Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Yaseen : 41
وَ اٰیَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَهُمْ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِۙ
وَاٰيَةٌ
: اور ایک نشانی
لَّهُمْ
: ان کے لیے
اَنَّا
: کہ ہم
حَمَلْنَا
: ہم نے سوار کیا
ذُرِّيَّتَهُمْ
: ان کی اولاد
فِي الْفُلْكِ
: کشتی میں
الْمَشْحُوْنِ
: بھری ہوئی
اور ایک نشانی ان کے لیے یہ ہے کہ بیشک ہم نے اٹھایا ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیوں کا ذکر کیا ہے۔ انہی نشانیوں سے وقوع قیامت پر بھی دلیل قائم ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ اللہ کی وحدانیت بھی سمجھ میں آتی ہے۔ تمام نشانیوں کو پیدا کرنے والا صرف اللہ وحدہ لا شریک ہی ہے۔ اللہ نے سورج اور چاند کا ذکر کیا۔ ہر چیز کے جوڑے جوڑے بنانے کا تذکرہ کیا۔ جن میں انسان ، جانور اور نباتات وغیرہ سب شامل ہیں اور یہ ساری نشانیاں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل ہیں۔ اب آج کی پہلی آیت میں اللہ نے کشتی کو اپنی قدرت کی نشانی کے طور پر متعارف کرایا۔ ارشاد ہوتا ہے۔ وایۃ لھم اور ان کے لیے ایک نشانی یہ بھی ہے انا حملنا ذریتھم فی الفلک المشحون کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔ اس کشتی سے مراد حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی ہے جو آپ نے اللہ کے اس حکم کی تعمیل میں بنائی واصنع الفلک باعیننا ووحینا (ھود 37) ہمارے حکم اور ہماری وحی سے کشتی بنائو۔ چناچہ اللہ کے حکم کے مطابق نوح (علیہ السلام) نے بہت بڑی تین منزلہ کشتی تیار کی جس میں انسان اور جانور سوار ہوئے اور اس طرح یہ کشتی بھر گئی جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے۔ ذریت کا لفظ عربی زبان میں اولاد یا نسل کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس لیے ہم نے اس کا ترجمہ کیا ہے کہ ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔ تاہم بعض مفسرین (روح المعانی ص 26 ج 23 و تفسیر السراج المنیر ص 351 ج 3 و تفسیر کبیر ص 78 ج 26) فرماتے ہیں کہ لفظ ذریت اضداد میں سے ہے اور اس کا معنی اولاد بھی ہے اور آبائو اجداد بھی۔ اگر دوسرا معنی کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے ان کے آبائو اجداد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔ یہ معنی بھی درست ہے کہ اس وقت زمین پر آباد تمام لوگ انہی کشتی والوں کی اولاد ہیں ، اور موجودہ نسل انسانی کے آبائو اجداد وہی کشتی والے لوگ ہیں۔ کشتی نوح اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہے کہ اسی کے ذریعے اس نے نسل انسانی کا انتظام کیا۔ فرمایا ایک تو ہم نے کشتی بنائی وخلقنا لھم من مثلہ ما یرکبون اور ہم نے ان کے لیے اس جیسی دیگر چیزیں بھی تخلیق کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں۔ کشتی اور دیگر سواری کی چیزوں کی تخلیق کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ اگرچہ بظاہر ہر مصنوع انسانی ہاتھوں کی تیار کردہ ہے مگر فی الحقیقت یہ اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہے جس نے انسان کو عقل ، فہم اور غور و فکر کی صلاحیت بخشی اور پھر ہر مصنوع کی صنعت کے لیے وسائل مہیا کیے ہیں۔ اس کی مثال سورة النحل میں بھی ملتی ہے جہاں اللہ نے گھوڑے ، گدھے اور خچر جیسی سواریوں کا ذکر کرکے فرمایا یخلق مالا تعلمون (آیت 8) اللہ تعالیٰ ایسی ایسی سواریاں پیدا کرتا ہے یا آئندہ زمانے میں کرے گا جنہیں تم نہیں جانتے چناچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ذریعہ نقل و حمل کی ابتداء جس کشتی سے ہوئی وہ کشتی ترقی کرچکی ہے۔ پہلے عام کشتیاں سمندروں اور دریائوں میں چلتی تھیں ، پھر بادبانی کشتیاں معرض وجود میں آئیں۔ پھر بھاپ سے چلنے والے سٹیمر بنے اور آج تیل سے چلنے والے لاکھوں ٹن وزنی جہاز سمندر کی سطح پر رواں دواں ہیں۔ انہی جہازوں کی بدولت ہزاروں مسافر اور لاکھوں ٹن وزنی سامان ایک ملک سے دوسرے کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جنگی نقطہ نظر سے طیارہ بردار جہاز تک معرض وجود میں آچکے ہیں جن پر سینکڑوں طیارے اتر سکتے اور پرواز کرسکتے ہیں۔ سمندر کی تہہ میں چلنے والی آبدوزیں بھی بنائی جاچکی ہیں بلکہ اب تو یہ ایٹمی طاقت سے چلنے لگی ہیں۔ یہ سب کچھ کشتی کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے۔ سمندروں کے علاوہ خشکی پر چلنے والی لاتعداد سواریاں بھی ایجاد ہوچکی ہیں۔ ان میں جانوروں سے کھینچی جانے والی سواریوں کے علاوہ خودکار سائیکل ، موٹر سائیکل ، ریل کار ، ٹرک ، ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں ہیں جو اس وقت انسانی استعمال میں ہیں۔ ہوا میں اڑنے والے ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر ہیں جو ہم فضا میں بلند ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ یہ نقل و حمل کے ذرائع میں سے تیز ترین ذریعہ ہیں اور ان کی وجہ سے پوری دنیا سمٹ کر رہ گئی ہے۔ علاوہ ازیں اب تو زمین کی فضائی حدود سے پار دوسرے سیاروں تک کے لیے پروازیں ہو رہی ہیں۔ بڑے بڑے راکٹوں اور فضائی گاڑیوں کی مدد سے انسان چاند تک پہنچ چکے ہیں اور آگے مریخ تک پہنچنے کے پروگرام بن رہے ہیں۔ غرضیکہ گزشتہ ایک صدی میں دیگر ضروریات زندگی کی طرح ذرائع نقل و حمل میں بھی بےتحاشا ترقی ہوئی ہے۔ یہ سب کچھ نوح (علیہ السلام) کی اولین کشتی کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں۔ زمین پر بڑھتی ہوئی ٹریفک اور اس سے خارج ہونے والے دھوئیں اور اسی طرح کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والے زہریلے مادہ نے ماحول کی آلودگی کا نیا مسئلہ پیدا کردیا ہے ابھی دو سال کی بات ہے کہ بھوپال کی ایک فیکٹری میں گیس کا سلنڈر پھٹنے سے ہزاروں آدمی متاثر ہوئے اور سینکڑوں کی تعداد میں موت کی آغوش میں چلے گئے روس میں ایٹمی تابکاری کے اخراج سے سینکڑوں آدمی ہلاک ہوگئے۔ اسی وجہ سے اب سائنس دان یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ماحول میں آلودگی پیدا کرنے والی صنعت کو زمین سے اٹھا کر فضا میں قائم کردیا جائے تاکہ لوگ کیمیائی مادوں کے نقصان سے بچ سکیں۔ بہرحال یہ ساری سواریاں اللہ کی قدرت کے نمونے ہیں جن کی طرف اس آیت میں اشارہ کردیا گیا ہے۔ حفاظت بذریعہ رحمت خداوندی فرمایا وان نشا لغرقھم اگر ہم چاہیں تو کشتیوں اور جہازوں کے سواروں کو پانی میں غرق کردیں۔ دنیان میں آئے دن غرقابی کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ چھوٹی کشتیوں کے علاوہ بعض بڑے بڑے جہاز بھی کسی حادثہ کا شکار ہو کر ڈوب جاتے ہیں۔ کبھی کسی چٹان سے کوئی جہاز ٹکرا گیا تو کبھی دو جہاز آپس میں ٹکرا گئے۔ بعض اوقات آگ لگ جاتی ہے اور کشتی یا جہاز ڈوب جاتا ہے۔ فرمایا اگر ہم کسی کو غرق کرنا چاہیں فلا صیرح لھم تو ان کی فریاد کو پہنچنے والا کوئی نہ ہو۔ ولاھم ینقذون اور نہ ہی وہ چھڑائے جاسکیں ، بھلا اللہ کی مشیت کے بغیر کون کسی کی مدد کرسکتا ہے اور مصیبت سے نجات دلاسکتا ہے ؟ اس سے توحید کا مسئلہ بھی سمجھ میں آتا ہے تم مصیبت کے وقت لاکھ کسی دیوی دیوتا ، کسی جن ، فرشتے ، زندہ یا مردہ انسان کو پکارو ، کوئی بھی تمہیں موت کے منہ سے نہیں بچاسکتا۔ الا رحمۃ منا ہماری مہربانی کے سوا کوئی نہیں بچاسکتا۔ جب ہم کسی کو بچانا چاہتے ہیں تو پھر اس کے لیے مافوق الاسباب سامان بھی مہیا کردیتے ہیں۔ فرمایا ومتاعا الی حین پھر ہم ایک مقررہ وقت تک فائدہ اٹھانے کی مہلت دے دیتے ہیں۔ اللہ نے ہر مخلوق کو ایک مقررہ وقت تک زندگی عطا کی ہے جس کے دوران وہ اس دنیا کی نعمتوں سے مستفید ہوتی رہتی ہے پھر جب وہ وقت آجاتا ہے تو تمام اسباب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور انسان ختم ہوجاتے ہیں۔ بہرحال ہر جاندار کی زندگی اللہ کی رحمت کی محتاج ہے۔ ارشاد ہوتا ہے واذا قیل لھم اتقوا اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ڈرو اس چیز سے ما بین ایدیکم وما خلفکم جو تمہارے آگے ہے اور جو تمہارے پیچھے ہے لعلکم ترحمون تاکہ تم پر رحم کیا جائے آگے سے مراد یہ ہے کہ تمہاری موت آنے والی ہے پھر قیامت برپا ہوگی اور حشر کا میدان قائم ہوگا۔ پھر وہاں حساب کتاب کی منزل آئے گی اور ہر ایک کے متعلق فیصلے ہوں گے ، اس سارے عمل سے ڈر جائو اور آنے والے وقت کے لیے تیاری کرلو۔ پیچھے رہ جانے والی دنیا ہے ، یہاں پر جو اعمال چھوڑے ہیں ان کو بھی دھیان میں لائو کہ اس دنیا میں رہ کر کیا کرتے رہے اور پھر سوچو کہ ان عقاید و اعمال کا کیا نتیجہ نکلنے والا ہے۔ اگر پیچھے برے اعمال چھوڑے ہیں تو ظاہر ہے کہ آخرت میں ان کا وبال بھی پڑے گا۔ لہٰذا اب وقت ہے کہ آنے والے وقت سے ڈر جائو۔ لوگوں کی اکثریت پر افسوس ہے کہ وہ نہ تو نشانات قدرت میں غور و فکر کرتے ہیں اور نہ ہی نجات کے لیے کوئی حیلہ کرتے ہیں۔ بلکہ فرمایا وماتاتیھم من ایۃ من ایت ربھم الا کانوا عنھا معرضین اور نہیں آئی ان کے پاس کوئی نشانی ان کے پروردگار کی نشانیوں میں سے مگر وہ کرنے والے ہی ہوتے ہیں جو بھی کوئی دلیل ، معجزہ یا حکم اللہ کی طرف سے آتا ہے یہ اس میں غور و فکر کرنے کی بجائے اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ ظاہر ہے ان نشانیوں میں توحید و رسالت کی بات ہوتی ہے یا وقوع قیامت اور محاسبہ اعمال کی نشاندہی ہوتی ہے مگر یہی چیزیں ان کے مزاج کے خلاف پڑتی ہیں۔ لہٰذا یہ ان سے کنی کترا جاتے ہیں۔ اللہ نے ان کی غفلت کا ذکر بھی کردیا ہے۔ اللہ نے ان ناہنجاروں کی ایک یہ خصلت بھی بیان فرمائی ہے واذاقیل لھم انفقوا مما رزقکم اللہ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی عطا کردہ روزی میں سے خرچ کرو۔ یعنی غریبوں ، محتاجوں ، یتیموں اور بیوائوں کا حق ادا کرو وقال الذین کفروا للذین امنوا تو کافر لوگ ایمان والوں سے کہتے ہیں افطعم من لو یشاء اللہ اطعمہ کیا ہم ایسے شخص کو کھلائیں جس کو اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو محتاج رکھنا ہی پسند کیا ہے تو ہم ان پر خرچ کرکے اللہ کی منشاء کے خلاف کام کیوں کریں ؟ مشرکین مکہ بھی یہی فلسفہ بیان کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ جب محتاجوں کی اعانت کرتے تو بڑے بڑے کافر اور مشرک کہتے کہ تم ان محتاجوں پر کیوں خرچ کرتے ہو ؟ آپ جواب دیتے کہ میرے مال میں اللہ نے ان کا حق بھی رکھا ہے ، لہٰذا میں خرچ کرتا رہوں گا۔ والذین فی اموالھم حق معلوم للسائل والمحروم (المعارج 25- 24) اللہ نے نیک لوگوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ انہیں اپنے مالوں میں سائلین اور محتاجوں کے حقوق معلوم ہیں لہٰذا وہ ان پر خرچ کرتے رہتے ہیں۔ کہتے تھے ان انتم الا فی ضلل مبین تم تو صریح گمراہی میں ہو جو اپنا مال ان ناداروں پر خرچ کرتے ہو جنہیں اللہ بھوکا رکھنا چاہتا ہے۔ تقسیم رزق کی حکمت اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں رزق کی تقسیم ایک خاص حکمت کے تحت کرتا ہے ، کسی کو کم دیتا ہے ، کسی کو مناسب حال اور کسی کو ضرورت سے زیادہ البتہ وہ کسی کو بالواسطہ عطا کرتا ہے اور کسی کو بلاواسطہ۔ اغنیاء کو بلاواسطہ دے کر حکم دیتا ہے کہ اس میں سے محتاجوں کی خدمت بھی کرو۔ اب امیر آدمی کے مال میں سے زکوٰۃ صدقات کی صورت میں جو غریب آدمی کو پہنچے وہ بالواسطہ ہوگیا اور ہے یہ بھی اللہ ہی کی عطا۔ البتہ مال میں کمی بیشی میں اللہ کی حکمت یہ ہے کہ وہ مال دے کر بھی آزماتا ہے اور اس سے محروم کرکے بھی آزمائش میں ڈالتا ہے۔ سورة الانبیاء میں ہزے ونبلوکم بالشر والخیر فتنۃ (آیت 35) ہم تمہیں برائی اور بھلائی ہر دو طریقوں سے آزماتے ہیں۔ وہ اغنیاء کو مال دے کر آزماتا ہے کہ وہ اس کے حقوق کس حد تک پورے کرتے ہیں اور غرباء کو محروم کرکے آزماتا ہے کہ وہ کس حد تک صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کیا وہ رزق حلال کی تلاش میں نکلتے ہیں یا چوری ، ڈاکہ اور دھوکہ دہی کا پیشہ اختیار کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کو امیر اور بعض لوگوں کو غریب رکھنے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ مخلوق کی معیشت کا دار و مدار اسی قسم کی تقسیم پر ہے اگر سب کے سب امیر ہی ہوتے تو پھر مزدوری کون کرتا ، کاشتکاری کون کرتا اور کارخانے کیسے چلتے اسی طرح اگر سارے کے سارے محتاج ہی ہوتے تو وہ اپنی احتیاج کس سے پوری کرتے ؟ اس طرح بھی تمدن کا نظام قائم نہیں رہ سکتا۔ چناچہ اللہ نے کسی کو کارخانے دار اور کسی کو مزدور بنا دیا ، کسی کو زمین کا مالک اور کسی کو کسان بنا دیا اور اس طرح دنیا کے تمدن کی گاڑی چل رہی ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ان انتم الا فی ضلل مبین کے الفاظ کفار و مشرکین کا نظریہ نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اپنے بندوں پر واضح کرنا چاہتا ہے کہ تم کیسی گمراہی کی باتیں کر رہے ہو ، حقیقت میں رازق تو ہر مخلوق کا اللہ تعالیٰ ہی ہے اس نے روزی رسانی کے مختلف ذرائع مقرر کر رکھے ہیں جن کے واسطے سے وہ ہر ایک کو اس کے حصے کا رزق پہنچا رہا ہے۔ تم اس کی حکمت کو نہیں جانتے۔ بعض لوگ ازراہ تعصب اور عناد کہتے تھے ویقولون متی ھذا الوعد ان کنتم صدقین اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو بتلائو کہ وقوع قیامت اور محاسبہ اعمال کا وعدہ کب پورا ہوگا۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ اپنی حماقت کی وجہ سے اس قسم کے سوال کر رہے ہیں۔ جب ہمارا وعدہ پورا ہونے کا وقت آئے گا تو ان کو گھڑی بھر بھی مہلت نہیں ملے گی۔ فرمایا ما ینظرون الا صیحۃ واحدۃ یہ لوگ نہیں انتظار کرتے مگر ایک ہی چیخ کا تاخذھم جو ان کو پکڑلے گی وھم یخصمون اس حالت میں کہ یہ آپس میں جھگڑا کر رہے ہونگے فرمایا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے دلائل میں غور و فکر کرنے کی بجائے تعصب اور عناد کی بنا پر غرور وتکبر والی بات کر رہے ہیں اور لایعنی سوال کرتے ہیں۔ جب ہماری گرفت آئے گی تو پھر کسی لمبے چوڑے لشکر کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ ان کے لیے ایک چیخ ہی کافی ہے جو ان کا کام تمام کردے گی۔ گزشتہ آیات میں حبیب نجار (رح) کا واقعہ بھی بیان ہوچکا ہے ان کانت الا صیحۃ واحدہ فاذا ھم خمدون (آیت 29) فرشتے نے ایک ہی چیخ ماری تو وہ نافرمان اس طرح ملیا میٹ ہوگئے جس طرح جلتے ہوئے کوئلے پانی ڈالنے سے بجھ جاتے ہیں۔ فرمایا جب خدا تعالیٰ کی گرفت آتی ہے تو پھر کسی کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملتا فلا یستطیعون توصیۃ پھر نہ تو وہ کوئی وصیت ہی کرسکتے ہیں کہ میرے بعد فلاں کام اس طرح کرلینا یا میرے مال کو اس طرح صرف کرنا بلکہ اتنا تو موقع نہیں ملتا ولا الی اھلھم یرجعون اور نہ ہی وہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آسکتے ہیں کہ ان سے کوئی بات ہی کرلیں کوئی شخص بازار میں ہو یا مکان میں ، کھیت میں ہو یا کارخانے میں دفتر میں ہو یا سفر کر رہا ہو ، جہاں کہیں بھی ہوتا ہے ، اللہ کی گرفت وہیں آجاتی ہے اور انہیں ذرہ بھر بھی مہلت نہیں ملتی۔ فرمایا قیامت کے متعلق پوچھ کر کیا یہ لوگ ایسے اچانک وقت کا انتظار کر رہے ہیں ؟
Top