Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 214
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ١ؕ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰى یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ١ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ
اَمْ : کیا حَسِبْتُمْ : تم خیال کرتے ہو اَنْ : کہ تَدْخُلُوا : تم داخل ہوجاؤگے الْجَنَّةَ : جنت وَلَمَّا : اور جبکہ نہیں يَاْتِكُمْ : آئی تم پر مَّثَلُ : جیسے الَّذِيْنَ : جو خَلَوْا : گزرے مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے مَسَّتْهُمُ : پہنچی انہیں الْبَاْسَآءُ : سختی وَالضَّرَّآءُ : اور تکلیف وَزُلْزِلُوْا : اور وہ ہلادئیے گئے حَتّٰى : یہانتک يَقُوْلَ : کہنے لگے الرَّسُوْلُ : رسول وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مَعَهٗ : ان کے ساتھ مَتٰى : کب نَصْرُ اللّٰهِ : اللہ کی مدد اَلَآ : آگاہ رہو اِنَّ : بیشک نَصْرَ : مدد اللّٰهِ : اللہ قَرِيْبٌ : قریب
کیا تم گمان کرتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہو جائو گے حالانکہ تمہارے پاس پہلے لوگوں کے سے حالات نہیں آئے۔ ان کو سختی اور تکلیف پہنچی اور وہ متزلزل کئے گئے ، یہاں تک کہ اللہ کے رسول اور اس پر ایمان لانے والے کہنے لگے ، اللہ کی مدد کب آئے گی۔ فرمایا آگاہ رہو بیشک اللہ کی مدد قریب ہے
گزشتہ سے پیوستہ گزشتہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ابتداء میں سب لوگ ایک ہی مذہب و ملت پر تھے۔ پھر جب انہوں نے دین حق سے اختلاف کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے سچا دین واضح کرنے کے لئے انبیاء (علیہم السلام) کو مبعوث فرمایا اور یہ اختلاف کسی غلط فہمی کی بنا پر نہیں تھا۔ بلکہ واضح دلائل آنے کے بعد محض حسد ، خود غرضی اور مفاد پرستی کی وجہ سے تھا۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی راہ حق کی طرف راہنمائی فرما دی اور ان پر حق واضح کردیا۔ کیونکہ صراط مستقیم کی طرف راہنمائی اللہ تعالیٰ اپنی مشیت سے جسے چاہتے ہیں کرتے ہیں۔ اس سے پہلی آیت میں فرمایا تھا کہ کافر لوگ دنیا کی محبت اور غرور کی وجہ سے کمزور و ناتواں مسلمانوں کو استہزاء کا نشانہ بناتے ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں تکلیف پہنچتی ہے۔ ان دونوں آیات کا آیت زیر درس کے ساتھ ربط ہے۔ ان کو ذہن میں رکھنے سے اس آیت کا مفہوم سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ مشکلات کا سامنا اہل ایمان کو پیش آنے والی مشکلات کی طرف اشارہ کر کے ارشاد ہو رہا ہے ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ کیا تم گمان کرتے ہو کہ بغیر کوئی مشقت اٹھائے اور بغیر کسی تکلیف کے تم جنت میں پہنچ جائو گے۔ مسلمان کو یاد ہونا چاہئے کہ ان کو اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے واسطہ ہے ۔ منافقین ہر حالت میں ان کے نقصان کے در پے ہیں۔ ان پر آوازے کسے جاتے ہیں ، جسمانی تکالیف دی جاتی ہیں۔ مسلمان فقر و افلاس کے شکار ہیں۔ امراض اور دیگر پریشانیوں میں مبتلا ہیں فرمایا جو کوئی ان تمام مشکلات کو عبور کر کے اپنے ایمان کو سلامت لے نکلنے ہوگا۔ وہی جنت میں داخلے کا حق دار ہوگا۔ محض کلمہ پڑھ لینے سے کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا ، بلکہ اس پر طرح طرح کی آزمائشیں آئیں گی ، جن پر اسے پورا اترنا ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے۔ ” نبلوا کم بالشروالخیر فتنہ “ ہم خیر اور شر کے ذریعے تمہیں آزمائیں گے ایک اور مقام پر فرمایا ” ولنبلونکم بشئی من الخوف والجوع و نقص من الاموال والانفس والثمرات ” ہم تمہیں ہر طرح سے آزمائیں گے یعنی خوف ، بھوک ، جان و مال اور پھلوں میں کمی کر کے آزمائش کریں گے کہ ہمارا بندہ کس حد تک مشکلات کو برداشت کرسکتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے حفت الجنۃ بالمکارہ یعنی جنت کی باڑ مشکلات ہیں۔ ان کو عبور کر کے ہی کوئی شخص جنت میں پہنچ سکتا ہے۔ خفت النار بالشھوت جہنم کی باڑ خواہشات ہیں۔ خواہشات کی تکمیل کے لئے لوگ دوڑ دوڑ کر ان کی طرف جاتے ہیں اور انہیں عبور کر کے جہنم میں داخل ہوجاتے ہیں۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے لوگو ! کیا تم سمجھتے ہو کہ بغیر کسی مشقت کے آسانی کے ساتھ جنت میں مقام حاصل کرلو گے۔ ایسا نہیں ہے۔ سابقین کی مثالیں اس حقیقت کی مزید وضاحت کے لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ ولما یاتکم مثل الذین خلوا من قبلکم کیا تم تک پہلے لوگوں کے حالات نہیں پہنچے۔ اگر نہیں پہنچے تو ذرا ان کے حالات معلوم کرلو۔ تاکہ تمہیں پتہ چل جائے کہ مستھم الباسآء والضرآء وزلزلوا ان پر کیسی کیسی سختیاں اور تکلیفیں آئیں اور وہ ہلا دیئے گئے۔ ان کو ایسے مصائب کا سامنا کرنا پڑا کہ تم گمان بھی نہیں کرسکتے۔ ان تمام تر دشواریوں کو برداشت کرنے کے بعد وہ جنت کے حقدار ہوئے مثلاً حضرت جناب بن ارت کی تکالیف کو دیکھو۔ بخاری شریف اور یدگر کتب احادیث میں موجود ہے کہ حضرت جناب نے ان مشکلات کو کس طرح برداشت کیا اور پھر کفار مکہ کی ان سزائوں سے تنگ آکر حضور خاتم النبین ﷺ کی خدمت میں عرض کیا۔ حضور ! الا تدعولنا کیا آپ ہمارے لئے دعا نہیں فرماتے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مصائب سے نجات دلائے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا افسوس کا مقام ہے کہ تم بےصبری کا مظاہرہ کر رہے ہو۔ حالانکہ تم سے پہلے ایسے اللہ ایمان بھی گزرے ہیں ، جن کے سروں پر آرہ رکھ کر چیر دیا گیا۔ مگر وہ اپنے دین پر قائم رہے۔ پھر ایسے لوگ بھی تھے جنہیں لوہے کے کنگھوں سے نوچ دیا گیا مگر ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔ میں تم کو بتلا دینا چاہتا ہوں۔ واللہ لیتمن ھذا الامر اللہ کی قسم یہ معاملہ پورا ہو کر رہے گا۔ تب اسلام کو غلبہ حاصل ہوگا اور پھر امن وامان کا وہ دور دورہ ہوگا کہ ایک 1 ؎ عورت صنعاء سے تنہا حضر موت سفر کریگی ، مگر اسے سوائے خدا تعالیٰ کے کسی چیز کا خوف نہیں ہوگا۔ انسان تو کجا 1 ؎ تفسیر کبیر ص 21/ج 2 (فیاض) کسی بھیڑیے کو بھی یہ جرأت نہ ہوگی کہ کسی بھیڑ کو کھا جاتے۔ باسآء سے مراد سختی ہے اور یہ اندرونی اور بیرونی ہر دو طریقے سے ہو سکتی ہے۔ جیسے تجارت میں نقصان ہوگا۔ فقر و فاقہ کی نوبت آگئی۔ اس کی تفصیل آگے آئیگی اور ضرآء جسمانی تکلیف کو کہتے ہیں جیسے بیماری آگئی کوئی حادثہ پیش آ گیا زلزلوا کا معنی ہلا دیئے گئے ہے۔ یعنی پریشانی کے عالم میں ان پر لرزہ طاری ہوگیا ۔ گھبراہٹ پیدا ہوگئی یا ان کی عزت نفس کو متزلزل کردیا گیا ، یہ سب آزمائش کی مختلف قسمیں ہیں۔ جن سے پہلے لوگوں کو گزرنا پڑا۔ یہاں تک کہ اللہ کے رسول اور اہل ایمان پکار اٹھے۔ حتی یقول الرسول والذین امنوا معہ متی نصر اللہ کہ اللہ کی مدد کب آئیگی۔ نصرت الٰہی مولانا شاہ اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں کہ بشریت کے تقاضے اللہ کے کامل بندوں پر بھی وارد ہوتے ہیں۔ ان پر بھی دشواریاں آتی ہیں ، ان پر بھی اضطراری حالت آتی ہے۔ مگر یہ چیز ان کے مرتبہ کمال کے منافی نہیں ہے۔ بعض اوقات انبیاء بھی پکار اٹھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کب آئیگی۔ تو اللہ تعالیٰ کی طرسے اعلان ہوتا ہے الا ان نصر اللہ قریب اے میرے بندو فکر نہ کرو ، اللہ کی مدد بالکل قریب ہے اور وہ پہنچنے ہی والی ہے۔ تاہم اہل ایمان کی شان یہ ہے کہ وہ ہر آزمائش میں ثابت قدم رہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة صف میں اہل ایمان کو خطاب فرمایا کہ اللہ کے عذاب سے خلاصی حاصل کرنا چاہتے ہو تو ” تومنون باللہ ورسولہ “ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو و ” وتجاھدون فی سبیل اللہ باموالکم وانفسکم “ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال و جان کے ساتھ جہاد کرو ، تو اللہ تعالیٰ تمہیں بہترین نعمتوں والی جنت میں داخل کر دے گا۔ “ واخری تحبونھا “ اس کے علاوہ تمہاری پسندیدہ ایک اور نعمت عطاء کرے گا ، وہ کیا ؟ ” نصر من اللہ وفتح قریب “ وہ اللہ کی مدد اور قریب فتح ہوگی ، جس سے تم نوازے جائو گے ۔ غرضیکہ اللہ کی یہی وہ مدد ہے جس کے لئے اللہ کے رسول بھی ہاتھ پھیلا دیتے ہیں اور اللہ کا ارشاد ہوتا کہ اس کی مدد قریب ہے۔ اشاعت دین جہاد کی مختلف اقسام میں سے معروف قسم جہاد بالنسان یعنی تلوار و تیر کے ساتھ جہاد ہے۔ آج کے زمانہ میں ترقی یافتہ آلات حرب بندوق ، پستول ، بم ، میزائل ، ٹنیک توپ وغیرہ اسی قبیل سے ہیں۔ جن کے ذریعے دشمن سے جنگ کی جاتی ہے۔ تاہم جہاد کی ایک نہایت اعلیٰ قسم اشاعت دین ہے۔ جسے ” جاھدھم بہ جہاد “ کبیراً “ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ ان کے ساتھ بڑا جہاد کریں اور وہ جہاد نیکی کو پھیلا اور برائی کو روکنا ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اشاعت دین جیسے اہم فریضہ جہاد پر مامور کیا ہے۔ جس کے لئے میں شب و روز مصروف کار ہوں۔ اشاعت علم دین کی کئی ایک صورتیں ہیں۔ ان میں ایک معروف صورت تالیف و تصنیف ہے۔ ائمہ دین نے اس سلسلہ میں بڑی کوشش اور محنت کی ہے۔ امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح کی تدوین پر سولہ سال صرف کر کے جہاد فی اشاعت علم کا حق ادا کردیا۔ امام مسلم نے پندرہ سال کے عرصہ میں ذخیہ حدیث میں سے صحیح مسلم کو جمع کیا۔ مفسرین کرام نے قرآن پاک کی تفاسیر لکھ کر جہاد میں حصہ لیا۔ امام ابوحنیفہ اور دیگر ائمہ نے اپنے اپنے شعبہ میں دین کی خدمت انجام دی۔ الغرض تبلیغ دین کے کسی بھی شعبہ کو حقیر نہیں جاننا چاہئے۔ اشاعت دین کے ہر کارکن کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے بھی شعبہ کو حقیر نہیں جاننا چاہئے۔ اشاعت دین کے ہر کارکن کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ اہل ایمان کے لئے تبلیغ دین نہایت اہم فریضہ ہے۔ چناچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ ” کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعرونف و تنھون عن المنکر “ تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو تبلیغ دین کا کام کرے ، لوگوں کو نیکی کا حکم کرے اور برائی سے روکے خود حضور اکرم ﷺ کو حکم ہوتا ہے۔ ” بلغ ما انزل الیک من ربک “ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ حکم آپ آگے پہنچا دیں۔ ” فان لم تفعل فما بلغت رسالتہ “ اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو سمجھا جائے گا کہ آپ نے حق رسالت ادا نہیں کیا۔ ساتویں صدی ہجری تک کا زمانہ مسلمانوں کا سنہری زمانہ شمار ہوتا ہے۔ تبلیغ دین ، فتوحات ، سیاسیات ، معاشیات سب کچھ مسلمانوں کے ہاتھ میں رہا۔ علمی کام جس قدر انجام پایا ہے۔ اسی زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس عرصہ میں بڑے بڑے محدثین ، مفسرین حافظ اور فقہا پیدا ہوئے۔ جنہوں نے اشاعت دین میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، اس کے بعد مسلمانوں پر انحطاط کا دور شروع ہوگیا۔ اور اب تک جاری ہے۔ اس عرصہ میں خال خال ہی لوگ پیدا ہوئے ہیں۔ جنہوں نے کما حقہ اشاعت دین کا کام کیا۔ لہٰذا اس زمانے میں اس طرف زیادہ سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ جانی اور مالی جہاد جہاد میں مال اور جان دونوں چیزیں لگانا پڑتی ہیں۔ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرو ” باموالکم و انفسکم “ تاہم نیت اصلاح کی ہونی چاہئے۔ آگے اصلاح کے دو پہلو ہیں یعنی اصلاح نفس اور اصلاح عالم اپنے نفس کی اصلاح اس لئے ضروری ہے کہ اس کے بغیر انسان خطیرۃ القدس کا ممبر بن کر علین میں نہیں پہنچ سکتا اور اصلاح عالم بدیں وجہ لازم ہے کہ اس کے بغیر فتنہ و فساد کو ختم نہیں کیا جاسکتا لہٰذا یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ مال کا ایک بہترین مصرف اشاعت اسلام ہے۔ انحطاط کے اس زمانہ میں الہ ثروت اس مد میں کتنا خرچ کر رہے ہیں۔ اس کام کے لئے جس قدر سرمایہ کی ضرورت ہے۔ اس کا ایک فیصد بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ مسلمانوں کی دولت آج عیش پرستی پر خرچ ہو رہی ہے۔ حضور ﷺ نے ممانعت فرمائی ہے۔ فرمایا فان عباد اللہ لیسوا بالمتنعمین یعنی اللہ کے بندے عیش پسند نہیں ہو سکتے۔ عیش پرستی تو کفار کا شیوہ ہے ۔ مسلمان کی دولت تو امور خیر پر خرچ ہونی چاہئے۔ مگر افسوس کا مقام ہے۔ آج مسلمان عمارات اور ان کی تزئین پر بےدریغ روپیہ صرف کر رہا ہے۔ کھیل تماشے اور لہو و لعب کو اولیت دی جا رہی ہے۔ مگر جہاد کی مدات سے صرف نظر کیا جا رہا ہے۔ اشاعت دین کا تھوڑا بہت کام جو ہو رہا ہے ۔ وہ بزرگان دین کے خلوص کا نتیجہ ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کرلیا ہے۔ ورنہ موجودہ زمانے میں کتنے لوگ ہیں جو اس طرف توجہ دے رہے ہیں۔ الا ما شآء اللہ۔ مجاہدہ ضروری ہے بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے بعض بندے ایسے بھی ہوں گے ، جنہیں بغیر حساب کتاب کے بخش دیا جائے گا تو یہاں پر اشکال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں آزمائشوں میں پورا اترنا کس حد تک ضروری رہ جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ مجاہدہ کے بغیر بخشش نہیں ہے۔ البتہ اعلیٰ درجہ حاصل کرنے کے لئے تو مجاہدہ اور بھی ضروری ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے قریب ترسب لوگوں کو امتحانات سے گزرنا پڑا ، تب ان کو بلند مراتب حاصل ہوئے۔ مگر کوئی عام مسلمان بھی مجاہدہ سے خالی نہیں ہے۔ کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی بھی جب ایمان لاتا ہے ، تو اسے کم از کم اپنے نفس اور شیطان کے خلاف تو مجاہدہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ کیونکہ ایمان کا تقاضا ہے کہ نیکی کی طرف راغب ہو اور برائی سے اجتناب کرے۔ اور یہی چیز شیطان پر شاق گزرتی ہے۔ جب شیطان اس مومن کی نیکی میں آڑے آتا ہے۔ تو اس کے خلاف جہاد کرنا پڑتا ہے ” ولکل درجت مما عملوا “ ہر شخص کے لئے اس کے عمل کے مطابق درجات ہیں۔ مگر مجاہدہ سے مبرا کوئی بھی نہیں حضور ﷺ نے فرمایا کہ وضو کرنے اور نماز ادا کرنے کے لئے بھی تکلیف اٹھانا پڑتی ہے ، یہی مجاہدہ ہے۔ پھر جتنا بڑا مجاہدہ کوئی کریگا ، اتنا بڑا اعزاز پائے گا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مومن یہ نہ سمجھیں کہ بغیر آزمائش کے جنت میں چلے جائیں گے حالانکہ پہلے لوگوں کو بڑی بڑی مصیبتیں برداشت کرنا پڑیں تب جا کر وہ جنت کے حقدار ہوئے۔ خرچ کی مدات (1) والدین یہاں پر دوسرا مسئلہ خرچ کی مختلف مدات کے متعلق ہے۔ یہ مسئلہ قرآن پاک میں کئی ایک مقامات پر بیان ہوا ہے اور اپنی نوعیت کے مطابق ایک ہی سوال کے مختلف جوابات دیئے گئے ہیں۔ یہاں پر بھی سوال عام نوعیت کا ہے۔ یسئلونک ماذا ینفقون اے نبی (علیہ السلام) ! یہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا چیز خرچ کریں۔ اللہ تعالیٰ خود ہی اس بات کا جواب دیتے ہیں قل آپ فرما دیجیے ، ما انفقتم من خیر تم جو کچھ بھی اپنے مال سے خرچ کرو۔ فللوا الدین یہ تمہارے والدین کے لئے ہے۔ خیر کا لفظ نیکی اور بھلائی پر بھی بولا جاتا ہے اور یہاں اس سے مراد مال ہے۔ جیسا دوسری جگہ فرمایا انہ لحب الخیر لشدید انسان مال کی محبت میں بہت سخت ہوتا ہے۔ قرآن و سنت میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بہت تاکید آئی ہے۔ ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ کسی پوچھنے والے نے پوچھا ، یا رسول اللہ ﷺ من ابر میں کسی کے ساتھ نیکی کروں۔ رحمت العلمین نے فرمایا امک یعنی اپنی ماں کے ساتھ بہتر سلوک کرو۔ سوال کرنے والے نے تین دفعہ دریافت کیا اور آپ نے ہر بار یہی جواب دیا چوتھی دفعہ پوچھنے پر فرمایا باک یعنی اپنے باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ مقصد یہ کہ مال خرچ کرنے کے معاملہ میں والدین کو اولیت دو ۔ ان کی خدمت کرو۔ وہ سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ ہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ زکوۃ کا مال نہ اولاد والدین پر خرچ کرسکتی ہے اور نہ والدین اولاد کو دے سکتے ہیں۔ یہ مسئلہ الگ ہے۔ اس کے علاوہ جو مال ہے۔ اس کے سب سے زیادہ مستحق والدین ہیں۔ البتہ یہ استحقاق مشروط ہے۔ اگر والدین محتاج ہیں تو پھر ان پر خرچ کرنا فرض ہوجاتا ہے اور اگر وہ خود صاحب مال ہیں تو پھر مالی خدمت فرض نہیں رہتی۔ البتہ ان کی جانی خدمت کرے۔ میٹھی چاپی کے ذریعے ان کو راحت پہنچائے یا اچھی بات کر کے ان کو دل بہلائے ۔ تمام سابقہ شرائع اور خود ہماری شریعت مطہرہ کا قانون یہی ہے۔ کہ ” باوالدین احساناً “ والدین کے ساتھ احسان کرو۔ (2) اقربا خرچ کی دوسری مد فرمایا ولا قربین قرابت داروں پر خرچ کرو۔ اگر کسی صاحب ثروت آدمی کے قریب عزیز رشتہ دار امداد کے مستحق ہیں ، تو ان کی اعانت کرنا ضروری ہے۔ دوسری جگہ فرمایا ” وات ذا القربی حقہ “ اپنے قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو۔ اس کا فلسفہ یہ بیان فرمایا ” اتوھم من مال اللہ الذی اتکم “ جو مال تمہیں اللہ نے عطا کیا ہے۔ اس میں سے دو اور یہ اسی طرح مختلف ذرائع سے حاصل ہوتا رہتا ہے ، جیسے کسی کو وراثت میں حصہ مل گیا۔ کسی کو تجارت میں نفع حاصل ہوا ، کسی کا ذریعہ ملازمت بن گیا۔ کسی کو کھیتی باڑی ، کسی کو محنت مزدوری کے ذریعے مال حاصل ہوا۔ تو اللہ تعالیٰ نے مختلف ذرائع سے جو مال تمہیں دیا ہے۔ اس میں سے اپنے قرابت داروں پر خرچ کرو۔ انفاق مال کی یہ بھی ایک مد ہے۔ (3) یتیم و مسکین والیتمی والمسکین اور یتیموں اور مسکینوں پر خچ کرو۔ اس مادی جہاں میں یتیم وہ ہے جس کے سر پر اس کا سرپرست نہ ہو۔ والد فوت ہوجائے ذرائع آمدن نہ ہوں انسان بےسہارا ہوجائے ایسے فرد کی دستگیری ضروری ہے اور مسکین وہ ہے جو محنت اور کوشش کے باوجود اپنے ضروری اخراجات پورے کرنے کے قابل نہ ہو۔ ایسے شخص زکواۃ کے حقدار بھی ہیں۔ انما الصدقت للفقرآء والمسکین لہٰذا صدقات و خیرات کا حقدار وہ شخص ہے ، جو جنت مزدوری کرنے کے باوجود اپنے بچوں کی بنیادی ضرویات بھی پوری نہیں کرسکتا۔ وہ بیچارے مناسب لباس اور معقول خوراک سے محروم ہیں۔ ان کی صحت اور تعلیم کی ضروریات ہیں۔ سر چھپانے کے لئے انہیں بھی مکان درکار ہے۔ مگر ان کا سرپرست یہ ضروریات کما حقہ پوری نہیں کرپاتا۔ اللہ اور اس کے رسول کی قائم کردہ یہی وہ بنیادی ضروریات ہیں۔ جن کو پیش کرنے میں یورپ و امریکہ والے فخر کرتے ہیں اور ان کی حمایت کا دم بھرتے ہیں۔ دراصل یہ چارٹر تو قرآن و سنت کا مقرر کردہ ہے ۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تعلیم تو یہاں سے ملتی ہے۔ منشور ہمیں بتاتا ہے کہ ہر انسان کو کم از کم اتنی تعلیم تو حاصل ہونی چاہئے جس کے ذریعے وہ اپنے حقوق و فرائض سے واقف ہو سکے اور پھر ان کی ادائیگی کے لئے کوشش کرے۔ (4) مسافر وابن السبیل اور مسافروں پر خرچ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے مسافروں کی خدمت کا بھی حکم دیا ہے مسافروں پر خرچ کرنا بھی تمہارے مال کے مصارف میں سے ایک ہے یہاں پر یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہئے کہ اس معاملہ میں کسی پارٹی یا گروہ کی تخصیص نہیں ہے کہ یہ ہماری پارٹی کا ہے اور وہ تمہارے گروہ کا ہے بلکہ ہمارا تو شعار یہ ہے من کان یومن باللہ فلیکرم ضیفہ جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے۔ اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور مسافر مہمان ہوتا ہے اور مہمان کے متعلق حکم ہے کہ ایک دن تک اس کی خوب خاطر تواضع کرو اور تین دن تک ضیافت۔ اگر تین دن کے بعد بھی اس کی خدمت کرو گے تو وہ صدقہ میں شمار ہوگا۔ اسلامی معاشرہ الغرض ! اسلامی معاشرہ کی تعمیر کے لئے ضروری ہے کہ کمزوروں اور محتاجوں کی اعانت کی جائے تاکہ وہ سوسائٹی میں باعزت مقام حاصل کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان مدات پر مال صرف کرنے کا حکم دیا ہے۔ برخلاف اس کے غیر ضروری اور ناجائز کاموں پر خرچ کرنے سے منع فرمایا ہے اور اسے اسراف سے تعبیر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دیواروں پر پردے لٹکانے اور تصاویر آویزاں کرنے کا حکم تو نہیں دیا ۔ باجے گانے اور عیاشی و فحاشی سے منع فرمایا ہے۔ بلکہ محتاج و ناتواں کی دست گیری کا حکم دیا ہے۔ صحابہ کرام اور سلف صالحین کے دور کا مطالعہ کریں کہ وہ غریب طبقوں کی کس طرح مدد کرتے تھے۔ ان کی عزت نفس کا خیال رکھتے تھے۔ ان کے احساس تک کو مجروح ہونے سے بچاتے تھے۔ ان کی ضرورت خفیہ طریقے سے ان کے گھروں پر پہنچا دیتے تھے۔ اسلامی سوسائٹی کا معیار تو یہ ہے۔ انسانیت کا مقام تو اس طرح بلند ہوتا ہے۔ مگر آج ہمارا شیوہ یہ ہے کہ گرے پڑے کہ اٹھانے کی بجائے اسے بالکل ختم کرنے کے در پے ہیں۔ امیر سے امیر تر اور غریب سے غریب تر ہو رہا ہے۔ یہ اسلامی سوسائٹی کے اصولوں سے لاعلمی ہے۔ کفر و شرک اور بدعات پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ باطل رسومات پر بےدریغ صرف ہو رہا ہے۔ اپنے عیش و آرام کی خاطر دوسروں کا خن چوسا جا رہا ہے۔ مگر اسلامی سوسائٹی کی تعمیر کے لئے مستحقین کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی ہے والدین کو گھر سے نکالا جا رہا ہے۔ قربات داروں سے عناد ہے۔ پڑوسی بھوکا ہے تو کوئی پروا نہیں یہ انٹر کانٹی نینٹل میں داد عیش دے رہے ہیں۔ غریب کے پاس دوائی لانے کے لئے پیسے نہیں مگر امیر بلا ضرورت اپنے نفس پر خرچ کر رہا ہے۔ فرمایا وما تفعلوا من خیر فان اللہ بہ علیم تم نیکی کا جو کام بھی کرو ، اللہ تعالیٰ اس سے خوب واقف ہے۔ وہ تمہاری نیت تک کو جانتا ہے۔ لہٰذا وہ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا۔ بلکہ اس کا پورا پورا اجر عطا کرتا ہے۔ لہٰذا لازم ہے کہ اسی کے عطا کردہ مال کو اس کی رضا کی خاطر خرچ کر کے اس کی خوشنودی حاصل کرلو۔ اس سے بہتر سودا کیا ہو سکتا ہے۔
Top