Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Noor : 55
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١۪ وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا١ؕ یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْئًا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ
وَعَدَ اللّٰهُ
: اللہ نے وعدہ کیا
الَّذِيْنَ
: ان لوگوں سے
اٰمَنُوْا
: جو ایمان لائے
مِنْكُمْ
: تم میں سے
وَعَمِلُوا
: اور کام کیے
الصّٰلِحٰتِ
: نیک
لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ
: وہ ضرور انہیں خلافت دے گا
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
كَمَا
: جیسے
اسْتَخْلَفَ
: اس نے خلافت دی
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
مِنْ قَبْلِهِمْ
: ان سے پہلے
وَلَيُمَكِّنَنَّ
: اور ضرور قوت دے گا
لَهُمْ
: ان کے لیے
دِيْنَهُمُ
: ان کا دین
الَّذِي
: جو
ارْتَضٰى
: اس نے پسند کیا
لَهُمْ
: ان کے لیے
وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ
: اور البتہ وہ ضرور بدل دے گا ان کے لیے
مِّنْۢ بَعْدِ
: بعد
خَوْفِهِمْ
: ان کا خوف
اَمْنًا
: امن
يَعْبُدُوْنَنِيْ
: وہ میری عبادت کریں گے
لَا يُشْرِكُوْنَ
: وہ شریک نہ کریں گے
بِيْ
: میرا
شَيْئًا
: کوئی شے
وَمَنْ
: اور جس
كَفَرَ
: ناشکری کی
بَعْدَ ذٰلِكَ
: اس کے بعد
فَاُولٰٓئِكَ هُمُ
: پو وہی لوگ
الْفٰسِقُوْنَ
: نافرمان (جمع)
اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے ہیں ، اور جنہوں نے اچھے اعمال کیے ہیں کہ وہ ضرور ان کو خلافت بخشے گا زمین میں جیسا کہ اس نے خلافت بخشی ان لوگوں کو جوان سے پہلے گزرے ہیں۔ اور وہ ضرور جما دے گا ان کے لئے ان کے دین کو جو اللہ نے ان کے لئے پسند کیا ہے۔ اور ضرور تبدیل کردے گا ، وہ (اللہ ) ان کے لئے امن کی حالت کو خوف کے بعد ۔ یہ صرف میری ہی عبادت کریں گے اور نہ شریک ٹھہرائیں گے میرے ساتھ کسی کو۔ اور جس نے ناشکرگزاری کی اس کے بعد ، پس یہی لوگ ہیں نافرمان
ربط آیات : گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے منافق قسم کے لوگوں کی مذمت بیان کی کہ جب ان کے تنازعات کے تصفیہ کے لئے ان کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اعراض کرتے ہیں۔ پھر اگر انہیں اپنی مطلب براری کی توقع ہو تو آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرمایا یہ بڑے ظالم قسم کے لوگ ہیں۔ ان کے دلوں میں نفاق بھرا ہوا ہے۔ یا یہ شک میں سرگرداں ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے سے ان پر زیادتی ہوگی۔ دوسری طرف اللہ نے اہل ایمان کے متعلق فرمایا کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف دعوت دی جاتی ہے تو فوراً سمعنا واطعنا کہہ دیتے ہیں ، یعنی ہم نے سن لیا۔ اور اطاعت کے لئے حاضر ہیں۔ فرمایا یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ اس کے بعد اللہ نے ایک عام اصول بیان فرمایا کہ جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا اور اس کے دل میں خشیت الٰہی اور تقویٰ ہوگا ، ایسے ہی لوگ مراد کو پہنچنے والے ہوں گے۔ اس کے بعد پھر منافقوں کا کردار بیان کیا کہ قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول کے حکم پر ضرور نکلیں گے مگر اللہ نے فرمایا کہ قسمیں اٹھانے کی ضرورت نہیں بلکہ دستور کے مطابق تمہاری اطاعت مطلوب ہے۔ پھر اگر تم اللہ اور رسول کی اطاعت سے روگردانی کرو گے تو یاد رکھو اس میں تمہارا ہی نقصان ہے کیونکہ رسول کے ذمے تو فقط پہنچا دینا ہے۔ اس نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے اور تمہیں اللہ کے احکا پہنچا دیے ہیں۔ اب ان احکام کو تسلیم کرنا اور ان پر عمل کرنا تمہارا فریضہ ہے اگر اعراض کرو گے تو خود عنداللہ ذمہ دار ٹھہرو گے۔ خلافت ارضی کا وعدہ : اب آج کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے ایک بہت بڑی نعمت خلافت ارضی کا وعدہ فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وعداللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصلحت اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو ایمان لائے تم میں سے اور جنہوں نے اچھے اعمال انجام دیے لیستخلفنھم فی الارض کہ وہ انہیں ضرور زمین میں خلافت عطا کرے گا کما استخلف الذین من قبلھم جس طرح اس نے خلافت بخشی ان سے پہلے لوگوں کو تاریخی لحاظ سے یہ سورة مبارکہ 5 ھ یا 6 ھ میں غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر نازل ہوئی ، لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے خلافت ارضی کا وعدہ ان لوگوں سے کیا جو اس وقت تک ایمان لاچکے تھے۔ امام ابوبکر حبصاص (رح) اپنی تفسیر ” احکام القرآن “ میں رقمطراز ہیں کہ موعودہ خلافت کے مصداق چاروں خلفائے راشدین ؓ ہیں جو کہ اس آیت کے نزول کے وقت ایمان کی دولت سے مشرف ہوچکے تھے۔ جہاں تک پہلے لوگوں کو خلافت عطا کرنے کا سوال ہے تو اس سے قوم عمالقہ مراد ہے جس کی جگہ پر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو خلافت ارضی کا منصب عطا کیا ہے۔ اور حضرت دائود (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو خلافت ارضی پر فائز کیا۔ تاریخ خلافت : اس وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے یکے بعد دیگرے چاروں خلفائے راشدین ؓ کو خلافت پر متمکن کیا۔ پہلے دو خلفاء کے زمانے میں دین کا بڑا کام ہوا ، اسلام کی بنیادیں مستحکم ہوئیں اور اسلامی ریاست کی سرحد میں عرب سے نکل کر عجم تک پھیل گئیں۔ خلیفہ ثالث حضرت عثمان ؓ کی خلافت کے پہلے چھ سال بھی امن وامان میں گزرے مگر اس کے بعد یہودیوں اور منافقوں کی سازش کی وجہ سے قصر خلافت میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں۔ تاہم اس دور میں بھی بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دیے گئے۔ پھر چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی ؓ کے زمانے میں مسلمانوں کے آپس کے اختلافات بہت بڑھ گئے مگر انہوں نے بھی پانچ سالہ دور میں سابقہ تین ادوار کے نمونے کو برقرار رکھا۔ حضور ﷺ (ترمذی ص 323 وقرطبی ص 298 ج 12 (فیاض) نے فرمایا تھا ” الخلافۃ بعدی ثلاثون سنۃ “ یعنی میرے بعد خلافت علیٰ منہاج النبوت تیس سال تک قائم رہیگی۔ چناچہ چاروں خلفائے راشدین ؓ اور حضر ت حسن ؓ کے چھ ماہ کو شمار کیا جائے تو پورے تیس سال بنتے ہیں۔ فرمایا اس عرصہ کے بعد خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوجائے گی ، تاہم ابتدائی دور ملوکیت عادلہ کا ہوگا۔ چناچہ حضور ﷺ کی پیشین گوئی پوری ہوئی۔ حضرت حسن ؓ کے بعد حضرت معاویہ ؓ کا دور خلافت میں شمار نہیں ہوتا ، البتہ یہ ملوکیت عادلہ میں شمار ہوتا ہے۔ آپ نے بیس سال تک گورنری اور بیس سال تک خلافت کا فریضہ انجام دیا۔ آپ کے زمانے میں اختلافات ختم ہوچکے تھے اور پوری امت مسلمہ متفق تھی۔ ان حالات سے خلافت راشدہ برحق ثابت ہوتی ہے۔ اور جو رافضی یا ناصبی اس خلافت میں شک کرتے ہیں وہ گمراہ اور اسلام کے دشمن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جو وعدہ فرمایا تھا ، وہ خلفائے راشدین ؓ پر پورا ہوگیا اور چاروں خلفاء نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق امور خلافت کو ٹھیک ٹھیک انجام دیا۔ ملوکیت کا زمانہ : اس کے بعدچودہ سو سالہ تاریخ میں مسلمانوں کے حالات خراب ہی رہے ہیں۔ ملوکیت کے دوران جبرواستبداد کا دور دورہ رہا ہے۔ درمیان میں کوئی عمر بن عبدالعزیز (رح) جیسا اچھا حکمران آگیا تو کام درست ہوگیا۔ آپ کے زمانہ کو تو محدثین اور فقہاء خلافت راشدہ میں شمار کرتے ہیں کیونکہ آپ نے انہی کے نقش قدم پر خلافت کی ذمہ داری پوری کی۔ لیکن آپ کے بعد اموی خاندان پھر ذاتی منفعت میں پڑگیا ۔ اس خاندان کے بعد عباسیوں نے ساڑھے چھ سو سال تک حکومت کی لیکن وہ بھی مکمل ملوکیت تھی۔ وہی عیش و آرام اور وہی جاہ پسندی۔ چونکہ اس سارے دور میں سب سے اعلیٰ قانون قرآن کو ہی تسلیم کیا جاتا تھا۔ لہٰذا اجتماعی طور پر قرآن کے خلاف کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ مگر ذاتی طور پر ایک دوسرے کو مغلوب کرنے ہی کی کوشش کرتے رہے۔ اس زمانے میں بھی بعض اچھے لوگ پیدا ہوئے ہیں بعض ملوک بھی ذاتی طور پر صاحب علم اور اچھے آدمی تھے ، انہوں نے اچھے کام کرنے کی کوشش بھی کی ہے مگر نظام حکومت کو تبدیل نہیں کرسکے۔ وہاں خلافت کی بجائے ملوکیت ہی چلتی رہی۔ کردوں میں سلطان صلاح الدین ایوبی (رح) نے ذاتی طور پر بڑے کار ہائے نمایاں انجام دے خاص طور پر صلیبی جنگوں میں انہوں نے عیسائیوں کے خلاف بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ ادھر برصغیر میں سلطان ناصر الدین التمش (رح) کا دور بڑا اچھا دور تھا مگر وہ بھی ملوک ہی تھے۔ اور نگ زیب عالمگیر (رح) نے بڑے اچھے کام کیے مگر نظام خلافت کو جاری نہ کرسکے۔ ترکوں میں سلطان محمد خامس (رح) اور سلطان سلیم (رح) کی حالت اچھی رہی مگر بعد والے انحطاط میں چلے گئے اور بڑی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ ملوکیت ایک بڑا عذاب ہے جو فحاشی ، عیاشی اور لہو ولعب کی بنا پر اصل مقصد سے بہت دور لے جاتا ہے۔ ادھر خلافت کے لفظ سے ہی واضح ہے کہ اس میں من مانی نہیں ہوتی ، بلکہ خلیفہ رسول اللہ کا نائب ہوتا ہے اور وہ وہی کام کرتا ہے جو اللہ کے نبی نے کئے۔ وہ دین کو سربلند کرتے ہیں جب کہ ملوک مذہب کو اپنے تابع بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ علمائے سوء سے غلط فتوے لے کر دین میں خرابیاں پیدا کرتے ہیں ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو خلافت عطا کرنے کا جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کردیا اور اس کی ابتداء خلفائے راشدین سے ہوئی۔ دین کی پختگی : اس آیت کریمہ میں اللہ نے اہل ایمان کے ساتھ دوسرا وعدہ یہ فرمایا ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضی لھم اور وہ ضرور جما دیگا پختہ کردے گا ان کے لئے ان کے دین کو جو اللہ نے ان کے لئے پسند کیا ہے۔ یہ وعدہ بھی اللہ نے خلفائے راشدین ؓ کے زمانہ میں پورا کردیا۔ 38 ھ میں حضرت علی ؓ اور امیر معاویہ ؓ کے درمیان واقعہ صفین پیش آیا۔ اس وقت تک نصف دنیا پر اسلام کا غلبہ ہوچکا تھا اور باقی نصف دنیا میں اتنی جرات نہیں تھی جو وہ مسلمانوں کا مقابلہ کرسکتے۔ اس دور تک ایرانی ختم ہوچکے تھے۔ البتہ رومیوں میں قدرے دم خم باقی تھے مگر مسلمانوں جیسی قوت کسی کے پاس نہیں تھی۔ واقعہ صفین سے اسلام کی اجتماعی تحریک کو سخت نقصان پہنچا اور عالمی تحریک رک گئی۔ دو سال بعد حضرت علی ؓ کی شہادت کے ساتھ ہی خلافت راشدہ کا دور تو ختم ہوگیا تاہم اسلام کے پچاس سالہ دور کی کامیابیوں سے مسلمان مزید ساڑھے چھ سو سال تک فائدہ اٹھاتے رہے۔ امویوں کے زمانہ میں بڑی جنگیں لڑی گئیں۔ پھر عباسیوں کے دور میں علم اور سائنس کی بڑی ترقی ہوئی۔ اس دوران میں بہت کچھ ہوا مگر اجتماعی نظام درست نہ ہوا اور بدستور ملوکیت کے سائے میں چلتا رہا۔ اب حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق اسلام کو قرب قیامت میں ہی عروج نصیب ہوگا۔ بہرحال اللہ نے دین کو مستحکم کردیا جس کے اثرات آج تک مسلمانوں میں چلے آرہے ہیں۔ دنیا میں اس وقت ایک ارب مسلمان موجود ہیں۔ پچاس کے قریب مسلمانوں کی ریاستیں بھی ہیں مگر خلافت کے نظام سے ہٹ جانے کی وجہ سے دنیا میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ، سب غیروں کے دست نگر ہیں۔ تاہم دین کی جھلک ضرور نظر آتی ہے۔ خوف کے بعد امن : اللہ نے تیسرا وعدہ یہ فرمایا ولیبدلنھم من بعد خوفھم امنا ، کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے خوف کو ضرور امن میں بدل دیگا۔ ابتدائی دور میں مسلمانوں کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سورة کے نزول کے وقت بھی مسلمان سخت خوف اور خطرہ کی حالت میں تھے۔ ساری دنیا مٹھی بھر مسلمانوں کی مخالف تھی۔ سورة نساء اور دوسری سورتوں میں بھی موجود ہے کہ مسلمان دشمن کے خوف سے ہر وقت ہتھیار بندرہتے تھے۔ حتیٰ کہ نماز کے دوران بھی ہتھیار اتارنے کی اجازت نہ تھی۔ خود حضور ﷺ نے دس مرتبہ صلوٰۃ الخوف ادا فرمائی ہے۔ ایک طرف مشرک جانی دشمن تھے اور دوسری طرف یہودیوں اور منافقوں نے سازشوں کا جال پھیلارکھا تھا۔ قبیلہ مضر کے مشرک خاص طور پر جانی دشمن تھے۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ وہ ان کی خوف کی حالت کو امن کی حالت میں تبدیل کردے گا۔ حضور ﷺ (تفسیر کبیر ص 21 ج 6 (فیاض) نے بھی پیشگوئی فرمائی تھی کہ مسلمانوں پر ایک ایسا پرامن دور بھی آئے گا کہ ایک عورت صنعاء سے حضرت موت تک اکیلی سفر کرے گی مگر سوائے خدا کے خوف کے اسے کوئی خوف نہیں ہوگا۔ حضرت عدی ؓ بن حاتم طائی کہتے ہیں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے حضور کی پیشین گوئی کو پورا ہوتے دیکھا۔ زیورات سے آراستہ ایک تن تنہا عورت اونٹ پر سفرکررہی تھی ، مگر کوئی چور ، ڈاکو یا دشمن تعرض کرنے والا نہیں تھا۔ ایفائے وعدہ کی شرط : بہرحال اللہ نے اہل ایمان سے تین وعدے فرمائے (1) خلافت ارضی (2) دین کا استحکام اور (3) امن کی حالت ۔ مگر ساتھ شرط بھی عائد کردی کہ یعبدوننی لا یشرکون بی شیئا لوگ صرف میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بنائیں گے۔ جب تک مسلمان اس شرط پر قائم رہے اللہ نے تینوں وعدے پورے کئے۔ پھر جوں جوں اس شرط کی خلاف ورزی ہوتی گئی۔ اللہ کے یہ انعامات بھی اٹھتے گئے۔ پھر نہ خلافت ارضی رہی نہ دین کا استحکام باقی رہا ، اور نہ ہی امن قائم رہا۔ آج پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمانوں کے حالات ہمارے سامنے ہیں جب سے اس شرط کو توڑا ہے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ کفران نعمت : فرمایا ومن کفربعدذلک جس نے اس کے بعد کفران نعمت یعنی ناشکر گزاری کی فاولئک ھم الفسقون پس یہی لوگ نافرمان ہیں۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ کے ان انعامات کے اولین ناقدر دان حضرت عثمان ؓ کے خلاف سازش کرنے والے تھے۔ یہ کفران نعمت کا نتیجہ تھا کہ آپ کی شہادت کے بعد مسلمانوں کا آپس میں ایسا قتال شروع ہوا جو قیامت تک جاری رہے گا۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کہتے ہیں کہ سازشی ٹولہ دو تین ہزار افراد پر مشتمل تھا جن میں کچھ مصری ، بصری ، کوفی اور عراق تھے۔ دراصل یہ یہودیوں اور منافقوں کی سازش تھی جو خود تو پیچھے رہتے تھے اور دوسروں کو آگے کر رکھا تھا۔ سازشیوں نے حضرت عثمان ؓ کی برطرفی کا مطالبہ کیا مگر آپ نے یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا اور فرمایا کہ حضور ﷺ نے میرے متعلق فرمایا تھا کہ اگر تم نے خدا کی پہنائی ہوئی قمیص کو اتار دیا تو جہنم میں جائو گے ، لہٰذا میں خلافت کی یہ قمیض کیسے اتارسکتا ہوں۔ آپ کا کمال یہ تھا کہ آپ نے مخالفین کے خلاف قتال بھی نہیں کیا حالانکہ آپ ایسا کرسکتے تھے۔ کہتے تھے میں اپنی جان دے دوں گا۔ مگر مسلمانوں کا خون نہیں بہائوں گا۔ آج تو حضرت عثمان ؓ کو بر بھلا کہنے والے بھی موجود ہیں مگر یہ ساری حقیقت قیامت کو ظاہر ہوگی کہ حق پر کون تھا۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ مخالفین سے کہتے تھے کہ خدا کے بندو ! جب سے رسول اللہ ﷺ مدینہ میں تشریف لائے ہیں اللہ کے فرشتوں نے اس سرزمین کو گھیر رکھا ہے اور خدا تعالیٰ کی بیشمار رحمتیں اس سر زمین پر نازل ہورہی ہیں۔ اگر تم نے خلیفہ راشد کو شہید کردیا تو اللہ کے فرشتے ناراض ہو کر چلے جائیں گے اور پھر کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ جو تلوار حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے لئے میان سے نکلی ، وہ پھر واپس نہیں گئی ، اور پوری دنیا میں آج تک قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ اتفاق و اتحاد کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ہر شخص دوسرے کو ختم کرکے اپنا راستہ صاف کرنا چاہتا ہے یہ کمال صرف حضرت عثمان ؓ کا تھا کہ انہوں نے اپنی ذات کے لئے مسلمانوں کا ایک قطرہ خون نہیں بہنے دیا۔ بہرحال اللہ کی نعمتوں کے اولین ناقدردان حضرت عثمان ؓ کے مخالفین تھے اور یہ سارے کے سارے کلمہ گو تھے ۔ آپ کی شہادت کے بعد کربلا کے میدان میں اہل بیت کے قتل کا بازار گرم کیا گیا۔ یہ ایسا سلسلہ ہے جو حضرت مسیح (علیہ السلام) اور امام مہدی (رح) کے ظہور تک جاری رہیگا۔ فلاح کے تین اصول : آگے اللہ نے خلاصے کے طور پر فلاں و کامیابی کے تین اصول بیان فرمائے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے واقیموا الصلوٰۃ واتوا الزکوٰۃ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو………واطیعوالرسول… اور اس کے رسول کی فرمانبرداری پر کار بند رہو۔ ان تین چیزوں میں نماز بدنی عبادت ہے جب کہ زکوٰۃ مالی عبادت ہے۔ اور دین کا سارا دارومدار اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری پر ہے۔ ان تین باتوں پر کار بند ہونا فلاح کی ضمانت ہے۔ اگر ان کے خلاف کرو گے تو نہ فلاح حاصل ہوگی اور نہ نجات ملیگی۔ فرمایا ان اصولوں کو اپنالو لعلکم ترحمون تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت و بخشش ان اصولوں کی پابندی کے ساتھ مشروط ہے۔ اہل ایمان کے لئے تسلی : اس سورة کے نزول کے وقت دنیا میں کافروں کو غلبہ حاصل تھا۔ اور مسلمان ان کے ظلم وستم برداشت کر رہے تھے۔ اللہ نے ایسے حالات میں تسلی دیتے ہوئے فرمایا لا تحسبن الذین کفروا معجزین فی الارض آپ ان کافروں کے متعلق یہ گمان نہ کریں کہ وہ زمین میں عاجز کرنے والے ہیں یعنی وہ خدائی پروگرام کو ناکام بنادیں گے۔ فرمایا ایسا نہیں ہوگا۔ ان کا وقتی غلبہ محض استدراج ہے ، انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہلت مل رہی ہے۔ جب یہ مہلت ختم ہوجائے گی تو یہ لوگ نہ صرف دنیا میں مغلوب ہوجائیں گے بلکہ جب قیامت کو خدا تعالیٰ کے ہاں پہنچیں گے تو پھر وماوھم النار ان کا بالآخر ٹھکانا جہنم ہی ہے ولبئس المصیر اور یہ لوٹ کر جانے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کافر امریکی ہو ، برطانوی ، روسی ہو یا جرمن ان کی اچھی حالت دیکھ کر رشک نہیں کرنا چاہیے۔ چند روز کی بات ہے ، آخر کار یہ جہنم کے کندہ ناتراش ہے جو حضرت مسیح (علیہ السلام) اور امام مہدی (رح) کے ظہور تک جاری رہیگا۔ فلاح کے تین اصول : آگے اللہ نے خلاصے کے طور پر فلاح و کامیابی کے تین اصول بیان فرمائے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے واقیموا الصلوٰۃ واتوالزکوٰۃ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو……واطیعوالرسول……اور اس کے رسول کی فرمانبرداری پر کار بند رہو۔ ان تین چیزوں میں نماز بدنی عبادت ہے جب کہ زکوٰۃ مالی عبادت ہے۔ اور دین کا سارا دارومدار اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری پر ہے۔ ان تین باتوں پر کار بند ہونا فلاح کی ضمانت ہے۔ اگر ان کے خلاف کرو گے تو نہ فلاح حاصل ہوگی اور نہ نجات ملیگی۔ فرمایا ان اصولوں کو اپنا لو لعلکم ترحمون تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت و بخشش ان اصولوں کی پابندی کے ساتھ مشروط ہے۔ اہل ایمان کے لئے تسلی : اس سورة کے نزول کے وقت دنیا میں کافروں کو غلبہ حاصل تھا اور مسلمان ان کے ظلم وستم برداشت کر رہے تھے۔ اللہ نے ایسے حالات میں تسلی دیتے ہوئے فرمایا لا تحسبن الذین کفروا معجزین فی الارض آپ ان کافروں کے متعلق یہ گمان نہ کریں کہ وہ زمین میں عاجز کرنے والے ہیں یعنی وہ خدائی پروگرام کو ناکام بنادیں گے۔ فرمایا ایسا نہیں ہوگا۔ ان کا وقتی غلبہ محض استدراج ہے ، انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہلت مل رہی ہے۔ جب یہ مہلت ختم ہوجائے گی تو یہ لوگ نہ صرف دنیا میں مغلوب ہوجائیں گے بلکہ جب قیامت کو خدا تعالیٰ کے ہاں پہنچیں گے تو پھر وماوھم النار ان کا بالآخر ٹھکانا جہنم ہی ہے ولبئس المصیر اور یہ لوٹ کرجانے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کافر امریکی ہو ، برطانوی ، روسی ہو یا جرمن ان کی اچھی حالت دیکھ کر رشک نہیں کرنا چاہیے۔ چند روز کی بات ہے ، آخر کار یہ جہنم کے کندہ ناتراش ہی بنیں گے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے ساتھ تین چیزوں کا وعدہ کیا۔ اور پھر اس کے ساتھ وعید بھی سنائی کہ اگر کفران نعمت کرو گے تو فاسق بن جائو گے۔ اگر نماز ادا کرتے رہوگے ، زکوٰۃ دیتے رہو گے ، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ راضی ہوگا ، تم پر اپنی رحمتیں نازل کرے گا اور اس کے وعدے بھی پورے ہوتے رہیں گے ، ورنہ وہ اپنے انعامات کا دروازہ بند کرنے پر بھی قادر ہے۔
Top