Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 200
فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا١ؕ فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ
فَاِذَا : پھر جب قَضَيْتُمْ : تم ادا کرچکو مَّنَاسِكَكُمْ : حج کے مراسم فَاذْكُرُوا : تو یاد کرو اللّٰهَ : اللہ كَذِكْرِكُمْ : جیسی تمہاری یاد اٰبَآءَكُمْ : اپنے باپ دادا اَوْ : یا اَشَدَّ : زیادہ ذِكْرًا : یاد فَمِنَ النَّاسِ : پس۔ سے۔ آدمی مَنْ : جو يَّقُوْلُ : کہتا ہے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰتِنَا : ہمیں دے فِي : میں اَلدُّنْیَا : دنیا وَمَا : اور نہیں لَهٗ : اس کے لیے فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت مِنْ خَلَاقٍ : کچھ حصہ
جب تم ارکان حج کو پورا کر چکو ، پس یاد کرو اللہ تعالیٰ کو جیسا کہ تم یاد کرتے ہو اپنے باپ دادا کو۔ بلکہ اس سے زیادہ یاد کرنا چاہئے۔ پس لوگوں میں سے بعض وہ ہیں جو کہتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار ! دے دے ہم کو اس دنیا کی زندگی میں اور ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے
منیٰ کی مصروفیات حج سے متعلق عرفات اور مزدلفہ کے احکام بیان ہوچکے ہیں۔ اب آخری مرحلہ منیٰ کے قیام کا ہے۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ فاذا قضیتم مناسکم پھر جب تم مناسک حج کو پورا کر چکو۔ فاذکرو اللہ تو اللہ کا ذکر کرو۔ مقصد یہ ہے کہ جب تم عرفات اور مزدلفہ کے مناسک ادا کرلو تو پھر منیٰ آ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔ کہ حج کے تمام ارکان منیٰ میں آ کر ختم ہوجاتے ہیں اور یہاں کا قیام حج کا آخری مرحلہ ہوتا ہے۔ حج کے جملہ مناسک آٹھ ذی الحجہ کو احرام باندھنے سے شروع ہوتے ہیں اس دن حاجی منیٰ میں پہنچتے ہیں اور سنت کے مطابق وہاں پر پانچ نمازیں یعنی ظہر ، عصر ، مغرب ، عشاء اور نویں تاریخ کی فجر ادا کرتے ہیں۔ سورج نکلنے کے بعد عرفات کے لئے روانہ ہوتے ہیں۔ وقوف عرفہ حج کا رکن اعلیٰ ہے۔ وہاں پر نویں تاریخ کو زوال کے بعد مسجد نمرہ میں امام حج کا خطبہ پڑھتا ہے۔ اس کے بعد اذان ہوتی ہے۔ پھر تکبیر اور امام دو رکعت نماز ظہر پڑھاتا ہے۔ معاً بعد پھر تکبیر ہوتی ہے اور دو رکعت نماز عصر ادا کی جاتی ہے۔ اس کے بعد غروب آفتاب تک میدان عرفات میں وقوف ہوتا ہے۔ پھر سرشام ہی واپس مزدلفہ کی طرف چل دیتے ہیں ۔ اور مغرب اور عشاء کی نمازیں مزدلفہ میں آ کر ایک ساتھ ادا کی جاتی ہیں ۔ دسویں تاریخ کی نماز فجر اول وقت میں مزدلفہ میں ادا کر کے وہاں وقوف ہوتا ہے۔ ذکر و دعائیں ہوتی ہیں اور پھر طلوع شمس سے پہلے ہی منیٰ کے لئے روانگی ہوتی ہے۔ منیٰ پہنچ کر سب سے پہلے جمرہ عقبیٰ پر رمی کی جاتی ہے۔ دس تاریخ کو صرف ایک ہی شیطان کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ اس کے بعد دوسری منزل قربانی کی آتی ہے یہ دونوں کام بڑے مشکل ہوتے ہیں۔ بےپناہ رش کی وجہ سے قدم قدم پر رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ قربانی کے لئے حکومت نے قربان گاہ کے طور پر جگہ متعین کردی ہے۔ تمام حاجی وہیں پر قربانی کرتے ہیں۔ یہ وہی مقام ہے۔ جہاں پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے قربانی کی تھی۔ آج کل وہاں پر ہر قسم کے قربانی کے جانور مل جاتے ہیں۔ لوگ وہیں سے جانور خریدتے ہیں اور وہیں ذبح کردیتے ہیں تو انا آدمی قربان گاہ پہنچ جاتے ہیں اور ضعیف حاجی اور عورتیں اس کام کے لئے دوسروں کو مامور کردیتے ہیں۔ قربانی کے بعد اگلا کام حجامت بنوانا ہے۔ رش کی وجہ سے یہ کام بھی بڑی مشکل سے انجام پاتا ہے۔ بال منڈائے یا کترائے جاتے ہیں اور پھر احرام کھول دیا جاتا ہے (لیکن عورت کے پاس جانا منع ہوتا ہے طواف تک) طوف زیارت حج کا اگلا رکن بیت اللہ شریف کا طواف ہے۔ اسے طواف زیارت کہا جاتا ہے اور یہ فرض ہے۔ اسی طواف کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ” ثم لیقضوا تفثھم ولیوفوا نذورھم ولیطوفوا بالبیت العتیق۔ “ پھر چاہئے کہ اپنا میل کچیل صاف کریں ، اپنی نذریں پوری کریں اور قدیم گھر (بیت اللہ شریف) کا طواف کریں۔ یہ طواف بھی دس تاریخ کو ہی کیا جاتا ہے اگر کسی وجہ سے سے کوئی شخص آج کے دن طواف زیارت کے لئے مکہ مکرمہ نہ جاسکے تو گیارہ تاریخ کو کرے۔ اسے بارہ تاریخ تک بھی بوجوہ مئوخر کیا جاسکتا ہے۔ اگر بارہ تاریخ کے بعد طواف کریگا تو اسے ساتھ دم پڑے گا اور یہ فرض ادا ہوجائے گا۔ یہ طواف چونکہ عازمین حج نے مقرر اوقات میں لازمی کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے اس موقع پر بھی بڑا سخت ہجوم ہوتا ہے۔ طواف کے بعد صفا و مردہ کی سعی بھی ہے۔ اس کے بعد کہ میں ٹھہرنے کی اجازت نہیں بلکہ واپس منی آنا ہوتا ہے ۔ گیارہ بارہ اور تیرہ ذی الحجہ ایام منی کہلاتے ہیں۔ ان ایام میں منی میں قیام کیا جاتا ہے۔ البتہ معذور لوگوں کو استثناء حاصل ہوتا ہے۔ یہ ہیں وہ تمام مناسک حج جو مختلف مقامات پر پورے کرنے ہوتے ہیں۔ خاندانی تفاخر زمانہ جاہلیت میں ایام منی کے دوران بہت بڑی منڈی یا میلہ لگتا تھا۔ جس میں خریدو فروخت کے علاوہ مختلف قبیلے اپنے اپنے خاندان کی مدح سرائی کرتے اپنی اپنی خوبیاں بیان کرتے ، بڑوں کے کارنامے دہراتے اور اس طرح اپنے آبائو اجداد کا نام زندہ رکھتے حضور ﷺ نے اس خاندانی تفاخر کی ممانعت فرمائی اور لوگوں کو تعلیم دی کہ خاندان پر فخر کرنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ کلکم ابنآء ادم تم سب آدم کی اولاد ہو وادم ابن تراب اور آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کئے گئے۔ آپ کا سلسلہ تو مٹی سے ملتا ہے۔ تم کس بات پر فخر کرتے ہو لا فخر العصر فی علی المحصی اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی فخر نہیں ولا للعجمی علی العسربی اور نہ کسی عجمی کو عربی پر فضیلت ہے۔ الا بالتقوی سوائے تقویٰ کے اور کوئی چیز فضیلت کی بنیاد نہیں بن سکتی ہے خاندانی اور نسلی تفاخر جاہلیت کی باقیات میں سے ہے۔ حضور ﷺ نے قریش کو مخاطب کر کے فرمایا ان اللہ اذھب عنکم عبیۃ الجاھلیۃ اے لوگو ! تم سے اللہ تعالیٰ نے خاندانی نحوست اور غرور سب ختم کردیا ہے اور اللہ کے نزدیک عزت کا معیار مروت تقویٰ ہے ان اکرمکم عند اللہ اتقکم اللہ کے نزدیک شرافت اور بزرگی والا انسان وہ ہے جو اس سے زیادہ ڈرتا ہے ۔ زیادہ متقی ہے اللہ کے ہاں خاندانی تفاخر برتری کی کوئی قیمت نہیں۔ ذکر الٰہی اس تاریخ پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جب تم حج کے باقی مناسک ادا کر چکو فاذکرو اللہ تو مٹی میں آ کر اللہ کا ذکر کرو کذکر کہ اباء کم جس طرح اپنے آبائو اجداد کا ذکر کرتے ہو۔ اواشدذکراً یا اس سے بھی زیادہ ذکر مقصد یہ کہ اس موقع پر خاندانی قصیدہ خوانی کی بجائے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کرو جس نے تمہیں ہدایت دی۔ ایمان کی دولت سے نوازا اور پھر حج جیسی نعمت سے مشرف کیا لہٰذا جہاں تک ممکن ہو ، اللہ تعالیٰ کا کثرت کے ساتھ ذکر اور اب دیکھ لیجیے مناسک حج بذات خود ذکر الٰہی کی مختلف صورتیں ہیں۔ قربانی کرتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔ شیطان کو کنکریاں مارتے وقت بھی یہی الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ جب نماز پڑھی جاتی ہے تو تکسیرات تشریق بلند ہوتی ہیں۔ عرفات اور مزدلفہ میں اللہ کا ذکر کثرت سے ہوتا ہے اور تبیہ کے الفاظ لبیک اللھم لبیک تو ذکر الٰہی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ دنیا کی خواہش آگے اللہ تعالیٰ نے دو قسم کے لوگوں کا ذکر فرمایا۔ پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو اللہ تعالیٰ سے صرف دنیا کی خواہش رکھتے ہیں۔ فمن الناس من یقول ربنا اتنا فی الدنیا بعض لوگ یوں کہتے ہیں کہ اے اللہ ! ہمیں جو کچھ دینا ہے دنیا میں ہی عطا کر دے۔ ایسے لوگ آخرت کے طلبگار نہیں ہوتے دوسرے مقام پر اسی چیز کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا کہ وہ کہتے ہیں ” عجل لنا قطنا قبل یوم الحساب “ یعنی جو کچھ ہمارا حصہ ہے وہ ہمیں یوم حساب سے پہلے ہی مل جائے ۔ ہمیں آخرت کی کوئی فکر نہیں۔ مطلب یہ کہ ہمیں دنیا کا مال و دولت جاہ و مرتبہ ، آرام و آسائش ، صحت اور تندرستی حاصل ہوجائے تو کافی ہے۔ اس قسم کے لوگ آج بھی موجود ہیں۔ جو حج پر جا کر بھی دنیا ہی طلب کرتے ہیں۔ بیماری سے نجات ، قحط سالی سے پناہ ، اولاد اور کاروبار ہی چاہتے ہیں اور آخرت کی کوئی پروا نہیں کرتے۔ فرمایا ومالہ فی الاخرۃ من خلاق دنیا کے طالبوں کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ وہ لوگ جنت کی نعمتوں سے محروم رہیں گے۔ کیونکہ انہوں نے آخرت کی خواہش ہی نہیں کی۔ دنیا اور آخرت فرمایا ومنھم انہی میں سے بعض ایسے بھی ہیں من یقول جو کہتے ہیں ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ اے مہارے پروردگار ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا کر وفی الاخرۃ حسنۃ اور ہمیں آخرت میں بھی بھلائی نصیب فرما اور پھر دوزخ سے پناہ بھی مانگتے ہیں۔ وقنا عذاب النار اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ دوزخ سے بچنے کا مطلب یہ ہے دنیا میں گناہ اور برائی سے بچ جائے۔ اگر اس مقصد میں کامیاب ہوگیا تو آخرت میں دوزخ سے بھی بچ جائے گا۔ غرضیکہ جو نیک لوگ ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت دونوں کے طلبگار ہوتے ہیں۔ کفر و شرک ادیان کو تسلیم کریں۔ اللہ کے علاوہ کونسی ذات ہے۔ جس کی اطاعت تمام مخلوق پر لازم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تو خود فرمایا ولہ اسلم من فی السموت والارض آسمان و زمین کی ہر مخلوق اسی خدائے وحدہ لاشریک کی فرمانبرداری کرتی ہے۔ ہاں ! طوعاً وکرھاً کچھ لوگ اس کی اطاعت خوشی سے کرتے ہیں اور بعض دوسرے مجبوری اور لاچاری کی بناء پر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام دو قسم کے ہیں۔ تکوینی احکام وہ احکام ہیں جو انسان کو اپنی خواہش اور اختیار کے بغیر کرنے پڑتے ہیں۔ جیسے زندگی ، موت ، بیماری ، حادثات ، بارش ، خشک سالی ، سیلاب ، زلزلہ وغیرہ ایسی چیزیں ہیں ، جو انسان پر بغیر خواہش اور بغیر اختیار کے وارد ہوتی ہیں۔ انسان کو ان احکام پر مجبوراً عمل پیرا ہونا پڑتا ہے۔ یہ تکوینی احکام ہیں۔ دوسری قسم کے احکام شرعی احکام کہلاتے ہیں۔ یہ احکام اللہ تعالیٰ انبیاء کے ذریعے انسانوں تک پہنچاتا ہے۔ ان پر عمل انسان اپنی خواہش اور اختیار سے کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتنی مخلوق ہے جو ان احکام کو احکام الٰہی سمجھ کر خوشی سے تسلیم کرتی ہے اور بعض بدبخت ایسے بھی ہیں ، جو انہیں ماننے کے لئے تیار نہیں تو فرمایا کہ ایسی ہستی جس کے تمام تکوینی اور شرعی احکام مانے جائیں وہ صرف خدا کی ذات ہے۔ اور ماننے والے آسمان میں بھی ہیں اور زمین میں بھی ہیں۔ آسمانی مخلوق میں فرشتے ہیں یہ اللہ کی مطیع اور فرمانبردار مخلوق ہے حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔ آسمان میں چار بالشت بھی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں کوئی فرشتہ اپنے مالک کی عبادت میں مصروف نہ ہو۔ زمینی مخلوق میں انسانوں کے علاوہ شجر ، حجر ، چرند ، پرند ، نباتات ، جمادات سب اللہ کے تکوینی احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔ رہے انسان تو ان میں بہت سے ایسے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے شرعی احکام قبول کرتے ہیں۔ اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کرتے ہیں۔ ” وکثیر حق علیہ العذاب “ اور بہت سے ایسے بھی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی سزا ثابت ہوچکی ہے۔ تکوینی احکام تو وہ بھی مجبوراً مانتے ہیں مگر شرعی سے سعادت مندی ہے۔ مسند احمد کی رویات میں ہے کہ اچھی بیوی ، اچھی سواری ، اچھا مکان دنیا کے اعتبار سے انسان کی نیک بختی ہے۔ انسان کے لئے صحت بھی ضروری ہے کہ عبادت اور دیگر امور کا مداراسی پر ہے۔ یہ سب چیزیں حسنہ ہیں۔ مگر بالتبع ، مقصود بالذات ایمان باللہ ، خدا کی عبادت اور اعمال صالحہ ہیں۔ جو چیز ان کے تابع ہو کر آئیگی وہ حسنہ ہی کہلائے گی۔ ذخیرہ آخرت فرمایا اولئک لھم نصیب مما کسبوا ان لوگوں کے لئے اس چیز میں سے حصہ ہے۔ جو انہوں نے کمایا دنیا کی کمائی کے متعلق تو دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” ذلک مبلغھم من العلم “ ان کا علم ، ان کا جغرافیہ تو دنیا میں ہی ختم ہوگیا ، آگے ان کے لئے کچھ نہیں اور جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، ان کے اعمال آخرت کا ذخیرہ بنتے ہیں فرمایا ان کے لئے حصہ ہے ۔ جو انہوں نے کمایا ، واللہ سریع الحساب اور اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے جب قیامت برپا ہوگی۔ حساب کی منزل شروع ہوجائے گی تو اللہ تعالیٰ اس کو طے کردیں گے۔ ایام تشریق منیٰ کے احکام کے ساتھ فرمایا تھا ” فاذکرو اللہ کذکر کم آباء کم “ اپنے آبائو اجداد کی طرح اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو اور غرور وتکبر کو چھوڑ دو ۔ اب آگے ارشاد ہوتا ہے۔ واذکرو اللہ فی ایام معدودت اللہ تعالیٰ کو یاد کرو چند گنتی کے دنوں میں ان چند ایام سے مراد ایام تشریق ہیں اور یہ چار دن ہوتے ہیں یعنی ذی الحجہ کی دسویں تاتیرہویں تاریخ تشریق کا لفظی معنی گوشت کو خشک کرنا ہے ان ایام میں قربانی کا گوشت وافر مقدار میں میسر آتا ہے اور لوگ آئندہ استعمال کے لئے خشک کر کے رکھ لیتے ہیں۔ اس لئے ان دنوں کو ایام تشریق کہتے ہیں۔ سورۃ حج میں ” فی ایام معلومت “ آیا ہے اور اس سے مراد قربانی کے تنی دن یعنی ذی الحجہ کی دسویں گیارہویں اور بارہویں تاریخ میں حضرت علی ، ابن عباس ، ابن عمر وغیرہم ہم سے منقول ہے کہ یہ دن یوم النحر و نازل کی گئی ہے۔ لوگوں کے سامنے اس کی تشریح بیان کرے۔ تاہم یہ تشریح بھی منجانب اللہ ہوتی ہے ۔ قرآن پاک وحی جلی ہے اور جو تشریح پیغمبر کی زبان سے ہوتی ہے۔ وہ وحی خفی ہے مسلم شریف کی روایت میں ہے حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) نے فرمایا کہ ایمان وہ چیز ہے ماجئت بہ جو کچھ میں لے کر آیا ہوں۔ یعنی جو بھی چیز اللہ کی طرف سے نبی لایا ہے ، اس پر ہم ایمان لائے ہیں۔ فرمایا وما انزل علی ابراہیم ہم اس چیز پر بھی ایمان لائے جو ابراہیم (علیہ السلام) پر اتاری گئی ہے۔ قرآن میں موجود ہے کہ اللہ جل جلالہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر صحیفے نازل فرمائے جیسا کہ سورة اعلیٰ میں آتا ہے ” صحف ابراہیم و موسیٰ اللہ تعالیٰ نے ان کو دین دیا ، شریعت دی ، احکام دیے اور تمام مخلوق کا امام بنایا۔ فرمایا و اسمعیل و اسحاق و یعقوب والاسباط ہم اس چیز پر بھی ایمان لائے جو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ، حضرت اسحاق (علیہ السلام) ، حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد پر اتاری گئی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دو بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) ہیں۔ پہلے حضرت حاجرہ کے بطن سے اور دوسرے حضرت سارۃ سے دونوں اللہ کے نبی اور رسول ہیں۔ اللہ نے ان کو مستقل شریعت دی۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) حضرت ابراہیم کے پوتے اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے بیٹے ہیں۔ وہ بھی اللہ کے صاحب شریعت نبی ہیں اور پھر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اسباط یعنی اولاد ہے۔ اس میں سے اللہ نے جس کو نبوت دی ، ان پر وحی نازل فرمائی اور ان کو شریعت بھی دی۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد میں سے اللہ نے چار ہزار نبی اور رسول مبعوث فرمائے۔ یہ اتنا عظیم خاندان ہے۔ اسباط سے یہی انبیاء اور رسل مراد ہیں جن میں حضرت دائود (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) جیسے عظیم پیغمبر مبعوث ہوئے۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) بھی آپ کی اولاد میں سے ہیں تاہم بعض انبیاء کا ذکر قرآن میں موجود ہے ، اکثر کا نام ذکر نہیں کیا گیا۔ ان تمام قانون خداوندی کی کس حد تک پابندی کرتا ہے۔ قانون شکن کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا اسی لئے فرمایا کہ جس عازم حج میں تقویٰ یعنی قانون کی پابندی کا جذبہ پیدا ہوگیا۔ وہ دو دن ٹھہر کر بھی چلا جائے تو اس کا حج صحیح ہے۔ اس میں کوئی حج نہیں۔ تقویٰ کیا ہے فرمایا واتقوا اللہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ چھوٹی چھوٹی لغزشوں کو بھی خاطر میں لائو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ امتحان میں فیل ہو جائو۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ متقی وہ ہے جو کفر ، شرک اور معصیت سے بچ جائے ، حتی کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بھی پرہیز کرے۔ اللہ والے چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی فکر کرتے ہیں کہ کہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ ہوجائے۔ واعلموا انکم الیہ تحشرون یاد رکھو ! ایک وقت آنے والا ہے۔ جب تم سب اللہ تعالیٰ کے سامنے اکٹھے جائو گے بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے کہ ایک دن انسان کو اپنے رب کے حضور حاضر ہو کر جواب دینا ہے اس وقت حالت یہ ہوگی کہ مابینہ وبینہ ترجمان “ اللہ اور بندے کے درمیان کوئی ترجمان بھی نہیں ہوگا۔ ” تاتی کل نفس تجادل “ ہر شخص کو اپنی طرف سے اللہ کے سامنے براہ راست جواب دینا پڑے گا۔ یہاں تک اللہ تعالیٰ نے حج کے احکام بیان فرما دیئے ہیں اس کے بعد منافقین کا تذکرہ اور بعض دوسری باتیں آئیں گی۔ حج کے تمام ضروری اجزاء اسی رکوع میں مکمل طور پر بیان کردیئے گئے ہیں۔
Top