بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-Ankaboot : 1
الٓمّٓۚ
الٓمّٓ : الف۔ لام۔ میم
الم
نام اور کوائف اس سورة مبارکہ کا نام اس کی آیت 014 میں آمدہ لفظ عنکبوت سے مآخوذ سورة العنکبوت ہے۔ اللہ نے اس آیت میں شرک کے بودہ پن کو مکڑی کے جالے کے کے ساتھ تشبیہ دے کر بات سمجھائی ہے کہ اللہ کے علاوہ دوسرے کو معبود ٹھہرانے کی مثال مکڑی کے جالے کی طرح ہے جو کہ کمزور ترین گھر ہوتا ہے۔ ترتیب نزول کے اعتبار سے یہ سورة الروم کے بعد نازل ہوئی مگر ترتیب تلاوت میں اس کو مقدمہ رکھا گیا ہے۔ یہ سورة مکی دور کے اس زمانہ میں نازل ہوئی جب کہ اہل ایمان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے ، چناچہ اللہ نے ابتدائی آیات میں ہی مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ ایمان قبول کرنے کے بعد آزمائش سے گزرنا پڑے گا ، اور جو اس کسوٹی پر پورا اترے گا ، وہی ابدی فلاح پائے گا ۔ اس سورة مبارکہ کی 96 آیات اور سات ، رکوع ہیں اور یہ 087 الفاظ اور 5414 حروف پر مشتمل ہے۔ مضامین سورة اس سورة کا خاص موضوع ایمان اور ابتلاء ہے۔ ایمان کے ساتھ آزمائش ضروری ہے۔ اس ضمن میں اللہ نے چند ایک نبیوں کا ذکر بھی کیا ہے جن پر بڑی بڑی آزمائش آئیں ، مگر انہوں نے صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا استقلال تو ضرب المثل بن چکا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) پر بہت سی آزمائش آئیں اور وہ ہر آزمائش پر پورا اترے۔ حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کے واقعات گزشتہ سورة میں بیان ہوچکے ہیں اور اس سورة میں بھی ان کے صبر و استقلال کا ذکرآ رہا ہے ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے 1 ؎ اشد البلاء ً علی الانبیاء ثم الامثل فالا مثل سب سے زیادہ آزمائشیں انبیاء (علیہم السلام) پر آئی ہیں ۔ پھر ان لوگوں پر جو ان کے قریب ہوتے ہیں ۔ حضور ﷺ کا یہ فرمان 2 ؎ بھی 1 ؎۔ ابن کثیر ص 404 ج 3 و قرطبی 523 ج 31 ۔ 2 ؎۔ ابن کثیر ص 404 ج 3 و قرطبی ص 523 ج 31 (فیاض) ہے یبتلی الرجل علی قدر دینہ آدمی کی آزمائش اس کے دین کے مرتبے کے مطابق ہوتی ہے ۔ دین میں جس قدر پختگی ہوگی ، آزمائش بھی اتنی ہی کڑی ہوگی ۔ اس سورة مبارکہ میں جہاد اور ہجرت کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور ان دونوں چیزوں کو اہل ایمان کے لیے مدار فوز و فلاح قرار دیا گیا ہے اس کے علاوہ دیگر مکی سورتوں کی طرح توحید ، رسالت ، بعث بعد الموت ، جزائے عمل اور استقامت علی الدین کے باعث ہی بیان ہوئے ہیں ۔ سابقہ سورة القصص کی طرح فرعون ، ہامان اور قارون کا ذکر اس سورة میں بھی آ رہا ہے۔ انسانی سوسائٹی کے یہ تین کردار مختلف صفات کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ مستنبد اور جابر لوگوں کی نمائندگی فرعون کرتا ہے۔ نوکر شاہی یعنی بیورو کریسی کا نمائندہ ہامان ہے جب کہ سرمایہ دار طبقہ کی نمائندگی قارون کرتا ہے۔ عام طور پر ہر طبقات دین کے مخالفین میں شمار ہوتے ہیں ۔ چونکہ دین حق کی موجودگی میں ان لوگوں کی خواہشات کی تکمیل ممکن نہیں ہوتی ۔ لہٰذا انبیاء کی تاریخ میں ہی طبقات مخالفت میں پیش پیش نظر آتے ہیں ۔ اللہ نے ان کی مثال بھی بیان فرمائی ہے۔ حروف مقطعات اس سورة مبارکہ کی ابتداء بھی حروف مقطعات الم سے ہوتی ہے بعض مفسرین 1 ؎ فرماتے ہیں کہ اس مقام پر الف سے مراد اللہ تعالیٰ کا اسم پاک ہے۔ ل سے مراد لطیف اور لطف ہے جب کہ م سے مراد مجید اور مجد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ لطیف ہے اور اس کی صفت لطیف یعنی مہربانی اور باریکی ہے۔ اسی طرح بزرگی اور عظمت بھی خدا تعالیٰ ہی کا حق ہے۔ غرضیکہ ان حروف میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ انسان کا فرض ہے کہ وہ پورے اخلاص کے ساتھ اپنا رخ خدا تعالیٰ کی اطاعت کی طرف موڑ دے گا اگر ایسا کریگا ۔ تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور لطف حاصل ہوگا اور اگر اطاعت خداوندی میں کوتاہی کریگا تو نقصان اپنا ہی ہوگا ، کیونکہ خدا تعالیٰ تو ہر حالت میں بزرگی والا ہے ۔ اس کی عزت و احترام میں تو کوئی فرق نہیں آئے گا ۔ بعض مفسرین 2 ؎ فرماتے ہیں الم سورة ہذا کا عنوان ہے اور وہ اس طرح کہ الف سے مراد تبد اء ل سے لازم اور م سے مطلوب مراد ہے ۔ گویا مطلب یہ ہوا کہ آزمائش ایک لازمی چیز ہے جو اہل ایمان سے ہر حالت میں مطلوب ہے۔ 1 ؎۔ جریر طبری ص 88 ج 1 و تفسیر کبیر ص 5 ج 3 ۔ 2 ؎۔ الفوز الکبیر ص 801 ، 901 (فیاض) امام شاہ ولی اللہ محدث 1 ؎ دہلوی تشفی طریقے پر الم سے عالم غیب سے آنے والے وہ علوم مراد لیتے ہیں جو اس مادی جہان میں آ کر لوگوں کے برے اعمال ، اخلاق اور عادات سے ٹکراتے رہتے ہیں ، تا ہم امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں 2 ؎ کہ حروف مقطعات کی تحقیق میں نہیں پڑنا چاہئے مبادا کہ انسان بہک جائے ۔ لہٰذا زیادہ سلامتی والی صورت میں ہے کہ اللہ اعلم بمراد بذلک امنا وصدقنا ان حروف کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ، اور ان حروف سے جو بھی مراد ہے ہمارا اس پر ایمان ہے اور ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں ، ظاہر ہے کہ انسانوں کو ہر چیز کا علم تو نہیں ہے ، چناچہ ان حروف کے متعلق بھی یہی سمجھنا چاہئے کہ ہمیں ان کا ٹھیک ٹھیک علم نہیں ہے ، ان کے مفہوم کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ انسانوں کی لازمی آزمائش ارشاد ہوتا ہے احسب الناس ان یترکو کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ وہ چھوڑ دیئے جائیں گے ان یقولو امنا محض اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں وھم لا یفتنون اور وہ آزمائے نہیں جائیں گے ، فرمایا ایسی بات نہیں ہے ۔ کوئی شخص محض زبانی دعویٰ ایمان کی بدولت آزمائش سے بچ نہیں سکتا ۔ ذرا سابقہ اقوام کی طرف نظر مار کر دیکھ لو ۔ ولقد فتنا الذین من قبلھم ہم نے آزمایا ان لوگوں کو بھی جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جب سابقہ اقوام آزمائش سے نہیں بچ سکیں تو ان کو بھی ویسے ہی نہیں چھوڑ دیا جائے گا ۔ بلکہ ان کی بھی ضرور آزمائش ہوگی اور پھر اس کے نتیجے میں فلیعلمن اللہ الذین صدقوا اللہ تعالیٰ ضرور ظاہر کر دے گا ان لوگوں کو جو سچے ہیں ولیعلمن لکذبین اور ان کو بھی ظاہر کر دے گا جو جھوٹے ہیں۔ علم کا عام فہم معنی تو جانتا ہوتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ سچے اور جھوٹے لوگوں کو ازل سے ابد تک جانتا ہے مگر یہاں پر علم سے مراد ظاہر کرنا ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ کسی فرد یا قوم کو امتحان میں ڈالتا ہے تو پھر اس کے نتیجے میں متعلقہ فرد یا قوم 1 ؎۔ الفوز الکبیر ص 382 جلالین ص 4 (فیاض) کی سچائی یا جھوٹ کو لوگوں کے سامنے ظاہر کردیتا ہے کہ ان کی پوزیشن یہ ہے ۔ عام لوگوں کو بھی ایک دوسرے کے حق و باطل کا علم ہوجاتا ہے اور ہر شخص جان لیتا ہے کہ فلاں شخص موحد ہے یا مشرک اور فلاں مخلص ہے یا منافق اور فلاں دھوکہ باز ہے یا ایمان دار ، غرضیکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کی آزمائش ان کی حیثیت کی وضاحت کے اظہار کے لیے کرتا ہے۔ برائی پر لازمی گرفت ارشاد ہوتا ہے امر حسب الذین یعلمون السیات ان یسبقونا کیا گمان کرتے ہیں وہ لوگ جو برائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں کہ وہ ہم سے بچ جائیں گے ؟ اکثر لوگ معاد کی طرف سے غافل ہوتے ہیں ۔ آخرت کے لیے کچھ تیاری نہیں کرتے جسکی وجہ سے ایسا گمان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بالکل محفوظ بیٹھے ہیں ۔ فرمایا اگر وہ ایسا خیال کرتے ہیں تو ساء ما یحکمون تو بہت ہی برا فیصلہ کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا ، وہ بندوں کو مہلت ضرور دیتا ہے ، مگر بالآخر مجرموں کو پکڑ لیتا ہے۔ ہر شخص کی نیت عمل اور کردار اس کے علم میں ہے ، لہٰذا وہ کسی کو جزا یا سزا کے بغیر نہیں چھوڑتا ۔ اللہ کے حضور پیشی آگے ارشاد ہوتا ہے من کان یرجوا لقاء اللہ جو شخص امید رکھتا ہے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی فان اجل اللہ لات تو اللہ کا مقرر کردہ وقت تو ضرور آنے والا ہے۔ وہ ٹل نہیں سکتا ۔ رجی امیدوار خوف دونوں معنوں میں آتا ہے ، یعنی جو شخص اللہ کی ملاقات کی امید رکھتا ہے یا اس کی ملاقات سے خوف کھاتا ہے۔ دونوں معنی درست ہیں ، اللہ تعالیٰ سے ملاقات یعنی اس کے حضور پیشی نو ایمان کا جزو بھی ہے یومن باللہ ولقاء ہ جو ایمان لاتا ہے اللہ پر اور اس کی ملاقات پر کہ ایک دن ضرور اس کے سامنے حاضر ہوتا ہے اور پھر اللہ کے ساتھ بالمشافہ گفتگوہو گی ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے لیس بینہ وبینہ ترجمان یعنی اللہ اور بندے کے درمیان کوئی ترجمان بھی نہیں ہوگا ۔ سورة النمل میں ہے یوم تاتی کل نفس تجادل عن نفسھا ( آیت : 111) ہر نفس کو اپنی طرف سے خود جواب دینا پڑے گا وہاں کوئی وکیل پیش نہیں ہوگا ۔ جو کسی شخص کی ترجمانی کرسکے تو فرمایا کہ اللہ کا مقرر ہ وعدہ ضرور آنے والا ہے۔ وھو السمیع العلیم اور اللہ تعالیٰ ہر بات کو سننے والا اور ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ وہ ہر ایک کے ارادے عمل اور اخلاص کے مطابق فیصلہ کرے گا ۔ مجاہدہ کی اہمیت ارشاد ہوتا ہے ومن جاھد فانما یجاھد لنفسہ اور جس نے مجاہدہ کیا یعنی محنت و مشقت کی تو بیشک وہ محنت اٹھاتا ہے اپنے ہی نفس کے لیے ، مجاہدہ میں جہاد یالسیف بھی آتا ہے اور خود اپنے نفس سے بھی جہاد کرنا پڑتا ہے تا کہ پہلے اپنی اصلاح ہو ، آگے جہاد کی مختلف صورتیں ہیں ، انسان کبھی مال کے ساتھ جہاد کرتا ہے تو کبھی جان کے ساتھ تبلیغ حق کے سلسلہ میں زبان اور قلم سے جہاد ہوتا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ مشرکین کے ساتھ مال ، جان اور زبان سے جہاد کرو۔ غیر مسلموں کے ساتھ بحث و محیص کر کے اسلام کے متعلق اٹھے شکوک و شبہات رفع کرنا بھی جہاد ہی کا حصہ ہے۔ جہاد یا مجاہدہ اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ ہے ، کوئی شخص جتنی محنت کریگا اسی قدر اللہ کے قریب ہوگا ، عبادت و ریاضت کرنے والا مجاہد بعض اوقات خود پسندی کا شکار بھی ہوجاتا ہے اللہ نے اس کی تردید فرمائی ہے ، کسی شخص کو اپنی محنت پر نازاں نہیں ہونا چاہئے اور محض کسی چیز کا خالی دعویٰ کردینا بھی درست نہیں جب تک کہ اس کے ساتھ عمل اور نیکی شامل نہ ہو۔ تو فرمایا جو شخص مشقت اٹھاتا ہے ، وہ اپنی ہی ذات کے لیے ایسا کرتا ہے اس محنت کا فائدہ خود اسی کو ہوگا ، کیونکہ ان اللہ لغنی عن العلمین اللہ تعالیٰ تو جہان والوں سے بےنیاز ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی شخص کی عبادت و ریاضت اور محنت و مشقت کی کوئی ضرورت نہیں ہے نہ ہی اللہ تعالیٰ کو اس کا کچھ فائدہ پہنچتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے ، معصیت کا ارتکاب کرتا ہے ، تو اس سے خدا تعالیٰ کا تو کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ لھاما کسبت و علیھا ما اکتسبت ( البقرہ : 683) انسان کو اچھے اعمال کا فائدہ بھی پہنچتا ہے اور برے اعمال کا خمیازہ بھی اسی کو بھگتنا پڑے گا ، اگر ساری مخلوق نیک ہوجائے تو خدا کی خدائی میں کوئی اضافہ نہیں ہوجائے گا اور سارے کے سارے نادان ہوجائیں ۔ تب بھی اس کی سلطنت میں کوئی خرابی نہیں آئیگی۔ یہ نفع نقصان تو خود انسان کی اپنی ذات کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔ ایمان اور اعمال صالحہ کا بدل ارشاد ہوتا ہے والذین امنوا و عملوالصلحت دروہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال انجام دیئے لنکفون عنھم ساتھم اس کے بدلے میں ہم ضرور ان کی برائیاں ان سے دور کردیں گے یعنی معاف کردیں گے۔ حضور ﷺ کا فرمان 1 ؎ بھی ہے کہ ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک ، اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک کی کوتاہیاں اللہ تعالیٰ معاف کرتا رہتا ہے۔ بشرطیکہ انسان کبیرہ گناہوں سے بچتا ہے۔ چھوٹی موٹی تقصیریں تو انسان کے اعضاء وجوارح سے بھی سرزد ہوتی رہتی ہیں جو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیوں کی بدولت از خود معاف فرما دیتا ہے ، البتہ کبائر کی معافی توبہ اور تلافی کے بغیر نہیں ہوتی ۔ مطلب یہ ہے کہ ایمان و نیک اعمال ہی مدار فوز و فلاح ہیں۔ فرمایا ، ایسے لوگوں کی ایک تو ہم برائیاں دور کردیں گے ولخیز بینھم حسن الذین کانوا یعلمون اور دوسری بات یہ ہے کہ ہم ان کے اعمال سے ان کو بہتر بدلہ عطا کریں گے ۔ بہتر بدلے سے مراد یہ ہے کہ ہر نیکی یا کم از کم بدلہ دس گنا ہوگا ۔ جس کو اللہ تعالیٰ جتنا چاہے بڑھا بھی دیتا ہے ، نیکی کا بدلہ اس لیے بھی نیکی سے بہتر ہوگا کہ نیکی کا کام تو ایک محدود وقت میں انجام دیا تھا مگر اس کا بدلہ دائمی ہوگا ۔ جو ہمیشہ ملتا رہے گا ، بہر حال نیکو کار اہل ایمان کی برائیاں اللہ تعالیٰ معاف بھی کرتا رہتا ہے اور ان کو بڑا اجر بھی عطا کرتا ہے۔ یہ اہل ایمان کی حوصلہ افزائی بھی ہوگئی۔ 1 ؎۔ مظہری ص 791 ج 7 والسراج المنیر ص 521 ج 3 ( فیاض)
Top