Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 185
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِ١ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ١ؕ وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ١ؕ یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ١٘ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
شَهْرُ : مہینہ رَمَضَانَ : رمضان الَّذِيْٓ : جس اُنْزِلَ : نازل کیا گیا فِيْهِ : اس میں الْقُرْاٰنُ : قرآن ھُدًى : ہدایت لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَ بَيِّنٰتٍ : اور روشن دلیلیں مِّنَ : سے الْهُدٰى : ہدایت وَالْفُرْقَانِ : اور فرقان فَمَنْ : پس جو شَهِدَ : پائے مِنْكُمُ : تم میں سے الشَّهْرَ : مہینہ فَلْيَصُمْهُ : چاہیے کہ روزے رکھے وَمَنْ : اور جو كَانَ : ہو مَرِيْضًا : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر سَفَرٍ : سفر فَعِدَّةٌ : تو گنتی پوری کرے مِّنْ : سے اَيَّامٍ اُخَرَ : بعد کے دن يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ بِكُمُ : تمہارے لیے الْيُسْرَ : آسانی وَلَا يُرِيْدُ : اور نہیں چاہتا بِكُمُ : تمہارے لیے الْعُسْرَ : تنگی وَلِتُكْمِلُوا : اور تاکہ تم پوری کرو الْعِدَّةَ : گنتی وَلِتُكَبِّرُوا : اور اگر تم بڑائی کرو اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا ھَدٰىكُمْ : جو تمہیں ہدایت دی وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر کرو
رمضان کا مہینہ وہ ہے جس کے اندر قرآن نازل کیا گیا ہے ۔ وہ قرآن جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ہدایت کی واضح اور روشن دلیلیں ہیں اور فیصلہ کرنے والی بات ہے ، پس تم میں سے جو شخص اس مہینہ میں حاضر ہوجائے پس اس کو اسکا روزہ رکھنا چاہئے اور جو شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو ، پس دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنی ہے ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ کرتا ہے اور تمہارے ساتھ دشواری کا ارادہ نہیں کرتا اور تا کہ تم گنتی پوری کرو اور تا کہ تم اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو ، جیسا کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے اور تا کہ تم شکر گزار بن جائو
گزشتہ سے پیوسہ انسان کے متقی بننے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت سے اصول بیان فرمائے ہیں ۔ پہلا قانون قصاص کی پابندی ہے اور دوسرا اصول مال کے معاملہ میں عدم زیادتی ہے ، تا کہ کسی شخص کی حق تلفی نہ ہو ۔ تقویٰ کا تیسرا اصول مقررہ اوقات میں روزہ رکھنا ہے ، یہ سب ایسے افعال ہیں ، جن کی ادائیگی سے ایک مسلمان میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے روزہ کی فرضیت بیان فرمائی کہ ایمان والوں پر ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے ہیں ، یہ چند گنے ہوئے دن ہیں جو کہ پورے سال میں انتیس یا تیس دن ہیں اور جن میں روزہ رکھنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے عاشورہ کا روزہ فرض تھا۔ یہ روزہ حضور نبی (علیہ السلام) نے بھی رکھا اور دوسرے لوگوں سے بھی رکھوایا گیا ، بلکہ بچے بھی یہ روزہ رکھتے تھے ، اس کے بعد جب رمضان کے روزوں کی فرضیت کا حکم نازل ہوا ، تو عاشورہ کے روزہ کی فرضیت ختم ہوگئی ۔ البتہ عاشورہ کے دو روزے رکھنے کی اب بھی بڑی فضلیت ہے اور یہ بڑے اجر وثواب کا باعث ہے ، یوم عرفہ کا روزہ بھی بڑے ثواب کا حامل ہے ، مگر فرض نہیں ہے اسی طرح ایام بیض یعنی ہر ماہ کے درمیانی تین روزے مستحب ہیں ۔ رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے بہت بڑے اجر کا موجب ہیں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا جس نے ماہ رمضان کے روزے رکھے ، اور اس کے بعد چھ روزے شوال سے ملا لیے ، وہ شخص ایسا ہے ۔ جیسے پورے سال کا روزے دار ہوتا ہم فرضیت صرف رمضان کے روزوں کی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ایاما ً معدودات فرمایا ۔ ماہ رمضان اور قرآن پاک اب آیت زیر درس میں ماہ رمضان کے ان گنے چنے دنوں کی تفصیل بیان ہو رہی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ۔ شھر رمضان الذی رمضان کا مہینہ وہ مبارک مہینہ ہے۔ انزل فیہ القرآن جس میں قرآن پاک نازل ہوا یہ بڑی برکتوں والا مہینہ ہے اور سب سے بڑی برکت یہ ہے کہ اس میں قرآن پاک کا نزول ہوا۔ نزول قرآن پاک کے سلسلہ میں مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں ۔ منجملہ ا ن کے لیے ہے کہ اس ماہ میں قرآن کریم کو نقل کر کے لوح محفوظ سے ۔۔۔۔۔ بیت العزت میں رکھا گیا جو کہ آسمان دنیا یعنی پہلے آسمان پر واقع ہے۔ امام جعفر صادق (رح) کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے دو نعمتیں سب سے بڑی ہیں ۔ ایک حضور ﷺ کا وجود مبارک اور دوسرا قرآن پاک ، کتابیں تو دنیا میں ہزاروں لاکھوں ہیں ، مگر قرآن حکیم کوئی اور ہی چیز ہے۔ ایں کتاب نیست ، چیزے دیگر است بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ۔ اس کا حکم دوسرے کلاموں جیسا نہیں ہے۔ لوگوں کا مقولہ ہے کلام الملوک ملوک الکلام بادشاہوں کا کلام ، کلاموں کا بادشاہ ہونا ہے مگر یہ کلام تو مالک الملک کا ہے ، جو کہ شہنشاہ مطلق ہے ، اس کا کلام کس قدر قدر و منزل کا حامل ہوگا ، لہٰذا یہ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے بہت بڑا انعام ہے۔ انسان بڑا ہی ناشکرگزار ہے۔ جس نے قرآن پاک جیسی بڑی نعمت کی قدر نہیں کی ۔ جس قوم کے پاس یہ کلام ہو ، وہ بھی بھٹکتی پھرے تو کتنی افسوس کی بات ہے حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جس شخص کے اس قرآن پاک جیسی نعمت موجود ہو ، وہ اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھے۔ خدا تعالیٰ کے ہاں وہ بڑی عزت والا ہے مگر افسوس کہ حامل قرآن نے اغراض فاسدہ اور غفلت کی وجہ سے اس کی کوئی قدر نہیں کی ، خود تو اس سے مستفید نہیں ہو رہے ہیں ۔ باقی دنیا کو بھی محروم رکھا ہوا ہے۔ مسلمانوں کے پاس اللہ تعالیٰ کی اتنی بڑی نعمت موجود ہے ، مگر پھر بھی یہ ناشکر گزار ہیں۔ مختلف مہینوں کی وجہ سے تسمیہ شہر کے معنی مہینہ کے ہیں اور اس کی جمع شھورآتی ہے ۔ رمضان کا معنی تپش ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ فرضیت روزوں کے زمانہ میں گرمی کے موسم میں رمضان کا مہینہ آیا تھا۔ اس واسطے اسے رمضان یعنی گرمی یا تپش والا مہینہ کہتے ہیں ۔ رجب سے مراد عزت والا یعنی معظم مہینہ ہے ۔ جمادی الاول اور جمادی الآخری سردی کے موسم کے مہینے تھے۔ جمد کا معنی منجمد ہونا یا جم جانا ہے ۔ اسی طرح شعبان کا معنی پراگندہ ہونا ہے۔ اس موسم میں قبائل ادھر ادھر پراگندہ ہوجاتے تھے۔ ذی قعدہ ، قعود یعنی بیٹھنے کے معنی میں آتا ہے۔ ذوالحج کا یہ نام اس لیے ہے کہ اس مہینہ میں حج ادا کیا جاتا ہے ۔ محرم سے مراد حرمت والا مہینہ ہے ۔ صفر سے مراد خالی مہینہ ہے اسی طریقہ سے ربیع بہار کو کہتے ہیں ۔ ربیع الاول اور آخر اسی مناسبت سے نام ہیں ۔ الغرض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ رمضان کو یہ نام تپش کی وجہ سے ملا ہے۔ جب ہر چیز گرم ہو کر پگھلنے لگتی ہے ، ہمیں پگھلانے کا معنی بھی پایا جاتا ہے۔ اسکی ایک توجیہہ یہ بھی کی جاتی ہے کہ روزے رکھنے سے مسلمان کو جسمانی طور پر تکلیف پہنچتی ہے ، جب وہ اس تکلیف کو برداشت کرتا ہے ، تو اس کے گناہ پگھلنے لگتے ہیں ۔ گویا یہ مہینہ گناہوں کو پگھلاے والا مہینہ ہے۔ مسئلہ خلق قرآن ایک زمانہ میں مسئلہ خلق قرآن پیدا ہوا تھا۔ بعض گمرا ہ لوگوں نے قرآن پاک کے کلام اللہ ہونے کا انکار کیا ۔ اس کے بجائے قرآن کو مخلوق کہا گیا اور یہ فتنہ دو تین صدیوں تک قائم رہا ، البتہ اور کئی قسم کے فتنے موجود ہیں ۔ اس زمانے میں اس مسئلہ کی وجہ سے اللہ والوں نے بڑی بڑی تکلیفیں برداشت کیں ، کئی علماء اسی مسئلہ کی وجہ سے سولی پر لٹک گئے۔ امام احمد بن حنبل (رح) نے چار حکومتوں کا زمانہ اسی ابتلاء میں گزارا ۔ ان پر مسلسل ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے ۔ ا سے قرآن پاک کے مخلوق ہونے کا فتویٰ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ مگر آپ نے ہمیشہ انکار کیا ۔ فرماتے تھے ۔ میرے پاس اللہ کی کتاب اور رسول اللہ کی سنت ہے تم کوئی اور چیز لے کر آئے ہوتا کہ میں اس کے مطابق بات کروں۔ آپ نے ہزار مصائب برداشت کیے مگر قرآن و سنت کے خلاف فتویٰ نہ دیا ۔ نزول قرآن قرآن پاک کے رمضان المبارک میں نزول کے متعلق حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ ، سعید بن جبیر (رح) اور امام حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کو ماہ رمضان کی ایک رات لیلۃ القدر میں لوح محفوظ سے بیت العزت میں اتارا ۔ اور پھر وہاں سے پورے تیئس برس ہیں تھوڑا تھوڑا کر کے حضور خاتم النبیین ﷺ پر نازل فرمایا ، نزول قرآن کی اس رات کے متعلق خود رب العزت نے فرمایا لیلۃ القدر خیر من الف شھر یہ تو ایک ہزار مہینوں سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ اگر یہ میسر آجائے تو اس ایک رات کی عبادت تراسی سال کی عبادت سے زیادہ افضل ہے۔ یہ بڑی فضلیت والی رات ہے۔ دیگر آسمانی کتابوں کی فضلیت کے متعلق بھی بہت سی روایات آئی ہیں ۔ مثلاً طبرانی شریف کی حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صحیفے رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کو نازل ہوئے ۔ تورات چھ رمضان کو اور انجیل 3 رمضان کو نازل ہوئی ۔ قرآن پاک چوبیس رمضان کو نازل ہوا ، یہ تفسیری روایات سے معلوم ہوا ہے ، بہر حال رمضان المبارک کو قرآن پاک کے ساتھ خصوصی تعلق ہے ، یہ وہ ماہ مبارک ہے جو میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت بڑی نعمت عطا فرمائی۔ تلاوت قرآن اس ماہ مبارک کو قرآن پاک کے ساتھ بطور یادگاہ خصوصی لگائو ہے۔ اسی لیے حکم ہے کہ اس مہینہ میں قرآن پاک کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کی جائے اگرچہ محض تلاوت منتہائے مقصود نہیں ، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس سے نصیحت پکڑی جائے اس کے بتلائے ہوے اصولوں کی پیروی کی جائے اور اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔ اسی لیے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ ” مقصد از نزول قرآں تلفظ نیست “ اگرچہ اس زمانہ میں محض تلاوت بھی غنیمت ہے ، کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ قرآن پاک کا ایک ایک حرف پڑھنے سے دس دس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں ۔ فرمایا جب کوئی شخص خلوص دل کے ساتھ تین حرف الم پڑھتا ہے۔ تو تیس نیکیوں کا مستحق ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ کے کلام کی اس قدر برکت ہے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی (رح) نے مکتوبات میں لکھا ہے کہ قرآن پاک کے علاوہ باقی جو بھی کلام یا اور اد ہیں ، انہیں بغیر سمجھ پڑھنے سے کوئی فائدہ نہیں ۔ صرف کلام پاک ہی ایک ایسا کلام ہے جسے سمجھ کر یا بےسمجھے ہر حالت میں پڑھنے سے فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اس کے لیے صرف ایمان اور نیت صالحہ کی ضرورت ہے۔ قرآن ذریعہ ہدایت ہے قرآن کیا ہے ھدی للناس یہ لوگوں کے لیے ہدایت کا سامان ہے۔ یہ ایسی ہدایت ہے ، جو انسان کے لیے سب سے ضروری چیز ہے آپ نماز کی ہر رکعت میں پڑھتے ہیں ۔ اھدنا الصراط المستقیم اے اللہ ! ہم کو سیدھے راستے پر چلا اور ہمیں سیدھا راستہ دکھا ، تو سیدھا راستہ وہی ہے جو قرآن پاک دکھاتا ہے یعنی اس طرح اعتقاد رکھو ، اس طرح عمل کرو اس طرح کے اخلاق پیدا کرو اپنے معاشرتی اور معاشی مسائل کو اس طرح حل کرو ، قرآن پاک متن ہے ۔ حضور ﷺ کی حدیث اس کی شرح ہے یہ قرآن پاک کو کھول کر بیان کرتی ہے ، امام شافعی (رح) ، شاہ ولی اللہ (رح) اور مولانا رشید احمد گنگوہی (رح) فرماتے ہیں کہ ہر صحیح حدیث قرآن پاک کی شرح ہے۔ صحیح احادیث کے بغیر قرآن پاک کو سمجھنا ممکن نہیں پرویزی اور چکڑالوی محض اس لیے حدیث کا انکار کرتے ہیں کہ قرآن پاک کی من مانی تفسیریں کرسکیں ۔ اس طرح کرنا گمراہی کا دروازہ کھولنا ہے ، کیونکہ احادیث کے بغیر انسان قرآن کی منزل کو نہیں پا سکتا ۔ لہٰذا جب بھی دشواری پیش آئے قرآن پاک کی طرف رجوع کرو ۔ ھل من مدکر کون ہے جو اس سے نصیحت پکڑے۔ خود مفتی نہ بن بیٹھو بلکہ فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون اگر تمہیں خود علم نہیں تو اہل علم کے پاس جائو ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے قسم اٹھا کر کہا کہ قسم ہے اس ذات پاک کی ، جس کا کوئی شریک نہیں ۔ حضور ﷺ کے بعد اپنے اس دور میں اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ فلاں شخص مجھ سے زیادہ قرآن کریم جاننے والا ہے ، تو میں سواری پر سوارہوکر اس کے پاس جائوں ، خواہ مجھے کتنا ہی لمبا سفر کرنا پڑے۔ صحابہ کرام ؓ نے ایک ایک حدیث کی خاطر دو دو ماہ کا سفر کیا ۔ ایک ایک مسئلہ معلوم کرنے کے لیے طویل سفر کی صعوبتیں برداشت کیں ، مگر اس مقصد سے ہٹ کر کوئی دوسرا مفاد حاصل نہیں کیا ۔ حتیٰ کہ وہاں سے کھانا تک نہیں کھایا۔ ناشتہ تک نہیں کیا اور حضور مقصد کے بعد فوراً واپس لو ٹ گئے۔ ڈر تھا کہ ایسا کرنے سے کہیں ہمارے اجر میں کمی نہ واقع ہوجائے ، وہ لوگ اتنے محتاط تھے ۔ خراسان سے حجاز یا حجاز سے خراسان تک ہزاروں میل کی مسافرت محض کسی آیت کی تشریح معلوم کرنے کے لیے طے کرتے تھے۔ مولانا ابو الکلام آزاد (رح) نے اپنی تفسیر ترجمان القرآن کو مولوی محمد دین قندھاری (رح) کے نام سے معنون کیا ہے۔ وجہ یہ تھی کہ مولوی صاحب نے قرآن پاک کی چند آیات کی تفسیر سمجھنے کے لیے قندھار سے رانچی تک کا سفر اختیار کیا ۔ انہوں نے مولانا کے پرچے ” الہلال “ میں بعض آیات کی تفسیر پڑھی ، تو کچھ شبہ پیدا ہوا جسے دور کرنے کے لیے آپ نے اتنا طویل سفر کیا ۔ مولانا ان دنوں رانچی میں نظر بند تھے ، اس شخص نے اپنا مسئلہ حل کرنے کے بعد مسجد میں نماز ادا کی اور چلتا بنا ، مولانا نے ہر چند کوشش کی کہ اس کی کچھ خاطر مدارت کی جائے ، اسے واپسی کے لیے کرایہ ہی فراہم کیا جائے مگر اس شخص کا کوئی پتہ نہ چلا ۔ مولانا اس کے تقویٰ سے اس قدر متائر ہوئے کہ اپنی تفسیر کو ان کے نام سے معنون کیا ۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن پاک لوگوں کے لیے ذریعہ ہدایت ہے ، جو ہدایت اس سے مقصد حاصل کرسکتا ہے۔ واضح اور فیصلہ کن دلائل فرمایا قرآن پاک سامان ہدایت ہی نہیں ، بلکہ وبینت من الھدی والفرقان اس میں ہدایت کے واضح دلائل موجود ہیں اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن بات بھی ہے ، یہ کسی معاملہ کو ادھورا نہیں چھوڑتا ، بلکہ حق و باطل کے درمیان امتیاز کرنا ہے کہ یہ حق اور یہ باطل ہے لیھک من ھلک عن بینۃ تا کہ جسے ہلاک ہونے ہے وہ واضح بات کے بعد ہلاک ہو ویحییٰ من حی عن بینۃ اور جو زندہ ہے ، وہ واضح بات کے بعد زندہ رہے یعنی کسی انسان کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہنا چاہئے کہ اس حق و باطل کی پہچان نہیں ہوسکی۔ قرآن پاک ہر چیز کی خوب خوب وضاحت کرتا ہے گویا قران پاک ہدایت بھی ہے اور فرقان بھی ہے۔ اسی لیے حضور ﷺ نے فرمایا کہ رمضان المبارک میں تراویح ادا کی جائیں جن کے دوران قرآن پاک کی تلاوت ہو اور پورے رمضان میں ہر مسلمان کے کان سے کم ازکم ایک دفعہ قرآن پاک گزر جائے ، یہ خدا تعالیٰ کی ہدایت کا پروگرام ہے ، اسے ہر گھر میں پڑھا جاناچاہئے۔ اس کی اشاعت اور تعلیم عام ہو ، تا کہ کوئی نفس اس سے محروم نہ رہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے رمضان کے روزے فرض کیے اور میں نے تمہارے لیے تراویح کو سنت قراردیا اس میں قرآن پاک کی زیادہ سے زیادہ تلاوت ہونی چاہئے۔ روزہ لازم ہے فرمایا فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ جو کوئی تم میں سے ماہ رمضان المبارک کو پائے ، تو اسے روزہ رکھنا چاہئے ، گویا اس آیت کے ذریعے روزہ لازم قرار دے دیا گیا اور اس سے پہلے روزہ کے عوض میں فدیہ کی جو رعایت دی گئی تھی ، وہ ختم ہوگئی ، اب سوائے عذر شرعی ہر عاقل بالغ کے لیے روزہ ضروری ہوگیا ۔ عذر شرعی میں بیمار اور مسافر آتے ہیں ، اور شرعی سفر تین دن کی مسافت ہے جو کہ 48 میل بنتا ہے ، امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک کم از کم اس قدر سفر کرنا ہو تو روزہ قضا کرسکتا ہے۔ بعض علماء نے کم از کم مسافت 36 میل بتائی ہے ، البتہ ابو دائود شریف کی روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں من کان لہ حمولۃ جس کے پاس سفر کے لیے سواری موجود ہو ، اس کے لیے بہتر ہے کہ سفر میں بھی روزہ رکھے اور اگر نہیں رکھ سکا ، تو بعد میں قضا بہر حال لازم ہے۔ روزے کی قضا فرمایا ومن کان مریضا ً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو ، تو دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرلے۔ سال میں 29 یا 30 دن کی گنتی پوری کرنا انسان کے اندر تقویٰ اور روحانیت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے بغیر تقویٰ کا ڈپلومہ نہیں ملے گا ۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی طالب علم کو سند اسی صورت میں ملتی ہے جب وہ امتحان میں پاس ہوجاتا ہے ، لہٰذا حصول تقویٰ کے لیے روزوں کی گنتی پوری کرنا لازم ہے ۔ خواہ یہ رمضان کے بعد ہی کرنی پڑے۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے رمضان کے بعض روزے رہ جائیں اور وہ آئندہ رمضان تک ان کی قضا نہ کرسکے ، تو پھر ہر قضا روزہ کے ساتھ اسے دو مدغلہ بطور تاوان بھی ادا کرنا ہوگا ۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا فرمان ہے کہ تاوان ضروری نہیں ہے ۔ اسے روزوں کی قضا کرنی پڑے گی ، خواہ آئندہ رمضان کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ آسانی چاہتا ہے فرمایا یرید اللہ بکم الیسر اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ کرتا ہے ، ولا یرید بکم العسر اسے تمہاری دشواری منظور نہیں ۔ اس نے تمہاری آسانی کی خاطر تمہیں سہولتیں اور رخصتیں بھی دی ہیں ۔ جیسا کہ حاملہ اور مرضعہ کو سہولت حاصل ہے ، مقصد یہ ہے کہ ولتکملوا العدۃ تا کہ تم گنتی پوری کرلو اور اس کے اثرات تمہارے اندر تقویٰ کی صورت میں ظاہر ہوں والتکبروا اللہ علی ما ھدلکم اور تا کہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو جیسا کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے ، بعض فرماتے ہیں کہ اس سے وہ تکبیریں مراد ہیں ۔ جو رمضان المبارک کے اختتام پر نماز عید پر پڑھی جاتی ہیں۔ ولعلکم تشکرون اور تا کہ تم اللہ کا شکر یہ ادا کرسکو۔ ابو دائود شریف کی روایت میں ہے ، لکل شی زکوٰۃ ہر چیز کی زکوٰۃ ہوتی ہے وزکوۃ الجسد الصوم اور جسم کی زکوٰۃ روزہ رکھنے سے ادا ہوتی ہے ، اور اس طرح انسان اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس نے اس فریضہ کو پورا کیا اور اس طرح تقویٰ اور روحانیت کو اپنایا اور اس سے فائدہ اٹھایا۔
Top