Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 219
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ١ؕ قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ١٘ وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا١ؕ وَ یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ١ؕ۬ قُلِ الْعَفْوَ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَۙ
يَسْئَلُوْنَكَ
: وہ پوچھتے ہیں آپ سے
عَنِ
: سے
الْخَمْرِ
: شراب
وَالْمَيْسِرِ
: اور جوا
قُلْ
: آپ کہ دیں
فِيْهِمَآ
: ان دونوں میں
اِثْمٌ
: گناہ
كَبِيْرٌ
: بڑا
وَّمَنَافِعُ
: اور فائدے
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
وَاِثْمُهُمَآ
: اور ان دونوں کا گناہ
اَكْبَرُ
: بہت بڑا
مِنْ
: سے
نَّفْعِهِمَا
: ان کا فائدہ
وَيَسْئَلُوْنَكَ
: اور وہ پوچھتے ہیں آپ سے
مَاذَا
: کیا کچھ
يُنْفِقُوْنَ
: وہ خرچ کریں
قُلِ
: آپ کہ دیں
الْعَفْوَ
: زائد از ضرورت
كَذٰلِكَ
: اسی طرح
يُبَيِّنُ
: واضح کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
لَكُمُ
: تمہارے لیے
الْاٰيٰتِ
: احکام
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تَتَفَكَّرُوْنَ
: غور وفکر کرو
لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں شراب اور جوئے کے بارے میں آپ کہہ دیجیے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں اور ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت بڑا ہے اور وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں آپ کہ دیجیے جو زائد ہو اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آیات بیان کرتا ہے۔ تاکہ تم فکرو کرو
گزشتہ سے پیوستہ گزشتہ درس میں جہاد کی مشروعیت اور اس کی حکمت بیان کی گی تھی حرمت والے مہینوں میں لڑائی سے منع کیا گیا تھا۔ کفار کی خصلت بیان ہوئی کہ وہ مسلمانوں کو بہکا کر دین اسلام سے پھیرنے کی کوشش کرتے رہیں گے نیز فرمایا کہ جو شخص مرتد ہوگیا ، اس کی دنیا اور آخرت ہر دو برباد ہوگئیں۔ اس کے بعد ایمان ، ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ کی تعلیم دی گئی کہ ایسے ہی لوگ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں۔ اور ان کی غلطیوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیں گے۔ اس سے پہلے درس میں مال خرچ کرنے کا قانون بیان ہوا تھا۔ اور انفاق کی اہمیت بیان ہوئی تھی۔ اس کا بیان آگے بھی آئے گا۔ گویا یہ حصول مال کے ذرائع اور خرچ کی مدات کا مفصل تذکرہ ہے۔ موضوع آیات اس آیت میں شراب اور جوئے کے فوائد و نقصانات اور ان کی حرمت کا بیان ہے۔ ارشاد ہوتا ہے یسئلونک عن الخمر والمیسر اے نبی (علیہ السلام) ! آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ ان کی کیا حیثیت ہے۔ جائز ہیں یا ناجائز ، حرام ہیں یا مباح ، ان میں فائدے ہے یا نقصان ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ قل آپ کہہ دیجیے فیہآ اثم کبیر ومنافع للناس ان دونوں چیزوں میں بہت بڑا گناہ ہے تاہم لوگوں کے لئے بعض فوائد بھی ہیں۔ مگر ایک بات ہے۔ واثمھمآ اکبر من نفعھما ان کا گناہ ، ان کے فوائد سے بہت بڑا ہے۔ قمصد یہ کہ ان بری چیزوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔ شراب نوشی خمر نشہ آور چیز کو کہتے ہیں۔ ماخامرالعقل جو کہ عقل کو ڈھانپ لے انسان کو بےعقل بنا دے۔ عام طور پر یہ لفظ شراب پر بولا جاتا ہے۔ کیونکہ نشہ آور اشیا میں شراب سرفہرست ہے۔ اس قبیح چیز کے متعلق دو حکم وارد ہوتے ہیں ، ایک اس کے ساتعمال پر پابندی اور دوسرے اس کے ذریعے حصول زر یعنی تجارت کی ممانعت اس کے نقصانات تو واضح ہیں کہ انسان کو بےخود بنا دیتی ہے۔ جس میں انسان گالی گلوچ بکتا ہے۔ فرائض سے محروم … رہ جتا ہے۔ ذہن مائوف ہوتا ہے اور پھر مال کا ضیاع بھی ہے۔ نشے کی حالت میں انسان قتل و زنا جیسے کبیرہ گناہوں میں ملوث ہو اتا ہے۔ شراب کے فوائد کے ضمن میں عربوں میں مشہور تھا کہ یہ انسانی ذہن کو جلا بخشتی ہے ، دل میں سرور پیدا ہوتا ہے۔ اور انسان میں فیاضی کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ عرب لوگ شراب کو کرم کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے حضور نے ایسے نام سے منع فرمایا اور ارشاد کیا کہ مومن کا دل تو کرم ہو سکتا ہے۔ شراب نہیں ہو سکتی۔ فرمایا ، اس ام الخبائث کو غب یا حبلہ کہو ، جن چیزوں سے یہ کشید کی جاتی ہے۔ عرب شراب نوشی کو شریفانہ فعل قرار دیتے تھے کہ اس کی وجہ سے فیاضی پیدا ہوتی ہے اور جو شخص شراب کی محفل میں شامل نہیں ہوتا تھا۔ اسے کم تر خیال کرتے تھے۔ غرضیکہ شراب اور جواء عام تھے۔ کوئی خال خال ہی ان سے بچتا تھا وگرنہ جس طرح اونٹ ، گھوڑا ، تلوار ، لڑائی عربوں کی گھٹی میں پڑے تھے اسی طرح شراب اور جوا بھی ان کا عام مشغلہ تھا۔ قمار بازی میسر ، جو ایا قمار بازی کو کہتے ہیں۔ اس کا مادہ یسر ہے اور یسر آسانی کو کہتے ہیں۔ قمار بازی کے ذریعے کوئی شخص بغیر محنت و مشقت ، صنعت و تجارت یا مزدوری و ملازمت دوسرے کے مال پر قبضہ کرلیتا۔ اس لئے اس کو میسر کہتے ہیں جوئے کی یہی خباثت ہے کہ اس میں ایک دوسرے کے حق تلفی ہوتی ہے جس شخص کا دائو چل گیا۔ اسے بغیر کچھ کئے کرائے مال حاصل ہوگیا اور دوسرا شخص بیٹھے بٹھائے بلاوجہ محروم ہوگیا پھر جس شخص کو مال مل جاتا ہے۔ وہ اس کی قدر نہیں کرتا اور اسے عیش و عشرت اور برائی کے کاموں میں صرف کردیتا ہے۔ جس کی وجہ سے معصیت کا شکار ہوتا ہے۔ دولت بھی ضائع کرتا ہے اور گنہگار بھی ہوتا ہے۔ عربوں میں باقی خبائث کی طرح جوئے کی وبا بھی عام تھی۔ وہ قمار بازی کو اچھا فعل سمجھتے تھے۔ خاص طور پر قحط کے زمانے میں جوئے میں شدت پیدا ہوجاتی تھی۔ اور قمار بازی سے حاصل کردہ مال غریبوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔ نزول قرآن کے زمانہ میں قمار بازی اس قدر عروج پر تھی کہ خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے مجسموں کے ہاتھوں میں جوئے کے تیر پکڑائے ہوئے تھے۔ جس سے یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ یہ جلیل القدر پیغمبر بھی جواء کھیلا کرتے تھے (العیاذ باللہ) بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ ان مجسموں کے قریب سے گزرے تو فرمایا ، ان لوگوں پر خدا کی لعنت ہو ، اللہ کے پاک بندوں کی نسبت کیسی ناپاک چیزوں کی طرف کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم اور اسماعیل (علیہا السلام) کو ایسے شنیع کام سے کیا سروکار۔ جوئے کے مختلف طریقے رائج تھے۔ قحط کے زمانے میں عموماً یہ طریقہ اختیار کرتے تھے کہ دس آدمی مل کر مساوی حصہ سے ایک اونٹ خرید لیتے تھے ان کے پاس دس تیر ہوتے تھے۔ جن پر ایک سے لے کر سات تک نمبر لکھے ہوتے تھے اور باقی تین تیر خلای ہوتے تھے۔ اب ان دس تیروں میں سے کسی ایک حصہ دار کے نام سے تیر نکالتے تھے۔ اور پھر جس نمبر والا تیر اس نام پر نکلتا تھا۔ اونٹ کے گوشت کے اتنے یہ حصے وہ اکیلا لے جاتا تھا۔ اس کے بعد حسب ضرورت دوسرا اور تیسرا تیر نکالا جاتا ، حتی کہ اونٹ کا سارا گوشت ختم ہوجاتا اور جو حصے دار باقی بچ جاتے وہ اپنے حصے سے محروم رہ جاتے۔ اسی طرح اگر ابتداء میں کسی کے نام خالی تیر نکل آتا ، تو وہ بھی اپنے حصے سے محروم رہ جاتا اور اگلے نمبر والا اپنا حصہ وصول کرتا علی ہذا القیاس ، جب ایک اونٹ کا گوشت تقسیم ہوجاتا تو محروم رہنے والے دعوت دیتے کہ ایک اور اونٹ خریدا جائے اور اس کے پھر اسی طرح حصے بخرے کر لئے جاتے۔ یہ گوشت چونکہ غرباء میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ اس لئے اس قمار بازی کو بھی وہ لوگ باعث فضیلت سمجھتے۔ موجودہ زمانے میں گھڑ دوڑ لاٹری ، انعامی سکی میں وغیرہ سب جوئے کی مختلف اقسام ہیں۔ جو مختلف ناموں سے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ حالانکہ ہر قسم کی قمار بازی حرا م ہے۔ حرمت شراب کے مراحل شراب بیک حکم حرام نہیں ہوئی۔ بلکہ اس کی حرمت آہستہ آہستہ بتدریج ہوئی ہے۔ اس کے احکام مختلف مواقع پر نازل ہوتے رہے ، حتی کہ چوتھے مرحلہ پر اس کو قطعی حرام قار دے دیا گیا ابتداء اللہ تعالیٰ نے سورة نحل میں اشارتاً پھولوں کا ذکر کیا اور فرمایا ’ وتتخذون منہ سکراو رزقاً حسناً “ تم ان سے نشہ آور اشیا مثلاً شراب وغیرہ بناتے ہو اور اچھا رزق یعنی چٹنی ، اچار مربعے وغیرہ بھی بنا لیتے ہو۔ یہاں پر حلت و حرمت کا ذکر تو نہیں ہے۔ مگر نشہ آور اشیاء کو ” رزقاً حسناً “ (اچھی روزی) سے علیحدہ کر کے اسے کم تر قرار دیا۔ دوسرے نمبر پر اس درس والی آیت نازل ہوئی کہ آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق دریافت کرتے ہیں آپ کہہ دیں کہ ان میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے فوائد بھی ہیں۔ مگر ان کا گناہ ان کے فوائد سے بڑا ہے۔ یہاں پر حرمت شراب کا قطعی حکم نہیں ہے۔ بلکہ اس حقیقت کو واضح کردیا گیا ہے کہ فوائد کی نسبت اس کا نقصان بہت بڑا ہے۔ بو علی ابن سینا کے قول کے مطابق شراب میں نقصان اس کے فائدے سے ڈبل ہے۔ یعنی اس کے ذریعے فائدہ تو ایک حصہ ہوتا ہے ۔ مگر نقصان دو حصے کے برابر ہے۔ حرمت شراب سے متعلق تیسرے حکم کے پس منظر میں ایک واقعہ پیش ایک انصاری کے ہاں بعض صحابہ کرام کی دعوت تھی۔ ان میں حضرت سعد بھی تھے۔ جو عشرہ مبشرہ میں شامل تھے۔ صحابہ نے کھانا کھایا۔ چونکہ اس وقت تک شراب قطعی حرام نہیں ہوئی تھی ، لہٰذا اس کا دور بھی چلا۔ آپ س میں کسی موضوع پر گفتگو ہو رہی تھی ایک گروہ کا نظر یہ تھا کہ انصار زیادہ اچھے ہیں۔ دوسرا گروہ مہاجرین کے حق میں تھا۔ آپ س میں دوست اور رفیق تھے ، محض ایک دوسرے کی برتری کا ذکر ہو رہا تھا اتنے میں ایک نوجوان کو غصہ آیا ، اس نے طیش میں آ کر ایک جبڑا حضرت سعد کے سر پر دے مارا ، جس سے وہ زخمی ہوگئے۔ ترمذی شریف کی روایت میں ایک اور واقعہ کا ذکر بھی آتا ہے کہ ایک دعوت میں جلیل القدر صحابہ کرام موجود تھے۔ جن میں حضرت علی اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف بھی شامل تھے۔ چونکہ ابھی تک شربا قطعی حرام نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے اکثر لوگ پیتے تھے ، مگر بعض نہیں بھی پیتے تھے۔ جیسے حضور ﷺ نے کبھی شراب نہیں پی۔ حضرت صدیق اکبر اور عثمان بھی اس کے قریب نہیں جاتے تھے ، ایسے اصحاب اسے وقار کے منافی سمجھتے تھے۔ اسے استعمال کرنے والوں میں حضرت علی ، حضرت عمر ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف وغیرہم تھے کہ ایک چیز مباح ہے لہٰذا استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ نماز کا وقت ہوگیا۔ لوگوں نے شراب پی رکھی تھی۔ ایک صحابی کو امامت کے لئے آگے کردیا گیا نشے کی حالت میں قرآن پاک غلط پڑھا۔ اسی طرح مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ صبح کی نماز کا وقت تھا۔ حضرت عثمان کے سالے حضرت ولید امامت کر ا رہے تھے۔ نشے کا زور تھا دو رکعت پڑھا کر کہنے لگے اور پڑھا دوں۔ ایسے ہی واقعات کے پیش نظر سورة نساء کی آیت نازل ہوئی۔ ” یایھا الذین امنوا لاتقربوا الصلوۃ وانتم سکری حتی تعلموا ماتقولون “ یعنی اے اہل ایمان نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جائو ، یہاں تک کہ تمہارے ہوش و حواس بحال ہوجائیں کہ تم کیا کر رہے ہو گویا تیسرے نمبر پر نشے کی حالت میں نماز سے روک دیا گیا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمر کو اس معاملے میں اکثر تشویش رہتی تھی۔ اور وہ دعا کیا کرتے تھے۔ اللھم بین لنا فی الخمر بیاناً شافیاً یعنی اے مولا کریم ! اشارے کنایے سے تو شراب کی قباحت محسوس ہو رہی ہے ۔ مگر ہمارے لئے کوئی واضح حکم نازل فرما ، چناچہ اب چوتھے مرحلے میں سورة مائدہ کی یہ آیت نازل ہوئی ، جس میں شراب اور بعض دیگر اشیاء کو قطعی حرام قرار دیدیا گیا۔ ” انما الخصر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون “ اے ایمان والو ! بیشک شراب ، جوا ، تھان اور پانے شیطان کے ناپاک کام ہیں۔ ان سے بچ جائو تاکہ تم کامیاب ہو جائو۔ اس کے بعد شراب قطعی حرام ہوگئی تو یہ چار مراحل تھے جن کے ذریعے شراب کو بتدریج حرام قرار دیا گیا۔ حرمت شراب پر تاویلیں بعض نئی روشنی کے لوگ شراب کی حرمت کا انکار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض دوسری حرام چیزوں کی طرح اس پر حرمت کا واضح حکم نہیں لگایا گیا۔ جیسے مردار ، خون وغیرہ کے متعلق فرمایا۔ ” حرمت علکیم المیتۃ والدم “ مگر اس آیت میں لفظ ” فاجتنبوہ “ آیا ہے۔ یعنی اس سے اجتناب کرو ، بچ جائو حالانکہ اگلی ہی آیت میں مزید وضاحت کردی گئی ہے کہ شیطان شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ڈالنا چاہتا ہے۔ فانتھو ا پس ان چیزوں سے باز آ جائو۔ لہٰذا یہ بھی قطعی حرمت کا حکم ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ شراب اور خمر دو مختلف چیزیں ہیں۔ شراب ہر پینے والی چیز پر بولا جاتا ہے۔ سورة ” ’ ھر “ میں موجود ہے۔ ” وسقھم ربھم شراباً طھوراً “ جنتیوں کو ان کا رب پاک شراب پلائے گا۔ مگر وہ نشہ سے خالی ہوگی اور خمر نشہ آور چیز کو کہتے ہیں اور وہ حرام ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے۔ کل مسکر خمر ہر نشہ آور چیز شراب کے زمرے میں آتی ہے۔ وکل مسکر حرام اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ اس لحاظ سے بھنگ ، چرس ، گانجا اور شراب کی تمام اقسام حرام ہیں۔ خواہ وہ معمولی درجہ کی ہوں یا اعلیٰ درجہ کی ، انگور سے کشیدہ کردہ ہوں یا کھجور سے شہد سے بنی ہوں یا گندم یا جو سے وہ بہرحال حرام ہیں۔ صاحب تفسیر روح المعانی علامہ سید محمود آلوسی بغدادی شاہ عبدالعزیز ہم عصر ہیں۔ انہوں نے تیس جلدوں میں قرآن پاک کی تفسیر لکھی ہے۔ وہ اپنے زمانے کا حال لکھتے ہیں کہ لوگوں نے عجیب روش اختیار کرلی۔ شراب کو مختلف ناموں سے پکار کر استعمال کر رہے ہیں حالانکہ اس کی اصلیت میں کوئی فرق نہیں۔ کسی نے عرق اکسیر نام رکھ لیا ہے اور کوئی اسے آب جو کہتا ہے۔ مگر نام بدلنے سے ایک حرام چیز حلال نہیں ہو سکتی۔ اس بات کو انگریزوں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ حرمت شراب کے متعلق اگر کسی کو کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ تو وہ صرف مذہب اسلام ہے۔ سرولیم میور ہندوستان میں صوبجات متحدہ کا گورنر رہا ہے۔ بڑا متعصب عیسائی پادری تھا اس نے دو جلدوں میں حضور ﷺ کی سوانح حیات لکھی ہے۔ جس کا نام ہے لائف آف محمد (Life of Muhammad) مسلمانوں کے خلاف تعصب کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے۔ کہ وہ دو چیزیں انسانیت کی دشمن ہیں۔ ایک محمد کی تلوار اور دوسرا محمد کا قرآن۔ مگر اس کو تسلیم کرنا پڑا کہ شراب کی حرمت کے متعلق اسلام کے سوا کوئی مذہب کامیاب نہیں ہوسکا۔ وہ کہتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے باعث فخر ہے کہ انہوں نے شراب جیسی قبیح چیز کو واضح طور پر حرام قرار دیا اور بڑی حد تک اس سے محفوظ رہے۔ حرام چیز کی تجارت بھی حرام ہے بہرحال سورة مائدہ کی مذکورہ آیت نازل ہونے پر شراب حرام ہوگئی اور صحابہ کرام نے کلی طور پر اس کو ترک کردیا۔ اس کے متعلق حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لعن اللہ من شرب الخمر وامرھا الخ یعنی شراب پینے والا پلانے والا ، نچوڑنے والا ، بنانے والا ، اٹھا کر جانے والا۔ اس کو بیچنے والا اور اس کی کمائی کھانے والا سب لعنتی ہیں۔ پھر آپ نے فتح مکہ کے دن اعلان کیا کہ جس خداوند تعالیٰ نے شراب پینے سے منع فرمایا ہے۔ اسی خدا نے اس کی تجارت سے بھی منع کردیا ہے گویا ہر حرام شے کی تجارت بھی حرام ہے سود حرام ہے ، اس کی لین دین بھی حرام ہے۔ اسی طرح بتوں کی تجارت حرام ہے مردار کی چربی کا بھی یہی حکم ہے مگر اس زمانے میں سوائے سعودی عرب کے تمام اسلامی ممالک میں شراب استعمال ہوتی ہے۔ اس کی تجارت ہوتی ہے۔ لائسنس جاری ہوتے ہیں۔ جہاں کہیں پابندی کا نام سنتے ہیں۔ وہ بھی زبانی حکم تک ہے۔ عملی طور پر مختلف حیلوں بہانوں سے اس کے اسعتمال کی اجازت ہے۔ خرچ کی مقدار آگے خرچ کے متعلق سوال اور اس کا جواب ہے ویسئلونک ماذا ینفقون آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کس قدر خرچ کریں۔ یہ سوال گزشتہ سے پیوستہ درس میں بھی آ چکا ہے۔ وہاں پر اس کا جواب دیا گیا تھا کہ فلاں فلاں مد پر خرچ کریں۔ مگر اس آیت کے جواب میں ہے۔ قل العفو آپ کہہ دیجیے جو اپنی ضرورت سے زائد ہے۔ وہ خچ کردیں۔ گویا اس سوال کا تعلق خرچ کی مقدار سے ہے۔ یہاں یہ ضمنی سوال پیدا ہوتا ہے کہ حاجت سے زائد سب کچھ خرچ کردینا فرض ، واجب وغیرہ کی کس مد میں آئے گا۔ تو اس کا جو با یہ ہے کہ خرچ جس مد کے لئے کیا جائے گا ، اس کا شمار اسی میں ہوگا ۔ مثلاً اگر زکواۃ ادا کی گئی ہے تو اس مد کا خرچ فرض ہوگا اگر صدقہ فطر ادا کیا ہے یا کسی اور واجب پر خرچ کیا ہوگا تو واجب شمار ہوگا۔ اسی طرح نفلی امور کا خرچ نفل شمار ہوگا۔ اگر کسی مباح کام میں خرچ کیا گیا ہے تو ایسا خرچ بھی مباح ہوگا ، اگر محض ثواب کی نیت ہے ، تو خرچ کنندہ کو ثواب حاصل ہوگا۔ برخلاف اس کے اگر کسی معصیت والے کام پر خرچ کردیا ہے ، تو ایسا خرچ حرام شمار ہوگا۔ اگر کسی مباح کام پر خرچ کیا ہے مگر ثواب کی نیت نہیں کی تو ایسا خرچ جائز تصور ہوگا۔ چونکہ اس آیت میں ضرورت سے زائد چیز خرچ کرنے کا حکم ہے۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ فرض واجب کے متعلق نہیں کیونکہ زکوۃ وغیرہ کی مقدار تو مقرر ہے۔ مگر یہاں ہر زاید چیز کے خرچ کرنے کا حکم ہے تو اس سے مراد صدقہ خیرات اور دیگر نفلی اخراجات ہیں۔ بہرحال اس آیت سے ایک بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ اپنی ضرورت کو مقدم رکھتے ہوئے اس سے زائد مال کو خرچ کرو۔ اگر خود اپنے لئے ، اپنے بال بچوں کی جائز ضروریات موجود ہیں اور ان ضروریات کو پورا کرنے کے بعد کچھ نہیں بچتا ، تو مت خرچ کرو۔ پہلے اپنی ضروریات پوری کرو ، اپنی ضروریات کو پس پشت ڈال کر حق تلفی نہ کرو۔ اپنی ضروریات پوری کرو ، اپنی ضروریات کو پس پشت ڈال کر حق تلفی نہ کرو۔ ہاں بعض خاص شخصیات ہیں۔ جیسے حضرت صدیق اکبر جن میں صبر کا مادہ بدرجہ اتم موجود ہے تو ایسے شخص اللہ کی راہ میں سب کچھ قربان کرسکتے ہیں۔ مگر جو شخص صبر کے اس مرتبہ پر نہ ہو ، اسے اپنی ضروریات کو مقدم رکھ کرنا ہوگا۔ ذخیرہ اندوزی کی ممانعت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں کہ اس آیت سے یہ بات بھی اخذ ہوتی ہے کہ ذخیرہ اندوزی درست نہیں ہے مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے ۔ یا بن ادم ان تمسک شرئک اے آدم کے بیٹے ، اگر چیز کو روک رکھو گے تو یہ تمہارے لئے شر ہوگا اور اگر زائد حصہ کو خرچ کر دو گے ، تو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا۔ ولا تلام علی کفاف اور اگر آمد و خرچ برابر ہیں تو پھر زائد نہ خرچ کرنے پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص فرائض ادا نہیں کرتا تو وہ عند اللہ ماخوذ ہوگا اور اگر فرض کی ادائیگی کے بعد روک رکھا ہے تو ثواب سے محروم ہوگیا۔ اگر ضرورت سے زائد موجود ہے مگر خرچ نہیں کرتا ، تو بخل کا مادہ پیدا ہوگا ، ثواب سے محروم ہوگا اور شر بہرحال ہوگا۔ غور و فکر کی دعوت فرمایا کذلک یبین اللہ لکم الایت اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے احکام بیان کرتا ہے۔ یہاں پر آیات سے مراد احکام ہیں لعلکم تتفکرون تاکہ تم غور و فکر کرو ، فی الدنیا والاخرۃ دنیا اور آخرت کے بارے میں۔ دنیا محل حوائج ہے۔ یہاں پر رہ کر انسان ضرورتوں اور حاجتوں پر درمادہ ہوتا ہے۔ اس کا بھی لحاظ رکھو۔ اور آخرت تو ثواب دائمی کا محل ہے اس کا بھی خیال رکھو۔ مقصد یہ ہے کہ دنیوی اور اخروی دونوں ضروریات کو ذہن میں رکھو۔ نہ یہاں محروم رہو اور نہ وہاں ، بلکہ ہر دو مقامات کے لئے لوازمات مہیا کرو۔ سورة بنی اسرائیل میں 1 ؎ آتا ہے کہ نہ ہاتھ کو زیادہ کھلا رکھو کہ خود محتاج ہو جائو اور نہ اتنا سکیڑ کر رکھو کہ بخیل شمار ہو۔ بلکہ اعتدال کی راہ اختیار کرو اپنی جائز ضروریات پوری کرو ، اور اس کے بعد مال کو روک کر نہ رکھو ، بلکہ غریبوں اور محتاجوں کو بھی ان کا حق ادا کرو۔ جائز ضروریات میں انسان کے بنیادی اخراجات ہیں ، جیسے کھانا ، پینا ، لباس ، صحت ، تعلیم ، رہائش وغیرہ ہیں۔ ان چیزوں پر خرچ کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔ البتہ اگر ریڈیو ، ٹیلیویژن ، کھیل تماشہ کو بھی بنیادی ضروریات میں شمار کرلیا جائے ، تو پھر انسان کے پاس کبھی کچھ نہیں بچے گا۔ یہ سامان تعیش ہے اور اس کی کوئی حد نہیں۔ اس زمانہ میں مکانوں کی بلا ضرورت زیبائش ، ان میں قیمتی سے قیمتی فرنیچر ، پردے ، قالین ، فرج وغیرہ سب بلا ضروتر ہیں اور ان اشیاء پر خرچ کرنا بلا جواز اور محتاجوں کی حق تلفی کے مترادف ہے اور اگر اس دنیا میں سب کچھ اپنی ذات پر ہی خرچ کر جائو ، تو پھر آخرت میں محرومی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ اسی لئے فرمایا کہ دنیا و آخرت ہر دو مقامات کا خیال رکھو یہاں پر بھی جائز ضروریات سے محروم نہ رہو ، اور آخرت کے لئے بھی توشہ تیار کرو۔
Top