Mualim-ul-Irfan - An-Noor : 23
اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١۪ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ : جو لوگ تہمت لگاتے ہیں الْمُحْصَنٰتِ : پاکدامن (جمع) الْغٰفِلٰتِ : بھولی بھالی انجان الْمُؤْمِنٰتِ : مومن عورتیں لُعِنُوْا : لعنت ہے ان پر فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَلَهُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
بیشک وہ لوگ جو متہم کرتے ہیں پاکدامن غافل مومن عورتوں کو ان پر لعنت کی گئی ہے دنیا اور آخرت میں ، اور ان کے لئے عذاب عظیم ہے
ربط آیات : گزشتہ دروس میں افک کا واقعہ بیان ہوا ہے ۔ یہ منافقوں کی سازش تھی جس کی لپیٹ میں بعض مخلص مسلمان بھی آگئے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ میں ملوث ہونے والے منافقوں اور مسلمانوں کو سخت ترین الفاظ میں مذمت بیان کی ہے مسلمانوں پر حد قذف جاری ہوئی اور اللہ نے ان کی توبہ بھی قبول فرمائی۔ پھر اللہ نے تنبیہ کی کہ اس کے جاری کردہ قوانین کی پابندی کرو اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو کیونکہ شیطان ہمیشہ بےحیائی اور برائی کی تلقین کرتا ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان اور اس کی مہربانی ہوئی کہ اس نے تمہیں پاک کیا۔ تمہیں پاکیزہ قانون عطا کیا اور موقع دیا کہ آئندہ ایسی کسی سازش میں شریک نہ ہوں۔ پھر دوسری بات اللہ نے یہ بھی سمجھائی کہ اس کی طرف سے نافذ کردہ قانون میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ کرو بلکہ اس پر ٹھیک ٹھیک عمل کرو۔ اور جن لوگوں سے افک کے سلسلہ میں غلطی ہوئی تھی ، ان کو معاف کردو ، اور ان سے درگزر کرو ۔ جس طرح تم اپنے لئے چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری خطائوں کو معاف کردے ، اسی طرح دوسروں کی خطائوں سے بھی درگزر کرو۔ منافقین پر لعنت اور عذاب عظیم : جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے اللہ نے مسلمانوں پر حد جاری ہونے کے بعد ان کی توبہ قبول فرمالی مگر اس سازش کے اصل سرغنہ عبداللہ بن ابی اور دیگر منافقین پر نہ تو حد قذف جاری ہوئی اور نہ ہی انہوں نے توبہ کی۔ ان لوگوں کے پارے میں اللہ تعالیٰ نے اب یہ فیصلہ کیا ہے۔ ان الذین یرمون المحصنت الغفلت المومنت ، بیشک وہ لوگ جو مہتم کرتے ہیں پاکدامن اور بیخبر مومن عورتوں کو ، محصنت سے مراد ایسی عورتیں ہیں جو شادی شدہ اور پاکدامن ہوں اور غافل اس لحاظ سے کہ ان کو خبر ہی نہیں کہ ان پر کیا الزام تراشی ہورہی ہے۔ اور مومنات سے مراد صاحب عورتیں ہیں ۔ جن کے ایمان میں کوئی شبہ نہیں۔ اس واقعہ کے تناظر میں اس سے مراد حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ہیں اور عام قانون کے طور پر ان صفات کی حامل کوئی بھی عورت ہوسکتی ہے۔ تو فرمایا ایسی عورتوں پر الزام زنا کی تہمت لگانے والوں کی سزا یہ ہے کہ لعنوا فی الدنیا والاخرۃ ، کہ ان پر لعنت کی گئی ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اس دنیا میں ایسے لوگوں کو ہمیشہ برائی کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ لوگ انہیں ملعون کا لقب دیں گے ولھم عذاب عظیم ، اور آخرت میں ان کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کیا گیا ہے گزشتہ آیت 11 میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے متعلق خاص طور پر اسی عذاب کی وعیدآچ کی ہے والذی تولی کبرہ منھم لہ عذاب عظیم واقعہ افک کا سب سے زیادہ ذمہ دار یہ شخص تھا لہٰذا اللہ نے اس کے لئے خاص طور پر عذاب عظیم کی وعید سنائی۔ مہتم کیے جانے والے جوڑے میں ایک طرف صالح اور بےگناہ شخص صفوان بن معطل ؓ ہے جس کا بیان ہے کہ اس نے جاہلیت کے زمانہ میں بھی کبھی ایسی برائی نہیں کی چہ جائیکہ اسلام لانے کے بعد کوئی ایسی حرکت کرتا۔ اور دوسری طرف وہ پاکباز خاتون ہے جو اللہ کے نبی کی بیوی اور اس کی ماں بنتی ہے۔ اس نے تو صرف یہ کیا کہ حضرت عائشہ ؓ کو اکیلی پاکر اونٹ کو بٹھایا ، خود دوسری طرف منہ کرلیا اور ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ سوارہوگئیں۔ پھر اونٹ کی مہار پکڑے قافلے سے ملادیا۔ اور سارا راستہ ایک لفظ بھی زبان سے ادا نہیں کیا۔ تو ایسے لوگوں پر الزام تراشی کرنے والوں کے لئے اللہ نے دنیا وآخرت میں لعنت اور عذاب عظیم کی وعید سنائی ہے۔ سات مہلک گناہ : صحیحین کی روایت میں سات مہلک گناہوں کا ذکر آتا ہے ۔ جو کبائر میں بھی بڑادرجہ رکھتے ہیں اور ان میں پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانا بھی ہے جو ان دور رکوعات کا موضوع ہے۔ حضور ﷺ کا ارشادمبارک (مسلم ص 64 ج 1 (فیاض) ہے اجتنبوا سبع الموبقات یعنی سات شدید مہلک گناہوں سے بچو جو کہ یہ ہیں (1) الشرک باللہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا مہلت ترین گناہ ہے جو انسانوں کی عاقبت کو تباہ کرکے رکھ دیتا ہے۔ (2) شھادۃ الزور یعنی جھوٹی گواہی (3) قتل النفس التی حرم اللہ الا بالحق کسی جان کا ناحق قتل (4) اکل الربوسودی خوری (5) اکل المال الیتیم یتیم کا مال ناحق طور پر کھانا (6) تولی یوم الزحف جہاد میں پشت پھیر کر بھاگنا ۔ جب تک دشمن اپنے سے دگنی تعداد سے زیادہ نہ ہو ، اس کے مقابلے میں بھاگ جانا بھی مہلک گناہ ہے۔ اللہ نے سورة انفال میں اس پر جہنم کی وعید سنائی ہے اگر دشمن کی تعداد اپنی تعداد سے دوگنا سے زیادہ ہو تو پھر پیچھے ہٹ جانے کی اجازت ہے (7) قذف المحصنت یعنی پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ان سات مہلک گناہوں سے بچنے کی کوشش کرو۔ یہ ایسا جرم ہے جس کی سزا ابتدائی آیات میں اسی درے مقرر کی گئی ہے۔ امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ نے اس جرم کے لئے دوسزائیں نازل فرمائی ہیں۔ ایک سزا تو اسی درے ہیں اور دوسری یہ کہ ایسا شخص ہمیشہ کے لئے مردود الشہادت ہوجاتا ہے۔ اگرچہ معانی کے بعد اخروی سزا سے بچ جاتا ہے مگر معاشرتی طور پر اس کی گواہی ہمیشہ کے لئے غیر معتبر ہوجاتی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کی نو خصوصیات : مفسر قرآن امام بغوی ، صاحب تفسیر مشہری ، مفسر قرطبی اور بعض دیگر مفسرین نے یہ روایت (مظہری ص 485 ج 6 والسراج النبین ص 610 ج 2 (فیاض) بیان کی ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نو خصوصیات عطا فرمائی ہیں۔ پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ نے میری تصویر حضور ﷺ کو میرے نکاح سے پہلے دکھا دی تھی۔ چناچہ خود حضور ﷺ نے بیان کیا ہے کہ عائشہ ؓ تیری تصویر مجھے جبرائیل (علیہ السلام) نے ریشم کے ٹکڑے پر خواب میں دکھائی ، تو میں نے اس خواب کی یہی تعبیر نکالی کو ایسا ہو کر رہے گا۔ چناچہ ہجرت سے پہلے آپ کا نکاح حضرت صدیقہ ؓ سے ہوگیا جب کہ اس وقت صدیقہ ؓ کی عمر صرف چھ سات سال تھی البتہ رخصتی تین سال بعد مدینہ منورہ جاکر ہوئی۔ یہ نکاح حضرت صدیق اکبر ؓ نے خود کیا۔ ام المومنین نے فرمایا کہ میری دوسری خصوصیت یہ ہے کہ حضور ﷺ کی تمام ازواج مطہرات میں سے صرف میں دوشیزہ ہوں ، باتق سب پہلے سے ایک یا دودفعہ شادی شدہ ہیں۔ فرمایا میری تیسری خصوصیت یہ ہے کہ جب اللہ کے رسول کا اس دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آیا تو اس وقت آپ کا سر مبارک میری گود میں تھا۔ یہ پھر انتہائی قرب کی علامت ہے ۔ چوتھی خصوصیت یہ بیان کہ کہ حضور ﷺ کی قبر بھی میرے گھر میں بنی۔ اس گھر میں فرشتوں کا ہمیشہ ہجوم رہتا ہے ، آپ کی زندگی میں بھی اور اس کے بعد بھی۔ پھر فرمایا کہ پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ بسا اوقات حضور ﷺ پر ایسی حالت میں وحی نازل ہوتی کہ میں آپ کے ساتھ ایک ہی لحاف میں ہوتی۔ یہ خصوصیت بھی کسی دوسری بیوی کو حاصل نہیں ہوئی۔ چھٹی خصوصیت یہ ہے کہ میں حضور ﷺ کے خلیفہ اول اور آپ کے صدیق کی بیٹی ہوں۔ فرمایا ساتویں خصوصیت یہ ہے کہ میری برات میں اللہ نے پورے دو رکوع کی سولہ آیات نازل فرمائیں۔ آٹھویں خصوصیت یہ ہے خلقت طیبۃ اللہ نے مجھے پاک پیدا کیا ہے اور پاک ہستی کے پاس ہی رکھا ہے ۔ امہات المومنین کے متعلق قرآن کی عمومی شہادت بھی یہی ہے۔ انما یرید……… ……………تطھیرا (الاحزاب 33) اللہ نے نبی کی تمام بیویوں کو ظاہری اور باطنی نجاست سے پاک رکھا ہے اور آخر میں نویں خصوصیت یہ ہے کہ اللہ نے مجھے اس اتہام سے بری فرما کر مغفرت اور عزت والی روزی کا وعدہ فرمایا ہے۔ لھم مغفرۃ ورزق کریم۔ حضرت عائشہ ؓ کی فضیلت : حدیث شریف میں بھی حضرت عائشہ ؓ کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد (بخاری ص 532 ج 1 وترمذی ص 579 (فیاض) ہے فضل العائشۃ علی سائر النساء کفضل الثرید علی سائر الطام یعنی تمام عورتوں کے مقابلے میں حضرت عائشہ ؓ کی فضیلت ایسی ہے جیسے ثرید کھانے کو تمام کھانے پر فوقیت حاصل ہے۔ آپ شکل و صورت ، علم وفقاہت ، نیکی اور تقویٰ میں جامع الصفات ہیں امت کی تربیت کے سلسلہ میں آپ کی خدمات بہت زیادہ ہیں۔ حضور ﷺ کے وصال کے بعد آپ 47 یا 48 سال زندگی پائی ہے اور لوگوں کی دینی معاملات میں راہنمائی فرمائی ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریٰ ؓ اور بعض دیگر صحابہ کرام ؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کو جب بھی کوئی مشکل مسئلہ درپیش ہوتا تو اس کا حل حضرت عائشہ ؓ سے ملتا۔ آپ نے بڑی زہد کی زندگی بسر کی۔ ہاتھ اتنا کشادہ تھا کہ اگر کسی دن میں دو بوری درہم بھی آتے ہیں تو سارے عرباء میں تقسیم کردیے اور اپنے افطار کے لئے بھی کچھ نہیں رکھا۔ لونڈی سے پوچھا افطاری کے لئے کوئی چیز ہے تو اس نے عرض کیا کہ آپ نے اپنے لئے کچھ رکھنے کا حکم ہی نہیں دیا بلکہ سب کچھ تقسیم کردیا ہے۔ امام بیضاوی (رح) اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) فرماتے ہیں برء اللہ اربعۃ باربعۃ یعنی چار شخصیتوں کی اللہ نے چار ذرائع سے بریت فرمائی ہے۔ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) پر زلیخا نے الزام لگایا تو زلیخا کے خاندن کے ایک بچے نے گوایہ دی تھی شھد شاھد من اھلھا (یوسف 26) کہ اگر یوسف (علیہ السلام) کی قمیض آگے سے پھٹی ہے تو زلیخا سچی ہے اور اگر پیچھے سے پھٹی ہے تو یوسف (علیہ السلام) سچے ہیں۔ اسی طرح آپ کی بریت ہوئی اسی طرح لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) پر عیبناک ہونے کا شبہ کیا کہ آپ کو کوئی خطرناک بیماری ہے۔ آپ کو اس اتہام سے بری کرنے کے لئے اللہ نے پتھر کو حکم دیا تو وہ آپ کے کپڑے لے کر پھاگ کھڑا ہوا۔ لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو برہنہ حالت میں دیکھ کر تسلی کرلی کہ آپ کے جسم میں کوئی عیب نہیں ہے تیسری برات حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی ماں کی کی تھی جب کہ آپ ان کی گود میں تھے۔ قال انی عبداللہ (مریم 30) آپ نے اس وقت بول کر گواہی دی تھی کہ میری ماں پر اتہام نہ لگائو ، میں تو اللہ کی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ کا شاہکار ہوں۔ اور چوتھی بریت حضرت عائشہ ؓ کی تھی جس کے حق میں اللہ نے یہ سولہ آیات نازل فرمائیں۔ قیامت کو پورا پورا بدلہ : فرمایا جنہوں جنہوں نے الزام تراشی کرنے کے بعد توبہ بھی نہیں کی ان کے لئے دنیاوآخرت میں لعنت اور عذاب عظیم ہے۔ پھر ان کی حالت یہ ہوگی۔ یوم تشھد علیھم السنتھم جس دن ان کی زبانیں گواہی دیں گی کہ انہوں نے بےگناہوں پر اتہام لگاکر سخت غلطی کی تھی۔ اگر وہ خود اقرار نہیں کریں گے وایدیھم وارجلھم تو ان کے ہاتھ اور پائوں شہادت دیں گے کہ یہ لوگ اس جرم میں ملوث تھے۔ بماکانوا یعملون جو بھی غلط کام کیے ہیں سب کو ظاہر کردیا جائے گا۔ یہی مضمون سورة یسٓ میں بیان ہوا ہے۔ الیوم…………………یکسبون (آیت 65) اس دن ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے ، اور ان کے ہاتھ اور پائوں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کچھ کرتے رہے ہیں۔ فرمایا یومئذ یوفیھم اللہ دینھم الحق اس دن اللہ تعالیٰ ان کا پورا پورا بدلہ دیگا جو صحیح ہے۔ دین کا معنی قیامت اور اطاعت بھی ہوتا ہے مگر یہاں پر جزا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ فرمایا ان کو پورا پورا بدلہ ملے گا۔ ویعلمون ان اللہ ھوالحق المبین ، اور یہ لوگ جان لیں گے کہ بیشک اللہ کی ذات ہی برحق ہے اور وہ سب چیزوں کو کھولنے والا یعنی ظاہر کرنے والا ہے۔ جن لوگوں نے تعدی وتجاویز کیا ، بےگناہوں پر زیادتی کی ، قیامت والے دن وہ سخت سزا کے مستحق ہوں گے۔ کند ہم جنس باہم جنس پرواز : اب واقعہ افک کی آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک پیغمبر کی پاک بیوی کی کی برات کو ایک عام قانون کے ذریعے بھی سمجھایا ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ تاریخ انبیاء میں بعض نبیوں نوح (علیہ السلام) اور لوط کی بیویوں میں عقیدے کی خرابی تو ملتی ہے مگر کسی نبی کی بیوی پر بدکاری کا الزام نہیں لگا۔ تمام انبیاء (علیہم السلام) کی بیویاں ہمیشہ پاک رہی ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے الخبیثت للخبثیین والخبیثون للخبیثت ، خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہوتے ہیں۔ اللہ کا نبی ہمیشہ پاک ہوتا ہے لہٰذا اس کی بیوی بھی ہمیشہ ظاہرہ ہوتی ہے۔ اسی لئے یہ بھی فرمایا والطیبت لطیبین والطیبون للطیبت پاک عورتیں پاک مردوں کے لائق ہوتی ہے اور پاک مرد پاک عورتوں کے لائق ہوتے ہیں ، اللہ کے نبی کے گھرانے کے یہ قطعی لائق نہیں کہ وہ کوئی برائی یا بےحیائی کی بات کریں اس آیت کو مفسرین عام معانی پر بھی محمول کرتے ہیں کہ خبیث کام خبیث لوگوں کے اور پاکیزہ کام پاکیزہ لوگوں کے لائق ہوتے ہیں۔ خبیثت سے مرادنہ صرف خبیث لوگ ہیں بلکہ اس سے گندے عقائد ، اخلاق اور اعمال بھی مراد ہیں۔ اسی طرح طیبات سے پاک عقائد ، پاک اخلاق اور پاک اعمال بھی ہیں اس طرح معنی یہ ہوگا۔ کہ گندے عقائد ، اخلاق اور اعمال گندیلوگ اختیار کرتے ہیں۔ جب کہ پاکیزہ عقائد ، پاکیزہ اخلاق اور پاکیزہ اعمال پاکیزہ لوگوں کے حصے میں آتے ہیں گندی رسومات گندے لوگ اختیار کرتے ہیں جب کہ اللہ کے پاک انبیائ ، ان کے اہل بیت اور نیکوکار لوگوں کے متعلق فرمایا اولئک مبرء ون مما یقولون ، یہ سب لوگ پاک ہیں اس چیز سے جو یہ منافق لوگ کہتے ہیں۔ بلکہ اس قسم کے اتہام لگانے والے خود غلط کار اور نحس میں جنہوں نے نہ توبہ کی نہ معافی مانگی اور نہ غلطی کا اقرار کیا۔ یہ لوگ سزا کے مستحق ہیں۔ البتہ جو لوگ اس الزام سے پاک ہیں یعنی حضرت عائشہ ؓ اور حضرت صفوان ؓ لھم مغفرۃ ورزق کریم ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت کا پروانہ ہے اگر کوئی معمولی تقصیر ہو بھی جائے تو اللہ تعالیٰ معاف فرمادے گا اور انہیں عزت کی روزی بھی نصیب ہوگی۔ اللہ نے ان دو رکوع میں منافقوں کی سازش کا پردہ چاک کرکے اپنے نیک بندوں کی بریت واضح کی ہے اور منافقین کی سخت ترین الفاظ میں مذمت بیان کی ہے۔
Top