Mualim-ul-Irfan - An-Noor : 39
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِیْعَةٍ یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءً١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَیْئًا وَّ وَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰىهُ حِسَابَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِۙ
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : اور جن لوگوں نے کفر کیا اَعْمَالُهُمْ : ان کے عمل كَسَرَابٍ : سراب کی طرح بِقِيْعَةٍ : چٹیل میدان میں يَّحْسَبُهُ : گمان کرتا ہے الظَّمْاٰنُ : پیاسا مَآءً : پانی حَتّيٰٓ : یہانتک کہ اِذَا جَآءَهٗ : جب وہ وہاں آتا ہے لَمْ يَجِدْهُ : اس کو نہیں پاتا شَيْئًا : کچھ بھی وَّ وَجَدَ : اور اس نے پایا اللّٰهَ : اللہ عِنْدَهٗ : اپنے پاس فَوَفّٰىهُ : تو اس (اللہ) نے اسے پورا کردیا حِسَابَهٗ : اس کا حساب وَاللّٰهُ : اور اللہ سَرِيْعُ الْحِسَابِ : جلد حساب کرنے والا
اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان کے اعمال بیابان میں سراب کی مانند ہیں۔ گمان کرتا ہے اس کو پیاسا انسان پانی یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچتا ہے تو کوئی چیز نہیں پاتا۔ اور وہاں پاتا ہے اللہ تعالیٰ کو ، پس وہ پورا کردیتا ہے کا حساب۔ اور اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب کرے والا ہے
ربط آیات : اللہ تعالیٰ نے گزشتہ آیت میں نور ہدایت کی مثال بتائی جو مومن کے دل میں ہوتا ہے اور پھر اوپر سے قرآن وسنت کی روشنی مل کر اس نور کو کئی گناہ بڑھا دیتی ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مساجد کے متعلق فرمایا کہ مذکورہ نور ہدایت زیادہ تر انہی گھروں میں ملتا ہے۔ اللہ نے ان گھروں کو بلند رکھنے اور ان میں کثرت سے اس کا ذکر کرنے کا حکم دیا۔ پھر اللہ نے اہل ایمان کی تعریف بیان کی کہ وہ ان پاکیزہ گھروں میں صبح اور پچھلے پہر اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ اور وہ ایسے مرد ہیں کہ جن کی تجارت انہیں ذکر الٰہی ، اقامت صلوٰۃ اور ادائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کرتی ، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں قیامت کا خوف ہے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو قیامت والے دن بہترین بدلہ اور اپنی طرف سے مزید انعام واکرام بھی عطا فرمائے گا۔ اس کے بعد آج کی آیات میں اہل ایمان کے مقابلے میں کافروں اور مشرکوں کا حال بیان کیا ہے۔ قرآن پاک کا اسلوب بیان ہے دونوں گروہوں کا ذکر ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ اگر اخلاص والوں کا ذکر ہو تو ساتھ منافقین کا حال بیان ہوتا ہے ، اور اگر اچھے لوگوں کا تذکرہ ہو تو ساتھ برے لوگوں کا انجام بھی بیان کیا جاتا ہے۔ اس کو ترغیب اور ترہیب کا نام دیا گیا ہے ، ترغیب کا معنی رغبت دلانا ہے یعنی نیکوکاروں کا انجام بیان کرکے نیکی کی ترغیب دی جاتی ہے اور برے لوگوں کا ذکر کرکے خوب دلایا جاتا ہے۔ ترغیب وترہیب اسلام کے دوبڑے اصول ہیں۔ تو یہاں پر اللہ نے کفار ومشرکین کے اعمال کا انجام دو مثالوں کے ذریعہ سمجھایا ہے۔ ایمان بمقابلہ کفر : جس طرح ہر شخص کا ایمان اور اخلاص یکساں نہیں ہوتا بلکہ اس کے مختلف مراتب اور درجات ہوتے ہیں ، اسی طر ح کفر کے بھی مختلف مراتب ہوتے ہیں بعض کم درجے کے کافر ہوتے ہیں ، بعض اس سے اوپر درجے کے اور بعض شدید درجے کے کافر اور مخالف ہیں ، اسی لئے بخاری شریف (بخاری ص 9 ج 1 (فیاض) میں کفرودون لقن ظلم دون ظلم کے الفاظ آتے ہیں ۔ تو ان آیات میں اللہ تعالیٰ شدید درجے کے کفار کی دو مثالیں اور ان کا انجام بیان کیا ہے۔ ایمان کی طرح کفر بھی قرآن و سنت کی اصطلاح ہے۔ کفر کا معنی یہ ہے کہ جس چیز کو تسلیم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس کا انکار کردے اور جس چیز کو ظاہر کرنے کا حکم ہو اس کو چھپالے جہاں پر مطلق کفر کا ذکر ہو ، وہاں الل کی واحدانیت کا انکار مراد ہوتا ہے گویا سب سے پہلے اللہ کی وحدانیت کا انکار کیا ، پھر رسالت کا انکار کیا ، پھر کتب سماویہ ، ملائکہ اور قیامت کا انکار کیا ، خدا کی صفات کا انکار کیا ، یہ سب باتیں کفر میں داخل ہیں۔ سراب کی مثال : ارشاد ہوتا ہے والذین کفروا اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کا شیوہ اختیار کیا ۔ اعمالھم کسراب بقیعۃ ان کے اعمال چٹیل بیابان میں سراب کی مانند ہیں۔ سراب چمکتی ہوئی دیت کو کہتے ہیں جو دور سے ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے پانی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہو۔ وسیع و عریض ریگستان میں جب شدید گرمی پڑتی ہے تو زمین کے نچلے طبقے کی لطیف ہوا بہت گرم ہوجاتی ہے اس سے اوپر کے طبقے کی نسبتاً مزید کم ہوتی چلی جاتی ہے بہرحال نچلے طبقے کی لطیف اور شدید گرم ہوا جب اوپر کے طبقات کی ہوا سے ٹکراتی ہے تو سطح ارضی پر پانی کی لہریں نظر آتی ہیں حالانکہ وہ حقیقت میں ہوا ہی ہوتی ہے جو سورج کی تپش کی وجہ سے چمکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس کو سراب کہتے ہیں۔ فرمایا یحسبہ الظمان ماء پیاسا آدمی اس سراب یعنی چمکتی ہوئی ریت کو پانی سمجھتا ہے اور پیاس بجھانے کے لئے اس طرف دوڑتا ہے حتیٰ اذا جاء ہ یہاں تک کہ جب وہ اس کے قریب پہنچتا ہے لم یجدہ شیئا تو وہاں کوئی چیز نہیں پاتا۔ وہ پانی نہیں بلکہ پانی کا دھوکہ ہوتا ہے۔ صحیحین کی روایت میں ہے کہ قیامت والے دن یہودیوں سے سوال ہوگا۔ کہ تم دنیا میں کسی کی عبادت کرتے تھے۔ وہ جواب دیں گے کہ خدا کے بیٹے عزیر (علیہ السلام) کی۔ ان سے کہا جائیگا کہ تم جھوٹے ہو۔ خدا کا کوئی بیٹا نہیں اچھا بتلائو اب کیا چاہتے ہو ؟ عرض کریں گے ، مولیٰ کریم ! ہم سخت پیاسے ہیں ، ہمیں پانی پلوایا جائے۔ انہیں کہا جائے گا کہ دیکھو تم ادھر کیوں نہیں جاتے ، جہاں پانی نظر آرہا ہے ، وہ ادھر جائیں گے جہاں انہیں سراب نظرآتا ہوگا ، مگر وہ جہنم کی آگ ہوگی جس پر پانی کا دھوکہ ہوتا ہوگا۔ جب وہ پہنچیں گے تو دوزخ میں ڈال دیے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار ومشرکین اور یہود ونصاریٰ کی یہ مثال بیان کی ہے کہ یہ لوگ دنیا میں تو کفر وشرک کا ارتکاب کرتے رہے مگر اپنے زعم باطل میں یہ سمجھتے رہے کہ انہوں نے بڑے اچھے اچھے کام کیے ہیں اور اللہ کے ہاں انہیں بہت بڑا اجر ملنے والا ہے ، مگر جب قیامت والے دن خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے تو وہاں اپنے اعمال میں سے کچھ نہیں پائیں گے۔ جس طرح پیاسا آدمی تپتی ہوئی ریت کو پانی سمجھ کر اس کی طرف دوڑتا ہے مگر وہاں کچھ نہیں پاتا۔ اسی طرح کفر کرنے والے قیامت کے دن اپنے اعمال کی طرف جائیں گے۔ مگر انہیں وہاں کوئی نیک عمل نہیں ملے گی ووجد اللہ عندہ ، پس وہ اپنے اپنے اللہ تعالیٰ کو پاتا ہے۔ فوفہ حسابہ جو اس کا حساب پورا پورا دیتا ہے واللہ سریع الحساب اور اللہ تعالیٰ جلد حساب کرنے والا ہے۔ جب ایسے لوگوں کو حساب کتاب کی منزل آئے گی تو ان کے عقائد و اعمال کا فوراً حساب کرکے انہیں جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔ اعمال کا انحصار ایمان پر ہے : دراصل نیک اعمال کا انحصار ایمان پر ہوتا ہے۔ اگر ایمان موجود ہے ، تو نیک اعمال بھی کار آمد ہوں گے اور اگر کوئی شخص ایمان سے خالی ہے اس کے مفاد عامہ کے کتنے بھی اچھے کام ہوں ، ان کی کچھ حیثیت نہیں ہوگی۔ اکثر کفار ومشرکین یہود ونصاریٰ دنیا میں مفاد عامہ (Public works) کے بڑے بڑے کام کرتے ہیں ، ہندوسکھ بھی ایسا کرتے ہیں۔ کہیں سرائے بنادی سکول اور کالج قائم کیے ، ہسپتال بنائے ، یتیم خانے قائم کیے ، حتیٰکہ بعض لوگ جانوروں اور پرندوں کی خدمت بھی کرتے رہے ، چڑیوں کو دانا اور پانی پلاتے رہے کیڑے مکوڑوں کی بلوں پر کھانے پینے کی چیزیں ڈالتے رہے ، بظاہر اچھے کام ہیں مگر ایمان کے فقدان کی وجہ سے اللہ کے ہاں یہ نامقبول ہوں گے۔ اللہ کے ہاں وہ عمل صالح مقبول ہوگا جو ایمان کے جذبے کے ساتھ انجام دیا گیا ہوگا ، کیونکہ اس کا بار بار اعلان ہے ان الذین……………الصلحت (البروج 11) جنت ان لوگوں کے لئے ہے جو ایمان لائے اور پھر نیک اعمال انجام دیے ، سور ۃ الانبیاء میں فرمایا فمن…… ………………لسعیہ (آیت 94) جس شخص نے نیک عمل کیا بشرطیکہ وہ مومن ہو تو اس کی کاوش کی ناقدری نہیں کی جائے گی۔ مطلب یہ ہے کہ عمل کی قبولیت کا دارومدار ایمان اور اخلاص پر ہے۔ اگر عقیدہ پاک ہے تو چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی فائدہ دے گا اور اگر عقیدے میں کفر وشرک کی ملاوٹ ہے یا اس میں نفاق کا عمل وحسنن ہے تو اعمال کتنے بھی اچھے ہوں ، خدا تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے۔ ان کو اچھا سمجھنے والا بالکل اسی طرح ہے جس طرح کوئی تپتی ہوئی ریت کو پانی سمجھ کر اس سے امیدوابستہ کرلیتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے عبداللہ بن جدعان کے متعلق حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ وہ مکہ کے سرداروں میں سے بڑا سخی آدمی تھا ، غرباء مساکین پر بڑا احسان کرتا تھا۔ ایک ایک مجلس میں سو سو اونٹ بخش دیتا تھا ، تو کیا اس کو ان اعمال کا کچھ فائدہ آخرت میں ہوگا ؟ آپ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں ، وجہ یہ (مسلم ص 115 ج 1 (فیاض) ہے۔ لم یقل یوما رب اغفرلی خطیئتی یوم الدین اس نے زندگی بھر ایک دن بھی یوں نہیں کہا کہ پروردگار ! میرے گناہ معاف کردے ، وہ شخص قیامت کا منکر تھا لہٰذا اس کی بڑی سے بڑی نیکی بھی کچھ فائدہ نہیں دے گی۔ ایسے لوگوں کو ان کے کارناموں کا صلہ دنیا میں ہی مل جاتا ہے۔ رفاہ عامہ کے کام کرنے کی وجہ سے ان کی شہرت ہوجاتی ہے۔ مال و دولت مل جاتا ہے اولاد مل جاتی ہے مگر آخرت میں ان کے لئے کچھ نہیں ہوتا ، صحیح حدیث میں آتا ہے کہ کافروں کے اچھے اعمال کا نتیجہ عام طور پر انہیں دنیا میں ہی مل جاتا ہے ، اور آخرت میں ان کے لئے کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ ظلمات کی مثال : پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کو کافروں کی مثال سراب کے ساتھ بیان کی جو دنیا میں بعض اچھے کام بھی انجام دے جاتے ہیں وہ ان نیک کاموں کا بدلہ آخرت میں چاہتے ہیں مگر وہاں وہ محروم رہیں گے۔ اب دوسری مثال اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی بیان فرمائی ہے جو نہ تو دنیا میں ایمان لائے اور نہ ہی کوئی اچھا کام انجام دیا۔ اللہ نے فرمایا کہ ان کی مثال ایسی ہے اوکظلمت فی بحر لجی جیسے گہرے سمندر میں اندھیرے ہوں۔ اور پھر یغشہ موج من فوقہ موج جس کو ڈھانپ رہی ہو موج کے اوپر موج۔ من فوقہ سحاب پھر اوپر سے بادل بھی ہو۔ گویا ظلمت بعضھا فوق بعض کہ اندھیرے ہیں بعض کے اوپر بعض ۔ اوپر تلے اندھیرے ہی اندھیر ہیں۔ جن کی کیفیت یہ ہے اذا اخرج یدہ لم یکدیرھا کہ کوئی شخص اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھ سکے ، گہرے سمندر کی تاریکی ، پھر پانی کی موجوں کی تاریکی ، اس کے اوپر بادلوں کی تاریکی اور پھر اگر رات بھی ہو تو تاریکی در تاریکی۔ اللہ نے کافروں کے اعمال کی مثال ایسی تاریکی کے ساتھ دی ہے۔ یہ لوگ عمر بھر اندھیرے میں سرگرداں رہتے ہیں اور انہی اندھیروں میں ان کا خاتمہ ہوجاتا ہے ؎ زادی بہ حجاب اندر میری بہ حجاب اندر (اقبال (رح) وہ تاریکی میں ہی پیدا ہوئے اور تاریکی میں ہی چل بسے۔ پھر آگے ان کے لئے جہنم کی تاریکی ہے جو شدید ترین ظلمت ہوگی ۔ درمیان میں برزخ کی تاریکی بھی موجود ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جو شخص صحیح طریقے سے نماز ادا کرتا ہے تو یہ اس کے لئے قبر میں روشنی کا باعث ہوگی۔ حجاب درحجاب : امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ کافروں کے لئے یہ تاریکیاں حجاب در حجاب ہیں۔ یہ لوگ پہلے حجاب طبع میں مبتلا ہوئے ۔ ہر وقت کھانا پینا ، لباس مکان ، دکان ، سواری وغیرہ میں پھنسے رہے اور آخرت کی کوئی فکر نہ کی۔ اس سے ذرا باہر نکلے تو حجاب رسوم میں پھنس گئے۔ قوم ، ملک ، خاندان اور علاقائی رسم و رواج میں ڈوبے رہے۔ ان کو ان رسم و رواج سے ہی فرصت نہ ملتی تھی۔ لہٰذا آخرت کی فکر کے لئے تو وقت نہیں تھا۔ اس سے آگے نکلے ، تو حجاب سوء معرفت کا شکار ہوگئے ، خدا تعالیٰ کو پہچانا مگر غلط طریقے پر صحیح پہچان نہیں ہوسکی۔ کبھی شرک میں مبتلا ہوئے اور کبھی عقیدہ تشبیہ کا شکار ہوگئے۔ اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کی صفات مختصہ میں کسی کو شریک کرتا ہے۔ کسی دوسرے کو بھی علیم کل ، مختار کل ، حاجت روا ، مشکل کشا ، ہمہ دان ، ہمہ بین اور ہمہ تو ان سمجھتا ہے۔ تو وہ مشرک ہے۔ اس نے شرک کا عقیدہ اختیار کرلیا ہے۔ اور اگر کوئی شخص مخلوق کی صفت خدا تعالیٰ میں مانتا ہے تو وہ عقیدہ تشبیہ میں غرق ہوگیا۔ یہودیوں نے عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہا اور اس طرح مخلوق کی صفت خدا تعالیٰ میں مان کر اس عقیدہ میں مبتلا ہوئے ۔ نصاریٰ عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہہ کر عقیدہ تشبیہ میں غرق ہوگئے۔ اسی طرح ہندو بھی دیوی اور دیوتائوں کو فرزندان خدایا اوتار مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا ان میں حلول کر آیا ہے۔ یہ بھی تشبیہ کے عقیدہ میں پھنس گئے اور کافر ٹھہرے ۔ غرضیکہ انسانوں پر یہ تینوں حجاب پڑے ہوئے ہیں۔ جو شخص ان تینوں سے بچ کر نکل گیا۔ اسے خدا تعالیٰ کی صحیح پہچان حاصل ہوجاتی ہے اور وہی کامیاب وکامران ہوتا ہے۔ منبع نور : فرمایا کافروں کے لئے ہر طرف اندھیرے ہی اندھیرے ہیں۔ ان کے سامنے روشنی کی کوئی کرن نہیں ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی بغاوت کی اور خدا تعالیٰ نے انہیں نور ہدایت سے محروم رکھا۔ ومن لم یجعل اللہ لہ نورا جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی نور نہیں بنایا فمالہ من نور تو اسے کہیں سے بھی نور اور روشنی میسر نہیں آئے گی ، کیونکہ اللہ تعالیٰ روشنی اس شخص کے لئے بنائے گا۔ جس میں انصاف ہوگا اور طلب ہوگی۔ جو شخص ضد ، عناد ، انکار پر اڑا رہے گا۔ اسے کبھی روشنی نصیب نہیں ہوسکتی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ نور طلب کرنا چاہیے ، جو کہ دنیا اور آخرت میں فلاح کا ذریعہ بن سکے۔
Top