Mualim-ul-Irfan - Al-Ankaboot : 24
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ فَاَنْجٰىهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
فَمَا كَانَ : سو نہ تھا جَوَابَ : جواب قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِلَّا : سوائے اَنْ : یہ کہ قَالُوا : انہوں نے کہا اقْتُلُوْهُ : قتل کردو اس کو اَوْ حَرِّقُوْهُ : یا جلا دو اس کو فَاَنْجٰىهُ : سو بچا لیا اس کو اللّٰهُ : اللہ مِنَ النَّارِ : آگ سے اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيٰتٍ : نشانیاں ہیں لِّقَوْمٍ : ان لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : جو ایمان رکھتے ہیں
پس نہیں تھا جواب آپ ( ابراہیم ) کی قوم کی طرف سے مگر یہ کہ انہوں نے کہا ، اس کو قتل کر دو یا زندہ جلا ڈالو ، پس نجات دی اس کو اللہ تعالیٰ نے آگ سے بیشک اس میں البتہ نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں
ابراہیم (علیہ السلام) کو زندہ جلانے کی کوشش حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم آپ کے درس توحید کا کوئی مدلل جواب دینے کی بجائے تشدد پر اتر آنی ہے ، اس واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا فما کان جواب قومہ الا ان قالوا اقتلوہ وحرقوہ آپ کی قوم کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہیں تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو قتل کر ڈالو یا زندہ جلا دو ۔ یہاں پر تو تفصیلات نہیں ہیں ، البتہ سورة الانبیاء اور بعض دیگر سورتوں میں بیان ہوچکا ہے کہ کس طرح آپ نے اپنے باپ اور پھر قوم اور خود نمرود کے ساتھ مناظرہ کیا ، دلائل توحید بیان کیے مگر وہ کوئی مدلل جواب دینے سے عاجز آگئے ، اور انہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ یہ شخص چونکہ ہمارے معبودوں کی توہین کرتا ہے ، لہٰذا پیشتر اس کے کہ ساری قوم کو گمراہ کر دے ۔ اسے قتل کردینا چاہیے یا آگ میں زندہ جلا دینا چاہئے ، چناچہ بہت سا ایندھن جمع کر کے آ گ جلائی گئی اور پھر ابراہیم (علیہ السلام) کو منجنیق پر باندھ رک آگ کے وسط میں پھینک دیا گیا ۔ پرویز نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بالفعل آگ میں ڈالے جانے کا انکار کیا ہے جس کی وہ کوئی معقول دلیل پیش نہیں کرسکا ۔ اس کے بر خلاف سورة الانبیاء میں ہے کہ اللہ نے فرمایا قلنا یا نارکونی برد و سلما علی ابراہیم ( آیت : 96) ہم نے آگ کو حکم دیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا ۔ اس حکم کی ضرورت تبھی پڑی جب آپ کو بالفعل آگ میں ڈال دیا گیا ۔ اگر ایسا نہیں ہوا کہ تو پھر آگ کو ٹھنڈی ہوجانے کے حکم کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے ۔ اس مقام پر فانجہ اللہ من النار اللہ نے آپ کو آگ سے بچا لیا ۔ دشمنوں نے تو آپ کو آگ میں پھینک ہی دیا تھا مگر سورة ا الانبیاء والے تکوینی حکم کے ذریعے اللہ نے آپ کو بچا لیا ، چناچہ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ آگ میں پھینکے جانے کے باوجود آگ نے آپ کا ایک مال بھی نہیں چلایا ۔ البتہ وہ رسی جل گئی تھی جس کے ساتھ آپ کو جکڑ کر آگ میں پھینکا گیا تھا۔ نشانات قدرت فرمایا ان فی ذلک لایت لقوم یومنون o بیشک اس میں البتہ نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔ ذرا اندازہ لگائیں ک ابراہیم (علیہ السلام) نے پیغام حق پہنچانے کے سلسلے میں کس قدر تکالیف برداشت کیں اور کتنی قربانیاں پیش کیں۔ پہلے اپنے باپ سے پھر خاندان سے اور پھر پوری قوم کے ساتھ دشمنی مول لی ، حتی کہ آپ کو آگ میں پھینک دیا گیا۔ ابن سعد کی روایت میں آتا ہے کہ آپ نے سات سال تک قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ہر امتحان میں آپ کو کامیاب کیا اور مخالفین کو ناکام بنایا۔ آگ نے آپ کا بال تک نہ جلایا۔ روایات میں آتا ہے کہ تاریخ میں اتنی بڑی آگ کبھی نہیں جلائی گئی۔ کم و بیش تین ماہ تو آگ کے لیے ایندھن ہی جمع ہوتا رہا۔ اس آگ میں پھینکے جانے کے باوجود آپ کا بال بیکا تک نہ ہونا۔ کیا یہ معجزہ اور نشانی نہیں ؟ آپ نے پوری زندگی صبر و استقلال کے ساتھ حق کی تبلیغ کی اور آپ میں کبھی گھبراہٹ پیدا نہیں ہوئی بلکہ ہمیشہ حسبی اللہ و نعم الوکیل کا ورد ہی کرتے رہے اور اس طرح ہر مشکل سے کامیاب و کامران ہو کر نکلے۔ بلاشبہ اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بہت بڑی نشانیاں ہیں مگر ان لوگوں کے لیے جو ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں اور غور و فکر کرتے ہیں۔ شرک کی مذمت : حد درجہ کی تکالیف برداشت کرنے کے باوجود ابراہیم (علیہ السلام) نے توحید کے اثبات اور شرک کی مذمت کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ وقال انما اتخذتم من دون اللہ اوثانا۔ اپنی قوم سے کہنے لگے۔ تم نے اللہ کے سوا بت بنا لیے ہیں جنہیں مختلف تصورات پر گھڑا گیا ہے۔ بعض جنوں کے تصور پر ہیں۔ بعض فرشتوں کے اور بعض انسانوں میں سے انبیاء اور اولیاء کے نام پر۔ تم ان کو نذر و نیاز پیش کرتے ہو۔ اور پھر ان سے مرادیں مانگتے ہو۔ ان کے سامنے شرکیہ رسوم ادا کرتے ہو۔ گویا ان کی پرستش کرتے ہو۔ عربی میں بتوں کے لیے وثن اور صنم دو نام استعمال ہوتے ہیں۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ صنم کسی خاص شکل و صورت پر بنایا ہوا بت ہوتا ہے جب کہ وثن کوئی ان گھڑا پتھر وغیرہ ہوتا ہے ہندوؤں کے ہاں بیشمار ان گھڑے وثن ہیں جن کی وہ پوجا کرتے ہیں۔ فرمایا ان بتوں کی پوجا مودۃ بینکم فی الحیوۃ الدنیا۔ دنیا کی زندگی میں تمہارے لیے آپس میں دوستی کا ذریعہ ہے۔ مطلب یہ کہ کسی خاص بت قبر یا درخت کی پوجا تم میں قدر مشترک بن جاتی ہے اور پھر اسی کی بناء پر تم آپس میں پر بھائی بن کر ایک دوسرے سے محبت کرنے لگتے ہو ، ہر وقت اسی معبود کے گن گاتے ہو اور اسی پر جیتے اور اسی پر مرتے ہو۔ بعض مفسرین 1 ؎ فرماتے ہیں کہ مودۃ کا مصدر میمی مفعول کے معنی میں مودودۃ ہے ، اور معنی یہ ہے کہ تم ان معبودوں کے ساتھ محبت کرتے ہو ، ظاہر ہے کہ ہر عابد اپنے معبود کے ساتھ محبت کرتا ہے ، مگر سورة البقرہ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی صفت یہ بیان کی ہے۔ والذین امنوا اشد حبا للہ ( آیت : 561) کہ ان کی شدید ترین محبت اپنے معبود بر حق خدا تعالیٰ کے ساتھ ہوتی ہے ۔ فرمایا دنیا میں تو تم ان جھوٹے معبودوں کی محبت میں سر شار ہو ثم یو القیمۃ بکفر بعضکم ببعض پھر قیامت والے دن تم ایک دوسرے کا انکار کردو گے ۔ یہاں کی دوستی اس وقت دشمنی میں بدل جائے گی اور جن معبودوں کی تم عبادت کرتے تھے وہ بھی انکار کردیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے تو ان کو نہیں کہا کہ ہماری پرستش کرو ۔ یہ تو خود اپنی خواہش پر چلتے رہے ، اپنی حاجت برری کے لیے ہمارے نام پر بنائے ہوئے بتوں کی طرف رجوع کرتے تھے ، ہمارا تو اس میں کوئی قصور نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ عیسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھیں گے کہ کیا تم نے ان کو کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو اللہ کے سوا معبود بنا لو ؟ جیسا کہ سورة المائدہ میں موجود ہے ۔ عیسیٰ (علیہ السلام) انکار کردیں گے اور عرض کریں گے کہ مولا کریم ! میں نے تو اپنی قوم کے سامنے وہی بات کی جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا۔ ان اعبدو اللہ ربی وربکم ( آیت : 711) کہ صرف میرے اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو۔ فرمایا : قیامت والے دن کو بتوں کی پوجا کرنے والے نہ صرف ایک دوسرے کا 1 ؎۔ کشاف ص 054 ج 3 (فیاض) ۔ انکار کردیں گے بلکہ و یلعن بعضکم بعضا تم ایک دوسرے پر لعنت بھی بھیجو گے۔ ایک دوسرے کو برا بھلا کہوگے کہ تم نے غلط راستے پر ڈال کر مروا دیا۔ مگر اس وقت کا پچھتانا کسی کام نہیں آئے گا۔ وماوکم النار ۔ اور تمہارا ٹھکانا دوزخ کی آگ ہوگا۔ ومالک من نصرین۔ اور تمہارا کوئی مددگار بھی نہیں ہوگا جو تمہیں دوزخ کے عذاب سے بچا سکے۔ اس دن دنیا میں قائم کیے ہوئے غلط تعلقات ٹوٹ جائیں گے۔ یہاں کی محبت نفرت میں بدل جائیگی اور تم ایک دوسرے کو کو ستے ہوئے جہنم رسید ہوگے۔ لوط (علیہ السلام) کا ایمان لانا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی سال ہا سال کی تبلیغ کے جواب میں قوم نے آپ کی کوئی بات نہ مانی۔ صرف دو شخصیتوں کے ایمان لانے کا ذکر ملتا ہے۔ ایک آپ کی بیوی حضرت سارہ تھی جو آپ کی چچا زاد تھی اور دوسرے آپ کے بھتیجے لوط (علیہ السلام) تھے۔ بعض کہتے ہیں لوط (علیہ السلام) آپ کے بھانجے تھے مگر صحیح بات یہ ہے کہ آپ کے حقیقی بھتیجے تھے اور آپ کا نسب نامہ لوط ابن حاران ابن آزر ہے۔ لوط (علیہ السلام) بچپن میں ہی ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے تھے ، چناچہ اللہ نے یہاں فرمایا ہے۔ فامن لہ لوط۔ باقی تو ساری قوم نے انکار کردیا۔ مگر لوط (علیہ السلام) نے ابراہیم (علیہ السلام) کی تصدیق کی ، اور پھر جب آپ نے بابل سے ہجرت کی تو لوط (علیہ السلام) بھی آپ کے ہمراہ تھے اور راستے میں ہی اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور شرق اردن والوں کی طرف تبلیغ پر مامور کیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرت اور اولاد : فرمایا لوط (علیہ السلام) نے ابراہیم (علیہ السلام) کی تصدیق کی وقال انی مھاجر الی ربی۔ اور ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ میں تو اپنے پروردگار کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں۔ میں نے تبلیغ کے تمام وسائل استعمال کرلیے ہیں مگر قوم نہیں مانتی لہذا اب میں اللہ کے حکم سے جہاں وہ چاہے گا ہجرت کر جاؤں گا۔ چناچہ آپ نے انی بیوی سارہ اور بھتیجے لوط (علیہ السلام) کے ہمراہ بابل سے مصر اور پھر شام و فلسطین پہنچے وہیں پر آپ کو خانہ کعبہ کی تعمیر کا حکم ہوا جس کی آپ نے تعمیل کی اور وہیں پر یروشلم سے کچھ فاصلے پر بستی انحلیل میں آپ کی قبر ہے ، فرمایا میں اپنے رب کے حکم سے ہجرت کر رہا ہوں انہ ھو العزیز الحکیم بیشک وہ اللہ تعالیٰ زبردست ، کمال قدرت کا مالک اور حکمت والا ہے ۔ اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا لہٰذا اس میں اسی کے حکم سے ہجرت کر رہا ہوں ۔ بعد کے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ہجرت میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی حکمت کا ر فرما تھی ۔ آپ نے شام و فلسطین کو اپنا مستقل مستقر ٹھہرایا اور پھر عرصہ دراز کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو اولاد سے بھی نوازا پہلے اللہ نے حضر ت ہاجرہ ؓ کے بطن سے اسماعیل (علیہ السلام) پیدا کیے اور جیسا کہ اس مقام پر ذکر ہے بعد میں حضرت سارہ ؓ کو بھی اولاد دی ۔ اللہ نے رسول کی عمر میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد کی خواہش کو پورا فرمایا۔ ارشاد ہوتا ہے ووھبنا لہ اسحاق و یعقوب ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق جیسا بیٹا اور یعقوب جیسا پوتا عطا فرمایا ، ابراہیم (علیہ السلام) نے دو سو سال کی عمر پائی اور آپ کی زندگی میں ہی اللہ تعالیٰ نے اسحاق (علیہ السلام) کو یعقوب (علیہ السلام) بھی عطا فرمایا اور دونوں کو نبی بھی بنایا ۔ وجعلنا فی ذریتہ النبوۃ والکتب اور ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں ہم نے نبوت اور کتاب رکھ دی ۔ آپ کے بعد دنیا میں جتنے بھی نبی بمع نبی آخر الزمان سب کے سب ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے فرمایا واتینہ اجرہ فی الدنیا اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کا صلہ دنیا میں بھی دیا ۔ دنیا میں آپ کو عزت واکرام دیا ۔ آپ کو اولاد کو نبوت و رسالت عطا کر کے آپ کو ابو الانبیاء بنا دیا ۔ آپ کو دنیا کی امامت عطا فرمائی اور آپ کی ملت کو جاری فرمایا اور دوسری امتوں کو بھی حکم دیا فاتبعوا ملۃ ابراہیم حنیفاً (آل عمران : 59) یعنی ملت ابراہیمی کی پیروی کرو۔ یہ تو دنیا کے انعامات تھے ، فرمایا وانہ فی الاخرۃ لمن الصلحین اور بیشک آپ آخرت میں بھی نیکو کاروں میں سے ہیں ۔ دنیا میں بھی اللہ نے مال ، اولاد ، عزت اور نیک نامی دی ، اولاد کو حکومت بھی عطا فرمائی اور آخرت میں آپ یقیناً اعلی درجے پر فائز ہوں گے ، آپ اللہ کے خلیل اور مقرب ہیں۔ یہ اللہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ایمان کے ساتھ ابتلا کا اجمالی طور پر ذکر کردیا ہے۔ قوم لوط کے قبائح : ایمان اور ابتلاء کے ضمن میں ہی اللہ تعالیٰ نے دوسری مثال حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیان فرمائی۔ ولوطا۔ اور لوط (علیہ السلام) کو بھی ہم نے رسول بنا کر بھیجا۔ انہیں شرق اردن کے لوگوں کی ہدایت کے لیے مامور فرمایا۔ آپ نے ان کی خرابیوں کا بغور مطالعہ کیا اور پھر ان کی نشاندھی بھی کی۔ اذ قال لقومہ۔ جب کہا انہوں نے اپنی قوم سے۔ شرق اردن اور خاص طور پر وہاں کی مرکزی بستی سدوم کے لوگ آپ کی نسلی قوم نہیں تھے بلکہ آپ تو بابل سے ہجرت کرکے آئے تھے اور آپ کا تعلق دوسری قوم سے تھا۔ یہاں پر " آپ کی قوم " اس لیے کہا گیا ہے کہ آپ اس قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ اس قوم میں کفر اور شرک کے علاوہ ہم جنسی کی قبیح بیماری بھی تھی۔ لوط (علیہ السلام) نے قوم کو اسی خرابی پر متنبہ کرتے ہوئے فرمایا۔ انکم لتاتون الفاحشۃ۔ تم ایک ایسی بےحیائی کا ارتکاب کرتے ہو۔ ما سبقکم بھا من احد من العلمین۔ جس کا ارتکاب تم سے پہلے جہان والوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔ گویا تم ہی اس مہلک بیماری کے موجد ہو۔ شرق اردن کا علاقہ بڑا زرخیز علاقہ تھا ، یہاں پر تجارتی منڈیاں تھیں۔ لوگ بڑے مالدار اور متمدن تھے مگر ہم جنسی جیسی قبیح بیماری میں مبتلا تھے۔ یہ ایسی بےحیائی ہے جو بندروں اور خنزیروں کے سوا کسی دوسرے جانور میں بھی نہیں پائی جاتی۔ مگر یہ کام اس خطے کے لوگ انسان ہو کر کرتے تھے۔ لوط (علیہ السلام) نے اس قباحت کی وضاحت فرمائی اء نکم لتاتون الرجال۔ کیا تم شہوت رانی کے لیے مردوں پر دوڑتے ہو۔ زنا اور لواطت دونوں کو فحش کہا گیا ہے ، مگر لواطت زنا سے بھی زیادہ جرم ہے کیونکہ یہ فعل خلاف وضع فطری ہے۔ فرمایا ۔ ایک تو تم مردوں سے ہم جنسی کرتے ہو اور دوسرا برا کام یہ کرتے ہو وتقطعون السبیل کہ تم راہ کاٹتے ہو یعنی راستے پر چلتے لوگوں پر ڈاکے ڈالتے ہو اور ان کا مال و اسباب لوتے رہتے ہو ۔ راہ کاٹنے کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم نسل انسانی کی راہ کاٹتے ہو۔ نسل انسانی کی بقاء کے لیے اللہ نے مرد اور عورت کا جوڑا بنایا ہے مگر تم عررتوں کو چھوڑ کر مردوں سے لتفات کرتے ہو۔ اور اس طرح فطری طریقے کو چھوڑ کر نسل انسانی کو منقطع کرنے کی کوشش کرتے ہو ، بھلا دو مردوں کے اختلاط سے اور اولاد کہاں پیدا ہوگی اور نسل انسانی کیسے آ گے بڑھے گی ؟ اسی لیے مشیت زنی اور جانوروں کے ساتھ التفات کو بھی ملعون کاموں میں شمار کیا گیا ہے ۔ اسی سے انسان کا دین ، اخلاق اور صحت برباد ہوتی ہے ۔ اللہ نے شہوت رانی کے لیے منکوحہ بیوی یا شرعی لونڈی کو مقرر کیا ہے ، اس کے علاوہ تمام ذرائع ناجائز اور حرام ہیں ۔ لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی تیسری خرابی یہ بیان فرمائی وتاتون فی نادیکم المنکر اور تم اپنی بھری مجلسوں میں برائی کا ارتکاب کرتے ہوے اور اس معاملہ میں ذرا شر م محسوس نہیں کرتے ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ لوگ برائی میں اس قدر طاق ہوچکے تھے کہ برائی ان کے نزدیک برائی نہیں رہی تھی ۔ لہٰذ ا وہ عام مجلسوں میں اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ قرب قیامت میں لوگ گدھوں کی طرح بےحیائی کے کام کریں گے ، پھر جب دنیا میں خدا کا نام لینے والا کوئی نہیں رہے گا ۔ تو قیامت کا بگل بج جائیگا ، قوم لوط کے لوگ راہ چلتے لوگوں پر آواز کستے تھے ، ان کو پتھر مارتے تھے ، گالی گلوچ کرتے اور بد اخلاقی کے دوسرے کام کرتے تھے ، عام مجلس میں گوز مارنے میں حیا محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ امام زمحشری (رح) لکھتے 1 ؎ ہیں کہ وہ گوز مارنے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے تھے ، اور ان کی سب سے بڑے خرابی یہ تھی کہ ہم جنسی کے مرتکب ہوتے تھے۔ عذاب کا مطالبہ جب لوط (علیہ السلام) نے قوم کو ان قبیح کاموں سے منع فرمایا فما کان جواب قومہ الا ان قالوا ئتنا بعذاب للہ تو قوم کا اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا۔ کہ ہم پر اللہ کا عذاب لے آ۔ ان کنت من الصدقین۔ اگر تو سچا ہے۔ یعنی تو ہمیں عذاب الہی سے ہر وقت ڈراتا دھمکاتا رہتا ہے۔ اگر تیرے پاس کوئی ایسا عذاب ہے تو لاکر ہم پر وارد کردے ، ہم تیری بات کو مان کر یہ برائیاں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ سورة الاعراف میں قوم کا یہ بیان بھی آیا ہے۔ کہ انہوں نے آپس میں فیصلہ کیا۔ اخرجوھم من قریتکم انھم اناس یتطھرون۔ کہ لوط (علیہ السلام) کو اپنی بستی سے نکال دو ، یہ بڑا پاکباز بنا پھرتا ہے اور ہم کو پلید کہتا ہے۔ نہ یہ ہماری بستی میں رہے گا اور نہ ہمیں کسی کام سے روکے ٹوکے گا۔ جب قوم نے ہر طرف سے لوط (علیہ السلام) کو تنگ کردیا تو آپ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ قال رب انصرنی علی القوم المفسدین۔ عرض کیا ، پروردگار ! میری اس ناہنجار اور فسادی قوم کے مقابلے میں مدد فرما۔ میں ان سے مایوس ہوچکا ہوں۔ اب تو ہی ان سے انتقام لے۔ 1 ؎۔ کثاف ص 254 ج 3 ( فیاض)
Top