Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Noor : 51
اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
اِنَّمَا
: اس کے سوا نہیں
كَانَ
: ہے
قَوْلَ
: بات
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومن (جمع)
اِذَا
: جب
دُعُوْٓا
: وہ بلائے جاتے ہیں
اِلَى اللّٰهِ
: اللہ کی طرف
وَرَسُوْلِهٖ
: اور اس کا رسول
لِيَحْكُمَ
: تاکہ وہ فیصلہ کردیں
بَيْنَهُمْ
: ان کے درمیان
اَنْ
: کہ۔ تو
يَّقُوْلُوْا
: وہ کہتے ہیں
سَمِعْنَا
: ہم نے سنا
وَاَطَعْنَا
: اور ہم نے اطاعت کی
وَاُولٰٓئِكَ
: اور وہ
هُمُ
: وہی
الْمُفْلِحُوْنَ
: فلاح پانے والے
بیشک ایمان والوں کی بات تو یہ ہے کہ جب نہیں بلایا جاتا ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف تاکہ وہ فیصلہ کرے ان کے درمیان ، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور ہم اطاعت کرتے ہیں۔ اور یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے
ربط آیات : پہلے اللہ نے توحید کے عقلی دلائل بیان فرمائے اور پھر منافقوں کی مذمت بیان کی کہ جب کسی تنازعہ کے فیصلے کی خاطر انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اعراض کرتے ہیں۔ ہاں ، اگر انہیں یقین ہو کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا ، تو اطاعت کے انداز میں دوڑ کر آتے ہیں۔ اور اگر ان کی توقع اس کے برخلاف ہو تو دربار نبوی میں آنے سے ٹال مٹول کرتے ہیں۔ پھر اللہ نے ان کی ذہنیت کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یا تو ان کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہوگی ، یا اللہ کی توحید ، نبی کی رسالت یا دین کے متعلق شک ہوگا اور یا پھر انہیں اللہ اور اس کے رسول سے ناانصافی کی توقع ہوگی۔ فرمایا ایسے شخص سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں جو اللہ ، اس کے رسول اور دین حق کے متعلق اسی قسم کا نظریہ رکھتا ہو۔ اس کے برخلاف اب آج کی پہلی دو آیات میں اہل ایمان کے کردار کا ذکر ہے اور اگلی دو آیتوں میں روئے سخن پر منافقوں کی طرف ہے۔ مومنوں کا کردار : ارشاد ہوتا ہے انما کان قول المومنین بیشک ایمان والوں کی بات تو یہ ہے اذا دعوا الی اللہ ورسولہ کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے لیحکم بینھم تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کرے یعنی جب دوفریقوں کے درمیان کوئی تنازعہ پیدا ہوجائے تو ظاہر ہے کہ فیصلے کے لئے دربار رسالت کی طرف ہی دعوت دی جائیگی کہ آئو اپنے متنازعہ امر میں فیصلہ حاصل کرلو ، تو مومنوں کا کردار یہ ہوتا ہے ۔ ان یقولوا سمعنا واطعنا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ بات سن لی ہے اور تعمیل حکم کے لئے تیار ہیں۔ اہل ایمان نفع یا نقصان سے قطع نظر نبی (علیہ السلام) کی دعوت پر فوراً حاضر ہوجاتے ہیں ۔ اس کے برخلاف منافقوں کا حال پہلے بیان ہوچکا ہے کہ نبی کی ایسی دعوت پر کہتے ہیں اطعنا یعنی ہم نے نبی کی بات مان لی مگر جلد ی ہی ان میں سے ایک گروہ اعراض کرجاتا ہے۔ ان کا رویہ بالکل بنی اسرائیل والا ہوتا ہے وہ بھی اللہ اور اس کے رسول کی بات سن کر کہتے ہیں سمعنا وعصینا (انساء 46) ہم نے بات تو سن لی مگر اس پر عمل نہیں کریں گے۔ بہرحال فرمایا کہ مومنوں کا کردار یہ ہے کہ وہ بات سن کر اطاعت کے لئے فوراً تیار ہوجاتے ہیں واولئک ھم المفلحون حقیقت میں فلاح پانے والے یہی لوگ ہیں۔ کامیابی انہی لوگوں کے حصے میں آئے گی۔ جو اللہ اور اس کے رسول کے ہر حکم کی اطاعت پر ہر وقت کمر بستہ رہتے ہیں۔ اللہ اور رسول کی اطاعت : آگے اللہ نے ایک عام اصول کے طور پر فرمایا ہے ومن یطع اللہ ورسولہ جس شخص نے اللہ اور اس کی رسول کی اطاعت کی ویخش اللہ اور وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہا یتقہ اور وہ بچتارہا (اللہ کی نافرمانی سے) فرمایا فاولئک ھم الفائزون تو پھر یہی لوگ ہیں۔ فائز المرام ہونے والے یہاں پر اللہ تعالیٰ نے کامیاب لوگوں کی چار صفات بیان کی ہیں جن میں سے پہلی صفت اللہ کی اطاعت اور دوسری رسول کی اطاعت گزاری ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ کی اطاعت میں اس کی ذات اور صفات کو تسلیم کرنا اور اس کی واحدنیت کو ماننا اولین اور بنیادی فرض ہے اور اس کے بعد اس کے ہر حکم کی تعمیل شامل ہے اللہ تعالیٰ خالق اور مالک ہے ، وہ منعم اور محسن ہے۔ جو شخص ایسے معبود برحق کی بات کو نہیں مانے گا وہ ہمیشہ مردود رہیگا۔ اسی طرح اللہ کے رسول کی اطاعت بحیثیت رسالت فرض ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا دین ، شریعت اور احکام رسول کی وساطت سے آتے ہیں۔ جب تک نبی کی اطاعت نہیں ہوگی ۔ خدا تعالیٰ کی اطاعت نہیں ہوسکتی ، حضور ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ تمہیں خوشی ہو یا ناخوشی ، ہر حالت میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنی چاہیے۔ غرضیکہ یہ دو باتیں ہیں ، ایک اللہ کی اطاعت اور دوسری اس کے رسول کی اطاعت۔ خشیت اور تقویٰ : تیسری بات خشیت یعنی خوف خدا ہے اور اس کا تعلق دل کے ساتھ ہوتا ہے۔ سورة مومنون کے آغاز میں بھی گزر چکا ہے قد افلح المومنین الذین ھم فی صلاتھم خشعون کامیاب ہوگئے وہ مومن لوگ جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور نیاز مندی کا اظہار ہے اور دل میں اس کا خوف تمام انبیاء کی بنیادی تعلیم کا حصہ رہا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ (حجۃ اللہ البالغہ ص 53 ج 1 وھمعات ص 89 (فیاض) چار خصلتیں تمام انبیاء کی شرائع میں اٹل رہی ہیں اور یہ ہمارے دین کا بھی حصہ ہیں۔ پہلی چیز طہارت ہے ، اس میں ظاہر اور باطن کی ساری طہارت شامل ہے ، انسان کا بدن اور لباس پاک ہو ، اس کی خوراک پاک ہو اور سب سے بڑھ کر اس کا عقیدہ اور فکر ہر قسم کے کفر ، شرک اور نفاق سے پاک ہو۔ دوسری چیز اخبات ہے۔ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے ان الذین……………ربھم (ہود 23) وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال انجام دیے اور پھر انہوں نے اپنے رب کے سامنے عاجزی کا اظہار کیا۔ اسی کو خشوع و خضوع بھی کہتے ہیں اور اس صفت کے حاملین ، خاشعین ، خاضعین اور منجتین کہلاتے ہیں۔ اپنی نیاز مندی اور کمزور ی اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کا خیال کرنا اخبات کہلاتا ہے۔ سورة المدثر میں ہے۔ وربک فکبر (آیت 3) ہمیشہ اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کرتے رہو۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ تمام انبیاء کی شرائع کی تیسری خصلت سماحت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان حقیر اور خبیس چیزوں سے بچتا رہے ، یعنی حرص ، لالچ ، طمع اور خود غرضی کو قریب نہ آنے دے اور چوتھی خصلت عدالت ہے یعنی انسان ہمیشہ عدل و انصاف کا پرچم بلند رکھے اور کسی پر ظلم و زیادتی سے پرہیز کرے ، بہرحال ان چار بنیادی صفات میں خشوع یعنی اخبات بھی ہے جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں کیا گیا ہے۔ فرمایا جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ، اور اللہ سے ڈرتا رہا۔ اور اس کی نافرمانی سے بچتا رہا تو یہی لوگ فائز المرام ہونے والے ہیں چوتھی صفت تقویٰ کا تعلق بھی دل سے ہوتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ تقویٰ کا معنی یوں کرتے ہیں (الطاف القدس فی معرفۃ لطائف النفس مترجم ص 93 (فیاض) ” محافظت پر حدود شرع “ یعنی شریعت کی حدود کی حفاظت کرنا ہی تقویٰ ہے۔ شرک ، کفر ، نفاق ، کبائر اور صغائر سے بچنا تقویٰ میں شامل ہے ۔ تو فرمایا جس میں یہ چار صفات ہوں گی وہی فائز المرام ہوں گے۔ ایمان افروز واقعہ : امام قرطبی (رح) نے اپنی تفسیر میں یہ واقعہ نقل یکا ہے کہ حضرت عمر ؓ کے پاس ایک رومی دیہاتی آدمی کھڑا ہو کر کہہ رہا تھا انا اشھدان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ۔ آپ نے اس سے پوچھا کیا بات ہے ؟ تو اس نے کہا کہ میں ایمان لایا ہوں۔ آپ نے پھر پوچھا تمہارے ایمان لانے کی وجہ کیا ہوئی ؟ کہنے لگا۔ میں نے زبور تورات ، انجیل اور بعض آسمانی صحائف پڑھے ہیں اور میں ان کی چاشنی کو جانتا ہوں۔ پھر ہمارے ہاں ایک مسلمان قیدی تھا جو قرآن پاک کی یہ آیت پڑھتا تھا ومن یطع اللہ ورسولہ یخش اللہ ویتقہ فاولئک ھم الفائزون میں نے اس آیت پر غور کیا تو مجھے یہ ایسی جامع آیت محسوس ہوئی جس میں تمام سابقہ کتب سماویہ کا لب لباب آگیا ہے۔ چناچہ مجھے یقین آگیا کہ واقعی یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور میں نے ایمان قبول کرلیا۔ کہنے لگا من یطع اللہ میں تمام فرائض آگئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردو ، اور ورسولہ میں اللہ کے رسول کی تمام سنن آگئی ہیں۔ پھر یخش اللہ گزری ہوئی عمر کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ پچھلے دور میں جس قدر غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئی ہیں ان کی وجہ سے انسان کے دل میں خوف خدا پیدا ہوجائے اور وہ تمام گناہوں کی معافی طلب کرلے۔ اور پھر ویتقہ سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی باقی ماندہ زندگی کی فکر کرلے اور محتاط ہو کر وقت گزارے ۔ ہر قسم کے کفر ، شرک ، نفاق ، معاصی اور مشتبہ چیزوں سے بچتا رہے تو اس کی آئندہ زندگی سنور جائے گی۔ اور یہی وہ چار باتیں ہیں جن کی بدولت انسان اپنی زندگی کا لائحہ عمل متعین کرسکتا ہے اور پھر اس پر عمل پیرا ہو کر فاگز المرام لوگوں کی فہرست میں شامل ہوسکتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے رومی دیہاتی کی یہ بات سن کر فرمایا کہ بیشک تیری یہ بات درست ہے۔ حضور ﷺ کی جامع فرمودات : یہ تو اللہ کے کلام کی جامعیت کا تذکرہ تھا۔ حضور ﷺ کا فرمان (قرطبی ص 295 ج 2) ہے اوتیت جوامع الکلم اللہ نے مجھے جامع کلام عطا فرمایا ہے چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضور ﷺ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ایک چھوٹے سے جملے میں بھی ایک جہان معنی آباد ہوتا ہے (مسلم ص 354 ج 1) مثلاً الدین النصیحۃ یعنی دین تو خیر خواہی کا نام ہے۔ فرمایا (بخاری ص 2 ج 1 ومسلم ص 140 ج 2) انما الاعمال باالنیت اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔ نیز فرمایا (بخاری ص 978 ج 2 (فیاض) انما الاعمال لاخواتیم اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہوتا ہے۔ اس قسم کے چھوٹے چھوٹے کلمات میں تعلیم کا ایک وسیع سلسلہ ہوتا ہے۔ بہرحال اس آیت کریمہ میں اتنی جامع تعلیم موجود ہے جو انسان کی زندگی کے ہر موڑ پر راہنمائی کرتی ہے۔ انسانی زندگی کا یہی تو خلاصہ ہے کہ اس کے ذمے فرائض کی ادائیگی ہوتی ہے یا سنن کی۔ اور یا اسے گزشتہ کی فکر ہوتی ہے یا آئندہ زندگی کے لئے لائحہ عمل ہوتا ہے ۔ بہرحال فرمایا کہ ان چار صفات کے حاملین ہی کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوں گے۔ منافقین کی جھوٹی قسمیں : مومنین کے مذکورہ بالا تذکرے کے بعد اللہ نے پھر منافقین کے کردار کی طرف اشارہ فرمایا ہے واقسموا باللہ جھد ایمانھم یہ لو گ اللہ کی پختہ قسمیں اٹھا کر کہتے ہیں لئن امرتھم لیخرجن ، اگر آپ ان کو حکم دیں گے تو یہ ضرور باہر نکلیں گے۔ باہر نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ جہاد میں جانے کی ضرورت ہو ، حصول علم کے لئے جانا ہو ، تبلیغ کا فریضہ انجام دینا یا کسی دیگر اشغال کے لئے اللہ کی راہ میں نکلنا مطلوب ہو تو وہ اس کے لئے ہر وقت تیار ہیں۔ اللہ نے فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں لا تقسموا مت قسمیں کھائو۔ اللہ کو تمہاری قسموں کی ضرورت نہیں بلکہ جو چیز مطلوب ہے وہ طاعۃ معروفۃ یعنی دستور کے مطابق اطاعت ہے۔ اللہ اور رسول کے ہر حکم پر عمل پیرا ہو کر دکھائو۔ وگرنہ تمہاری زبانوں باتوں کا کچھ اعتبار نہیں۔ فرمایا ان اللہ خبیر بما تعملون بیشک اللہ تعالیٰ ان کے تمام اعمال سے باخبر ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ان لوگوں کے قول وفعل میں تضاد ہے ، لہٰذا ان کی جھوٹی قسموں کا کچھ فائدہ نہیں۔ اصلاح نفس اور اصلاح عالم : ظاہر ہے کہ تبلیغ کی خاطر گھر سے نکلنا بہت بڑی قربانی ہے۔ اور تبلیغ میں دو باتیں شامل ہیں یعنی اصلاح نفس اور اصلاح عالم۔ انسان کے اپنے نفس کی اصلاح اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے آئے گی۔ جب کوئی شخص اطاعت شروع کردے گا تو اس میں تقویٰ اور خشیت آجائے گی۔ دوسرا اہم پروگرام اصلاح عالم ہے اور اس کے لئے دوسروں کے پاس جانا پڑے گا۔ دوسروں سے مراد غیر مسلم اقوام ہیں جن کو دین اسلام کی حقانیت سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس کی طرف راغب کرسکیں۔ مگر اس وقت مسلمان اس قدر انحطاط کا شکار ہیں کہ غیر مسلموں کے پاس جانے کی جرات ہی نہیں کرتے الاماشء اللہ۔ اب تو تبلیغ کا فریضہ خود مسلمانوں کے حلقوں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ بلکہ اپنے مسلمان بھائیوں کے پاس جاکر بھی خوشامد کرنا پڑتی ہے کہ خدا کے لئے اپنے دین کو سمجھنے کی کوشش کرو ۔ مسلمان دین کی مبادیات سے بھی غافل ہوچکے ہیں۔ اور انہیں اپنے مشن کا کچھ علم نہیں کہ ہم دنیا میں کیوں آئے ہیں۔ آج مسلمانوں کو بتانا پڑتا ہے کہ تمہارے دین کے کیا تقاضے ہیں اور اگر ان کو پورا کرو گے تو تمہارا بھلا ہوگا۔ ایوب کے زمانے میں ایک جاپانی پروفیسر نے اسلام قبول کیا اور اس نے راولپنڈی میں انٹرویو دیا تھا کہ اس نے اسلام کیسے قبول کیا۔ اس نے کہا تھا کہ میں مسلمانوں کے کردار سے متاثر ہو کر مسلمان نہیں ہوا بلکہ اتفاق سے قرآن کریم کا ایک نسخہ میرے ہاتھ آگیا۔ اس کا مطالعہ کرکے میں اسلام کے لئے بےچین ہوگیا۔ پھر دو سال تک مصر میں تعلیم حاصل کی تو اللہ نے مجھے ایمان کی دولت نصیب فرمادی۔ مقصدیہ ہے کہ آج کا مسلمان اس قدر گر چکا ہے کہ اپنی تہذیب و تمدن اور اپنا دین تک بھول گیا ہے۔ غیروں کی غلامی کی وجہ سے نہ ذہن اس کا اپنا ہے اور نہ فکر۔ یہ ہر وقت دوسروں کے دست نگر رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تبلیغ دین جیسا اہم فریضہ بھی بالکل بھول چکے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اللہ نے منافقوں کا حال بیان کیا ہے کہ وہ اللہ کے راستے میں نکلنے کی جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں مگر نکلتے نہیں ۔ آج مسلمانوں کا حال بھی یہ ہے کہ کسی نیک کام خصوصاً تبلیغ دین کے لئے نکلنا ان کے لئے محال ہوچکا ہے۔ یہ آیت منافقوں کے حق میں اتری تھی مگر آج اس کا اطلاق خود مسلمانوں پر ہورہا ہے۔ رسول اور امت کی ذمہ داری : آگے پھر ارشاد ہوتا ہے قل اے پیغمبر ! آپ ان لوگوں سے فرما دیں۔ اطیعوا اللہ واطیعوالرسول کہ جھوٹے وعدے اور جھوٹی قسمیں کھانے کے بجائے اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کا حکم مانو۔ وہ جس کام کا حکم دیں اسے کر گزرو۔ اور جس کام سے منع کریں۔ اس سے رک جائو۔ اس کے بجائے فان تولوا اگر اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے روگردانی کرو گے تو یاد رکھو ! فانما علیہ ماحمل تو رسول کے ذمے تو وہی کچھ ہے جو اس پر بوجھ ڈالا گیا۔ رسول کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اللہ کے احکام تم تک پہنچادے اور پ ھر آگے ان کو قبول کرکے منزل مقصود تک پہنچتے ہو یا نہیں ، یہ رسول کی ذمہ داری نہیں ہے۔ رسول کے لئے یہی حکم ہے بلغ ما انزل الیک من ربک (مائدہ 67) اے پیغمبر ! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے آپ اسے آگے پہنچادیں۔ اور پھر آگے حضور ﷺ نے امت کو حکم دیا۔ (سنن دارمی ص 111 ج 1 وترمذی ص 382 (فیاض) بلغو ا عنی ولوایۃ لوگو ! تمہیں میری ایک بات بھی معلوم ہو تو اسے اگلے لوگوں تک پہنچائو۔ فرمایا کہ رسول کا کام تو یہ ہے کہ وہ میرے احکام تم تک پہنچا دیے۔ وعلیکم ماحملتم اور تمہاری ذمہ داری وہ ہے جو تم پر ڈالی گئی ہے یعنی اللہ کے حکم اور رسول کے فرمان کو تسلیم کرکے اس پر عمل پیرا ہوجائو اور یہ احکام دوسروں تک بھی پہنچائو۔ مطلب یہ کہ رسول کا کام پہنچانا ہے ، منوانا نہیں۔ اگر تم روگردانی کرو گے تو اس کے ذمہ دار تم خود ہوگے۔ اطاعت زینہ ہدایت : ارشاد ہوتا ہے ، لوگو ! غور سے سن لو وان تطیعوہ تھتدوا اگر تم اللہ کے رسول کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاجائو گے۔ اور اگر نہیں مانو گے تو ہدایت سے محروم ہوجائو گے ، اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ شقی اور بدبخت بن کو جہنم رسید ہوگے۔ صاحب تفسیر روح المعانی سے مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) نے بیان کیا ہے کہ ایک بزرگ ابوعثمان (رح) کا وقل ہے من امبر السنۃ علی نفسہ قولا وقعلا نطق باالحکمۃ جس نے قولی اور فعل طور پر سنت کو اپنے آپ پر حاوی کرلیا تو اس کی زبان سے ہمیشہ حکمت کی باتیں نکلیں گی۔ گویا سنت پر عمل کرنا کامیابی کی دلیل ہے۔ فرمایا وما علی الرسول الا البلغ المبین ، رسول کے ذمے تو صرف کھول کر پہنچا دینا ہے اور باقی کام تمہارے ذمے ہے۔ اب تمہارا فرض ہے کہ رسول کی بات کو تسلیم کرو اور اس کی تعمیل کرو۔ تاکہ تم فائزالمرام بن جائو۔
Top