ، انہیں اپنا دوست مت بناؤ ابلیس نے تکبر کی بنا پر خدا تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی اور اس پر محرومی اور لعنت پڑی ، اس سے پچھلی آیت میں محاسبہ اعمال کا ذکر بھی ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر شخص کا نامہ اعمال اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا اس وقت اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا ” یا ملٓئکتی اقیموا عبادی علی اطراف انامل اقدامھم للحساب “۔ اے میرے فرشتو ! میرے بندوں کو پاؤں کی انگلیوں پر حساب کتاب کے لیے کھڑا کر دو ، حشر کے میدان میں اتنا ہجوم ہوگا کہ پاؤں رکھنے کی جگہ بھی نہیں ہوگی اور لوگ پاؤں کی انگلیوں پر کھڑے ہوں گے ۔ اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی ہدایت اور راہنمائی کا ذکر فرمایا ہے ، یہ تذکرہ اس سورة میں اس سے پہلے بھی دو مرتبہ ہوچکا ہے سورة کی ابتداء میں فرمایا سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں ، (آیت) انزل علی عبدہ الکتب “۔ جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن پاک نازل فرمایا جس میں کوئی کجی نہیں ہے ۔ یہ کتاب خلاف واقع امور سے پاک ہے اور اس کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ اہل ایمان کو بشارت سنائی جائے اور عام لوگوں کو خدا تعالیٰ کی شدید گرفت سے ڈرایا جائے ، پھر اللہ نے چوتھے رکوع میں فرمایا اے پیغمبر ! ﷺ آپ اس کتاب کو لوگوں کے سامنے پڑھ کر سنائیں یہ ایسی کتاب ہے (آیت) ” لا مبدل لکلمتہ “۔ کہ اس کے کلمات کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا ، اس کا قانون اور ضابطہ بالکل اٹل ہے ۔ آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے نتائج اعمال کا ذکر بھی کیا ہے پھر انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے فرائض کا ذکر کیا ہے جس سے عام لوگوں کے فرائض کا بھی پتہ چلتا ہے ، ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہلاکت کے اسباب کا ذکر بھی کیا ہے کہ انسان ظلم کرنے کی وجہ سے تباہ ہوتے ہیں ۔ (قرآن پاک اور انسان) قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت کے متعلق ارشاد ہوتا ہے ۔ (آیت) ” ولقد صرفنا فی ھذا القرآن للناس من کل مثل “۔ اور البتہ تحقیق ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر قسم کی مثالیں پھیر پھیر کر بیان کی ہیں ، ہر طریقے سے لوگوں کو اللہ کی وحدانیت ، اس کی قدرت کاملہ اور محاسبہ اعمال کی بات سمجھائی ہے مگر (آیت) ” وکان الانسان اکثر شیء جدلا “۔ مگر انسان اکثر جھگڑالو واقع ہوا ہے ، یہ دلائل قدرت ، اللہ کی کتاب ، انبیاء اور اس کے ملائکہ کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا بلکہ بات بات میں جھگڑے پر اتر آتا ہے ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک رات حضور ﷺ حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت علی ؓ کے گھر تشریف لے گئے ، وہ آرام کر رہے تھے آپ نے فرمایا ، تم رات کے وقت نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟ اس پر حضرت علی ؓ کی زبان سے یہ ادا ہوا کہ حضرت ! ہماری جانیں اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں ، حدیث کے الفاظ ہیں (آیت) ” ان نفوسنا بید اللہ “۔ لہذا اگر خدا چاہے تو ہمیں رات کو بیدار کردیتا ہے اور ہم نماز ادا کرلیتے ہیں ، ورنہ سوئے رہتے ہیں ، آپ غصے کی حالت میں واپس آگئے ، آپ اپنی ران پر افسوس کی وجہ سے ہاتھ مار رہے تھے ، اس وقت آپ کی زبان پر یہی الفاظ تھے (آیت) ” وکان الانسان اکثر شیء جدلا “۔ انسان عام طور جھگڑالو واقع ہوا ہے ، دراصل حضور ﷺ کو حضرت علی ؓ کا جواب پسند نہیں آیا تھا ، انہوں نے یہ فلسفہ قائم کیا تھا کہ ہماری جانیں اللہ کے قبضہ میں ہیں اور اگر وہ اٹھا دیتا تو نماز پڑھ لیتے ہیں ، ورنہ نہیں ، ان کا جواب تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ اگر اللہ کی توفیق شامل ہوگی تو ضرور رات کو اٹھ کر نماز پڑھیں گے ، لمبا چوڑا فلسفہ چھانٹنے کی ضرورت نہ تھی ، بہرحال فرمایا کہ انسان جھگڑالو واقع ہوا ہے حالانکہ ہم نے اس کے سامنے ہر قسم کی مثالیں بیان کرکے بات واضح کردی ہے ۔ (تہذیب انسانی) اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف مثالیں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ فطرت انسانی کی اصلاح ہوجائے اور نہ اس وقت تک ممکن نہیں ، جب تک انسان کفر ، شرک ، ظلم اور بداخلاقی سے باز نہ آجائے ، شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) فرماتے ہیں ، کہ اگر انسان کے باطن میں شرک کی نجاست موجود ہے تو نئے اور اچھے کپڑے پہننے کا کیا فائدہ ؟ آپ نے یہ بھی فرمایا ” اذا اخرجت زور دخل نور “ انسان کی فطرت میں اس وقت تک نور داخل نہیں ہوتا جب تک کہ اس سے جھوٹ خارج نہیں ہوجاتا گویا انسان کی تہذیب اور شائستگی اس وقت ممکن ہوگی جب اس سے شرک ، ظلم اور بداخلاقی دور ہوجائے گی ، اس سلسلہ میں قرآن پاک انسان کی راہنمائی کرتا ہے کہ انسان کس طرح مہذب بن سکتا ہے جب بھی اللہ کی کتاب نے لوگوں کو مہذب بنانے کی کوشش کی انہوں نے احکام الہی کو ماننے کی بجائے بیہودہ فرمائشیں شروع کردی ، مثلا متکبر مشرک کہتے تھے کہ ہم آپ کی مجلس میں اس وقت تک نہیں بیٹھ سکتے جب تک آپ ان غریب اور حقیر اہل ایمان کو یہاں سے اٹھوا نہ دیں اللہ نے اپنے نبی کو فرمایا کہ آپ ایسی بات ہرگز نہ کریں ، ان کا تو کام ہی حجت بازی ہے اور یہ جھگڑالو لوگ ہیں ، آسانی سے ماننے والے نہیں ہیں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے اکابرین نے بھی یہی عذر پیش کیا تھا کہ ہم ان کمین لوگوں کے ساتھ آپ کی مجلس میں نہیں بیٹھ سکتے ، مگر نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر میں ان مخلص اہل ایمان کو اپنی مجلس سے دور کر دوں تو میں ظلم کرنے والا بن جاؤں گا ، فرمایا ہمیں تو اللہ نے ظلم کے خلاف ہی مبعوث فرمایا (1) (حجۃ اللہ البالغہ ص 337) (فیاض) ہے بھلا ہم خود کیسے ظلم کرسکتے ہیں ، امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ انبیاء کی بعثت کا ایک مقصد ” رفع التظالم من بین الناس “ یعنی لوگوں کے درمیان سے ظلم کو ہٹانا بھی ہے پہلے درجے میں کفر اور شرک کا ارتکاب ظلم ہے اور پھر مخلوق کے ساتھ ہر قسم کی زیادتی بھی ظلم میں داخل ہے ، غرضیکہ انسانی تہذیب اس وقت مکمل ہوگی جب ان تمام قباحتوں کا قلع قمع ہو کر انسان میں اچھے خصائل پیدا ہوجائیں ۔ (ایمان لانے میں رکاوٹ) اب اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان نہ لانے کی وجوہات بیان فرمائی ہیں ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وما منع الناس ان یؤمنوا “۔ اور نہیں روکا لوگوں کی ایمان لانے سے (آیت) ” اذ جآء ھم الھدی “۔ جب کہ ان کے پاس ہدایت آگئی ، ایک تو ایمان لانے سے روکا اور دوسرا (آیت) ” ویستغفروا ربھم “۔ اپنے پروردگار سے بخشش مانگنے سے بھی روکا ، ایمان اور بخشش طلبی سے روکنے کی دو وجوہات اللہ بیان فرمائی ہیں پہلی یہ ہے (آیت) ” الا ان تاتیھم سنۃ الاولین “۔ کہ ان کے پاس پہلے لوگوں کا دستور آجائے پہلے لوگوں کا دستور یہ رہا ہے کہ انہوں نے اللہ کی وحدانیت کا انکار کیا ، اللہ کے انبیاء کا تمسخر اڑایا کتب سماویہ کو تسلیم نہ کیا اور معاد کا انکار کردیا پھر یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا اور انہیں مکمل طور پر صفحہ ہستی سے ناپید کردیا ، گویا وہ ایمان لانے کے لیے عذاب کے منتظر ہیں ۔ فرمایا ایمان نہ لانے کی دوسری وجہ یہ ہے (آیت) ” اویاتیھم العذاب قبلا “۔ کہ یا عذاب بالکل ان کے سامنے آجائے یعنی وہ اس بات کے انتظار میں ہیں کہ ان پر عذاب نازل ہوجائے تو پھر وہ ایمان لائیں ، اور اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کریں ، حقیقت یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے عذاب آجاتا ہے تو اس وقت کا ایمان لانا مفید نہیں ہوا کرتا ، بلکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو کر رہتا ہے غرضیکہ اللہ نے مکذبین کی یہ خصلت بیان کی ہے کہ وہ ایمان لانے اور بخشش طلب کرنے کے لیے اس انتظار میں رہتے ہیں کہ یا تو ان پر یکدم عذاب آجائے اور یا پھر وہ عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ایمان لے آئیں فرمایا یہ ان کی خام خیالی ہے ایسی صورت میں وہ خدا کی سزا سے بچ نہیں سکتے ۔ (انبیاء کا فرض منصبی) آگے ارشاد ہے (آیت) ” وما نرسل المرسلین الا مبشرین ومنذرین “۔ اور نہیں بھیجتے ہم رسولوں کو مگر اس لیے کہ وہ فرمانبرداروں کو اچھے انجام کی خوشخبری سنا دیں اور نافرمانوں کو ان کے لیے برے انجام سے ڈرادیں ، تمام کافر ، مشرک ، بداعمال اور بداخلاق لوگ جان لیں کہ وہ نہایت ہی برے انجام سے دوچار ہونے والے ہیں انبیاء کا فرضی منصبی یہ ہے نہ کہ لوگوں کی بیہودہ فرمائشیں پوری کرنا ، فرمایا کافروں کا حال یہ ہے ، (آیت) ” ویجادل الذین کفروا بالباطل “۔ اور کافر لوگ باطل کو ساتھ لے کر جھگڑا کرتے ہیں (آیت) ” لید حضوا بہ الحق “۔ تاکہ اس باطل کے ذریعے حق کو گرا دیں ، کفار کی اس کارگزاری کے ثبوت میں تاریخ عالم گواہ ہے جب اللہ کے انبیاء ان کے پاس آتے رہے تو یہ لوگ ان کو جھٹلاتے رہے ، انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مذمت کی ، ان کے معجزات کو سحر کہہ کر رد کردیا (آیت) ” واتخذوا ایتی وما انذروا ھزوا “۔ اور میری آیتوں اور ڈرانے والی چیز یعنی خدا کی گرفت اور عذاب کے ساتھ ٹھٹھا کیا ، اس کی مثالیں قرآن میں جگہ جگہ موجود ہیں مشرکین مکہ کہتے تھے (آیت) ” ان کان ھذا ھو الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السمآء (انفال ، 32) اے اللہ ، اگر محمد کا دین برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا دے ، ہم تو اس دین کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں قیامت کے متعلق کہتے ” متی ھذا الوعد ان کنتم صدقین “۔ (الملک ، 25) اگر تم سچے ہو تو بتاؤ یہ وعدہ کب پورا ہوگا ؟ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کا عذاب آیا اور وہ خدا کی زمین سے ناپیدا ہوگئے ۔ (آیات الہی سے اعراض) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ومن اظلم ممن ذکر بایت ربہ فاعرض عنھا “۔ اس شخص سے بڑا ظالم کون ہے جسے اس کے پروردگار کی آیتوں کے ساتھ نصیحت کی جائے تو وہ ان سے اعراض کرے ، آیات میں احکام ، دلائل ، معجزات اور نشانیاں سب کچھ شامل ہے جس شخص کے سامنے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی یہ تمام چیزیں پیش کی جائیں اور وہ پھر بھی ان سے اعراض کرے تو وہ بڑا ہی ظالم اور نامراد ہے ایسے شخص کا حال یہ ہے (آیت) ” ونسی ما قدمت یدہ “۔ کہ وہ بھول چکا ہے جو کچھ اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اس نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ میں اعمال کے ذریعے کیا چیز آگے بھیج رہا ہوں اس نے اپنی برائی پر کبھی نگاہ ہی نہیں ڈالی اور اس طرح آیات الہی کو فراموش کردیا ، درحقیقت یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو تعصب اور عناد کی بناء پر ہدایت سے محروم ہوجاتے ہیں ، ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” انا جعلنا علی قلوبھم اکنۃ ان یفقہوہ وفی اذانھم وقرا “۔ ہم نے انکے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں جس کی وجہ سے یہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں اور انکے کانوں میں بوجھ ہیں اللہ نے دوسری جگہ فرمایا (آیت) ” ختم اللہ علی قلوبھم “۔ (البقرۃ ، 7) اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہریں لگا دی ہیں سورة نساء میں ہے (آیت) ” بل طبع اللہ علیھا بکفرھم اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر ٹھپے لگا دیے ہیں ، سورة المطففین میں فرمایا (آیت) ” بل ران علی قلوبھم “ ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے (آیت) ” ماکانوا یکسبون “ اس وجہ سے جو وہ کماتے تھے ، وہ کفر اور شرک کا ارتکاب کرتے تھے شرکیہ رسوم میں ڈوبے ہوئے تھے لہذا ان کے دل اس طرح خراب ہوگئے جس طرح زنگ لوہے کو کھا جاتا ہے ۔ فرمایا (آیت) ” وان تدعھم الی الھدی “۔ اگر آپ انہیں ہدایت کی طرف دعوت دیں (آیت) ” فلن یھتدوا اذا ابدا “۔ تو وہ کبھی ہدایت قبول نہیں کریں گے یہ آیات الہی سے اعراض کا نتیجہ ہے کہ وہ ہدایت سے یکسر محروم ہوچکے ہیں ۔ (قانون امہال و تدریج) فرمایا (آیت) ” وربک الغفور ذوالرحمۃ “۔ تیرا پروردگار بخشش کرنے والا اور رحمت والا ہے یہ اس کی رحمت ہے کہ مجرموں کو پکڑنے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ موقع دیتا رہتا ہے ، اس کے ہاں قانون امہال و تدریج کام کرتا ہے ، فرمایا (آیت) ” لویؤاخذھم بما کسبوا “۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کی بری کمائی کی وجہ سے انہیں پکڑنا چاہئے (آیت) ” لعجل لھم العذاب “۔ تو ان کے لیے جلدی عذاب لے آئے مگر یہ اس کی بخشش اور رحمت ہے کہ وہ مہلت دیتا رہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب میں گرفت کرنے پر آتا ہوں تو اس طریقے سے پکڑتا ہوں جو کسی کے وہم و گمان میں نہیں ہوتا فرمایا ، (آیت) ” ان کیدی متین “۔ (اعراف 183) میری تدبیر بڑی مضبوط ہے ، اس سے کون باہر نکل سکتا ہے ؟ سورة البروج میں ہے (آیت) ” ان بطش ربک لشدید “۔ بیشک تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے ، سورة الرحمن میں جنوں اور انسانوں سے خطاب کرکے فرمایا (آیت) ” ان استطعتم ان تنفذوا من اقطار السموت والارض فانفذوا “۔ اگر تم زمین وآسمان کے کناروں سے نکل جانے کی طاقت رکھتے ہو تو بھاگ کر دکھاؤ مگر تم نہیں بھاگ سکتے ۔ فرمایا ، اگر اللہ تعالیٰ ان کی کارگزاری کی وجہ سے انہیں پکڑنا چاہے تو فورا عذاب نازل کردے (آیت) ” بل لھم موعد “۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے لیے وعدے کا ایک وقت مقرر ہے ، پھر جب وہ وقت آجائے گا تو وہ گرفت میں آجائیں گے (آیت) ” لن یجدوا من دونہ موئلا “۔ اور وہ اللہ کے سوا کہیں جائے پناہ بھی نہیں پاسکیں گے ہر فرد ، جماعت ، گروہ ، قوم ، ملک اور بستی کے لیے ایک وقت مقرر ہے اس وقت مہلت ملتی رہتی ہے پھر مقررہ وقت پر گرفت آجاتی ہے اور لوگ صفحہ ہستی سے مٹا دیے جاتے ہیں ۔ (ظالموں کی ہلاکت) ارشاد ہوتا ہے ذرا دیکھو تو سہی (آیت) ” وتلک القری اھلکنھم لما ظلموا “۔ یہ ہیں بستیاں جن کو ہم نے ہلاک کیا جب کہ انہوں نے ظلم کیا ، پانچویں رکوع میں مالدار مشرک کا ذکر ہوچکا ہے جس کے دو باغات تھے جن پر وہ غرور کرتا تھا اور انہیں اپنے کمال کا صلہ سمجھتا تھا وہ اپنے باغ میں داخل ہوا (آیت) ” وھو ظالم لنفسہ “ اور وہ اپنے نفس پر ظلم کرنے والا تھا ، اس کا ظلم یہی تھا کہ وہ مادیت کے شرک میں مبتلا تھا ، وہ اپنی جائداد کو ہی اول وآخر سمجھتا تھا اور خدا تعالیٰ کی ذات پر اسے قطعا اعتماد نہیں تھا ، چناچہ جب وہ اپنے باغ میں داخل ہوا تو کہنے لگا (آیت) ” ما اظن ان تبید ھذہ ابدا “۔ مجھے یقین ہے کہ یہ باغ کبھی ضائع نہیں ہوگا بلکہ ہمیشہ ایسے ہی رہے گا ، اس کے برخلاف مومن کا عقیدہ یہ ہے کہ (آیت) ” ماشآء اللہ ، لا قوۃ الا باللہ “۔ ہوتا وہ ہے جو اللہ تعالیٰ چاہے کیونکہ اس کی توفیق کے بغیر کوئی طاقت نہیں ، تمام قوتوں کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ، بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ان بسیتوں کے مکینوں کو ان کے ظلم کی وجہ سے ہلاک کیا ، سب سے بڑا ظلم شرک اور کفر ہے جیسے فرمایا (آیت) ” ان الشرک لظلم عظیم “۔ (لقمان ، 3) شرک ظلم عظیم ہے نیز فرمایا (آیت) ” والکفرون ھم الظلمون “۔ (البقرۃ ، 254) کافر ہی ظالم ہیں کفر وشرک کے بعد پھر حق تلفی ایذاء رسانی قتل تمام بڑے بڑے جرائم ظلم میں داخل ہیں ۔ فرمایا بستیوں کی ہلاکت ان کے ظلم کی وجہ سے ہوتی ہے مگر یہ اندھا دھند ہوتی بلکہ (آیت) ” وجعلنا لمھلکھم موعدا “۔ ان کی ہلاکت کے لیے ہم نے ایک وعدہ یعنی وقت مقرر کر رکھا ہے اس وقت سے پہلے ہم کسی بستی کو ہلاک نہیں کرتے ، اس سے معلوم ہوا کہ ہلاکت کا ایک قانون تو وہ تھا جو سابقہ اقوام پر نافذ العمل تھا کہ جب ان کی سرکشی حد سے بڑھ گئی تو پھر آخر میں یکدم عذاب آیا اور ساری قوم ہلاک ہوگئی (آیت) ” فھل تری لھم من باقیہ “۔ (الحاقۃ 8) کے مصداق ان میں سے ایک بھی باقی نہ بچا ، ہلاکت کا دوسرا طریقہ امہال و تدریج کا قانون ہے کہ جہاں ظلم و زیادتی ہوگی وہاں تباہی آئیگی ۔ (مسلمانوں کی حالت زار) یہ تباہی مختلف خطوں میں جرم کی نوعیت کے مطابق مختلف طریقوں سے آتی ہے آج دنیا میں مسلمان ایسی ہی تباہی کا شکار ہو رہے ہیں ، افغانستان ، ایران ، عراق ، فلسطین ، قبرص ، فلپائن اور مصر کے مسلمانوں انہیں مظالم کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں ، یہ سب ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ہم نے اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا ، کفر وشرک کا راستہ اختیار کیا ، خدا کے نافرمانوں کا ساتھ دیا ، رسومات باطلہ کو اختیار کیا جس کے نتیجے میں بتدریج بربادی آئی ، ہم روز مرہ اسی تباہی کا مشاہدہ کر رہے ہیں گذشتہ پانچ سال میں افغانستان میں تیس لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں فلسطین میں بیس لاکھ آدمی مارے جا چکے ہیں ، اور باقی دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں مگر ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی یہ خود ہمارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت ہیں ، بادشاہ ظالم اور عیاش ہیں ، انہوں نے اپنے معاملات میں کافروں کو دخیل بنا رکھا ہے امریکہ ، برطانیہ ، روس سب گندی سیاست چمکائے ہوئے ہیں اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے یہ بےگناہ لوگوں کو کچل رہے ہیں ، اگر ہم ظلم سے باز آجائیں تو اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ کسی کو ہلاک نہیں کرتا (آیت) ” واھلھا مصلحون “۔ جب تک لوگ اصلاح کنندہ ہوں جونہی ظلم کا دور دورہ ہوگا ، ہلاکت آئے گی ، اب اللہ کا یہی قانون ہے کہ ظلم کے نتیجے میں یہ لوگ فتنوں کا شکار ہو نگے اور ان پر ہلاکت وتباہی آئے گی ۔
Top