Mualim-ul-Irfan - An-Noor : 41
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الطَّیْرُ صٰٓفّٰتٍ١ؕ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِیْحَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ
اَلَمْ تَرَ : کیا تونے نہیں دیکھا اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ يُسَبِّحُ : پاکیزگی بیان کرتا ہے لَهٗ : اس کی مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَالطَّيْرُ : اور پرندے صٰٓفّٰتٍ : پر پھیلائے ہوئے كُلٌّ : ہر ایک قَدْ عَلِمَ : جان لی صَلَاتَهٗ : اپنی دعا وَتَسْبِيْحَهٗ : اور اپنی تسبیح وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جانتا ہے بِمَا : وہ جو يَفْعَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
کیا تو نے نہیں دیکھا (اس بات کی طرف) کہ بیشک اللہ تعالیٰ کے لئے تسبیح بیان کرتی ہیں جو چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ اور پرندے بھی پر کھولے ہوئے۔ ہر ایک جانتا ہے اپنی نماز اور تسبیح کو ۔ اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں
ربط آیات : گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نور کا ذکر کیا جو مومنوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے۔ اللہ نے اس کی مثال بھی بیان فرمائی۔ پھر اللہ کے گھروں مساجد کا تذکرہ فرمایا جہاں سے متذکرہ نور حاصل ہوتا ہے۔ اللہ نے ان گھروں کو بلند کرنے اور انہیں پاک صاف رکھنے کا حکم دیا ، اور ان لوگوں کی صفات بیان کیں جو مساجد میں اللہ کی عبادت اور اس کی تسبیح وتحمید کرتے ہیں۔ اللہ نے ان کو بہتر بدلہ عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ پھر اللہ نے نافرمان اور کفر کرنے والوں کا انجام بھی بیان فرمایا۔ پھر کفار کی دوقسموں کا ذکر کیا۔ ان کی ایک قسم وہ ہے ، جو رفاہ عامہ کے کام بھی کرتے ہیں اور آخرت میں اچھے صلے کی امید بھی رکھتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ ایمان اور توحید کے بغیر ایسے لوگوں کا کوئی عمل بھی مقبول نہیں۔ ان کی طرف سے اچھے بدلے کی توقع سراب کے پیچھے بھاگنے کے مترادف ہے۔ دوسرے قسم کے کافر وہ ہیں ، جو کفروشرک کے ساتھ ساتھ ظلم وتعدی کے کام بھی انجام دیتے ہیں اور ان کے نامہ اعمال میں کوئی اچھا کام نہیں ہے۔ فرمایا ایسے لوگوں کی مثال ظلمت درظلمت کی ہے۔ گویا کہ وہ سمندر کی تہ میں سخت اندھیرے میں پڑے ہیں۔ اس پر موج درمود تاریکی اور پھر اوپر رات کی بھی تاریکی ہے۔ گویا ایسے لوگ سخت ترین تاریکیوں میں پڑے ہیں۔ جن سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ کی تسبیح : اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے توحید کے عقلی دلائل بیان فرمائے ہیں اور ان میں غوروفکر کی دعوت دی ہے ارشاد ہوتا ہے الم تران اللہ یسبح لہ من فی السموت والارض کیا تم نے اس بات کی طرف دھیان نہیں کیا کہ بیشک اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے والطیر صفت اور پر کھولے یعنی اڑنے والے پرندے بھی اسی کی تسبیح و تقدیس بیان کرتے ہیں۔ آسمانوں میں ملائکہ ہیں اور بعض دوسری مخلوق بھی ہے جو خدا تعالیٰ کی حمدوثنا میں مصروف رہتی ہے۔ اور زمینی مخلوق کا ذکر گزشتہ سورتوں میں ہوچکا ہے ، کہ انسان ، جانور کیڑے مکوڑے ، آبی مخلوق ، پہاڑ اور درخت وغیرہ سب خدا تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ البتہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے۔ جو خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ اگرچہ اپنے اختیار اور ارادے سے تو سجدہ نہیں کرتے مگر ان کے سائے صبح وشام سجدہ ریز ہوتے رہتے ہیں۔ تو یہاں بھی فرمایا کہ آسمانوں اور زمین کی تمام چیزیں اور ان دونوں کے درمیان فضا میں اڑنے والے پرندے بھی اپنے مالک کو یاد کرتے ہیں۔ فرمایا کل قد علم صلاتہ وتسبیحہ یہ سب کے سب اپنی نماز اور تسبیح کو جانتے ہیں۔ بعض اس کا ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ ہر نوع کی مخلوق کو اس کی تسبیح اور عبادت کا طریقہ معلوم ہے ، اور ہر نوع جن الفاظ کے ساتھ اللہ کی تقدیس بیان کرتی ہے ، وہ اس کو بھی جانتے ہیں ، لہٰذا وہ اپنے اپنے طریقے کے مطابق تسبیح و تقدیس اور عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے ہیں۔ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ علم کا فاعل خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور جملے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر نوع کی مخلوق کی عبادت اور تسبیح کو جانتا جب کہ نوع کی تسبیح دوسری نوع نہیں جانتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو جانتا ہے کہ کون کس زبان اور کس کیفیت کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کررہا ہے واللہ علیم بما یفعلون اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ یہ کرتے ہیں۔ یعنی خداوند تعالیٰ اپنی ساری مخلوق کی تسبیح وتحمید کے علاوہ اسکی دیگر کارکردگی کو بھی جانتا ہے کہ وہ کون سے کام انجام دے رہے ہیں۔ بہرحال خدا کی مخلوق میں سے ہر چیز کا اس کی حمد کے ترانے گانا ہی اس کی توحید کی دلیل ہے۔ صرف وہی وحدہ لاشریک ہے جو ہر قسم کی عبادت و ریاضت اور تسبیح و تقدیس کے لائق ہے۔ تسبیح بزان حال یا قادر : بعض معتزلہ قسم کے عقل کے دعویدار کہتے ہیں کہ انسانوں کا اپنی زبان سے خاص الفاظ کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرنا تو واضح ہے لیکن باقی مخلوق کا زبان کے ساتھ اللہ کی حمد بیان کرنا ممکن نہیں ، البتہ وہ کہتے ہیں کہ ہر چیز کا زبان حال سے خدا کی تسبیح بیان کرنا ممکن ہوسکتا ہے ، صاحب تفسیر کبیر امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ اس قسم کے عقلمندوں کا نظریہ درست نہیں ہے ، کیونکہ روزمرہ ہمارے مشاہدہ میں آتا ہے کہ جانور ، چرند اور پرند جو ہماری نظروں میں بےشعور مخلوق ہیں ، ان میں ایسی ایسی شعوری باتیں پائی جاتی ہیں کہ عقلمند اور باشعور انسان بھی انہیں انجام دینے سے قاصر ہیں۔ فرماتے ہیں…کہ امام جعفر صادق (رح) کی مجلس میں موجود ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ صبح وشام چڑیوں کے چہچہانے کا مطلب ہے اور یہ کیا کہتی ہیں تو آپ نے فرمایا کہ یہ اپنے پروردگار کی تسبیح و تقدیس بیان کرتی ہیں اور اسی سے اپنی روزی طلب کرتی ہیں۔ اسی طرح بعض جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کے ایسے ایسے کارنامے مشاہدہ میں آتے ہیں کہ انسان اس کی توجیہہ کرنے سے عاجز آجاتے ہیں ، مثلاً مکڑی اپنے شکار کے لئے ایسا نازک مگر مضبوط جالا بنتی ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اگر کوئی آدمی اپنے ہاتھوں سے ایسا جالا بننا چاہے تو نہیں بن سکتا۔ ریچھ بڑا ذہین جانور ہے۔ جب وہ بیل کا شکار کرنا چاہتا ہے۔ تو اس کے راستے میں لیٹ جاتا ہے۔ جب بیل قریب آکر ریچھ کر سینگ مارنے کی کوشش کرتا ہے تو ریچھ اس کے پائوں کے ساتھ چمٹ جاتا ہے۔ پھر اس کو ایسا زخمی کرتا ہے کہ اس کا سارا خون نچڑ جاتا ہے اور وہ اس پر غالب آجاتا ہے ، ریچھ کو اللہ نے اتنی عقل عطا کی ہے کہ یہ آسانی سے درخت پر چڑھ جاتا ہے ، خود آدمی سے لاٹھی چھین کر ساری کو مارتا ہے اور خوراک کی تلاش میں اخروٹ کے درخت پر چڑھ جاتا ہے اور وہاں سے اخروٹ توڑ لیتا ہے پھر ان کو ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا کر توڑ لیتا ہے اور اس طرح اپنی خوراک کے لئے گودہ حاصل کرلیتا ہے۔ شہد کی مکھیوں کی ذہانت دیکھ لیں۔ یہ سب اپنی ملکہ مکھی کی قیادت میں کام کرتی ہیں اور اپنے گھر ایسے مسدس خانوں کی صورت میں بناتی ہیں کہ دنیا کا بڑے سے بڑا انجینئر بھی آلات کے بغیر ایسا نہیں کرسکتا۔ وہ باہر سے اپنے مونہوں میں موم لا لا کر نہایت ہی نفیس اور ہم شکل گھروندے بناتی ہیں ، ان میں رہائش رکھتی ہیں ، انہیں میں ان کے بچے پیدا ہوتے ہیں اور پھر انہی میں شہد کا ذخیرہ بھی ہوتا ہے۔ آخر اتنا نرم ونازک کام بلا شعور تو نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے لازماً ان کو وہ شعور بخشا ہے جسے بروئے کار لاکر وہ اپنا فرض انجام دیتی ہیں۔ لمبی ٹانگوں اور لمبی چونچوں والے پرندے ” سارس “ جنہیں عربی زبان میں ” کر کی “ کہتے ہیں بڑے ذہین واقع ہوئے ہیں یہ پوری دنیا کا سفر کرسکتے ہیں…اور جہاں ان کے لئے آب وہوا موافق ہوتی ہے ، وہیں پہنچ جاتے ہیں ۔ گھوڑے کی ذہانت وفطانت کے متعلق مشہور ہے کہ اگر وہ کسی دوسرے گھوڑے کی آواز ایک دفعہ سن لے تو اسے زندگی بھر یاد رکھتا ہے اور اگر برسوں بعد بھی وہ آواز دوبارہ سنائی دے تو فوراً پہچان لیتا ہے ، چیتے کے متعلق کہتے ہیں کہ اگر اسے سانپ ڈس لے یا وہ کوئی زہریلی چیز کھالے تو فوراً انسان کا براز کھاتا ہے جو اس کے لئے تریاق کا کام دیتا ہے۔ اسی طرح اگر کچھوے کو سانپ کاٹ لے تو وہ صعترنامی جنگلی بوٹی کھالیتا ہے جس سے سانپ کے زہر کا اثر زائل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر نیولے کو سانپ کاٹ کھائے تو وہ فوراً سراب نامی بوٹی کا تریاق استعمال کرتا ہے ، اسی طرح جنگی مرغ (برخاب) تریاق کے طور پر جرجیر بوٹی کھالیتا ہے ، اللہ نے اتنی سمجھ عطا کی ہے۔ خطاف نامی جانور جو بڑھئی جانور کہلاتا ہے اور درختوں پر اپنی چونچ سے ٹھک ٹھک کرتا رہتا ہے ، یہ اپنا گھونسلہ نہایت پاک وصاف رکھتا ہے۔ اگر اس کا بچہ گھونسلے میں بیٹ کر دے تو چونچ سے پکڑ کر فوراً باہر پھینک دیتا ہے۔ اور جب بچے ذرا سمجھدار ہوجاتے ہیں تو انہیں گھونسلے کے کنارے پر جاکر باہر بیٹ کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ غرانیق (کونج کی قسم کا جانور) بہت اونچی پرواز کرتا ہے حتیٰ کہ بادلوں سے بھی اوپر نکل جاتا ہے۔ جب ان کے غول کے پرندوں کو ایک دوسرے سے بچھڑنے کا خطرہ ہو تو اپنے پروں سے ایسی آواز نکالتے ہیں کہ ایک دوسرے کا آپس میں ربط قائم ہوجاتا ہے۔ سائنسدانوں نے چیونٹیوں کی بود وباش اور ان کے اطوار کے متعلق بڑی تحقیق کی ہے اور بڑے عجیب و غریب انکشافات کئے ہیں ، یہ تو ہم روز مرہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ چیونٹیاں سیدھی قطار میں سفر کرتی ہیں اور آپس میں کمال درجے کے تعاون کرتی ہیں۔ سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق چیونٹیوں کی عام رہائشی بستیوں کے علاوہ ان کے علیحدہ قبرستان بھی ہوتے ہیں جہاں وہ اپنے مردے دفن کرتی ہیں………جہاں کہیں کوئی مری پڑی چیونٹی ملے اسے اٹھا کر قبرستان میں دفن کردیا جاتا ہے۔ انسانی سلطنتوں کی کی طرح چیونٹیوں کی بھی علیحدہ علیحدہ حکومتیں ہوتی ہیں۔ اگر کسی چیونٹی کو احساس ہوجائے کہ وہ کسی غیر علاقہ میں داخل ہوگئی ہے تو فوراً الٹی ہوجاتی ہے۔ جب اس علاقے کی چیونٹیوں کو غیر چیونٹی کی آمد کا علم ہوتا ہے تو اس کے کارندے اس الٹی چیونٹی کو اٹھا کر اپنے علاقے سے باہر پھینک آتے ہیں ، اللہ کی قدرت ہے کہ اتنا چھوٹا سا جانور بھی اس قدر حساس ہوتا ہے۔ سیہہ کے جسم پر کانٹے ہوتے ہیں جس سے اسے موسم کی تبدیلی کا پیشگی علم ہوجاتا ہے۔ گوہ کے متعلق مشہور ہے کہ یہ اپنا گھر چار مختلف سوراخوں ، چار مختلف جگہوں پر بناتا ہے تاکہ شکاری کو پتہ ہی نہ چل سکے کہ وہ کس وقت کس گھر میں رہائش پذیر ہے ، یہ اس کے شکاری سے بچ نکلنے کی ایک تدبیر ہے۔ شتر مرغ میں اللہ نے ایسا وصف رکھا ہے کہ یہ لوہے کا گرم گولہ نگل جاتا ہے۔ غرضیکہ دیگر جاندار ، بندر ، کتا ، بلی ، لومڑی ، کبوتر کسی کو بھی دیکھ لیں۔ ہر ایک اپنے اپنے شعور کے مطابق کام کرتا ہے۔ حیال الحیوانات پر جدید دور میں تو بڑی تحقیق ہوئی ہے ، پرانے زمانے کے امام دمیری (رح) نے بھی اس موضوع پر کتاب لکھی ہے ۔ اسی طرح دوسری صدی کے امام جاحظ نے بھی ” کتاب الحیوان “ میں حیوانات کے حیرت انگیز حالات لکھے ہیں۔ امام ولی اللہ دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں میں ایسے خواص رکھے ہیں جو ان کی صورت نوعیہ کے راستے سے آتے ہیں۔ بہرحال امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ جس مالک الملک نے جانوروں ، کیڑے مکوڑوں اور پرندوں کو ایسے ایسے اوصاف بخشے ہیں ، اور ان میں اتناشعور پیدا کیا ہے کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ انہیں تسبیح بیان کرنے کا طریقہ بھی سکھلادے لہٰذا انسانوں کے علاوہ باقی مخلوق کا زبان قال سے تسبیح بیان کرنا عین ممکن ہے اور اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ تو جانوروں کا ذکر تھا۔ اب ذرا بعض بےجان چیزوں کا حال بھی دیکھ لیں۔ حضور ﷺ کا احد پہاڑ پر گزرہوا تو فرمایا (بخاری ص 585 ج 1 (فیاض) ھذا جبل یحبنا و نحبہ یہ احد ایک پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پہاڑ جیسی سخت چیز میں بھی اللہ نے کوئی حس اور شعور رکھا ہے۔ حضور ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ مکہ کی ایک گزرگاہ کے ایک پتھر کو میں اب بھی پہچانتا ہوں جو قبل از نبوت مجھے ان الفاظ کے ساتھ سلام کیا کرتا تھا۔ السلام علیک یا نبی اللہ۔ پھر آپ کو کھجور کا خشک تنا بھی یاد ہے جس کا ذکر معجزات کے باب میں کیا جاتا ہے۔ حضور ﷺ اس تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر مسجد نبوی میں لوگوں سے خطاب فرمایا کرتے تھے۔ جب آپ کے لیے منبر تیار ہوگیا تو آپ اس پر تشریف لے گئے۔ وہ خشک تنا حضور ﷺ کی اس جدائی کو برداشت نہ کرسکا ، اور بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔ پھر حضور ﷺ نے اس کو تھپکی دی تو وہ آہستہ آہستہ خاموش ہوگیا۔ آخر اس میں بھی تو کوئی شعور ہی کام کررہا تھا۔ اس ساری بحث کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ہو چیز کا اپنے پروردگار کی تسبیح و تقدیس بیان کرنا کوئی اچنبے کی بات نہیں ہے بلکہ اس کا انکار کرنے والے ہی غلط کار ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے وللہ ملک السموت والارض حقیقت میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے۔ اس نے جس مخلوق کو پیدا کیا ہے اسے اس کے حسب حال شعور بھی بخشا ہے اور اس کے سپرد فرائض بھی کیے ہیں جن میں تسبیح و تقدیس بیان کرنا بھی شامل ہے۔ یہ عجیب و غریب حالات اس کی وحدانیت کی دلیل ہیں۔ جب ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حمد کے گیت گاتی ہے۔ تو اشرف المخلوقات انسان کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی عبادت سے غافل نہ رہے اسے معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی اس کی آخری منزل نہیں ہے ، بلکہ والی اللہ المصیر سب کو اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ وہاں پر وہ پوری زندگی کا حساب لے گا اور ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزا یا سزا دے گا۔ توحید کے عقلی دلائل : توحید کے عقلی دلائل کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور مثال بھی بیان فرمائی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے الم تران اللہ یزجی سحابا کیا تم نے اس بات میں غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ بادلوں کو چلاتا ہے ثم یولف بینہ پھر ان کو اکٹھا کرتا ہے۔ ثم یجعلہ رکاما پھر بنا دیتا ہے اسے تہ بہ تہ تودوں کی شکل میں فتری الودق یخرج من خللہ پس دیکھتا ہے تو کہ اس کے درمیان سے بارش نکلتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے وینزل من السماء من جبال فیھا من برد وہ آسمان یعنی پہاڑوں سے اولے اتارتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پہاڑوں جیسے بڑے بڑے بادلوں کے تودوں سے اولے برساتا ہے اور پھر ان اولوں کے ذریعے فیصیب بہ من یشاء پس وہ پہنچاتا ہے اس کے ذریعہ جس کو چاہے ، مطلب یہ کہ جس کو تکلیف پہنچانا مقصود ہوتا ہے ، وہاں پر اللہ تعالیٰ اولے برسا کر فصلوں اور باغوں کو تباہ کردیتا ہے اور اس طرح لوگ آزمائش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ آپ نے تاریخ میں پڑھا سنا ہے کہ بعض مقامات پر آدھ آدھ سیر اولے بھی پڑے۔ ظاہر ہے کہ جہاں اتنی ژالہ باری ہو ، وہاں کتنی تکلیف پہنچتی ہے اور وہاں کیا چیز بچ سکتی ہے ؟ 1935 ء میں میں لاہور میں زیر تعلیم تھا کہ مئی کے مہینے میں کوئٹہ کا تاریخی زلزلہ آیا۔ اسی دن لاہور میں اتنے بڑے بڑے اولے پڑے جو شدید گرمی کے موسم میں بھی چوبیس گھنٹے تک پگل نہ سکے۔ ایسے مواقع پر فصلیں تباہ اور جانور ہلاک ہوجاتے ہیں۔ تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے اولے برساتا ہے اور پھر جس کو چاہتا ہے ان کے ذریعے مشقت میں ڈال دیتا ہے ویصرفہ عن من یشاء اور جس سے چاہے اولوں کو پھیر دیتا ہے ۔ جس بستی اور علاقے کو بچانا مقصود ہوتا ہے ، وہاں سے اولوں کو دوسری طرف لے جاتا ہے بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ جنگل میں کام کر رہے ہیں اور اچانک اولے برسنا شروع ہوجاتے ہیں تو جس کو تکلیف دینا مقصود ہوتا ہے اس شخص یا جانور پر اولے پڑ کر اسے ہلاک کردیتے ہیں اور جس کسی کو بچانا مقصود ہوتا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ اولوں کو پھیر دیتا ہے اور وہ تکلیف سے بچ جاتا ہے۔ فرمایا یکاد سنا برقہ یذھب بالابصار قریب ہے کہ بجلی کی چمک آنکھوں کو لے جائے۔ ظاہر ہے کہ جب بادل گھر کر آتے ہیں ، بارش ہوتی ہے ، ژالہ باری ہوتی ہے تو اس وقت وقفے وقفے سے بجلی چمکتی ہے اور بادل گرجتے ہیں۔ بعض اواقت بجلی کی چمک اس قدر تیز ہوتی ہے کہ انسان کی آنکھیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ اور پھر جب یہ بجلی کسی فصل پر یا درخت پر پڑتی ہے۔ تو اسے تباہ کردیتی ہے اور اگر کسی انسان یا جانور پر گرتی ہے تو وہ ہلاک ہوجاتے ہیں۔ فرمایا یہ ساری چیزیں خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کی حکمت کے نشانات ہیں اور اس کی وحدانیت کے دلائل ہیں۔ اگر انسان غور کرے تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ کائنات کی ہر چیز پر کنٹرول صرف اور صرف خدا تعالیٰ کا ہے ، لہٰذا وہ ذات وحدہ لا شریک ہے۔ آگے دوسری دلیل بیان فرمائی کہ وہ خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے یقلب اللہ الیل والنھار جو رات اور دن کو تبدیل کرتا رہتا ہے ، رات گئی دن آیا ، دن رخصت ہوا تو رات آگئی۔ کبھی رات بڑی اور دن چھوٹا اور کبھی دن بڑا اور رات چھوٹی۔ اور پھر یہ صرف شب وروز کا انقلاب ہی نہیں بلکہ موسموں کا تغیر وتبدل بھی ہے۔ کبھی گرمی ہے ، کبھی سردی ہے ، کبھی بہار ہے اور کبھی خزاں ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کرشمے ہیں جو انسان کو غور وفکر کی دعوت دے رہے ہیں کہ ان چیزوں میں غور کرو گے تو اللہ کی وحدانیت ضرور سمجھ میں آجائے گی۔ اور ساتھ یہ بھی فرمادیا ان فی ذلک لعبرۃ لاولی الابصار ان تمام مشاہدات میں عبرت کا مقام ہے مگر ان لوگوں کے لئے جو آنکھیں رکھتے ہیں۔ جن سینوں میں غوروفکر کے لئے دل کی آنکھیں موجود ہیں ان کے لئے یہ سب باتیں جائے عبرت ہیں۔ جب بھی سوال اٹھائیں کہ بادلوں کو اکٹھا کرکے بارش کون برساتا ہے ، اس میں اولے اور بجلی کون نکالتا ہے ، دن رات اور موسموں کا تغیر وتبدل کون لاتا ہے ۔ جب بھی غور کرو گے سارے سوالوں کا ایک ہی جواب ہوگا کہ ان تمام امور کو انجام دینے والا اللہ وحدہ لاشریک ہے ہر چیز پر سا کا تصرف ہے ، جب یہ بات سمجھ میں آجائے تو پھر کفر اور شرک کی جڑ کٹ جانی چاہیے۔ ان تمام شواہد کی موجودگی میں اگر کوئی شخص از خود آنکھیں بند کرکے کے بیٹھ جائے ، نہ ان کو دیکھے اور نہ ان میں غور وفکر کرے تو اسے توحید کی سمجھ کیسے آسکتی ہے ؟ اگر کوئی شخص سورج کی تیز روشنی بھی اپنے آپ کو کسی تنگ و تاریک کمرے میں بند کرے اور پھر سورج کی موجودگی کا انکار کردے تو پھر اس کی حالت پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کے چند عقلی دلائل پیش کرکے ہر انسان کو غوروفکر کی دعوت دی ہے اور وحدانیت کو تسلیم کرنے کی تلقین کی ہے۔
Top