Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Noor : 33
وَ لْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى یُغْنِیَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْهِمْ خَیْرًا١ۖۗ وَّ اٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ وَ لَا تُكْرِهُوْا فَتَیٰتِكُمْ عَلَى الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ مَنْ یُّكْرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَلْيَسْتَعْفِفِ
: اور چاہیے کہ بچے رہیں
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
لَا يَجِدُوْنَ
: نہیں پاتے
نِكَاحًا
: نکاح
حَتّٰى
: یہانتک کہ
يُغْنِيَهُمُ
: انہیں گنی کردے
اللّٰهُ
: اللہ
مِنْ فَضْلِهٖ
: اپنے فضل سے
وَالَّذِيْنَ
: اور جو لوگ
يَبْتَغُوْنَ
: چاہتے ہوں
الْكِتٰبَ
: مکاتبت
مِمَّا
: ان میں سے جو
مَلَكَتْ
: مالک ہوں
اَيْمَانُكُمْ
: تمہارے دائیں ہاتھ (غلام)
فَكَاتِبُوْهُمْ
: تو تم ان سے مکاتبت ( آزادی کی تحریر) کرلو
اِنْ عَلِمْتُمْ
: اگر تم جانو (پاؤ)
فِيْهِمْ
: ان میں
خَيْرًا
: بہتری
وَّاٰتُوْهُمْ
: اور تم ان کو دو
مِّنْ
: سے
مَّالِ اللّٰهِ
: اللہ کا مال
الَّذِيْٓ اٰتٰىكُمْ
: جو اس نے تمہیں دیا
وَلَا تُكْرِهُوْا
: اور تم نہ مجبور کرو
فَتَيٰتِكُمْ
: اپنی کنیزیں
عَلَي الْبِغَآءِ
: بدکاری پر
اِنْ اَرَدْنَ
: اگر وہ چاہیں
تَحَصُّنًا
: پاکدامن رہنا
لِّتَبْتَغُوْا
: تاکہ تم حاصل کرلو
عَرَضَ
: سامان
الْحَيٰوةِ
: زندگی
الدُّنْيَا
: دنیا
وَمَنْ
: اور جو
يُّكْرِھْهُّنَّ
: انہیوں مجبور کرے گا
فَاِنَّ
: تو بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
مِنْۢ بَعْدِ
: بعد
اِكْرَاهِهِنَّ
: ان کے مجبوری
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: نہایت مہربان
اور چاہیے کہ عفیف بن کر رہیں وہ لوگ جو نہیں پاتے نکاح کی طاقت یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے مستغنی کردے۔ اور وہ لوگ جو تلاش کرتے ہیں (خواہش رکھتے ہیں) مکاتبت کی تمہارے غلاموں میں سے ، پس مکاتبت کرو ان کے ساتھ اگر تم ان میں بہتری سمجھو۔ اور دو ان کو اللہ کے مال میں سے جو اس نے تم کو دیا ہے۔ اور نہ مجبور کرو اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر جب کہ وہ پاکدامنی کی خواہشمند ہیں ، تاکہ تم تلاش کرو دنیا کی زندگی کا سامان اور جو شخص مجبور کریگا ان کو ، پس بیشک اللہ تعالیٰ ان کے مجبور کیے جانے کے بعد بخشش کرنے والا اور مہربان ہے
ربط آیات : اس آیت کے پہلے حصے میں پاکدامنی اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی تھی۔ اور اس سے پہلے نکاح کو عام کرنے کا قانون بیان کیا گیا تھا۔ فرمایا تم میں سے جو بےنکاح ہوں اور تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو باصلاحیت ہوں ان کے نکاح کرادو۔ اگر وہ محتاج ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں مستغنی کردے گا۔ اور جو لوگ نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے ان کو پاکدامن بن کر رہنا چاہیے اور اپنے آپ پر ضبط کرنا چاہیے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے مستغنی کردے اور وہ نکاح کرنے کے قابل ہوسکیں۔ مکاتبت کی تعریف : اب آج کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے مکاتبت کا مسئلہ بیان فرمایا ہے اور اس کی ترغیب دی ہے۔ مکاتبت کا مطلب یہ ہے کہ مالک اور مملوک کے درمیان تحریر معاہدہ ہوجائے کہ اگر کسی کا غلام یا لونڈی اپنے مالک کو اتنا مال ادا کردے تو وہ اس آزاد کردے گا۔ اس قسم کے معاہدہ میں کل مال کی ادائیگی کے لئے مدت بھی مقرر کی جاسکتی ہے اور اسے کھلا بھی چھوڑا جاسکتا ہے کہ جب بھی اس قدر مال کی ادائیگی ہوجائے گی تو فلاں آزاد ہوجائے گا۔ اب تو شخصی غلامی کا سلسلہ ہی ختم ہوچکا ہے ، پرانے زمانے میں یہ عام دستور تھا کہ اس قسم کے معاہدے کے بعد متعلقہ لونڈی یا غلام کو کاروبار کے لئے آزاد کردیا جاتا تھا تاکہ وہ پوری آزادی کے ساتھ جو کام چاہے کرے اور مطلوبہ رقم مالک کو مہیا کرے۔ تاہم جب تک کل مال ادا نہیں ہوجاتا تھا۔ وہ شخص غلام ہی تصور ہوتا تھا۔ اگر اس دوران غلام مرجاتا تو اس کے ترکہ کا جائزہ لیا جاتا اگر اس سے مطلوبہ مال مہیا ہوجاتا تو وہ مالک وصول کرلیتا اور غلام آزاد تصور ہوتا اور اگر مطلوبہ مال پورا نہ ہوتا تو پھر اسے غلامی کی موت سمجھا جاتا۔ جمہور علماء کہتے ہیں کہ مکاتبت ضروری نہیں بلکہ استحباب کے درجے میں ہے۔ تاہم بعض فرماتے ہیں کہ اگر غلام خواہش کرے تو مالک کے لئے مکاتبت کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ بہرحال مکاتبت کا طریقہ آزادی کی طرف کی طرف ایک قدم تھا اور اس کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔ یہاں پر ملک یمین کا ذکر ہے جو غلام اور لونڈی دونوں کے لئے آتا ہے ، تاہم عام طور پر مکاتبت غلام کے ساتھ ہی ہوتی تھی۔ غلامی کا عالمگیر رواج : دنیا میں غلامی کا رواج ہزاروں سال تک چلتا رہا ہے اور نزول قرآن کے زمانے میں بھی یہ رواج پوری دنیا میں موجود تھا۔ پرانے زمانے میں مختلف اقوام کے درمیان جنگ ہوتی تھی جس کے نتیجے میں فریقین کے کچھ لو گ مارے جاتے اور کچھ قیدی بنا لئے جاتے۔ جنگ کے اختتام پر قیدیوں کی قسمت کا فیصلہ ہوتا۔ جس کی عام طور پر چار صورتیں ہوتی تھیں۔ پہلی صورت یہ تھی کہ جنگ کے دونوں فریق جنگی قیدیوں کاتبادلہ کرلیں۔ دوسری صورت یہ تھی کہ قیدیوں کو فدیہ (معاوضہ) لے کر رہا کردیا جائے یا بلامعاوضہ چھوڑ دیا جائے ، تیسری صورت یہ تھی قیدیوں کو قتل کردیاجائے اور چوتھی صورت میں انہیں لونڈی غلام بنالیا جاتا تھا۔ اس طرح بنائے گئے لونڈی غلام جس جس شخص کے حصے میں آتے تھے وہ ان کا مالک سمجھا جاتا تھا اور لونڈی غلام کی حیثیت ایک عام مال کی ہوجاتی تھی ، مالک ان سے ہر طرح کی خدمت سے سکتا تھا اور دیگر مال کی طرح ان کی خریدوفروخت بھی ہوتی تھی۔ غلاموں اور لونڈیوں کی اولاد بھی غلام اور لونڈیاں بن جاتے تھے اور اس طرح دنیا بھر میں لونڈی غلام کا وسیع سلسلہ رائج تھا۔ جب اسلام آیا تو اس نے اس رواج کو یکسر ختم نہیں کیا بلکہ اسے روا رکھا البتہ اس کے خاتمے کے لئے بہت سی ترغیبات پیدا کی گئیں۔ کفر واسلام کی جنگوں کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاتھ میں بھی بہت سے قیدی آتے اسلام حکومت ان قیدیوں کو بطور لونڈی یا غلام مجاہدین میں تقسیم کردیتی۔ حاصل کرنے والا شخص چاہتا تو غلام کو آزاد کردیتا یا اس سے خدمت لیتارہتا یا اسے فروخت کردیتا۔ کسی لونڈی کا کسی شخص کی ملکیت میں آنا نکاح کے قائم مقام سمجھا جاتا ہے کیونکہ نکاح کے ذریعے بھی کوئی عورت کسی مرد کی ملکیت میں دی جاتی ہے۔ تو لونڈی کا مالک بغیر نکاح کیے اس سے فائدہ اٹھاسکتا ہے اگر کوئی لونڈی پہلے سے منکوحہ ہو تو اس سے استفادہ حاصل کرنے سے پہلے عورت کی تکمیل ضروری ہے۔ اور اگر لونڈی حاملہ ہو تو وضع حمل تک مالک اس سے مستفید نہیں ہوسکتا۔ مالک اپنی خوشی سے لونڈی کا نکاح کسی دوسرے شخص سے بھی کراسکتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ لونڈی سے عام خدمت تو لے سکتا ہے مگر اس کے خاوند کے حق میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ اسلام نے اس نظام میں اصلاح کی۔ غلاموں کو ان کے حقوق دلوائے ۔ ان پر ظلم و زیادتی کرنے سے منع فرمایا۔ لوگوں کو باور کرایا کہ غلامی ایک غیر فطری چیز ہے کیونکہ فطری طور پر ہر انسان آزاد ہے۔ اسلام نے غلاموں کی آزادی کے لئے ترغیب دی اور اس کے لئے بہت سے مواقع پیدا کیے۔ چناچہ قسم توڑنے کے کفارے کے طور پر جتنی چیزیں بیان کیں ان میں غلام کی آزادی سرفہرست ہے۔ روزے کے کفارے میں بھی غلام آزاد کرنے کا حکم دیا۔ اگر اتنی طاقت نہ پائے تو ساٹھ متواتر روزے رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ اگر کوئی شخص ظہار کا مرتکب ہو یعنی اپنی بیوی کو ماں بہن کے ساتھ تشبیہ دے دے ، تو اگرچہ شخص ظہار کا مرتکب ہو یعنی اپنی بیوی کو ماں بہن کے ساتھ تشبیہ دے دے۔ تو اگرچہ ایسا کہنے سے طلاق تو واقع نہیں ہوتی مگر جب تک کفارہ ادا نہ کرے بیوی کے قریب نہیں جاسکتا۔ اس کفارے میں بھی پہلا نمبر غلام کی آزادی ہے۔ اسی طرح قتل خطا میں دیت کے علاوہ کفارہ بھی ادا کرنا ہوتا ہے جو کہ ایک غلام کی آزادی ہے۔ ترغیب کے سلسلہ میں قرآن پاک نے غلام کی آزادی کو فک رقبۃ سے تعبیر کیا ہے۔ سورة البلد میں ہے کہ لوگ اونچی گھاٹی پر کیوں نہیں چڑھتے ؟ آگے فرمایا یہ اونچی گھاٹی کیا ہے ؟ یہ غلام کی آزادی ہی تو ہے ۔ مطلب یہ کہ غلام کی آزادی بہت بڑا کارنامہ ہے جسے اہل ایمان کو سرانجام دینا چاہیے الغرض اسلام نے غلام کی آزادی کے راستے کو مختلف طریقوں سے ہموار کیا ہے تاکہ یہ رواج ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے۔ یہ تو اس زمانے کی بات ہے۔ آج دنیا میں دیکھ لیں کہ اس طرح کی شخصی غلامی کارواج بالکل ختم ہوچکا ہے۔ اسلام پر اکثر اعتراض کیا گیا ہے کہ اس نے غلامی کو روا رکھا ہے جو کہ اچھا نہیں ہے۔ اس ضمن میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اسلام نے غلامی کے رواج کو صرف جائز قرار دیا ہے ، اس کو برداشت کیا ہے مگر اس کو لازم قرار نہیں دیا۔ اس کی بجائے اسلام نے غلامی کے خاتمے کے لئے طرح طرح کی ترغیبات دی ہیں اور جیسا کہ پہلے بیان کیا ان کی آزادی کے لئے کئی ایک صورتیں نکالی ہیں۔ آیت زیر درس میں بیان کردہ مکاتبت بھی غلاموں کی آزادی کا ایک ذریعہ ہے جس کی نہ صرف ترغیب دی گئی ہے بلکہ اللہ کے دیے ہوئے مال سے خرچ کرکے غلاموں کی آزادی کا حکم دیا گیا ہے ، یعنی اگر کسی غلام کو مکاتبت کے لئے مالی امداد کی ضرورت ہو تو اس سے دریغ نہ کرو ، سورة توبہ میں اللہ نے زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان فرمائے ہیں جن میں ایک مصرف فی الرقاب بھی ہے یعنی غلاموں کی آزادی کے لئے بھی زکوٰۃ کا مال صرف کیا جاسکتا ہے۔ اجتماعی غلامی کی لعنت : جیسا کہ میں نے عرض کیا اس وقت دنیا میں شخصی غلامی تو کہیں نہیں پائی جاتی ، البتہ اجتماعی غلامی عام ہے جو کہ شخص غلامی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اس وقت دنیا کی بڑی طاقتوں نے غریب اور چھوٹے ملکوں کو اقتصادی ، سیاسی اور معاشرتی غلامی میں جکڑ رکھا ہے۔ اقتصادی غلامی کا یہ حال ہے کہ امداد کے نام پر قرض دیا جاتا ہے جس پر سود بھی وصول کیا جاتا ہے۔ آج ہم دنیا میں دیکھ رہے ہیں کہ مقروض ملک اس جال میں اس قدر جکڑے جاچکے ہیں کہ اب انہیں صرف سود کی ادائیگی کے لئے ہر سال اربوں ڈالر کے نئے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو ملک ایک دفعہ اقتصادی غلامی میں جکڑا گیا وہ کبھی بھی اس سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا۔ خود پاکستان اسی مرض میں مبتلا ہے۔ ہر آنے والی حکومت نے قرضوں پر انحصار کیا جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ پاکستان کا ہر فرد لاکھوں کروڑوں ڈالر کا مقروض ہے اور اس جال سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اب بات یہاں تک بڑھ چکی ہے کہ ملک کا سالانہ بجٹ بھی بڑی طاقتوں کے مشورے سے بنتا ہے۔ سیاسی غلامی کا بھی یہی حال ہے۔ ہر زیر دست ملک زبردست طاقتوں کا سیاسی غلام ہے۔ اوپر والوں کی مرضی کے بغیر نہ کوئی حکومت بن سکتی ہے اور نہ چل سکتی ہے تمام بین الاقوامی امور بڑی طاقتوں کے مشورے کے مطابق طے پاتے ہیں۔ اگر کوئی ملک اپنی پالیسی بنانا چاہے تو اس کی امداد روک کر اسے ہر بات ماننے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ دنیا میں کتنے بین الاقوامی مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ جو مسئلہ امریکہ ، روس ، برطانیہ ، فرانس اور چین باہمی رضامندی سے حل کرنا چاہتے ہیں ، وہ حل ہوجاتا ہے اور جو نہیں کرنا چاہتے اسے ویٹوکر دیا جاتا ہے۔ کہنے کہ تو اقوام متحدہ (U.N.O) میں تمام ممالک کو یکساں نمائندگی حاصل ہے۔ مگر عملی طور پر چھوٹے اور غریب ملکوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ عرب ممالک اقتصادی طور پر نہایت طاقتور ہونے کے باوجود بڑی طاقتوں کے زیر نگر ہیں۔ عربوں کی دولت امریکہ کھاتا ہے مگر جب فلسطین کا مسئلہ آتا ہے تو اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔ اگر عربوں کے حق میں کوئی قرار داد پیش بھی ہوجائے تو بڑی طاقت ہونے کے ناطے اسے مسترد (ویٹو) کردیا جاتا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے اور کہاں کی سیاسی آزادی ہے ؟ اتنی دولت ہونے کے باوجود عرب ممالک تیل نکالنے کے لئے انگریزوں کے محتاج ہیں۔ عربوں میں تو آج تک ایک انجینئر نہیں پیدا ہونے دیا جو تیل کا کنواں ہی کھدواسکے۔ ساری ٹیکنالوجی اور افرادی قوت تو باہر سے آتی ہے اور عرب امیر ترین ممالک ہونے کے باوجود بےبس ہیں۔ کیا یہ اجتماعی غلامی نہیں ہے ؟ انگریزوں نے دنیا بھر کو دو سو سال تک اجتماعی غلامی میں جکڑے رکھا۔ لوگوں کے مذاہب کو بگاڑا ، ملکوں کو تہس نہس کردیا۔ ان کے راستے میں مصنوعی رکاوٹیں کھڑی کیں مسلمان قوم کو خاص طور پر تختہ مشق بنایا اور ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے۔ برصغیر میں مسلمانوں کو تختہ دار پر چڑھایا گیا اور انہیں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ یہ سب اجتماعی غلامی کی مثالیں ہیں جو دنیا میں آج بھی موجود ہیں۔ اس اجتماعی غلامی میں مغلوب قوموں کا اخلاق اور تہذیب بھی تباہ ہوجاتا ہے معاشرتی طور پر ان کے عادات وخصائل بدل جاتے ہیں ؟ لوگ مذہب سے بیگانہ ہوجاتے ہیں ، اپنے رسم و رواج بھول جاتے ہیں اور غالب اقوام کی ادائوں پر ہی فخر کرنے لگتے ہیں۔ آہستہ آہستہ انہی کی زبان اور انہی کے اخلاق کو اپنانے میں بڑائی سمجھتے ہیں۔ اپنی زبان تک بھول جاتے ہیں۔ برصغیر میں یہی کچھ ہوا ہے۔ پاکستان کو آزادی حاصل ہوئے بھی چالیس سال ہوچکے ہیں مگر آج بھی ہم انگریزی زبان سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکے۔ اس میں شک نہیں کہ انگریزی ایک وسیع زبان ہے مگر عربی ، فارسی اور اردو اس سے کسی طرح بھی کم نہیں ہم آج تک نہ ذریعہ تعلیم کو بدل سکے ہیں اور نہ دفتری کاروبار میں اپنی قومی زبان رائج کرسکے ہیں۔ ہر آمدہ حکومت اپنی ثقافت کر اپنانے کے بلند بانگ دعویٰ کرتی ہے مگر عملاً کچھ نہیں ہوتا ، ہم آج تک قانون ، سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنی قومی زبان میں نہیں ڈھال سکے ، عربی اور فارسی بھی عظیم زبانیں ہیں ، ان کو کیوں ترقی نہیں دی جاتی ؟ اگر حیدر آباد دکن میں قانون ، سائنس اور طب کی تعلیم اردو میں ہوسکتی ہے تو یہاں کیوں نہیں ہوسکتی ؟ اگر روسی ، جرمنی اور فرانسیسی زبانیں اس قابل ہیں کہ ان کے تمام امور انہی زبانوں میں انجام پاتے ہیں تو ہم محض انگریزی پر انحصار کرکے کیوں بیٹھ گئے ہیں ؟ عربی مدارس کی اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کو بھی تسلیم نہیں کیا جاتا ، جب تک اس کے ساتھ میٹرک تک انگریزی تعلیم نہ ہو۔ اس کے بغیر نہ فوج میں بھرتی ہوسکتے ہیں اور نہ محکمہ تعلیم میں تدریس کا فریضہ انجام دیا جاسکتا ہے۔ آخر یہ سب کچھ کیا ہے ؟ محض اغیار کی تہذیب و تمدن اور ان کی ذہنی غلامی کا اثر ہے کہ مغلوب اقوام اپنا سب کچھ بھول کر انہی کے رنگ میں رنگی جاتی ہیں۔ یہی اجتماعی غلامی ہے جو شخصی غلامی سے بھی بدتر ہے۔ مکاتیب کے ساتھ مالی تعاون : ارشاد ہوتا ہے والذین یبتغون الکتب مما ملکت ایمانکم تمہارے جو غلام مکاتبت اختیار کرنا چاہیں یعنی مال کے بدلے میں آزادی حاصل کرنے کے خواہشمند ہوں۔ ان کے متعلق فرمایا فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیرا پس اگر تم ان میں بہتری معلوم کرو تو انہیں کاتبت کا حق دے دو یعنی ان کے ساتھ اس قسم کا معاہدہ کرلو کہ وہ مقررہ رقم ادا کرکے آزاد ہوجائیں۔ بہتری معلوم کرنے سے مراد یہ ہے کہ ایسے غلاموں کی اچھی طرح چھان بین کرلو اور ان کی صلاحیت کو جانچ لو کہ آزاد ہو کر اور نکاح کرکے شرافت کی زندگی بسر کریں گے یا بدکاری اور فحاشی کا سبب بنیں گے۔ اگر تم سمجھے ہو کہ آزاد ہو کر یہ معاشرے کے بہتر فرد ثابت ہوں گے تو ان سے نہ صرف مکاتبت کا معاہدہ کرلو بلکہ واتوھم من مال اللہ الذی اتکم جو مال تمہیں اللہ نے دیا ہے اس میں اس سے ایسے مکاتیب کو بھی ادا کرو تاکہ وہ جلد سے جلد مقررہ رقم ادا کرکے آزادی کی نعمت حاصل کرسکیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کا مالی تعاون خود مالک سے تو توقع نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسے تو یہ مال وصول کرنا ہے لہٰذا اس حکم کے مخاطب عام صاحب ثروت مومن ہیں کہ اس قسم کے باصلاحیت لوگ اگر غلامی کا جو اتار پھینکنا چاہیں تو ان کی مدد کردو۔ یہ بھی غلامی کے خاتمے کی اللہ نے ایک صورت بیان فرمائی ہے۔ مختلف نظام ہائے معیشت : آیت کے ان دو جملوں میں اللہ تعالیٰ نے معیشت کے اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں دو بڑے معاشی نظام رائج ہیں۔ ایک سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism) ہے جب کہ دوسرا اشتراکی نظام (Socialism) ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں شخصی ملکیت کا تصور پایا جاتا ہے۔ جو آدمی جتنا چاہیکاٹے ، جائداد پیدا کرے اور جتنا چاہے خرچ کرے اس پر کوئی پابندی نہیں سوائے اس کے کہ وہ حکومت کو مقرر ٹیکس ادا کرتا رہے۔ اس نظام میں بنیادی خرابی یہ ہے کہ نہ تو اس کے ذرائع آمدنی پر جائز وناجائز کی پابندی ہے اور نہ اس کے اخراجات پر کسی حلت و حرمت کا اطلاق ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ اگر کوئی شخص بدترین قسم کا کاروبار کرتا ہے یا کوئی عورت قحبہ گری کے ذریعے دولت کمانا چاہتی ہے تو اسے لائسنس مل جائے گا اور اس کے راتے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی دولت عیاشی ، فحاشی ، جوئے اور حرام کاری پر خرچ کرتا ہے تو بھی اس پر کوئی قدغن نہیں۔ اس وقت امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی پاکستان اور ہندوستان غرضیکہ تقریباً نصف دنیا میں یہی سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے۔ دوسری طرف اشتراکی نظام ہے ۔ جو روس ، چین اور دیگر ممالک میں رائج ہے اس میں قباحت یہ ہے کہ اس نظام میں شخصی ملکیت کا کوئی تصور نہیں بلکہ ہر چیز حکومت کی ملکیت میں ہوتی ہے۔ نہ زمین کسی کی شخصی ملکیت میں ہوتی ہے نہ مکان نہ کارخانہ اور نہ تجارت ، تمام وسائل آمدنی حکومت کی تحویل میں ہوتے ہیں اور کارکن اپنی محنت کے مطابق معاوضہ پاتے ہیں یہ بھی غیر فطری نظام ہے۔ اور اس کی بنیاد بےدینی پر ہے اس نظام کے پیروکار کسی آسمانی کتاب یا شریعۃ کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے بقول مذہب کا سارا سلسلہ ہی باطل ہے کہتے ہیں کہ مذہب ایک قسم کی افیون ہے جو لوگوں کو قابو رکھنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ دونوں نظام لعنتی ہیں اور اسلام کا معاشی نظام ہی فطرت کے عین مطابق اور صحیح ہے۔ اسلامی نظام معیشت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر چیز کا حقیقی مالک تو خدا تعالیٰ ہے مگر اس نے عارضی طور پر انسانوں کو بھی مالک بنایا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے لوگوں کو کسب وصرف میں آزاد نہیں چھوڑا کہ جس طرح چاہے کمائے اور جہاں چاہے خرچ کرے ، بلکہ مال کے کمانے اور اس کو خرچ کرنے پر حلت و حرمت اور جائز وناجائز کی پابندیاں بھی عائد کی ہیں۔ اسلام نے مال کو جمع کرنے پر تو کوئی پابندی نہیں لگائی بلکہ انسان کو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ مال کے حقوق ادا کرنے کا پابند ضرور بانیا ہے۔ اسلام حلال اور جائز ذرائع سے ہی مال حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے اور چوری ، ڈکیتی ، سمگلنگ ، قحبہ گری ، فوٹو گرافی شراب فروشی اور جوئے کے ذریعے کمائی سے منع کرتا ہے۔ اس طرح اسلام اخراجات کے معاملے میں بھی صرف جائز امور پر خرچ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ رسم و رواج ، گانے ، بجانے ، عیاشی ، فحاشی ، بدکاری وغیرہ پر خرچ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اللہ نے جمع شدہ مال میں سے زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیا ہے ، صدقہ و خیرات کی تلقین غرباء مساکین اور ہمسایوں کے حقوق پر زور دیا ہے۔ حج ، قربانی ، عمرہ وغیرہ پر خرچ کرنے کی تلقین ، وصیت اور وراثت کا طریقہ بتلایا ہے اور اس طرح پوری اسلامی سوسائٹی کو نظم وضبط کا پابند کرکے شخصی ملکیت کے حقوق بھی دیے ہیں انسان جائز ذرائع سے مکان بنا سکتا ہے ، زمین خرید سکتا ہے۔ پانی رقم تجارت اور کارخانے اور کھیتی باڑی میں لگا سکتا ہے۔ اسلامی معیشت کا ایک زریں اصول یہ ہے کہ حلال کمائی میں سے مستحقین کو حصہ اداکرو تاکہ تمہارا مال محض امراء میں ہی نہ گردش کرتا رہے بلکہ اس کا رخ اوپر کے طبقے سے نیچے کے طبقے کی طرف ہونا چاہیے ، تاکہ اللہ کی مخلوق کا کوئی فردواحد بھی اپنی بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہے۔ بہرحال سرمابہ دارانہ اور اشتراکی دونوں نظام ہائے معیشت غیر فطری اور باطل ہیں اور اسلامی نظام معیشت ہی فطری اور جائز ہے۔ آج دنیا کی اقتصادی بدحالی کا علاج صرف اسلامی نظام میں مضمر ہے۔ آیت ہذا کے اس جملے سے یہ ساری بات واضح ہوتی ہے۔ قحبہ گری کی ممانعت : زمانہ جاہلیت میں بعض لوگ اپنی لونڈیوں سے ناجائز کمائی کرواتے تھے۔ مدینہ کے منافقوں میں عبداللہ بن ابی کی چھ سات لونڈیاں اسی کام پر مامور تھیں اور ان میں سے بعض ایمان بھی لاچکی تھیں مگر اپنے مالک کے ہاتھوں مجبور تھیں انہوں نے حضور ﷺ سے اس بات کی شکایت کی تو اللہ نے یہ حکم نازل فرمادیا۔ ولا تکرھوا فتیتکم علی البغاء اپنی لونڈیوں کو بد کاری پر مجبور نہ کرو ان اردن تخصنا اگر وہ پاکدامن رہنا چاہتی ہیں۔ اور تم چاہتے ہو۔ لتبتغوا عرض الحیوۃ الدنیا کہ اس قبیح ذریعہ سے دنیا کا سامان حاصل کرلو۔ فرمایا یہ تو بہت ہی بری بات ہے کہ تم دنیا کے مال کے لالچ میں لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور کرتے ہو۔ فرمایا ومن یکرھھن اور جو کوئی ان کو مجبور کریگا ۔ تو اس کا گناہ اس مالک پر ہوگا جو انہیں مجبور کرتا ہے حالانکہ لونڈیاں ایسا نہیں کرنا چاہتیں۔ جہاں تک ان کی ذات کا تعلق ہے فان اللہ من بعدا کر اھھن غفور رحیم ، ان کی مجبوری کی بناء پر اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔ چونکہ لونڈیاں اس فعل بد سے بچنا چاہتی ہیں ، اس لئے اس عمل کا گناہ ان پر نہیں ہوگا ، بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے انہیں معاف فرمادے گا۔ زنا کے معاملہ میں مسئلہ یہی ہے کہ اگر کسی کو مجبور کرکے بدفعلی کی جائے تو مجبور پر حد جاری نہیں کی جائے گی۔ ترمذی شریف میں روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت کے ساتھ زبردستی کی۔ جب معاملہ حضور ﷺ کی سامنے پیش ہوا تو اس عورت نے اپنی بےبسی کا اظہار کیا۔ اس پر آپ نے اس عورت کو چھوڑ دیا۔ پھر متعلقہ مرد کو بلایا گیا۔ اس نے اس حرکت کا اقرار کیا تو اس پر حد جاری کردی گئی۔ بہرحال قحبہ گری ہو یا زبردستی کا معاملہ ، اللہ تعالیٰ نے اس کی سخت مذمت بیان فرمائی۔ فرمایا کسب البغی خبیث بدکاری کے نتیجہ میں حاصل ہونے والا مال قطعاً خبیث یعنی حرام ہے۔ قانون کی پابندی : اس رکوع کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے قانون کی پابندی اختیار کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ولقد انزلنا الیکم آیت مبینت بیشک ہم تمہاری طرف واضح واضح آیتیں نازل کی ہیں۔ اس سے مراد احکام قانون اور دلائل ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی راہنمائی کے لئے نازل فرمائے ہیں اب کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے قانون خداوندی کی سمجھ نہیں آئی۔ اسی سورة مبارکہ میں اللہ نے انسداد زنا کا قانون دیا ہے۔ قذف کی حد مقرر کی اور لعان کا طریقہ بتایا ہے۔ پھر غض بصر کی تعلیم دے کر پردے کے احکام نازل فرمائے ہیں ، پاکدامنی کی تاکید کی ہے۔ یہ تمام احکام وقوانین ایسے ہیں جو آسانی سے سمجھ میں آجاتے ہیں۔ اور ان پر عمل درآمد میں کوئی چیز مانع نظر نہیں آتی۔ اسی لئے فرمایا کہ ہم نے تمہاری طرف بالکل واضح آیتیں نازل فرمائی ہیں تاکہ تم ان پر عمل پیرا ہو کر ہر قسم کی خرابی سے بچ جائو۔ سابقہ واقعات بطور نصیحت : اس آیت میں اللہ نے دوسری بات یہ بیان کی ہے ومثلا من الذین خلوا من قبلکم اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی کچھ مثالیں اور حال بھی بیان کیا ہے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ یہ واقعات تمہارے سامنے بطور نمونہ ہیں تاکہ انہیں دیکھ کر اور سن کر تم عبرت حاصل کرسکو۔ ان عبرت آموز واقعات میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ پر اتہام ہے جو منافقین نے لگایا اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کی بریت فرمائی۔ بالکل اسی قسم کا واقعہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ بھی پیش آیا۔ جب زلیخا نے آپ پر زیادتی کا الزام لگایا مگر زلیخا کے خاندان کے ایک بچے نے آپ کی پاکدامنی کے حق میں بیان دیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش پر حضرت مریم ؓ کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا اور انہیں بدکاری کے جرم میں مہتم کیا گیا مگر خود عیسیٰ (علیہ السلام) نے بول کر آپ کی بریت کردی۔ بہرحال ناجائز طور پر مہتم کرنے کی یہ مثالیں تاریخ عالم میں موجود ہیں جن کی طرف اشارہ کرکے اللہ نے یہاں فرمایا ہے کہ ہم نے تمہارے سامنے سابقہ لوگوں کی کچھ مثالیں اور واقعات بھی بیان کیے ہیں جن میں عبرت کا سامان ہے۔ نیز وموعظۃ للمتقین اور متقیوں کے لئے نصیحت بھی ہے۔ اس قانون زنا وقذف کے ذریعے لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ خبردار ! کسی بیگناہ پر تہمت نہ لگانا۔ اگر ایسا کرو گے تو قانون کی رو سے سزا کے مستحق ٹھہرو گے جس سے دنیا میں رسوائی ہوگی اور اگر توبہ نہیں کرو گے تو آخرت کے عذاب میں مبتلا ہوگے۔
Top