Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 219
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ١ؕ قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ١٘ وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا١ؕ وَ یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ١ؕ۬ قُلِ الْعَفْوَ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَۙ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ پوچھتے ہیں آپ سے عَنِ : سے الْخَمْرِ : شراب وَالْمَيْسِرِ : اور جوا قُلْ : آپ کہ دیں فِيْهِمَآ : ان دونوں میں اِثْمٌ : گناہ كَبِيْرٌ : بڑا وَّمَنَافِعُ : اور فائدے لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَاِثْمُهُمَآ : اور ان دونوں کا گناہ اَكْبَرُ : بہت بڑا مِنْ : سے نَّفْعِهِمَا : ان کا فائدہ وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور وہ پوچھتے ہیں آپ سے مَاذَا : کیا کچھ يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کریں قُلِ : آپ کہ دیں الْعَفْوَ : زائد از ضرورت كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمُ : تمہارے لیے الْاٰيٰتِ : احکام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَفَكَّرُوْنَ : غور وفکر کرو
لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں شراب اور جوئے کے بارے میں آپ کہہ دیجیے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں اور ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت بڑا ہے اور وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں آپ کہ دیجیے جو زائد ہو اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آیات بیان کرتا ہے۔ تاکہ تم فکرو کرو
گزشتہ سے پیوستہ گزشتہ درس میں جہاد کی مشروعیت اور اس کی حکمت بیان کی گی تھی حرمت والے مہینوں میں لڑائی سے منع کیا گیا تھا۔ کفار کی خصلت بیان ہوئی کہ وہ مسلمانوں کو بہکا کر دین اسلام سے پھیرنے کی کوشش کرتے رہیں گے نیز فرمایا کہ جو شخص مرتد ہوگیا ، اس کی دنیا اور آخرت ہر دو برباد ہوگئیں۔ اس کے بعد ایمان ، ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ کی تعلیم دی گئی کہ ایسے ہی لوگ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں۔ اور ان کی غلطیوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیں گے۔ اس سے پہلے درس میں مال خرچ کرنے کا قانون بیان ہوا تھا۔ اور انفاق کی اہمیت بیان ہوئی تھی۔ اس کا بیان آگے بھی آئے گا۔ گویا یہ حصول مال کے ذرائع اور خرچ کی مدات کا مفصل تذکرہ ہے۔ موضوع آیات اس آیت میں شراب اور جوئے کے فوائد و نقصانات اور ان کی حرمت کا بیان ہے۔ ارشاد ہوتا ہے یسئلونک عن الخمر والمیسر اے نبی (علیہ السلام) ! آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ ان کی کیا حیثیت ہے۔ جائز ہیں یا ناجائز ، حرام ہیں یا مباح ، ان میں فائدے ہے یا نقصان ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ قل آپ کہہ دیجیے فیہآ اثم کبیر ومنافع للناس ان دونوں چیزوں میں بہت بڑا گناہ ہے تاہم لوگوں کے لئے بعض فوائد بھی ہیں۔ مگر ایک بات ہے۔ واثمھمآ اکبر من نفعھما ان کا گناہ ، ان کے فوائد سے بہت بڑا ہے۔ قمصد یہ کہ ان بری چیزوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔ شراب نوشی خمر نشہ آور چیز کو کہتے ہیں۔ ماخامرالعقل جو کہ عقل کو ڈھانپ لے انسان کو بےعقل بنا دے۔ عام طور پر یہ لفظ شراب پر بولا جاتا ہے۔ کیونکہ نشہ آور اشیا میں شراب سرفہرست ہے۔ اس قبیح چیز کے متعلق دو حکم وارد ہوتے ہیں ، ایک اس کے ساتعمال پر پابندی اور دوسرے اس کے ذریعے حصول زر یعنی تجارت کی ممانعت اس کے نقصانات تو واضح ہیں کہ انسان کو بےخود بنا دیتی ہے۔ جس میں انسان گالی گلوچ بکتا ہے۔ فرائض سے محروم … رہ جتا ہے۔ ذہن مائوف ہوتا ہے اور پھر مال کا ضیاع بھی ہے۔ نشے کی حالت میں انسان قتل و زنا جیسے کبیرہ گناہوں میں ملوث ہو اتا ہے۔ شراب کے فوائد کے ضمن میں عربوں میں مشہور تھا کہ یہ انسانی ذہن کو جلا بخشتی ہے ، دل میں سرور پیدا ہوتا ہے۔ اور انسان میں فیاضی کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ عرب لوگ شراب کو کرم کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے حضور نے ایسے نام سے منع فرمایا اور ارشاد کیا کہ مومن کا دل تو کرم ہو سکتا ہے۔ شراب نہیں ہو سکتی۔ فرمایا ، اس ام الخبائث کو غب یا حبلہ کہو ، جن چیزوں سے یہ کشید کی جاتی ہے۔ عرب شراب نوشی کو شریفانہ فعل قرار دیتے تھے کہ اس کی وجہ سے فیاضی پیدا ہوتی ہے اور جو شخص شراب کی محفل میں شامل نہیں ہوتا تھا۔ اسے کم تر خیال کرتے تھے۔ غرضیکہ شراب اور جواء عام تھے۔ کوئی خال خال ہی ان سے بچتا تھا وگرنہ جس طرح اونٹ ، گھوڑا ، تلوار ، لڑائی عربوں کی گھٹی میں پڑے تھے اسی طرح شراب اور جوا بھی ان کا عام مشغلہ تھا۔ قمار بازی میسر ، جو ایا قمار بازی کو کہتے ہیں۔ اس کا مادہ یسر ہے اور یسر آسانی کو کہتے ہیں۔ قمار بازی کے ذریعے کوئی شخص بغیر محنت و مشقت ، صنعت و تجارت یا مزدوری و ملازمت دوسرے کے مال پر قبضہ کرلیتا۔ اس لئے اس کو میسر کہتے ہیں جوئے کی یہی خباثت ہے کہ اس میں ایک دوسرے کے حق تلفی ہوتی ہے جس شخص کا دائو چل گیا۔ اسے بغیر کچھ کئے کرائے مال حاصل ہوگیا اور دوسرا شخص بیٹھے بٹھائے بلاوجہ محروم ہوگیا پھر جس شخص کو مال مل جاتا ہے۔ وہ اس کی قدر نہیں کرتا اور اسے عیش و عشرت اور برائی کے کاموں میں صرف کردیتا ہے۔ جس کی وجہ سے معصیت کا شکار ہوتا ہے۔ دولت بھی ضائع کرتا ہے اور گنہگار بھی ہوتا ہے۔ عربوں میں باقی خبائث کی طرح جوئے کی وبا بھی عام تھی۔ وہ قمار بازی کو اچھا فعل سمجھتے تھے۔ خاص طور پر قحط کے زمانے میں جوئے میں شدت پیدا ہوجاتی تھی۔ اور قمار بازی سے حاصل کردہ مال غریبوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔ نزول قرآن کے زمانہ میں قمار بازی اس قدر عروج پر تھی کہ خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے مجسموں کے ہاتھوں میں جوئے کے تیر پکڑائے ہوئے تھے۔ جس سے یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ یہ جلیل القدر پیغمبر بھی جواء کھیلا کرتے تھے (العیاذ باللہ) بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ ان مجسموں کے قریب سے گزرے تو فرمایا ، ان لوگوں پر خدا کی لعنت ہو ، اللہ کے پاک بندوں کی نسبت کیسی ناپاک چیزوں کی طرف کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم اور اسماعیل (علیہا السلام) کو ایسے شنیع کام سے کیا سروکار۔ جوئے کے مختلف طریقے رائج تھے۔ قحط کے زمانے میں عموماً یہ طریقہ اختیار کرتے تھے کہ دس آدمی مل کر مساوی حصہ سے ایک اونٹ خرید لیتے تھے ان کے پاس دس تیر ہوتے تھے۔ جن پر ایک سے لے کر سات تک نمبر لکھے ہوتے تھے اور باقی تین تیر خلای ہوتے تھے۔ اب ان دس تیروں میں سے کسی ایک حصہ دار کے نام سے تیر نکالتے تھے۔ اور پھر جس نمبر والا تیر اس نام پر نکلتا تھا۔ اونٹ کے گوشت کے اتنے یہ حصے وہ اکیلا لے جاتا تھا۔ اس کے بعد حسب ضرورت دوسرا اور تیسرا تیر نکالا جاتا ، حتی کہ اونٹ کا سارا گوشت ختم ہوجاتا اور جو حصے دار باقی بچ جاتے وہ اپنے حصے سے محروم رہ جاتے۔ اسی طرح اگر ابتداء میں کسی کے نام خالی تیر نکل آتا ، تو وہ بھی اپنے حصے سے محروم رہ جاتا اور اگلے نمبر والا اپنا حصہ وصول کرتا علی ہذا القیاس ، جب ایک اونٹ کا گوشت تقسیم ہوجاتا تو محروم رہنے والے دعوت دیتے کہ ایک اور اونٹ خریدا جائے اور اس کے پھر اسی طرح حصے بخرے کر لئے جاتے۔ یہ گوشت چونکہ غرباء میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ اس لئے اس قمار بازی کو بھی وہ لوگ باعث فضیلت سمجھتے۔ موجودہ زمانے میں گھڑ دوڑ لاٹری ، انعامی سکی میں وغیرہ سب جوئے کی مختلف اقسام ہیں۔ جو مختلف ناموں سے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ حالانکہ ہر قسم کی قمار بازی حرا م ہے۔ حرمت شراب کے مراحل شراب بیک حکم حرام نہیں ہوئی۔ بلکہ اس کی حرمت آہستہ آہستہ بتدریج ہوئی ہے۔ اس کے احکام مختلف مواقع پر نازل ہوتے رہے ، حتی کہ چوتھے مرحلہ پر اس کو قطعی حرام قار دے دیا گیا ابتداء اللہ تعالیٰ نے سورة نحل میں اشارتاً پھولوں کا ذکر کیا اور فرمایا ’ وتتخذون منہ سکراو رزقاً حسناً “ تم ان سے نشہ آور اشیا مثلاً شراب وغیرہ بناتے ہو اور اچھا رزق یعنی چٹنی ، اچار مربعے وغیرہ بھی بنا لیتے ہو۔ یہاں پر حلت و حرمت کا ذکر تو نہیں ہے۔ مگر نشہ آور اشیاء کو ” رزقاً حسناً “ (اچھی روزی) سے علیحدہ کر کے اسے کم تر قرار دیا۔ دوسرے نمبر پر اس درس والی آیت نازل ہوئی کہ آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق دریافت کرتے ہیں آپ کہہ دیں کہ ان میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے فوائد بھی ہیں۔ مگر ان کا گناہ ان کے فوائد سے بڑا ہے۔ یہاں پر حرمت شراب کا قطعی حکم نہیں ہے۔ بلکہ اس حقیقت کو واضح کردیا گیا ہے کہ فوائد کی نسبت اس کا نقصان بہت بڑا ہے۔ بو علی ابن سینا کے قول کے مطابق شراب میں نقصان اس کے فائدے سے ڈبل ہے۔ یعنی اس کے ذریعے فائدہ تو ایک حصہ ہوتا ہے ۔ مگر نقصان دو حصے کے برابر ہے۔ حرمت شراب سے متعلق تیسرے حکم کے پس منظر میں ایک واقعہ پیش ایک انصاری کے ہاں بعض صحابہ کرام کی دعوت تھی۔ ان میں حضرت سعد بھی تھے۔ جو عشرہ مبشرہ میں شامل تھے۔ صحابہ نے کھانا کھایا۔ چونکہ اس وقت تک شراب قطعی حرام نہیں ہوئی تھی ، لہٰذا اس کا دور بھی چلا۔ آپ س میں کسی موضوع پر گفتگو ہو رہی تھی ایک گروہ کا نظر یہ تھا کہ انصار زیادہ اچھے ہیں۔ دوسرا گروہ مہاجرین کے حق میں تھا۔ آپ س میں دوست اور رفیق تھے ، محض ایک دوسرے کی برتری کا ذکر ہو رہا تھا اتنے میں ایک نوجوان کو غصہ آیا ، اس نے طیش میں آ کر ایک جبڑا حضرت سعد کے سر پر دے مارا ، جس سے وہ زخمی ہوگئے۔ ترمذی شریف کی روایت میں ایک اور واقعہ کا ذکر بھی آتا ہے کہ ایک دعوت میں جلیل القدر صحابہ کرام موجود تھے۔ جن میں حضرت علی اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف بھی شامل تھے۔ چونکہ ابھی تک شربا قطعی حرام نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے اکثر لوگ پیتے تھے ، مگر بعض نہیں بھی پیتے تھے۔ جیسے حضور ﷺ نے کبھی شراب نہیں پی۔ حضرت صدیق اکبر اور عثمان بھی اس کے قریب نہیں جاتے تھے ، ایسے اصحاب اسے وقار کے منافی سمجھتے تھے۔ اسے استعمال کرنے والوں میں حضرت علی ، حضرت عمر ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف وغیرہم تھے کہ ایک چیز مباح ہے لہٰذا استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ نماز کا وقت ہوگیا۔ لوگوں نے شراب پی رکھی تھی۔ ایک صحابی کو امامت کے لئے آگے کردیا گیا نشے کی حالت میں قرآن پاک غلط پڑھا۔ اسی طرح مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ صبح کی نماز کا وقت تھا۔ حضرت عثمان کے سالے حضرت ولید امامت کر ا رہے تھے۔ نشے کا زور تھا دو رکعت پڑھا کر کہنے لگے اور پڑھا دوں۔ ایسے ہی واقعات کے پیش نظر سورة نساء کی آیت نازل ہوئی۔ ” یایھا الذین امنوا لاتقربوا الصلوۃ وانتم سکری حتی تعلموا ماتقولون “ یعنی اے اہل ایمان نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جائو ، یہاں تک کہ تمہارے ہوش و حواس بحال ہوجائیں کہ تم کیا کر رہے ہو گویا تیسرے نمبر پر نشے کی حالت میں نماز سے روک دیا گیا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمر کو اس معاملے میں اکثر تشویش رہتی تھی۔ اور وہ دعا کیا کرتے تھے۔ اللھم بین لنا فی الخمر بیاناً شافیاً یعنی اے مولا کریم ! اشارے کنایے سے تو شراب کی قباحت محسوس ہو رہی ہے ۔ مگر ہمارے لئے کوئی واضح حکم نازل فرما ، چناچہ اب چوتھے مرحلے میں سورة مائدہ کی یہ آیت نازل ہوئی ، جس میں شراب اور بعض دیگر اشیاء کو قطعی حرام قرار دیدیا گیا۔ ” انما الخصر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون “ اے ایمان والو ! بیشک شراب ، جوا ، تھان اور پانے شیطان کے ناپاک کام ہیں۔ ان سے بچ جائو تاکہ تم کامیاب ہو جائو۔ اس کے بعد شراب قطعی حرام ہوگئی تو یہ چار مراحل تھے جن کے ذریعے شراب کو بتدریج حرام قرار دیا گیا۔ حرمت شراب پر تاویلیں بعض نئی روشنی کے لوگ شراب کی حرمت کا انکار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض دوسری حرام چیزوں کی طرح اس پر حرمت کا واضح حکم نہیں لگایا گیا۔ جیسے مردار ، خون وغیرہ کے متعلق فرمایا۔ ” حرمت علکیم المیتۃ والدم “ مگر اس آیت میں لفظ ” فاجتنبوہ “ آیا ہے۔ یعنی اس سے اجتناب کرو ، بچ جائو حالانکہ اگلی ہی آیت میں مزید وضاحت کردی گئی ہے کہ شیطان شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ڈالنا چاہتا ہے۔ فانتھو ا پس ان چیزوں سے باز آ جائو۔ لہٰذا یہ بھی قطعی حرمت کا حکم ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ شراب اور خمر دو مختلف چیزیں ہیں۔ شراب ہر پینے والی چیز پر بولا جاتا ہے۔ سورة ” ’ ھر “ میں موجود ہے۔ ” وسقھم ربھم شراباً طھوراً “ جنتیوں کو ان کا رب پاک شراب پلائے گا۔ مگر وہ نشہ سے خالی ہوگی اور خمر نشہ آور چیز کو کہتے ہیں اور وہ حرام ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے۔ کل مسکر خمر ہر نشہ آور چیز شراب کے زمرے میں آتی ہے۔ وکل مسکر حرام اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ اس لحاظ سے بھنگ ، چرس ، گانجا اور شراب کی تمام اقسام حرام ہیں۔ خواہ وہ معمولی درجہ کی ہوں یا اعلیٰ درجہ کی ، انگور سے کشیدہ کردہ ہوں یا کھجور سے شہد سے بنی ہوں یا گندم یا جو سے وہ بہرحال حرام ہیں۔ صاحب تفسیر روح المعانی علامہ سید محمود آلوسی بغدادی شاہ عبدالعزیز ہم عصر ہیں۔ انہوں نے تیس جلدوں میں قرآن پاک کی تفسیر لکھی ہے۔ وہ اپنے زمانے کا حال لکھتے ہیں کہ لوگوں نے عجیب روش اختیار کرلی۔ شراب کو مختلف ناموں سے پکار کر استعمال کر رہے ہیں حالانکہ اس کی اصلیت میں کوئی فرق نہیں۔ کسی نے عرق اکسیر نام رکھ لیا ہے اور کوئی اسے آب جو کہتا ہے۔ مگر نام بدلنے سے ایک حرام چیز حلال نہیں ہو سکتی۔ اس بات کو انگریزوں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ حرمت شراب کے متعلق اگر کسی کو کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ تو وہ صرف مذہب اسلام ہے۔ سرولیم میور ہندوستان میں صوبجات متحدہ کا گورنر رہا ہے۔ بڑا متعصب عیسائی پادری تھا اس نے دو جلدوں میں حضور ﷺ کی سوانح حیات لکھی ہے۔ جس کا نام ہے لائف آف محمد (Life of Muhammad) مسلمانوں کے خلاف تعصب کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے۔ کہ وہ دو چیزیں انسانیت کی دشمن ہیں۔ ایک محمد کی تلوار اور دوسرا محمد کا قرآن۔ مگر اس کو تسلیم کرنا پڑا کہ شراب کی حرمت کے متعلق اسلام کے سوا کوئی مذہب کامیاب نہیں ہوسکا۔ وہ کہتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے باعث فخر ہے کہ انہوں نے شراب جیسی قبیح چیز کو واضح طور پر حرام قرار دیا اور بڑی حد تک اس سے محفوظ رہے۔ حرام چیز کی تجارت بھی حرام ہے بہرحال سورة مائدہ کی مذکورہ آیت نازل ہونے پر شراب حرام ہوگئی اور صحابہ کرام نے کلی طور پر اس کو ترک کردیا۔ اس کے متعلق حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لعن اللہ من شرب الخمر وامرھا الخ یعنی شراب پینے والا پلانے والا ، نچوڑنے والا ، بنانے والا ، اٹھا کر جانے والا۔ اس کو بیچنے والا اور اس کی کمائی کھانے والا سب لعنتی ہیں۔ پھر آپ نے فتح مکہ کے دن اعلان کیا کہ جس خداوند تعالیٰ نے شراب پینے سے منع فرمایا ہے۔ اسی خدا نے اس کی تجارت سے بھی منع کردیا ہے گویا ہر حرام شے کی تجارت بھی حرام ہے سود حرام ہے ، اس کی لین دین بھی حرام ہے۔ اسی طرح بتوں کی تجارت حرام ہے مردار کی چربی کا بھی یہی حکم ہے مگر اس زمانے میں سوائے سعودی عرب کے تمام اسلامی ممالک میں شراب استعمال ہوتی ہے۔ اس کی تجارت ہوتی ہے۔ لائسنس جاری ہوتے ہیں۔ جہاں کہیں پابندی کا نام سنتے ہیں۔ وہ بھی زبانی حکم تک ہے۔ عملی طور پر مختلف حیلوں بہانوں سے اس کے اسعتمال کی اجازت ہے۔ خرچ کی مقدار آگے خرچ کے متعلق سوال اور اس کا جواب ہے ویسئلونک ماذا ینفقون آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کس قدر خرچ کریں۔ یہ سوال گزشتہ سے پیوستہ درس میں بھی آ چکا ہے۔ وہاں پر اس کا جواب دیا گیا تھا کہ فلاں فلاں مد پر خرچ کریں۔ مگر اس آیت کے جواب میں ہے۔ قل العفو آپ کہہ دیجیے جو اپنی ضرورت سے زائد ہے۔ وہ خچ کردیں۔ گویا اس سوال کا تعلق خرچ کی مقدار سے ہے۔ یہاں یہ ضمنی سوال پیدا ہوتا ہے کہ حاجت سے زائد سب کچھ خرچ کردینا فرض ، واجب وغیرہ کی کس مد میں آئے گا۔ تو اس کا جو با یہ ہے کہ خرچ جس مد کے لئے کیا جائے گا ، اس کا شمار اسی میں ہوگا ۔ مثلاً اگر زکواۃ ادا کی گئی ہے تو اس مد کا خرچ فرض ہوگا اگر صدقہ فطر ادا کیا ہے یا کسی اور واجب پر خرچ کیا ہوگا تو واجب شمار ہوگا۔ اسی طرح نفلی امور کا خرچ نفل شمار ہوگا۔ اگر کسی مباح کام میں خرچ کیا گیا ہے تو ایسا خرچ بھی مباح ہوگا ، اگر محض ثواب کی نیت ہے ، تو خرچ کنندہ کو ثواب حاصل ہوگا۔ برخلاف اس کے اگر کسی معصیت والے کام پر خرچ کردیا ہے ، تو ایسا خرچ حرام شمار ہوگا۔ اگر کسی مباح کام پر خرچ کیا ہے مگر ثواب کی نیت نہیں کی تو ایسا خرچ جائز تصور ہوگا۔ چونکہ اس آیت میں ضرورت سے زائد چیز خرچ کرنے کا حکم ہے۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ فرض واجب کے متعلق نہیں کیونکہ زکوۃ وغیرہ کی مقدار تو مقرر ہے۔ مگر یہاں ہر زاید چیز کے خرچ کرنے کا حکم ہے تو اس سے مراد صدقہ خیرات اور دیگر نفلی اخراجات ہیں۔ بہرحال اس آیت سے ایک بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ اپنی ضرورت کو مقدم رکھتے ہوئے اس سے زائد مال کو خرچ کرو۔ اگر خود اپنے لئے ، اپنے بال بچوں کی جائز ضروریات موجود ہیں اور ان ضروریات کو پورا کرنے کے بعد کچھ نہیں بچتا ، تو مت خرچ کرو۔ پہلے اپنی ضروریات پوری کرو ، اپنی ضروریات کو پس پشت ڈال کر حق تلفی نہ کرو۔ اپنی ضروریات پوری کرو ، اپنی ضروریات کو پس پشت ڈال کر حق تلفی نہ کرو۔ ہاں بعض خاص شخصیات ہیں۔ جیسے حضرت صدیق اکبر جن میں صبر کا مادہ بدرجہ اتم موجود ہے تو ایسے شخص اللہ کی راہ میں سب کچھ قربان کرسکتے ہیں۔ مگر جو شخص صبر کے اس مرتبہ پر نہ ہو ، اسے اپنی ضروریات کو مقدم رکھ کرنا ہوگا۔ ذخیرہ اندوزی کی ممانعت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں کہ اس آیت سے یہ بات بھی اخذ ہوتی ہے کہ ذخیرہ اندوزی درست نہیں ہے مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے ۔ یا بن ادم ان تمسک شرئک اے آدم کے بیٹے ، اگر چیز کو روک رکھو گے تو یہ تمہارے لئے شر ہوگا اور اگر زائد حصہ کو خرچ کر دو گے ، تو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا۔ ولا تلام علی کفاف اور اگر آمد و خرچ برابر ہیں تو پھر زائد نہ خرچ کرنے پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص فرائض ادا نہیں کرتا تو وہ عند اللہ ماخوذ ہوگا اور اگر فرض کی ادائیگی کے بعد روک رکھا ہے تو ثواب سے محروم ہوگیا۔ اگر ضرورت سے زائد موجود ہے مگر خرچ نہیں کرتا ، تو بخل کا مادہ پیدا ہوگا ، ثواب سے محروم ہوگا اور شر بہرحال ہوگا۔ غور و فکر کی دعوت فرمایا کذلک یبین اللہ لکم الایت اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے احکام بیان کرتا ہے۔ یہاں پر آیات سے مراد احکام ہیں لعلکم تتفکرون تاکہ تم غور و فکر کرو ، فی الدنیا والاخرۃ دنیا اور آخرت کے بارے میں۔ دنیا محل حوائج ہے۔ یہاں پر رہ کر انسان ضرورتوں اور حاجتوں پر درمادہ ہوتا ہے۔ اس کا بھی لحاظ رکھو۔ اور آخرت تو ثواب دائمی کا محل ہے اس کا بھی خیال رکھو۔ مقصد یہ ہے کہ دنیوی اور اخروی دونوں ضروریات کو ذہن میں رکھو۔ نہ یہاں محروم رہو اور نہ وہاں ، بلکہ ہر دو مقامات کے لئے لوازمات مہیا کرو۔ سورة بنی اسرائیل میں 1 ؎ آتا ہے کہ نہ ہاتھ کو زیادہ کھلا رکھو کہ خود محتاج ہو جائو اور نہ اتنا سکیڑ کر رکھو کہ بخیل شمار ہو۔ بلکہ اعتدال کی راہ اختیار کرو اپنی جائز ضروریات پوری کرو ، اور اس کے بعد مال کو روک کر نہ رکھو ، بلکہ غریبوں اور محتاجوں کو بھی ان کا حق ادا کرو۔ جائز ضروریات میں انسان کے بنیادی اخراجات ہیں ، جیسے کھانا ، پینا ، لباس ، صحت ، تعلیم ، رہائش وغیرہ ہیں۔ ان چیزوں پر خرچ کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔ البتہ اگر ریڈیو ، ٹیلیویژن ، کھیل تماشہ کو بھی بنیادی ضروریات میں شمار کرلیا جائے ، تو پھر انسان کے پاس کبھی کچھ نہیں بچے گا۔ یہ سامان تعیش ہے اور اس کی کوئی حد نہیں۔ اس زمانہ میں مکانوں کی بلا ضرورت زیبائش ، ان میں قیمتی سے قیمتی فرنیچر ، پردے ، قالین ، فرج وغیرہ سب بلا ضروتر ہیں اور ان اشیاء پر خرچ کرنا بلا جواز اور محتاجوں کی حق تلفی کے مترادف ہے اور اگر اس دنیا میں سب کچھ اپنی ذات پر ہی خرچ کر جائو ، تو پھر آخرت میں محرومی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ اسی لئے فرمایا کہ دنیا و آخرت ہر دو مقامات کا خیال رکھو یہاں پر بھی جائز ضروریات سے محروم نہ رہو ، اور آخرت کے لئے بھی توشہ تیار کرو۔
Top