Mualim-ul-Irfan - An-Noor : 30
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ
قُلْ : آپ فرما دیں لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومون مردوں کو يَغُضُّوْا : وہ نیچی رکھیں مِنْ : سے اَبْصَارِهِمْ : اپنی نگاہیں وَيَحْفَظُوْا : اور وہ حفاظت کریں فُرُوْجَهُمْ : اپنی شرمگاہیں ذٰلِكَ : یہ اَزْكٰى : زیادہ ستھرا لَهُمْ : ان کے لیے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌ : باخبر ہے بِمَا : اس سے جو يَصْنَعُوْنَ : وہ کرتے ہیں
(اے پیغمبر ! ) آپ کہہ دیجئے ایماندار مردوں سے کہ وہ پست رکھیں اپنی نگاہیں اور حفاظت کریں اپنے ستر کی۔ یہ زیادہ پاکیزہ چیز ہے ان کے لئے۔ بیشک اللہ تعالیٰ خبر رکھتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں
ربط آیات : گزشتہ آیات میں دوسروں کے گھروں میں جانے کے مسائل بیان ہوئے کہ کوئی شخص اپنے گھروں میں بلا اجازت جاسکتا ہے البتہ بہتر یہی ہے کہ اطلاع کرے۔ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے گھروں میں یا جن گھروں میں سامان پڑا ہوا ہے ، وہاں بھی اجازت کے بغیر نہیں جانا چاہیے۔ البتہ مفاد عامہ کے ایسے مقامات جن میں کسی کی انفرادی رہائش نہ ہو وہاں بلا اجازت داخل ہوسکتا ہے۔ البتہ ان کے مخصوص حصوں میں بھی بلا اجازت داخل ہونا جائز نہیں۔ دراصل یہ پابندی برائی ، زنا اور بدکاری کی روک تھام کے لئے لگائی گئی ہے کیونکہ برائی تحریک بلا تکلف میل جول کے ذریعے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اب آج کی آیات بھی اسی قانون کا تتمہ ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں جاتا ہے یا راستہ چلتے کسی غیرمحرم سے واسطہ پڑتا ہے تو نگاہوں کو نیچا رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اگر کسی مومن مرد کے سامنے غیر محرم عورت آجائے یا مومن عورت کے سامنے غیر محرم مرد آجائے تو دونوں کو غض بصر کا حکم دیا گیا۔ عام محاورہ ہے النظر بریدالزنا یعنی نگاہ زنا کی ڈاک ہوتی ہے۔ پہلے کسی غیر محرم پر نگاہ پڑتی ہے پھر خیالات فاسد ہوتے ہیں اور پھر برائی کی ترغیب پیدا ہوتی ہے ، اسی لئے نظر کی آنکھوں کا زنا قرار دیا گیا ہے۔ حضور ﷺ نے نگاہ کی حفاظت کا سختی سے حکم دیا ہے تاکہ برائی ، بدکاری اور زنا کی نوبت ہی نہ آسکے۔ اور مسلمانوں کی سوسائٹی ایسی قباحتوں سے پاک رہے۔ بعض صحابہ کرام ؓ مختلف راستوں ، گھاٹیوں ، پلوں یا دیگر اونچی جگہوں پر بیٹھا کرتے تھے۔ حضور ﷺ نے اس سے منع فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ ہم ایسے مقامات پر بلا مقصد نہیں بیٹھتے بلکہ بعض اوقات کسی سے ملاقات کرنی ہوتی ہے ، کوئی مشورہ وغیرہ کرنا ہوتا ہے تو ہم ایسی جگہوں پر اکٹھے ہوجاتے ہیں آپ نے فرمایا کہ اگر آپ کا وہاں بیٹھنا ضروری ہے تو پھر ایسے مقام کا حق بھی ادا کرو۔ صحابہ ؓ کے دریافت کرنے پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایسے مقامات پر بیٹھنے کا حق یہ ہے کہ کسی کو تکلیف ن پہنچائو ، اپنی نگاہوں کو نیچا رکھو ، کوئی ضرورتمند ہو تو اس کی مددکرو اور اسلام کا جواب دو ۔ طلب یہ ہے کہ حضور ﷺ نے ہر موقع پر اپنی نگاہوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے۔ ان آیات میں دوسرا مسئلہ شرمگاہوں کی حفاظت کا بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں دونوں کو اپنے اپنے ستر کی نگرانی کا حکم دیا ہے۔ زبان اور اعضائے مستورہ کی ضمانت : صحیح حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا من یکفلنی مابین لحییہ وبین رجلیہ اکفل لہ الجنۃ جو شخص مجھے ضمانت دے گا ان چیزوں کی جو اس کے دو جبڑوں کے درمیان ہے یعنی زبان اور جو دورانوں کے درمیان ہے یعنی شرمگاہ ، تو میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ زبان اور شرمگاہ دو ایسی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے اکثر فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنی زبان پر کنٹرول نہیں کرتا اور اس کے ذریعے جھوٹ ، غیبت ، اتہام اور گالی گلوچ کرتے ہیں ، وہ اس کی وجہ سے سخت مشکل میں پڑتے ہیں۔ اس طرح شرمگاہ کی حفاظت ہی عصف وعصمت کی علامت ہے ، ورنہ انسان ، زنا ، فحاشی اور بدکاری میں مبتلا ہو کر جنت سے محروم ہوجاتا ہے اسی لئے اللہ کے نبی نے فرمایا کہ جو شخص مجھے ان دو چیزوں یعنی زبان اور شرمگاہ کا ضمانت دے ، میں اسے جنت کی ضانت دیتا ہوں کہ وہ اللہ کی رحمت کے مقام میں ضرور پہنچے گا۔ نگاہ اور شرمگاہ کی حفاظت : پہلے اللہ نے نگاہ اور شرمگاہ کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور یہ حکم مردوں اور عورتوں کے لئے الگ الگ ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ۔ قل للمومنین یغضوا من ابصارھم اے پیغمبر ! آپ ان مومن مردوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ یعنی جب کسی غیر محرم عورت سے آمنا سامنا ہو تو اس کی طرف بار بار دیکھنے کی بجائے اپنی نظروں کو جھکالے۔ بیہقی نے شعب الایمان میں یہ روایت نقل کی ہے لعن اللہ الناظروالمنظور الیہ ، اللہ نے لعنت کی ہے اس مرد پر جو اپنی نظر کسی غیر محرم عورت پر اٹھاتا ہے۔ اور اگر عورت کے دل میں بھی یہی جذبہ ہے تو اس پر بھی خدا کی پھٹکار ہے مسند احمد ، ترمذی ، ابودائود اور دارمی وغیرہ میں یہ روایت بھی موجود ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا (احکام القرآن للجصاص ص 315 ج 3 وفتح القدری ص 25 ج 4 (فیاض) لا تتبع النظرۃ النظرۃ اے علی ؓ ، پہلی نگاہ کے بعد دوسری نگاہ مت اٹھانا ، اگر اتفاقاً کسی غیر محرم عورت پر نظر پڑگئی ہے تو اسے فوراً پست کردو۔ دوسری بار نگاہ اٹھائو گے تو گنہگار بن جائو گے پہلی نگاہ تو معاف ہے۔ مگر دوسری نہیں ، حضرت جریر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ اگر کسی غیر محرم پر نظر پڑجائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ کہتے ہیں امرنی ان اصرف کہ حضور ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ نگاہ کو فوراً پھیر لو اور دوبارہ دیکھنے کی کوشش نہ کرو ، ورنہ مجرم بن جائو گے۔ حضور ﷺ نے نگاہ کی حفاظت کرنے والے کی فضیلت بھی بیان فرمائی ہے کہ جس شخص کی نگاہ کسی غیر محرم کے حسن و جمال پر پڑگئی اور اس نے اپنی نگاہ کو فوراً پست کرلیا تو اس کے دل میں اللہ تعالیٰ ایسی عبادت پیدا کرے گا جس کی وجہ سے اسے لطف محسوس ہوگا۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دوسرا حکم یہ دیا ہے کہ اے پیغمبر ﷺ ! آپ مسلمان مردوں سے یہ بھی کہہ دیں ویحفظوا فروجھم کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ پہلے حد زنا اور حد قذف کا ذکر ہوچکا ہے۔ عریانی ، فحاشی اور بےحیائی پر گفتگو ہوچکی ہے۔ یہ چیزیں شرمگاہ کے عدم تحفظ کی وج سے پیدا ہوتی ہیں۔ لہٰذا مسلمان مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور ان کا بےجا استعمال نہ کریں کہ یہ بہت بڑا جرم ہے۔ فرمایا ذلک ازکی لھم یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کی بات ہے۔ ان اللہ خبیر بما یصنعون ، اللہ تعالیٰ ان کے ہر کام کی خبر رکھتا ہے اور وہ ان کے نیت اور ارادے سے بھی واقف ہے لہٰذا ان احکام کی پابندی ضروری ہے۔ عورتوں کے لئے پردے کا حکم : اگلی آیت میں اللہ نے یہی حکم عورتوں کو بھی دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پردے کے دیگر مسائل بھی بیان فرمائے ہیں ارشاد ہوتا ہے وقل للمومنت یغضن من ابصارھن اے پیغمبر ﷺ ! آپ مومنہ عورتوں سے بھی کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہیں پست رکھیں۔ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی غضن بصر سے بھی کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہیں پست رکھیں۔ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی عضن بصر کا حکم دیا گیا ہے کہ برائی کی طرف میلان کا پہلا زینہ نگاہ کی خرابی ہوتا ہے۔ مردوزن اگر اس پر کنٹرول کرلیں تو بہت حد تک برائی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ آگے فرمایا کہ مومن عورتوں کو یہ حکم بھی دے دیں و یحفظن فروجھن کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ اپنی عفت وناموس پر داغ نہ لگنے دیں۔ فرمایا ولا یبدین زینتھن الا ماظھر منھا اور اپنی زینت کو ظاہرنہ کریں سوائے اس کے جو اس سے کھلی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عورتیں اپنی بناوٹی زیب وزینت یا بنائو سنگھار کو غیر محرموں کے سامنے ظاہر نہ کریں کہ یہ چیز فتنہ کا باعث بنتی ہے جہاں تک ماظھر کا تعلق ہے یعنی وہ چیزیں جو عورت سے خود بخود ظاہر ہیں تو اس سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ عورت کا چہرہ اور ہاتھ مراد لیتے ہیں کہ ان کے اظہار میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ دو اعضاء ستر میں شامل نہیں اگرچہ جب ہاتھ کھلے ہوں گے تو ان میں لگی مہندی یا پہنی ہوئی انگوٹھی وغیرہ بھی نظر آئے گی۔ البتہ اس کے علاوہ زینت کی کوئی چیز ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ہے بعض فرماتے ہیں کہ ماظھر سے مراد صرف بیرونی لباس ہے جو بیشک نظر آجائے اس کے علاوہ باقی تمام اعضاء کو حتیٰ الامکان پچھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آگے اللہ نے پردے سے متعلق یہ حکم بھی دیا ہے ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن اور عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں۔ عورت کا گریبان بالکل کھلا نہیں ہونا چاہیے۔ ولا یبدین زینتھن اپنی زیب وزینت اور بنائو سنگھار کو نہ ظاہر کریں۔ آگے اللہ نے مردوں کی فہرست دی ہے جو اس حکم سے مستثنیٰ ہیں یعنی جن سے عورتوں کو پردہ کرنے کی ضرورت نہیں ہ۔ فرمایا الا لبعولتھن اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں کے لئے۔ ظاہر ہے کہ خاوند سے پردہ کیا بلکہ صحیح معنوں میں عورت کی زیب وزینت اس کے خاوند کے لئے ہوتی ہے۔ فرمایا او ابائھن یا اپنے خاوند کے با پ کے سامنے یعنی خسر بھی پردے سے مستثنیٰ ہے پھر فرمایا او ابنائھن عورتیں اپنے بیٹوں کے سامنے بھی زینت کا اظہار کرسکتی ہے او ابناء بعولتھن اپنے خاوندوں کے بیٹوں کے لئے بھی کوئی پابندی نہیں۔ اواخوانھن یا اپنے بھائیوں کے سامنے او بنی اخونھن یا اپنے بھتیجوں کے سامنے اوبنی اخواتھن یا اپنے بھانجوں کے سامنے بھی زیب وزینت کا اظہار کرسکتی ہیں یہ بھی پردے سے مستثنیٰ ہیں کہ یہ سب محرم ہیں ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ چچا اور ماموں کے لئے بھی یہی حکم ہے کیونکہ وہ بھی محرم ہیں۔ آگے فرمایا اونسائھن یا اپنی عورتوں کے سامنے بھی زینت کا اظہار کرسکتی ہیں۔ اکثر مفسرین فرماتے ہیں کہ اس سے مراد مسلمان عورتیں ہیں۔ لہٰذا کسی مسلمان عورت کو کسی کافرہ عورت کے سامنے بھی زیب وزینت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں۔ ان کو بھی اجنبی کے حکم میں شمار کیا جاتا ہے۔ اوماملکت ایمانھن یا جو ان کے داہنے ہاتھ کی ملکیت ہیں یعنی لونڈی غلام ہیں اس سے بھی پردے کی ضرورت نہیں اولتابعین غیر اولی الا ربہ من الرجال گھروں میں کام کرنے والے مرد بھی پردے سے مستثنیٰ ہیں۔ جو شہوانی غرض نہیں رکھتے۔ اس قسم کے نوکرچاکرمعمولی حیثیت کے لوگ ہوتے ہیں اور اپنے کام یا کھانے پینے اور کپڑا پہننے کے سوا ان کی کسی طرف توجہ ہی ہیں ہوتی۔ تاہم فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اس ضمن میں سخت احتیاط کی ضرورت ہے اور جو ان مردوں کے گھر کے کام کاج کے لئے مقرر نہیں کرنا چاہیے۔ فرمایا اوالطفل الذین لم یظھروا علی عورت النساء وہ چھوٹے بچے بھی پردے سے مستثنیٰ ہیں جو عورتوں کے بھیدوں پر مطلع نہیں ہیں یعنی ابھی انہیں عورتوں سے متمع ہونے کا علم نہیں ہے۔ ان کے سامنے بھی اگر زینت ظاہر ہوجائے تو کوئی حرج نہیں۔ آگے اللہ نے عورتوں پر یہ پابندی بھی لگائی ہے ولا یضربن بارجلھن لیعلم ما یفین من زینتھن عورتیں چلتے وقت اپنے پائو زمین پر زور سے نہ ماریں کہ جس سے ان کی پوشیدہ زینت کا اظہار ہوتا ہے اگر پائوں میں کوئی زیور پہن رکھا ہے تو زور سے پائوں مارنے پر اس کی جھنکار سنائی دے گی اور سننے والے کو فتنے میں ڈالنے کا باعث بن سکتی ہے۔ لہٰذا ایسا کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ حضور ﷺ نے تو یہ حکم بھی دیا ہے۔ کہ جو عورتیں نماز کے لئے مسجد میں آئیں۔ سادہ لباس پہنیں اور خوشبو استعمال نہ کریں تاکہ مردوں کی توجہ ان کی طرف مبذول نہ ہو۔ ستر کا مسئلہ : ناف سے لے کر گھٹنوں تک شرعی ستر ہے۔ لہٰذا کسی مرد کے لئے دوسرے مرد کے اس حصے پر دیکھنا حرام ہے عورت کے لئے بھی یہی حکم ہے کہ وہ کسی عورت کے ستر کو نہیں دیکھ سکتی۔ اس ضمن میں مرد اور عورت کے حکم میں کچھ اختلاف بھی ہے۔ مثلاً اگر کسی عورت کی نگاہ مرد کے ستر والے حصے کے علاوہ جسم کے کسی دیگر حصے میں پڑجائے تو کوئی گناہ نہیں۔ البتہ عورت کا سارا جسم ماسوائے چہرے اور ہاتھوں کے ستر ہے۔ لہٰذا کسی مرد کی نظر عورت کے کسی حصہ پر نہیں پڑنی چاہیے۔ ماسوائے مستثنیٰ حصوں کے۔ اگر ایسا کرے گا تو سخت گنہگار ہوگا۔ بعض فقہاء پائوں کو بھی ستر میں داخل کرتے ہیں اور بعض نہیں کرتے۔ اسی طرح ورت کے بال بھی ستر میں داخل ہیں ، ان پر بھی کسی اجنبی کی نظر نہیں پڑنی چاہیے۔ اگرچہ عورت کا چہرہ ستر میں داخل نہیں مگر جیسا کہ شامی اور درمختار میں ہے نوجوان عورت کو اپنا چہرہ بھی ڈھانپ کر رکھنا چاہییتا کہ فتنہ سے بچا جاسکے کسی مرد کے لئے یہ قطعاً روا نہیں کہ وہ اپنی بیوی یا شرعی لونڈی کے مقام شہوت کے سوا کسی دوسری عورت کے ایسے مقام کی طرف دیکھے۔ اسی طرح عورت کے لئے اپنے خاوند کے مقام ستر کے علاوہ کسی اجنبی کی طرف دیکھنا حرام ہے۔ البتہ مرد ہو یا عورت مجبوری کی حالت میں اعضائے مستورہ کو دیکھنے کی اجازت ہے۔ مثال کے طور پر اگر طبی لحاظ سے دیکھنا ضروری ہے یا کوئی آپریشن وغیرہ کرنا ہے تو دیکھنے کی اجازت ہے۔ تاہم فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ ایسے حالات میں بھی حتیٰ الامکان بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور بےتکلف ہونے سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہیے۔ استغفار کی تعلیم : آخر میں اللہ نے فرمایا ہے وتوبوا الی اللہ جمعیا ایہ المومنون لعلکم تفلحون ، اے ایمان والو ! تم سارے کے سارے اللہ کے سامنے توبہ کرو۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ کوئی نہ کوئی لغزش ہوتی رہتی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ سچے دل سے توبہ کرو۔ اٹھتے بیٹھتے ہر وقت استغفار کرتے رہو۔ خود حضور ﷺ کی خاطر ایک ایک مجلس میں سو سو دفعہ استغفار کرتے تھے۔ فرمایا توبہ کرو تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے۔ تم گناہوں سے پاک ہوجائو اور یہی انسان کا منتہائے مقصود ہے۔
Top