Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 204
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰى مَا فِیْ قَلْبِهٖ١ۙ وَ هُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ
وَمِنَ
: اور سے
النَّاسِ
: لوگ
مَن
: جو
يُّعْجِبُكَ
: تمہیں بھلی معلو ہوتی ہے
قَوْلُهٗ
: اس کی بات
فِي
: میں
الْحَيٰوةِ
: زندگی
الدُّنْيَا
: دنیا
وَيُشْهِدُ
: اور وہ گواہ بناتا ہے
اللّٰهَ
: اللہ
عَلٰي
: پر
مَا
: جو
فِيْ قَلْبِهٖ
: اس کے دل میں
وَھُوَ
: حالانکہ وہ
اَلَدُّ
: سخت
الْخِصَامِ
: جھگڑالو
اور لوگوں میں سے بعض وہ ہیں کہ دنیوی زندگی کے متعلق اس کی بات آپ کو تعجب میں ڈالتی ہے اور وہ اس چیز پر اللہ کو گواہ بناتا ہے۔ جو اس کے دل میں ہے حالانکہ وہ شخص بہت جھگڑا کرنے والا ہے
ربط آیات حج کے بیان کے آخری حصے میں دو قسم کے لوگوں کا تذکرہ ہوا ، ایک گروہ وہ ہے۔ جو آخرت کا بالکل منکر ہے۔ ایسے لوگ محض دنیا کے طلبگار ہوتے ہیں اور ان کی دعا بھی یہ ہوتی ہے ” ربنا اتنا فی الدنیا “ یعنی اے اللہ ! ہمیں جو کچھ دینا ہے اس دنیا میں ہی عطا کر دے۔ یہ لوگ یقینا کافر ہیں کیونکہ آخرت پر یہ ایمان ہی نہیں رکھتے۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو دنیا اور آخرت ہر دو کے طالب ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی دنیوی زندگی بھی خوشحالی میں بسر ہو ، اور آخرت میں بھی نجات حاصل ہوجائے۔ اسی لئے وہ اللہ تعالیٰ سے یوں سوال کرتے ہیں۔ ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار “ یہ ایماندار لوگ ہیں۔ گزشتہ آیات میں ان دو قسم کے لوگوں کا بیان آیا۔ مخلص اور منافق اب ان آیات میں بھی دو قسم کے لوگوں کا تذکرہ ہے۔ یہاں پر مومن اور کافر کا تقابل نہیں ، بلکہ مخلص اور منافق کا حال ہے۔ بظاہر یہ دونوں گروہ ایماندار ہیں۔ مگر ان کی بھی دو قسمیں ہیں۔ مخلص وہ لوگ ہیں ۔ جو انتہائی درجے کے پکے سچے اور مخلص ہیں اور دوسرے وہ ہیں۔ جو ظاہر میں تو ایمان والے ہیں مگر ان کے باطن میں کفر بھرا ہوا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق ارشاد ہتا ہے۔ ومن الناس من یعجیک قولہ فی الحیوۃ الدنیا یعنی بعض لوگ ایسے ہیں جن کی بات دنیوی زندگی میں آپ کو پسند آتی ہے۔ جب بات کرتے ہیں ، تو بڑے پتے کی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اونچے درجے کے لوگ ہیں۔ مگر حقیقت میں یہ ان کی چرب زبانی اور مکاری ہوتی ہے۔ محض زبان سے آپ کے روبرو میٹھی میٹھی اور آپ کے لئے خوش کن باتیں کرتے ہیں اور آپ کو وفاداری کا یقین دلاتے ہیں۔ ویشھد اللہ علی مافی قلبہ اور جو کچھ اس کے دل میں ہے ، اس پر اللہ کو گواہ بناتا ہے اور قسمیں کھا کر کہتا ہے۔ خدا گواہ ہے کہ مجھے آپ کے ساتھ بڑی محبت ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے ۔ وھوالدالخصام کہ وہ سخت جھگڑا کرنے والا ہے ایسے ہی لوگوں کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔ ابغض الرجال الی اللہ الدالخصم یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین وہ لوگ ہیں ، جو سخت جھگڑالو ہوتے ہیں۔ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ آیت اخنس بن شریق کے متعلق نازل ہوئی۔ یہ منافق تھا۔ مگر حضور ﷺ کی مجلس میں اکثر حاضر ہوتا اور اپنے آپ کو بڑا محب ظاہر کرتا بڑے مودب طریقے سے پیش آتا اور باور کرانا چاہتا کہ میں آپ کا بڑا جاں نثار ہوں اور پھر قسم کھا کر کہتا کہ میں آپ کی ہر بات پر جان قربان کرنے کے لئے تیار ہوں۔ مگر یہ شخص پرلے درجے کا منافق اور سخت جھگڑالو تھا۔ اصل قلب اللہ تعالیٰ نے منافقین کی یہ ایک عام صفت بیان کی ہے کہ بات بڑی دانشمندی کی کرتے ہیں اور اس پر اللہ کو گواہ بھی بناتے ہیں یعنی قسم کھا کر بات کرتے ہیں۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا اتخذوآ ایصانھم جنۃ “ یہ لوگ قسموں کو ڈھال کے طرو پر استعمال کرتے ہیں تاکہ مسلمان ان کی بات پر یقین کرلیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا ” واللہ یشھد ان المنفقین لکذبون خود میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں۔ معلوم ہوا کہ دل کی بات پر اللہ کو گواہ بنانا جھوٹی قسم کھانا ہے جب کہ زبان پر کچھ اور ہو ، اور باطن میں کچھ اور معلوم ہوا کہ حق و باطل کا مدار قلب پر ہے۔ جب تک اس کی اصلاح نہ ہو ، زبانی بات کا کچھ اعتبار نہیں ، اسی لئے حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے۔ اگر وہ درست ہے۔ تو سارا جسم درست ہے اور اگر وہ لوتھڑا خراب ہے۔ تو سارا جسم خراب ہے فرمایا الا وھی القلب اس سے مراد دل ہے۔ جس کی درستگی پر سارے جسم کی درستگی کا انحصار ہے۔ اگر دل میں حسد ، بغض ، کفر ، شرک اور نفاق کا فاسد مادہ موجود ہے تو پھر اس کی اصلاح ممکن نہیں۔ حدیث شریف میں اس کی مثال اس زخم کے ساتھ دی گئی ہے۔ جس میں پیپ بھری ہوئی ہو۔ منافقین کا دل بھی اسی طرح غلاظت کی آما جگاہ ہوتا ہے۔ جب تک دل کی اصلاح نہیں ہوگی۔ اعمال درست نہیں ہو سکتے۔ حضور ﷺ کی مجلس میں آ کر چکنی چپڑی باتیں کرنے والے منافق کے کردار کا دوسرا پہلو بیان فرمایا واذا تولی جب وہ اس مجلس سے پیٹھ پھیر کر علیحدہ ہوتا ہے۔ سعی فی الارض لیفسدفیھا پھر اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ زمین پر فساد برپا کیا جائے۔ پہنچانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ لہٰذا اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو تلاش نہ کرو۔ جو ایسا کرے گا ، اس کا دین ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ وھو فی الاخرۃ من الخسرین ایسا شخص آخرت میں نقصان میں پڑے گا۔ اسلام کے علاوہ کوئی دین بھی کامیابی کی طرف نہیں لے جائے گا۔ بلکہ اس کے متبعین سراسر خسارے کا سودا کریں گے۔ مسلمانوں کی بدقسمتی یہود و نصاریٰ کی اسلامی دشمنی تو قابل فہم ہے ، وہ تو دوسرا دین ہی تلاش کریں گے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ آج کا مسلمان بھی اپنے دین پر اعتماد نہیں کرتا۔ آج کے مسلمان بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جب تک غیر اقوام کی شاگردی اختیار نہیں کریں گے ، ترقی نصیب نہیں ہوگی۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جب مسلمان اپنے دین پر یقین کرتے تھے ، عروج کی بلندیوں پر تھے۔ کوئی قوم ان کا مقابلہ نہ کرسکتی تھی۔ مگر اب خود مسلمان انگریزوں سے مرعوب ہیں۔ ان کی تہذیب اختیار کر رہے ہیں انہی کے لہو و لعب میں مشغول ہیں اور اسی میں اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پیروان اسلام کے سوا کسی کو فلاح نصیب نہیں ہو سکتی۔ آخرت میں تو سخت نقصان اٹھانے والوں میں ہوں گے۔ اسلامی قوانین تہذیب و تمدن کے علاو ہ آج کا مسلمان اسلامی قوانین سے بھی مطمئن نظر نہیں آتا۔ اسی لئے وہ غیر اسلامی قوانین کی طرف دیکھ رہا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اسلام ایک فرسودہ دین بن چاک ہے۔ لہٰذا وہ اقتصادی نظام کے لئے روس ، جرمنی ، امریکہ اور فرانس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ حالانکہ ان کے پاس تعزیرات کا کوئی قانون موجود نہیں ان کے تمام قوانین بناوٹی ہیں۔ برخلاف اس کے کہ اسلام کے پاس اپنے قوانین موجود ہیں۔ صحابہ کرام کا دستور العمل مشعل راہ ہے۔ مگر اب قوانین اس مجلس شوریٰ سے بنوائے جا رہے ہیں۔ جس میں ہندو اور عیسائی بھی شامل ہیں۔ کیا اسلام کا قانون یہ لوگ بنائیں گے ؟ ممبران شوریٰ کے لئے تو خصوصی اہلیت مقرر ہونی چاہئے تھی۔ جس سے پتہ چلتا کہ واقعی یہ لوگ اسلامی قانون سازی کے قابل ہیں۔ حضرت عمر اور فساد سے مراد مسلمانوں کے خلاف سازش کرنا اور انہیں مالی و جانی نقصان پہنچانا ہے مزید برآں یہ شخص ویھلک الحرث کھیتی کو ہلاک کرتا ہے اور والنسل اور نسل کو ضائع کرتا ہے۔ کھیتی کو ہلاک کرنے کی صورت یہ ہے کہ مسلمانوں کی تیار تفصل کو نقصان پہنچایا جائے۔ پکی ہوئی کھیتی کو آگ لگا دی جائے۔ درختوں کا پھل ضائع کردیا جائے۔ یا سرے سے درخت ہی کاٹ دیئے جائیں اور نسل کشی سے مراد مطلق نسل کشی بھی ہے جیسا کہ منافقین کا وطیرہ ہے اور اس سے مراد مویشی بھی ہو سکتے ہیں جنہیں ہلاک کردیا جائے یا انہیں معذور بنا دیا جائے۔ فساد اصلاح کے مقابلے میں آتا ہے۔ اصلاح کا معنی درستگی اور فساد سے مراد بگاڑ ہے۔ اس کا بیان پہلے بھی آ چکا ہے ۔ ” واذا قیل لھم لاتفسدوا فی الارض جب منافقوں سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں ” انما نحن مصلحون “ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ہم کافروں سے محض اس لئے ملتے ہیں تاکہ صلح صفائی کا پہلو نکل سکے مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا واللہ لایحب الفساد مجھے فساد بالکل پسند نہیں۔ یہ منافق تو ادھر کی بات ادھر اور ادھر کی بات ادھر کر کے آپس میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کا مقصد تو لڑائی جھگڑا کرانا ہے۔ فساد کی ایک اور صورت لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف بدظن کرنا ہے اور سب سے بڑا فساد شرک اور کفر ہے۔ جو ان کے دلوں میں موجود ہے کفر اور شرک سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے جب کہ ایمان اور نیکی سے اصلاح کا پہلو نکلتا ہے۔ شرک و بدعات اور منکرات کے ذریعے ضمیر کی اصلاح ممکن نہیں ہے۔ شرائع الہیہ کو توڑنا فساد ہے۔ لوگوں کو غلط باتوں کی تلقین کرنا فساد ہے۔ امام بیضاوی فرماتے ہیں کہ یہ سب چیزیں فساد ہی کا حصہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں۔ تولی بمعنی حاکم حضرت شاہ ولی اللہ اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور بعض دوسرے مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ کہ تولیٰ کا ایک معنی پشت پھیرنا ہے اور دوسرا معنی والی یعنی حاکم بن جانا بھی ہے۔ اگر یہ معنی لیا جائے۔ تو مطلب ہوگا کہ جب منافق آدمی حاکم بن جاتا ہے۔ برسر اقتدار آجاتا ہے۔ تو زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنی من مانی کرے گا۔ لوگوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کریگا۔ لاقانونیت کا دور دورہ ہوگا یا غلط قانون جاری ہوں گے۔ شیخ سعدی کہتے ہیں۔ مدبر کہ قانون بدمی نہد ترامی برد تآباتش وہد جو شخص برا قانون جاری کرتا ہے وہ خود بھی جہنم رسید ہونے والا ہوتا ہے غلط قانون بنانا۔ اس کو جاری کرنا اور پھر اس پر عمل کرنا لوگوں کے حقوق ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ یہ تو قتل و غارت کا بازار گرم کرنا اور سیاست کو خراب کرنے والی بات ہے۔ ایسے ہی قوانین عیاشی اور فحاشی کو تقویت دیتے ہیں۔ منافق حکومتیں یہی کچھ کرتی ہیں کسی کو قتل کرا دیا ، کسی کے خلاف مقدمہ کھڑا کردیا۔ کسی کو ڈرایا و دھمکایا یہی تو فساد فی الارض ہے۔ تعمیر اخلاق کی بجائے تخریب اخلاق کی باتیں کی جائیں ، شراب نوشی کو عام کیا جائے تاکہ لوگوں کے ذہن مائوف ہوجائیں۔ حلال و حرام کی تمیز اٹھ جائے راگ و رنگ اور ناچ گانے کی محفلیں منعقد ہوں۔ رشوت کا بازار گرم ہو۔ غنڈے بدمعاشوں کی سرپرستی ہو۔ تصویر سازی عام ہوجائے اور برائی برائی نہ رہے۔ یہ سب فساد فی الارض کے مختلف حصے ہیں۔ جرائم کی سرپرستی ایک اخباری خبر کے مطابق امریکی سپریم کورٹ کے نو میں سے سات ججوں نے فیصلہ دیا کہ۔ عریاں ڈانس کرنا جرم نہیں ہے۔ انہوں نے لکھا کہ عورتوں کا برہنہ رقص محض جذبات کی عکاسی ہوتی ہے اور آئین ساز اسمبلی اس کا احترام کرتی ہے۔ یہ اس قوم کا حال ہے۔ جو آج کی دنیا میں سب سے زیادہ مہذب تصور کی جاتی ہے اگر برہنہ رقص عیب نہیں تو دنیا میں برائی نام کی کون سی چیز ہے۔ وہ لوگ توزنا کو بھی فیشن سمجھتے ہیں۔ برطانیہ نے لواطت کو قانوناً جائز قرار دے دیا ہے۔ اسی لئے بعض مفسرین نے یہاں لطیف نکتہ بیان کیا ہے کہ یھلک الحرث یعنی کھیتی تباہ کرنے سے مراد فعل زنا ہے جس کی وجہ سے کھیتی تباہ ہوتی ہے۔ منکوحہ عورت کے متعلق اللہ نے فرمایا۔ ” نسآء کم حرث لکم “ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔ انہیں سے فضل یعنی اولاد پیدا ہوتی ہے اور جب زنا کیا جاتا ہے تو کھیتی کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کو اپنی منکوحہ بیوی یا لونڈی کے علاوہ کسی دوسری عورت سے تمتع کی اجازت نہیں دی۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے متعلق فرمایا اولئک ھم العدون یہ لوگ زیادتی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ لہٰذا اسے ہر لحاظ سے ناپسندیدہ فعل قرار دیا گیا ہے۔ باقی رہا یھلک النسل تو اس سے مراد لواط سے (Sodomy) بھی ہو سکتی ہے ۔ جس سے نسل ضاء عہوتی ہے۔ ایسا فعل جانوروں سے بھی حرام ہے حتی کہ جلق (Masturbation) کو بھی ملعون فعل قرار دیا گیا ہے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو دین اخلاق اور ہر چیز کو تباہ کردیتی ہیں۔ برطانیہ میں زنا کی وہ صورت حرام ہے جو بالجبرد (Rape) کیا گیا ہو اور اگر کوئی مرد اور عورت باہمی رضا مندی سے اس فعل کا ارتکاب کرتے ہیں تو قانون کی نظر میں کوئی جرم نہیں۔ ایسے امور میں پولیس کو مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اسی طرح امریکہ میں برہنہ رقص بھی جائز ہے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب منافق برسر اقتدار آئیں گے۔ تو یہی کچھ ہوگا اسی کو فساد فی الارض سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں۔ تکبر بڑا گناہ ہے آگے ارشاد فرمایا واذا قیل لہ اتق اللہ اور جب ایسے منافق کو کہا جائے کہ اللہ سے ڈر جائو ، ایسی باتیں نہ کرو ، کسی کو ناحق قتل نہ کرو۔ گندے قانون جاری نہ کرو۔ جس سے لوگوں کے اخلاق بگڑتے ہوں تو اس کا جواب یہ دیتے ہیں۔ اخذتہ العزۃ بالاثم تو اسی گناہ پر تکبر کرتے ہیں۔ اتراتے ہیں۔ کہتے ہیں ہمارا تو قانون ہی یہ ہے اور فخر یہ اندازہ میں کہتے ہیں کہ ہم تو اس قانون کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے ۔ یہ ہماری اسمبلی کا ہماری اکثریت کا بنایا ہوا قانون ہے فرمایا ایسے لوگو کا حال یہ ہوگا فحسبہ جھنم کہ ان کے لئے جہنم کا فی ہے۔ ولیس المھاد اور یہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ اس قسم کے اعتقادی اور عملی منافقوں کا علاج جہنم کے گڑھوں میں ہوگا۔ یہ لوگ اچھی بات کو قبول نہیں کرتے اور الٹا غرور اور تکبر کرتے ہیں اگر ان کو کہو کہ اسرائیل کی پشت پناہی نہ کرو ۔ لوگوں پر ظلم نہ کرو ان کی سلطنتوں کے تختے نہ الٹو ، مگر وہ حق بات کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہونگے۔ یہ اعتقادی منافقوں کا حال ہے۔ مسلمان مگر منافق آج کا مسلمان اگر اعتقادی منافق نہیں تو عملی منافق ضرور ہے۔ اس کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے۔ ظاہر اور باطن مختلف ہیں۔ بڑے بڑے جلسے منعقد کریں گے۔ حضور ﷺ کی سیرت کو کامیابی کا ذریعہ بتائیں گے۔ قرآن پاک سے راہنمائی کے دعویٰ کریں گے۔ مگر عملی طور پر صفر ہیں۔ نہ قرآن پاک سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں اور نہ سیرت پاک کو اپناتے ہیں ۔ محض زبانی دعوے ہیں۔ حکومتوں کا بھی یہی حال ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ برائی کا خاتمہ ہوگا۔ فتنہ و فساد کی بیخ کنی ہوگی۔ معاشی اور معاشرتی اصلاحات ہوں گی۔ مگر عملی طور پر کچھ نہیں کرتے۔ یہ سب منافقت کی باتیں ہیں۔ سعودی عرب میں اجرائے حدود خاندان سعود کے برسر اقتدار آنے سے پہلے یہاں بھی چوری عام تھی اور ترکوں کے زمانہ سے چلی آ رہی تھی۔ جب ابن سعود جیسے بدوحاکم نے عنان حکومت سنبھالی تو اس سے چوری کی شکایت کی گئی۔ اس نے کہا یہ تو کوئی مسئلہ نہیں۔ میں صرف اڑھائی دن میں چوری بند کر کے دکھاتا ہوں اور پھر ایسا ہی ہوا۔ جب حدود اللہ کا نفاذ ہوا اس پر عمل کر کے دکھایا تو چوری کیا ہر جرم نیست و نابود ہوگیا۔ اب سعودی عرب والے چوری نہیں کرتے تاہم اقتصادی نظام کی بنیاد وہاں بھی سرمایہ داری پر ہے۔ اب امریکہ بلکہ ساری دنیا کو تسلیم کرنا پڑا ہے کہ سعودی عرب ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں چوری نہیں ہوتی۔ جہاں زنا کا ارتکاب نہیں ہوتا۔ وجہ یہی ہے۔ کہ وہاں حدود اللہ کا نفاذ ہے اور ان پر سختی سے عملدرآمد ہو رہا ہے۔ جاں نثاران اسلام منافقین کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مخلص لوگوں کا حال بھی بیان فرمایا ہے۔ ارشاد ہتا ہے ۔ ومن الناس من یشریٰ نفسہ ابتغآء مرضات اللہ اور لوگوں میں ایسا شخص بھی ہے۔ جو رضائے الٰہی کی تلاش میں اپنی جان کو بچتا ہے شراء کا معنی بیچنا اور خریدنا دونوں طرح آتا ہے ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں حضرت صہیب رومی کی طرف اشارہ ہے آپ جب ہجرت پر روانہ ہونے لگے تو مشرکین نے راستہ روک لیا۔ آپ نے کمان کو درست کیا۔ ترکش سے تیر نکالے اور فرمانے لگے۔ اے قریش ! تم مجھ سے واقف ہو کہ میں تیر انداز ہوں۔ جب تک میرے پاس ایک بھی تیرے ہے۔ تم میرے قریب نہیں آسکتے اور تلوار بھی میرے پاس موجود ہے۔ میں تمہارا ڈٹ کر مقابلہ کروں گا۔ بہتر ہے کہ تم میرا راستہ نہ روکو ۔ میرا اتنا مال فلاں جگہ موجود ہے۔ جائو وہ لے لو ، تمہارے لئے مباح کرتا ہو۔ چناچہ مشرکین نے اس پر اکتفا کرتے ہوئے راستہ چھوڑ دیا۔ جب مدینہ پہنچے تو حضور ﷺ نے فرمایا اے ابو یحییٰ ! تیری تجارت نفع مند ہے۔ وہ لوگ نہ مال کی پروا کرتے تھے۔ نہ جان کی۔ انہیں تو اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب تھی کہ کسی طرح ایمان بچ جائے یہی وہ لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش میں اپنی جان کو بیچتے تھے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمان ضعفاء نے بڑی بڑی تکالیف برداشت کیں۔ عمار کی والدہ سمیہ نے ایک عورت ذات ہوتے ہوئے اتنی بڑی قربانی دی۔ عمار کا باپ یاسر بھی شہید ہوا اور ماں بھی شہید ہوئی۔ ظالم ابوجہل نے حضرت سمیہ کی دونوں ٹانگیں مختلف اونٹوں سے باندھ کر مخالف سمتوں میں چلا دی اور اس طرح انہیں بےرحمی سے شہید کیا۔ حضرت خباب بن ارت ، حضرت بلال اور اس قسم کے کتنے ضعفاء تھے جنہوں نے بڑی سے بڑی تکلیفیں اٹھائیں۔ جان اور مال قربان کردیئے۔ مگر ایمان کو بچا گئے تاکہ اللہ کی خوشنودی حاصل ہوجائے۔ فرمایا واللہ رئوف بالعباد اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ شفقت کرنے اولا ہے۔ جو لوگ اپنا مال اور جان اللہ کی رضا کی تلاش میں صرف کردیتے یہاں تو اللہ بھی ان کو بےیارو مددگار نہیں چھوڑیگا۔ وہ تو بڑا ہی مہربان ہے یہ بھی اس کی خاص مہربانی ہے کہ ان کے دلوں کو نیکی کی طرف پھیر دیا اور وہ ہر قربانی کے لئے تیار ہوگئے۔ چناچہ ان کے حق میں نتیجہ بھی خوب ہی نکلے گا۔ وہ لوگ یقینا مراتب عالیہ پر فائز ہونگے۔ اللہ تعالیٰ خاص مہربانی کرنے والا ہے۔
Top