Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 230
فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ١ؕ فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنْ ظَنَّاۤ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
فَاِنْ : پھر اگر طَلَّقَھَا : طلاق دی اس کو فَلَا تَحِلُّ : تو جائز نہیں لَهٗ : اس کے لیے مِنْ بَعْدُ : اس کے بعد حَتّٰي : یہانتک کہ تَنْكِحَ : وہ نکاح کرلے زَوْجًا : خاوند غَيْرَهٗ : اس کے علاوہ فَاِنْ : پھر اگر طَلَّقَھَا : طلاق دیدے اس کو فَلَاجُنَاحَ : تو گناہ نہیں عَلَيْھِمَآ : ان دونوں پر اَنْ : اگر يَّتَرَاجَعَآ : وہ رجوع کرلیں اِنْ : بشرطیکہ ظَنَّآ : وہ خیال کریں اَنْ : کہ يُّقِيْمَا : وہ قائم رکھیں گے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود وَتِلْكَ : اور یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود يُبَيِّنُھَا : انہیں واضح کرتا ہے لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ : جاننے والوں کے لیے
پھر اگر اس نے طلاق دیدی عورت کو (یعنی تیسری مرتبہ) پس اس کے بعد اس کے لئے حلال نہیں ہے۔ یہاں تک وہ اس کے علاوہ کسی خاوند کے ساتھ نکاح کرلے۔ پھر اگر اس نے بھی طلاق دیدی اس عورت کو تو کوئی گناہ نہیں ہے ان دونوں پر کہ رجوع کرلیں ، اگر وہ گمان کریں کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھیں گے اور یہ اللہ کی حدیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس قوم کے لئے بیان کرتا ہے جو علم رکھتے ہیں ۔
حلالہ گزشتہ درس میں طلاق کا مسئلہ بیان ہوا تھا۔ اور اس کے بعد خلع کا بیان آیا۔ آج کی آیت کا تعلق بھی مسئلہ طلاق سے ہے ۔ وہاں یہ بیان ہوا تھا کہ طلاق دو مرتبہ ہے جس کے بعد خاوند رجوع کرسکتا ہے۔ اس درس میں تیسری طلاق اور اس کے نتائج کا ذکر آ رہا ہے۔ فرمایا فان طلقھا یعنی اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تیسری مرتبہ طلاق دے دے ۔ تو اب رجوع کا حق ختم ہوگیا۔ فلا تحل لہ من بعد حتی تکح زوجاً غیرہ اب اس مرد کے لئے عورت حلال نہیں ہے۔ جب تک کہ وہ کسی دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔ اب یہ عورت پہلے خاوند کے لئے مغلظ ہوگئی۔ اگرچہ یہاں پر عدت کا ذکر نہیں ہوا۔ تاہم یہ بات پہلے آ چکی ہے کہ طلاق یا بیوگی کے بعد عورت کے لئے عدت کا پورا کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر نکاح ثانی نہیں کرسکتی۔ یہاں پر بھی وہی صورت ہے۔ جب کوئی شخص تیسری طلاق دے دے ، تو پھر وہ عورت عدت کے ایام پورے کریگی اور اس کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے کی مجاز ہوگی۔ فان طلقھا اور اگر اب دوسرا خاوند بھی اس کو طلاق دے دے یا فوت ہوجائے۔ تو عورت کو پھر دوسری عدت گزارنا ہوگی۔ اس کے بغیر تیسرا نکاح نہیں کرسکتی جب یہ دوسری عدت بھی پوری ہوجائے فلا جناح علیھمآ ان یتراجعا تو پہلے خاوند اور عورت پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ پھر رجوع کرلیں بشرطیکہ ان ظنآ ان یقیما حدود اللہ وہ گمان کریں کہ اللہ کی حدود کو قائم کریں گے مطلب یہ کہ ان دونوں کو اس بات کا احساس ہوجائے کہ انہوں نے علیحدگی اختیار کر کے سخت پریشانی اٹھائی ہے۔ لہٰذا ایسی صورت نہیں پیدا ہونے دیں گے تو وہ دوبارہ نکاح کر کے زوجین کی حیثیت سے زندگی گزار سکتے ہیں۔ طلاق کی مختلف صورتیں جیسا کہ گزشتہ درس میں بیان آ چکا ہے ۔ ” الطلاق مرتن “ طلاقیں دراصل دو ہی ہیں۔ جن میں رجوع کی گنجائش ہے اور اس کی آخر حد تین ہے۔ جس کے بعد جدائی لازمی ہوجاتی ہے۔ اسی لئے امام مالک تیسری طلاق کو پسند نہیں کرتے وہ کہتے ہیں کہ تیسری طلاق دینی ہی نہیں چاہئے تاہم طلاق کا احسن طریقہ یہ ہے کہ ایسے طہر میں ایک طلاق دی جائے جس میں مباشرت نہ کی ہو۔ جب تین حیض یا تین ماہ (جیسی بھی صورت ہو) گزر جائیں گے تو عورت آزاد ہوجائے گی۔ لہٰذا دوسری اور تیسری طلاق دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ایک یا دو طلاق کی صورت میں عدت کے دوران بغیر دوبارہ نکاح کئے رجوع ہو سکتا ہے اور اگر عدت گزر جائے۔ تو پھر بھی دوبارہ نکاح کر کے رجوع ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی وقت نہیں اور کوئی قباحت نہیں۔ اس طریقہ طلاق کے مطابق اگر ایک طلاق کے بعد رجوع کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو دوسرے طرح میں دوسری طلاق دی جاسکتی ہے۔ اب بھی سوچنے سمجھنے کا موقعہ موجود ہے۔ انسان ٹھنڈے دل سے غور کر کے متنازعہ امور کا تصفیہ کرسکتا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص تیسری طلاق ضرور ہی دنیا چاہتا ہے۔ تو پھر تیسرے طہر میں تیسری طلاق دیدے۔ بہرحال بہترین طریقہ یہ ہے کہ تین طہر میں تین طلاق دے۔ حیض کی حالت میں طلاق دینے سے اگرچہ طلاق تو واقع ہوجاتی ہے۔ مگر انسان گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ یہ طلاق بدعت کہلاتی ہے بیک وقت تین طلاق دینا بھی بدعت ہے۔ آدمی گنہگار ہوتا ہے ۔ سنت کے خلاف ہے۔ طلاق ثلاثہ کی تحقیق حیض کی حالت میں طلاق دینے ، تین طلاقیں بیک وقت دینے یا ایک ہی طہر میں تین طلاقیں دینے کے متعلق فقہائے کرام کے تین مختلف مسلک ہیں۔ شیعہ حضرات کے نزدیک حیض کی حالت میں تین طلاقیں اکٹھی دینے سے طلاق واقع ہی نہیں ہوتی ، فرقہ ظاہر یہ جن میں اہل حدیث بھی شامل ہیں ، ان کا مسلک یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں۔ ان میں طائوس ، مقاتل ، نحفی وغیرہ شامل ہیں اور تیسرا مسلک ائمہ رابعہ کا ہے جسے اکثر صحابہ اور تقریباً تمام تابعین اور جمہورائمہ کی تائید حاصل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تین طلاق بیک وقت دینے کا طریقہ تو بلاشبہ غلط ہے اور ایسا کرنے والا گنہگار بھی ہوتا ہے مگر تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ جو حضرات تین طلاق کو ایک تصور کرتے ہیں وہ مسلم شریف میں منقول حضرت عبداللہ بن عباس کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر کے ابتدائی زمانہ تک تین طلاقیں ایک ہی طلاق تصور ہوتی تھی۔ بعد میں حضرت عمر نے حکم جاری کیا۔ جو شخص بیک وقت تین طلاقیں دے گا۔ وہ تین ہی سمجھی جائیں گی۔ اس حدیث کے متعلق جمہور فقاء اور آئمہ کرام فرماتے ہیں کہ مذکورہ حدیث مرفروع نہیں بلکہ موقوف ہے۔ یہ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ فلاں فلاں زمانہ میں ایسا ہوتا تھا ، یہ خود حضور ﷺ کا فرمان نہیں ہے اس استدلال میں کمزوری یہ ہے کہ اس حدیث کے برخلاف خود حضرت عبداللہ بن عباس کا مذہب یہ ہے کہ تین طلاقیں دینے سے تینوں واقع ہوجاتی ہیں اور یہ اصول حدیث کا کلیہ ہے کہ جب کوئی راوی خود اپنی روایت کے خلاف فتویٰ دے یا عمل کرے تو وہ روایت ناقابل عمل ہوجاتی ہے۔ اس کی مثال حضرت ابوہریرہ والی حدیث ہے جس میں حضور خاتم النبین ﷺ کا ارشاد ہے کہ اگر کتا برتن میں منہ ڈال دے تو برتن سات دفعہ دھونا چاہئے جس میں ایک مرتبہ مٹی مل کر دھونا بھی شامل ہو۔ اب حضرت ابوہریرہ کا اپنا فتویٰ یہ ہے کہ صرف تنی دفعہ دھونے سے برتن پاک ہوجاتا ہے۔ چونکہ کتے کے دہن کا لعاب جراثیم آلود ہوتا ہے۔ اس لیے ایک دفعہ مٹی بھی مَل لی جائے تو بہتر ہے۔ ورنہ تین دفعہ پانی کے ساتھ دھو لینا کافی ہے۔ لہٰذا سات مرتبہ دھونے والی حدیث ناقابل عمل ہوگئی۔ اتنی دفعہ دھونا ضروری نہ رہا۔ بلکہ اگر احتیاطاً کوئی سات دفعہ بھی دھولے تو وہ استحباب کے درجہ میں آئیگا ، لازم نہیں رہا۔ لہٰذا حضرت ابن عباس ؓ کی تین طلاقوں کو ایک طلاق تصور کرنے والی روایت کے استدلال میں کمزوری واقع ہوگئی۔ اگرچہ حضرت ابن عباس ؓ کے اکثر شاگرد و مذکورہ روایت ہی بیان کرتے ہیں۔ جسمیں تین طلاق کو ایک تصور کیا گیا ہے۔ مگر ابودائود شریف کی روایت کے مطابق آپ کے ایک شاگرد ایک دوسری روایت بھی بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں بیک وقت دے دی ہیں۔ آپ نے برجستہ فرمایا عصیت ربک وبانت منک امراتک یعنی تو نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور تیری عورت بھی تجھ سے جدا ہوگئی۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ خود حضرت ابن عباس ؓ تین طلاق کو تین ہی تصور کرتے تھے۔ جبھی تو فرمایا کہ اگرچہ تو گنہگار ہوا ہے مگر طلاق واقع ہوگئی اور تیری بیوی تجھ سے علیحدہ ہوگئی۔ طحاوی شریف میں ایک اور روایت بھی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی طرف منسوب ہے۔ ایک شخص آپ کے پاس آیا۔ اور کہنے لگا کہ میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ اس کا کیا حکم ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ نے فرمایا ان عمک عصی اللہ تیرے چچا نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ واطاع الشیٰطن اور شیطان کی بات مانی۔ ولم یجعل لہ مخرجاً مگر اب خلاصی کی صورت بھی باقی نہیں رہی۔ عورت کو طلاق واقع ہوگئی۔ موطا امام مالک (رح) میں محمود بن لبید ؓ سے روایت منقول ہے۔ آپ چھوٹی عمر کے صحابی ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ ایک شخص نے اپنی عورت کو تین طلاقیں اکٹھی دے دیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ کہ اللہ کی کتاب کو کھیل اور مشغلہ بنانا درست نہیں۔ آپ سخت ناراض ہوئے۔ اتنے میں ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی ، حضور ! کیا میں اس کو مار نہ ڈالوں۔ مگر آپ خاموش رہے۔ آپ نے مزید کچھ نہیں فرمایا۔ مگر ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس سے بھی معلوم ہوا۔ کہ بیک وقت طلاق ثلاثہ سے آدمی گنہگار ضرور ہوتا ہے مگر طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ موطا امام مالک میں حضرت ابن عباس ؓ سے ایک اور روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا طلقت مائتہً میں نے اپنی عورت کو سو طلاقیں دیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ تین طلاقوں کے ساتھ تو عورت علیحدہ ہوگئی ، باقی ستانویں 97 طلاقیں دیکر تم نے اللہ کی آیات کے ساتھ مذاق کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ تین طلاقیں دینے سے تینوں واقع ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا تین طلاقوں کے ایک طلاق واقع ہونے والی روایت قابل عمل نہیں رہی۔ البتہ اس کے متعلق فقہائے کرام یہ توجیہہ بیان کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہحضور ﷺ ، حضرت صدیق اکبر ؓ اور عمر فاروق ؓ کے ابتدائی دور تک لوگ ایک ہی طلاق دیتے ہوں۔ تین کا رواج ہی نہ تھا۔ پھر جب لوگوں نے تین طلاقیں دینا شروع کیں تو حضرت عمر ؓ نے حکم صادر کیا۔ کہ جو شخص بیک وقت تین طلاقیں دے گا۔ وہ تین ہی شمار ہوں گی۔ لہٰذا کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ تین طلاق بیک وقت دینے سے ایک ہی واقع ہوگی اور وہ رجوع کرسکے گا۔ لہذا لوگ خبردار رہیں۔ ابودائود شریف میں یہ بھی آتا ہے کہ تین طلاقوں کا ایک طلاق شمار کرنا اس عورت کے لیے ہے جس کا نکاح ہوا مگر خاوند سے خلوت نہیں ہوتی۔ وہ شخص اگر ایک وقت میں تین طلاق بدیں الفاظ دیتا ہے کہ تجھ کو طلاق ہے۔ تجھ کو طلاق ہے۔ تجھ کو طلاق ہے۔ تو ایسی عورت پہلی طلاق پر ہی جدا ہوجائے گی۔ اس کی دوسری اور تیسری طلاقیں لغو ہیں کیونکہ عورت کے غیر مدخولہ ہونے کی وجہ سے اس کے لیے ایک طلاق ہی کافی ہے۔ یہاں دوسری اور تیسری طلاق کا کوئی موقع محل نہیں ہے۔ الغرض ! تین طلاقوں کو ایک تصور کرنے کے متعلق صرف حضرت عبداللہ بن عباس ؓ والی روایت سے استدلال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی خاص روایت نہیں۔ اس روایت کے متعلق معلوم ہوگیا کہ یہ استدلال کمزور ہے اور روایت مؤول ہے البتہ مسلم شریف میں ہے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی ایک روایت آتی ہے۔ کہ کسی شخص نے حضور ﷺ سے دریافت کیا حضرت ! اگر کوئی حیض کی حالت میں عورت کو طلاق دیدے تو اس کا کیا حکم ہے۔ فرمایا اگر کوئی ایسی بیوقوفی کرلے تو عورت تو جدا ہوجائیگی البتہ دینے والا گنہگار ہوگا۔ کہ اس نے غلط موقع پر طلاق دی۔ ابن حزم (رح) اور بعض دوسرے ائمہ یہ نکتہ بھی بیان کرتے ہیں۔ کہ پہلی آیت میں فرمایا الطلاق مرتن یعنی طلاق دو مرتبہ ہے ۔ جس میں رجوع ہوسکتا ہے۔ اس آیت میں فرمایا فان طلقھا پس اگر اس نے ( تیسری) طلاق دیدی۔ فرماتے ہیں کہ یہاں پر فان کی بجائے ثم کا لفظ بھی آسکتا تھا۔ مگر اس میں حکمت یہ ہے کہ فا اتصال کے لیے آتا ہے۔ جب کہ ثم میں یہ معنی نہیں پایاجاتا۔ تو یہاں پر فان طلقھا کا معنی یہ ہوگا کہ دو طلاق کے بعد اگر متصلاً تیسری طلاق دیدے یعنی بیک وقت تین طلاقیں دیدے۔ تو عورت حرام ہوجائیگی۔ جب تک وہ کسی دوسرے خاوند سے نکاح کرکے طلاق حاصل نہ کرلے۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ متصل تین طلاقیں تین ہی تصور ہوں گی۔ مشرو ط نکاح اس وقت مروجہ حلالہ کی جو صورت ہے وہ کبیرہ نگاہ کا ارتکاب ہے۔ یہ حلالہ مشروط نکاح کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ جب دیکھتے ہیں کہ اب رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہی۔ تو کسی دوسرے شخص کے ساتھ اس شرط پر نکاح کردیا کہ وہ طلاق دیدے گا۔ اور پھر پہلے خاوند سے نکاح ہوسکے گا۔ اگر جہ اس طرح قانونی جواز تو پیدا ہوجاتا ہے مگر اس شرط کے تحت نکاح گناہ کبیرہ ہے۔ ایسے حلالے پر لعنت کی گئی ہے۔ العن اللہ المحلل والمحلل لہ۔ حضور ﷺ نے فرمایا حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا گیا۔ دونوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ بہرحال یہ حلال حرام کا مسئلہ ہے۔ اور اگر حلال و حرام میں اختلاف پیدا ہوجائے لو کلیہ یہ ہے کہ حرام کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا اس مسئلہ میں تین طلاق پر عورت حرام ہوجائیگی ، خواہ بیک وقت تین طلاق دی ہوں۔ ایک ہی طہر میں دی ہوں یا حیض کے دوران دی ہوں۔ اب عورت اس مرد کے لیے حلال نہیں ہوسکتی۔ جب تک کہ وہ دوسرے خاوند سے نکاح نہ کردے۔ پھر وہ خاوند فوت ہوجائے یا طلاق دے دے تو دوبارہ پہلے خاوند سے نکاح ہوسکتا ہے۔ فرمایا تلک حدود اللہ یہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدیں ہیں۔ یبینہا لقومٍ یعلمون جو کہ اہل قوم کے لیے بیان کی گئی ہیں۔ مسئلہ نکاح کا ہو ، طلاق یا عدت کا ہو۔ ایلاء یا ظہار کا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے واضح حدیں مقرر کردیں ک ہیں۔ ان حدود کا احترام کرنا چاہئے اور ان کو عبور نہیں کرنا چاہئے۔ ورنہ انسان گنہگار ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آجائے گا۔
Top