Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 204
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰى مَا فِیْ قَلْبِهٖ١ۙ وَ هُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَن : جو يُّعْجِبُكَ : تمہیں بھلی معلو ہوتی ہے قَوْلُهٗ : اس کی بات فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيُشْهِدُ : اور وہ گواہ بناتا ہے اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا : جو فِيْ قَلْبِهٖ : اس کے دل میں وَھُوَ : حالانکہ وہ اَلَدُّ : سخت الْخِصَامِ : جھگڑالو
اور لوگوں میں سے بعض وہ ہیں کہ دنیوی زندگی کے متعلق اس کی بات آپ کو تعجب میں ڈالتی ہے اور وہ اس چیز پر اللہ کو گواہ بناتا ہے۔ جو اس کے دل میں ہے حالانکہ وہ شخص بہت جھگڑا کرنے والا ہے
ربط آیات حج کے بیان کے آخری حصے میں دو قسم کے لوگوں کا تذکرہ ہوا ، ایک گروہ وہ ہے۔ جو آخرت کا بالکل منکر ہے۔ ایسے لوگ محض دنیا کے طلبگار ہوتے ہیں اور ان کی دعا بھی یہ ہوتی ہے ” ربنا اتنا فی الدنیا “ یعنی اے اللہ ! ہمیں جو کچھ دینا ہے اس دنیا میں ہی عطا کر دے۔ یہ لوگ یقینا کافر ہیں کیونکہ آخرت پر یہ ایمان ہی نہیں رکھتے۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو دنیا اور آخرت ہر دو کے طالب ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی دنیوی زندگی بھی خوشحالی میں بسر ہو ، اور آخرت میں بھی نجات حاصل ہوجائے۔ اسی لئے وہ اللہ تعالیٰ سے یوں سوال کرتے ہیں۔ ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار “ یہ ایماندار لوگ ہیں۔ گزشتہ آیات میں ان دو قسم کے لوگوں کا بیان آیا۔ مخلص اور منافق اب ان آیات میں بھی دو قسم کے لوگوں کا تذکرہ ہے۔ یہاں پر مومن اور کافر کا تقابل نہیں ، بلکہ مخلص اور منافق کا حال ہے۔ بظاہر یہ دونوں گروہ ایماندار ہیں۔ مگر ان کی بھی دو قسمیں ہیں۔ مخلص وہ لوگ ہیں ۔ جو انتہائی درجے کے پکے سچے اور مخلص ہیں اور دوسرے وہ ہیں۔ جو ظاہر میں تو ایمان والے ہیں مگر ان کے باطن میں کفر بھرا ہوا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق ارشاد ہتا ہے۔ ومن الناس من یعجیک قولہ فی الحیوۃ الدنیا یعنی بعض لوگ ایسے ہیں جن کی بات دنیوی زندگی میں آپ کو پسند آتی ہے۔ جب بات کرتے ہیں ، تو بڑے پتے کی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اونچے درجے کے لوگ ہیں۔ مگر حقیقت میں یہ ان کی چرب زبانی اور مکاری ہوتی ہے۔ محض زبان سے آپ کے روبرو میٹھی میٹھی اور آپ کے لئے خوش کن باتیں کرتے ہیں اور آپ کو وفاداری کا یقین دلاتے ہیں۔ ویشھد اللہ علی مافی قلبہ اور جو کچھ اس کے دل میں ہے ، اس پر اللہ کو گواہ بناتا ہے اور قسمیں کھا کر کہتا ہے۔ خدا گواہ ہے کہ مجھے آپ کے ساتھ بڑی محبت ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے ۔ وھوالدالخصام کہ وہ سخت جھگڑا کرنے والا ہے ایسے ہی لوگوں کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔ ابغض الرجال الی اللہ الدالخصم یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین وہ لوگ ہیں ، جو سخت جھگڑالو ہوتے ہیں۔ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ آیت اخنس بن شریق کے متعلق نازل ہوئی۔ یہ منافق تھا۔ مگر حضور ﷺ کی مجلس میں اکثر حاضر ہوتا اور اپنے آپ کو بڑا محب ظاہر کرتا بڑے مودب طریقے سے پیش آتا اور باور کرانا چاہتا کہ میں آپ کا بڑا جاں نثار ہوں اور پھر قسم کھا کر کہتا کہ میں آپ کی ہر بات پر جان قربان کرنے کے لئے تیار ہوں۔ مگر یہ شخص پرلے درجے کا منافق اور سخت جھگڑالو تھا۔ اصل قلب اللہ تعالیٰ نے منافقین کی یہ ایک عام صفت بیان کی ہے کہ بات بڑی دانشمندی کی کرتے ہیں اور اس پر اللہ کو گواہ بھی بناتے ہیں یعنی قسم کھا کر بات کرتے ہیں۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا اتخذوآ ایصانھم جنۃ “ یہ لوگ قسموں کو ڈھال کے طرو پر استعمال کرتے ہیں تاکہ مسلمان ان کی بات پر یقین کرلیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا ” واللہ یشھد ان المنفقین لکذبون خود میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں۔ معلوم ہوا کہ دل کی بات پر اللہ کو گواہ بنانا جھوٹی قسم کھانا ہے جب کہ زبان پر کچھ اور ہو ، اور باطن میں کچھ اور معلوم ہوا کہ حق و باطل کا مدار قلب پر ہے۔ جب تک اس کی اصلاح نہ ہو ، زبانی بات کا کچھ اعتبار نہیں ، اسی لئے حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے۔ اگر وہ درست ہے۔ تو سارا جسم درست ہے اور اگر وہ لوتھڑا خراب ہے۔ تو سارا جسم خراب ہے فرمایا الا وھی القلب اس سے مراد دل ہے۔ جس کی درستگی پر سارے جسم کی درستگی کا انحصار ہے۔ اگر دل میں حسد ، بغض ، کفر ، شرک اور نفاق کا فاسد مادہ موجود ہے تو پھر اس کی اصلاح ممکن نہیں۔ حدیث شریف میں اس کی مثال اس زخم کے ساتھ دی گئی ہے۔ جس میں پیپ بھری ہوئی ہو۔ منافقین کا دل بھی اسی طرح غلاظت کی آما جگاہ ہوتا ہے۔ جب تک دل کی اصلاح نہیں ہوگی۔ اعمال درست نہیں ہو سکتے۔ حضور ﷺ کی مجلس میں آ کر چکنی چپڑی باتیں کرنے والے منافق کے کردار کا دوسرا پہلو بیان فرمایا واذا تولی جب وہ اس مجلس سے پیٹھ پھیر کر علیحدہ ہوتا ہے۔ سعی فی الارض لیفسدفیھا پھر اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ زمین پر فساد برپا کیا جائے۔ پہنچانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ لہٰذا اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو تلاش نہ کرو۔ جو ایسا کرے گا ، اس کا دین ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ وھو فی الاخرۃ من الخسرین ایسا شخص آخرت میں نقصان میں پڑے گا۔ اسلام کے علاوہ کوئی دین بھی کامیابی کی طرف نہیں لے جائے گا۔ بلکہ اس کے متبعین سراسر خسارے کا سودا کریں گے۔ مسلمانوں کی بدقسمتی یہود و نصاریٰ کی اسلامی دشمنی تو قابل فہم ہے ، وہ تو دوسرا دین ہی تلاش کریں گے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ آج کا مسلمان بھی اپنے دین پر اعتماد نہیں کرتا۔ آج کے مسلمان بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جب تک غیر اقوام کی شاگردی اختیار نہیں کریں گے ، ترقی نصیب نہیں ہوگی۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جب مسلمان اپنے دین پر یقین کرتے تھے ، عروج کی بلندیوں پر تھے۔ کوئی قوم ان کا مقابلہ نہ کرسکتی تھی۔ مگر اب خود مسلمان انگریزوں سے مرعوب ہیں۔ ان کی تہذیب اختیار کر رہے ہیں انہی کے لہو و لعب میں مشغول ہیں اور اسی میں اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پیروان اسلام کے سوا کسی کو فلاح نصیب نہیں ہو سکتی۔ آخرت میں تو سخت نقصان اٹھانے والوں میں ہوں گے۔ اسلامی قوانین تہذیب و تمدن کے علاو ہ آج کا مسلمان اسلامی قوانین سے بھی مطمئن نظر نہیں آتا۔ اسی لئے وہ غیر اسلامی قوانین کی طرف دیکھ رہا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اسلام ایک فرسودہ دین بن چاک ہے۔ لہٰذا وہ اقتصادی نظام کے لئے روس ، جرمنی ، امریکہ اور فرانس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ حالانکہ ان کے پاس تعزیرات کا کوئی قانون موجود نہیں ان کے تمام قوانین بناوٹی ہیں۔ برخلاف اس کے کہ اسلام کے پاس اپنے قوانین موجود ہیں۔ صحابہ کرام کا دستور العمل مشعل راہ ہے۔ مگر اب قوانین اس مجلس شوریٰ سے بنوائے جا رہے ہیں۔ جس میں ہندو اور عیسائی بھی شامل ہیں۔ کیا اسلام کا قانون یہ لوگ بنائیں گے ؟ ممبران شوریٰ کے لئے تو خصوصی اہلیت مقرر ہونی چاہئے تھی۔ جس سے پتہ چلتا کہ واقعی یہ لوگ اسلامی قانون سازی کے قابل ہیں۔ حضرت عمر اور فساد سے مراد مسلمانوں کے خلاف سازش کرنا اور انہیں مالی و جانی نقصان پہنچانا ہے مزید برآں یہ شخص ویھلک الحرث کھیتی کو ہلاک کرتا ہے اور والنسل اور نسل کو ضائع کرتا ہے۔ کھیتی کو ہلاک کرنے کی صورت یہ ہے کہ مسلمانوں کی تیار تفصل کو نقصان پہنچایا جائے۔ پکی ہوئی کھیتی کو آگ لگا دی جائے۔ درختوں کا پھل ضائع کردیا جائے۔ یا سرے سے درخت ہی کاٹ دیئے جائیں اور نسل کشی سے مراد مطلق نسل کشی بھی ہے جیسا کہ منافقین کا وطیرہ ہے اور اس سے مراد مویشی بھی ہو سکتے ہیں جنہیں ہلاک کردیا جائے یا انہیں معذور بنا دیا جائے۔ فساد اصلاح کے مقابلے میں آتا ہے۔ اصلاح کا معنی درستگی اور فساد سے مراد بگاڑ ہے۔ اس کا بیان پہلے بھی آ چکا ہے ۔ ” واذا قیل لھم لاتفسدوا فی الارض جب منافقوں سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں ” انما نحن مصلحون “ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ہم کافروں سے محض اس لئے ملتے ہیں تاکہ صلح صفائی کا پہلو نکل سکے مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا واللہ لایحب الفساد مجھے فساد بالکل پسند نہیں۔ یہ منافق تو ادھر کی بات ادھر اور ادھر کی بات ادھر کر کے آپس میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کا مقصد تو لڑائی جھگڑا کرانا ہے۔ فساد کی ایک اور صورت لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف بدظن کرنا ہے اور سب سے بڑا فساد شرک اور کفر ہے۔ جو ان کے دلوں میں موجود ہے کفر اور شرک سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے جب کہ ایمان اور نیکی سے اصلاح کا پہلو نکلتا ہے۔ شرک و بدعات اور منکرات کے ذریعے ضمیر کی اصلاح ممکن نہیں ہے۔ شرائع الہیہ کو توڑنا فساد ہے۔ لوگوں کو غلط باتوں کی تلقین کرنا فساد ہے۔ امام بیضاوی فرماتے ہیں کہ یہ سب چیزیں فساد ہی کا حصہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں۔ تولی بمعنی حاکم حضرت شاہ ولی اللہ اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور بعض دوسرے مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ کہ تولیٰ کا ایک معنی پشت پھیرنا ہے اور دوسرا معنی والی یعنی حاکم بن جانا بھی ہے۔ اگر یہ معنی لیا جائے۔ تو مطلب ہوگا کہ جب منافق آدمی حاکم بن جاتا ہے۔ برسر اقتدار آجاتا ہے۔ تو زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنی من مانی کرے گا۔ لوگوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کریگا۔ لاقانونیت کا دور دورہ ہوگا یا غلط قانون جاری ہوں گے۔ شیخ سعدی کہتے ہیں۔ مدبر کہ قانون بدمی نہد ترامی برد تآباتش وہد جو شخص برا قانون جاری کرتا ہے وہ خود بھی جہنم رسید ہونے والا ہوتا ہے غلط قانون بنانا۔ اس کو جاری کرنا اور پھر اس پر عمل کرنا لوگوں کے حقوق ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ یہ تو قتل و غارت کا بازار گرم کرنا اور سیاست کو خراب کرنے والی بات ہے۔ ایسے ہی قوانین عیاشی اور فحاشی کو تقویت دیتے ہیں۔ منافق حکومتیں یہی کچھ کرتی ہیں کسی کو قتل کرا دیا ، کسی کے خلاف مقدمہ کھڑا کردیا۔ کسی کو ڈرایا و دھمکایا یہی تو فساد فی الارض ہے۔ تعمیر اخلاق کی بجائے تخریب اخلاق کی باتیں کی جائیں ، شراب نوشی کو عام کیا جائے تاکہ لوگوں کے ذہن مائوف ہوجائیں۔ حلال و حرام کی تمیز اٹھ جائے راگ و رنگ اور ناچ گانے کی محفلیں منعقد ہوں۔ رشوت کا بازار گرم ہو۔ غنڈے بدمعاشوں کی سرپرستی ہو۔ تصویر سازی عام ہوجائے اور برائی برائی نہ رہے۔ یہ سب فساد فی الارض کے مختلف حصے ہیں۔ جرائم کی سرپرستی ایک اخباری خبر کے مطابق امریکی سپریم کورٹ کے نو میں سے سات ججوں نے فیصلہ دیا کہ۔ عریاں ڈانس کرنا جرم نہیں ہے۔ انہوں نے لکھا کہ عورتوں کا برہنہ رقص محض جذبات کی عکاسی ہوتی ہے اور آئین ساز اسمبلی اس کا احترام کرتی ہے۔ یہ اس قوم کا حال ہے۔ جو آج کی دنیا میں سب سے زیادہ مہذب تصور کی جاتی ہے اگر برہنہ رقص عیب نہیں تو دنیا میں برائی نام کی کون سی چیز ہے۔ وہ لوگ توزنا کو بھی فیشن سمجھتے ہیں۔ برطانیہ نے لواطت کو قانوناً جائز قرار دے دیا ہے۔ اسی لئے بعض مفسرین نے یہاں لطیف نکتہ بیان کیا ہے کہ یھلک الحرث یعنی کھیتی تباہ کرنے سے مراد فعل زنا ہے جس کی وجہ سے کھیتی تباہ ہوتی ہے۔ منکوحہ عورت کے متعلق اللہ نے فرمایا۔ ” نسآء کم حرث لکم “ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔ انہیں سے فضل یعنی اولاد پیدا ہوتی ہے اور جب زنا کیا جاتا ہے تو کھیتی کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کو اپنی منکوحہ بیوی یا لونڈی کے علاوہ کسی دوسری عورت سے تمتع کی اجازت نہیں دی۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے متعلق فرمایا اولئک ھم العدون یہ لوگ زیادتی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ لہٰذا اسے ہر لحاظ سے ناپسندیدہ فعل قرار دیا گیا ہے۔ باقی رہا یھلک النسل تو اس سے مراد لواط سے (Sodomy) بھی ہو سکتی ہے ۔ جس سے نسل ضاء عہوتی ہے۔ ایسا فعل جانوروں سے بھی حرام ہے حتی کہ جلق (Masturbation) کو بھی ملعون فعل قرار دیا گیا ہے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو دین اخلاق اور ہر چیز کو تباہ کردیتی ہیں۔ برطانیہ میں زنا کی وہ صورت حرام ہے جو بالجبرد (Rape) کیا گیا ہو اور اگر کوئی مرد اور عورت باہمی رضا مندی سے اس فعل کا ارتکاب کرتے ہیں تو قانون کی نظر میں کوئی جرم نہیں۔ ایسے امور میں پولیس کو مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اسی طرح امریکہ میں برہنہ رقص بھی جائز ہے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب منافق برسر اقتدار آئیں گے۔ تو یہی کچھ ہوگا اسی کو فساد فی الارض سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں۔ تکبر بڑا گناہ ہے آگے ارشاد فرمایا واذا قیل لہ اتق اللہ اور جب ایسے منافق کو کہا جائے کہ اللہ سے ڈر جائو ، ایسی باتیں نہ کرو ، کسی کو ناحق قتل نہ کرو۔ گندے قانون جاری نہ کرو۔ جس سے لوگوں کے اخلاق بگڑتے ہوں تو اس کا جواب یہ دیتے ہیں۔ اخذتہ العزۃ بالاثم تو اسی گناہ پر تکبر کرتے ہیں۔ اتراتے ہیں۔ کہتے ہیں ہمارا تو قانون ہی یہ ہے اور فخر یہ اندازہ میں کہتے ہیں کہ ہم تو اس قانون کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے ۔ یہ ہماری اسمبلی کا ہماری اکثریت کا بنایا ہوا قانون ہے فرمایا ایسے لوگو کا حال یہ ہوگا فحسبہ جھنم کہ ان کے لئے جہنم کا فی ہے۔ ولیس المھاد اور یہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ اس قسم کے اعتقادی اور عملی منافقوں کا علاج جہنم کے گڑھوں میں ہوگا۔ یہ لوگ اچھی بات کو قبول نہیں کرتے اور الٹا غرور اور تکبر کرتے ہیں اگر ان کو کہو کہ اسرائیل کی پشت پناہی نہ کرو ۔ لوگوں پر ظلم نہ کرو ان کی سلطنتوں کے تختے نہ الٹو ، مگر وہ حق بات کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہونگے۔ یہ اعتقادی منافقوں کا حال ہے۔ مسلمان مگر منافق آج کا مسلمان اگر اعتقادی منافق نہیں تو عملی منافق ضرور ہے۔ اس کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے۔ ظاہر اور باطن مختلف ہیں۔ بڑے بڑے جلسے منعقد کریں گے۔ حضور ﷺ کی سیرت کو کامیابی کا ذریعہ بتائیں گے۔ قرآن پاک سے راہنمائی کے دعویٰ کریں گے۔ مگر عملی طور پر صفر ہیں۔ نہ قرآن پاک سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں اور نہ سیرت پاک کو اپناتے ہیں ۔ محض زبانی دعوے ہیں۔ حکومتوں کا بھی یہی حال ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ برائی کا خاتمہ ہوگا۔ فتنہ و فساد کی بیخ کنی ہوگی۔ معاشی اور معاشرتی اصلاحات ہوں گی۔ مگر عملی طور پر کچھ نہیں کرتے۔ یہ سب منافقت کی باتیں ہیں۔ سعودی عرب میں اجرائے حدود خاندان سعود کے برسر اقتدار آنے سے پہلے یہاں بھی چوری عام تھی اور ترکوں کے زمانہ سے چلی آ رہی تھی۔ جب ابن سعود جیسے بدوحاکم نے عنان حکومت سنبھالی تو اس سے چوری کی شکایت کی گئی۔ اس نے کہا یہ تو کوئی مسئلہ نہیں۔ میں صرف اڑھائی دن میں چوری بند کر کے دکھاتا ہوں اور پھر ایسا ہی ہوا۔ جب حدود اللہ کا نفاذ ہوا اس پر عمل کر کے دکھایا تو چوری کیا ہر جرم نیست و نابود ہوگیا۔ اب سعودی عرب والے چوری نہیں کرتے تاہم اقتصادی نظام کی بنیاد وہاں بھی سرمایہ داری پر ہے۔ اب امریکہ بلکہ ساری دنیا کو تسلیم کرنا پڑا ہے کہ سعودی عرب ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں چوری نہیں ہوتی۔ جہاں زنا کا ارتکاب نہیں ہوتا۔ وجہ یہی ہے۔ کہ وہاں حدود اللہ کا نفاذ ہے اور ان پر سختی سے عملدرآمد ہو رہا ہے۔ جاں نثاران اسلام منافقین کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مخلص لوگوں کا حال بھی بیان فرمایا ہے۔ ارشاد ہتا ہے ۔ ومن الناس من یشریٰ نفسہ ابتغآء مرضات اللہ اور لوگوں میں ایسا شخص بھی ہے۔ جو رضائے الٰہی کی تلاش میں اپنی جان کو بچتا ہے شراء کا معنی بیچنا اور خریدنا دونوں طرح آتا ہے ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں حضرت صہیب رومی کی طرف اشارہ ہے آپ جب ہجرت پر روانہ ہونے لگے تو مشرکین نے راستہ روک لیا۔ آپ نے کمان کو درست کیا۔ ترکش سے تیر نکالے اور فرمانے لگے۔ اے قریش ! تم مجھ سے واقف ہو کہ میں تیر انداز ہوں۔ جب تک میرے پاس ایک بھی تیرے ہے۔ تم میرے قریب نہیں آسکتے اور تلوار بھی میرے پاس موجود ہے۔ میں تمہارا ڈٹ کر مقابلہ کروں گا۔ بہتر ہے کہ تم میرا راستہ نہ روکو ۔ میرا اتنا مال فلاں جگہ موجود ہے۔ جائو وہ لے لو ، تمہارے لئے مباح کرتا ہو۔ چناچہ مشرکین نے اس پر اکتفا کرتے ہوئے راستہ چھوڑ دیا۔ جب مدینہ پہنچے تو حضور ﷺ نے فرمایا اے ابو یحییٰ ! تیری تجارت نفع مند ہے۔ وہ لوگ نہ مال کی پروا کرتے تھے۔ نہ جان کی۔ انہیں تو اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب تھی کہ کسی طرح ایمان بچ جائے یہی وہ لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش میں اپنی جان کو بیچتے تھے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمان ضعفاء نے بڑی بڑی تکالیف برداشت کیں۔ عمار کی والدہ سمیہ نے ایک عورت ذات ہوتے ہوئے اتنی بڑی قربانی دی۔ عمار کا باپ یاسر بھی شہید ہوا اور ماں بھی شہید ہوئی۔ ظالم ابوجہل نے حضرت سمیہ کی دونوں ٹانگیں مختلف اونٹوں سے باندھ کر مخالف سمتوں میں چلا دی اور اس طرح انہیں بےرحمی سے شہید کیا۔ حضرت خباب بن ارت ، حضرت بلال اور اس قسم کے کتنے ضعفاء تھے جنہوں نے بڑی سے بڑی تکلیفیں اٹھائیں۔ جان اور مال قربان کردیئے۔ مگر ایمان کو بچا گئے تاکہ اللہ کی خوشنودی حاصل ہوجائے۔ فرمایا واللہ رئوف بالعباد اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ شفقت کرنے اولا ہے۔ جو لوگ اپنا مال اور جان اللہ کی رضا کی تلاش میں صرف کردیتے یہاں تو اللہ بھی ان کو بےیارو مددگار نہیں چھوڑیگا۔ وہ تو بڑا ہی مہربان ہے یہ بھی اس کی خاص مہربانی ہے کہ ان کے دلوں کو نیکی کی طرف پھیر دیا اور وہ ہر قربانی کے لئے تیار ہوگئے۔ چناچہ ان کے حق میں نتیجہ بھی خوب ہی نکلے گا۔ وہ لوگ یقینا مراتب عالیہ پر فائز ہونگے۔ اللہ تعالیٰ خاص مہربانی کرنے والا ہے۔
Top