Mualim-ul-Irfan - Yaseen : 41
وَ اٰیَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَهُمْ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِۙ
وَاٰيَةٌ : اور ایک نشانی لَّهُمْ : ان کے لیے اَنَّا : کہ ہم حَمَلْنَا : ہم نے سوار کیا ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد فِي الْفُلْكِ : کشتی میں الْمَشْحُوْنِ : بھری ہوئی
اور ایک نشانی ان کے لیے یہ ہے کہ بیشک ہم نے اٹھایا ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیوں کا ذکر کیا ہے۔ انہی نشانیوں سے وقوع قیامت پر بھی دلیل قائم ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ اللہ کی وحدانیت بھی سمجھ میں آتی ہے۔ تمام نشانیوں کو پیدا کرنے والا صرف اللہ وحدہ لا شریک ہی ہے۔ اللہ نے سورج اور چاند کا ذکر کیا۔ ہر چیز کے جوڑے جوڑے بنانے کا تذکرہ کیا۔ جن میں انسان ، جانور اور نباتات وغیرہ سب شامل ہیں اور یہ ساری نشانیاں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل ہیں۔ اب آج کی پہلی آیت میں اللہ نے کشتی کو اپنی قدرت کی نشانی کے طور پر متعارف کرایا۔ ارشاد ہوتا ہے۔ وایۃ لھم اور ان کے لیے ایک نشانی یہ بھی ہے انا حملنا ذریتھم فی الفلک المشحون کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔ اس کشتی سے مراد حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی ہے جو آپ نے اللہ کے اس حکم کی تعمیل میں بنائی واصنع الفلک باعیننا ووحینا (ھود 37) ہمارے حکم اور ہماری وحی سے کشتی بنائو۔ چناچہ اللہ کے حکم کے مطابق نوح (علیہ السلام) نے بہت بڑی تین منزلہ کشتی تیار کی جس میں انسان اور جانور سوار ہوئے اور اس طرح یہ کشتی بھر گئی جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے۔ ذریت کا لفظ عربی زبان میں اولاد یا نسل کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس لیے ہم نے اس کا ترجمہ کیا ہے کہ ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔ تاہم بعض مفسرین (روح المعانی ص 26 ج 23 و تفسیر السراج المنیر ص 351 ج 3 و تفسیر کبیر ص 78 ج 26) فرماتے ہیں کہ لفظ ذریت اضداد میں سے ہے اور اس کا معنی اولاد بھی ہے اور آبائو اجداد بھی۔ اگر دوسرا معنی کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے ان کے آبائو اجداد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔ یہ معنی بھی درست ہے کہ اس وقت زمین پر آباد تمام لوگ انہی کشتی والوں کی اولاد ہیں ، اور موجودہ نسل انسانی کے آبائو اجداد وہی کشتی والے لوگ ہیں۔ کشتی نوح اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہے کہ اسی کے ذریعے اس نے نسل انسانی کا انتظام کیا۔ فرمایا ایک تو ہم نے کشتی بنائی وخلقنا لھم من مثلہ ما یرکبون اور ہم نے ان کے لیے اس جیسی دیگر چیزیں بھی تخلیق کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں۔ کشتی اور دیگر سواری کی چیزوں کی تخلیق کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ اگرچہ بظاہر ہر مصنوع انسانی ہاتھوں کی تیار کردہ ہے مگر فی الحقیقت یہ اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہے جس نے انسان کو عقل ، فہم اور غور و فکر کی صلاحیت بخشی اور پھر ہر مصنوع کی صنعت کے لیے وسائل مہیا کیے ہیں۔ اس کی مثال سورة النحل میں بھی ملتی ہے جہاں اللہ نے گھوڑے ، گدھے اور خچر جیسی سواریوں کا ذکر کرکے فرمایا یخلق مالا تعلمون (آیت 8) اللہ تعالیٰ ایسی ایسی سواریاں پیدا کرتا ہے یا آئندہ زمانے میں کرے گا جنہیں تم نہیں جانتے چناچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ذریعہ نقل و حمل کی ابتداء جس کشتی سے ہوئی وہ کشتی ترقی کرچکی ہے۔ پہلے عام کشتیاں سمندروں اور دریائوں میں چلتی تھیں ، پھر بادبانی کشتیاں معرض وجود میں آئیں۔ پھر بھاپ سے چلنے والے سٹیمر بنے اور آج تیل سے چلنے والے لاکھوں ٹن وزنی جہاز سمندر کی سطح پر رواں دواں ہیں۔ انہی جہازوں کی بدولت ہزاروں مسافر اور لاکھوں ٹن وزنی سامان ایک ملک سے دوسرے کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جنگی نقطہ نظر سے طیارہ بردار جہاز تک معرض وجود میں آچکے ہیں جن پر سینکڑوں طیارے اتر سکتے اور پرواز کرسکتے ہیں۔ سمندر کی تہہ میں چلنے والی آبدوزیں بھی بنائی جاچکی ہیں بلکہ اب تو یہ ایٹمی طاقت سے چلنے لگی ہیں۔ یہ سب کچھ کشتی کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے۔ سمندروں کے علاوہ خشکی پر چلنے والی لاتعداد سواریاں بھی ایجاد ہوچکی ہیں۔ ان میں جانوروں سے کھینچی جانے والی سواریوں کے علاوہ خودکار سائیکل ، موٹر سائیکل ، ریل کار ، ٹرک ، ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں ہیں جو اس وقت انسانی استعمال میں ہیں۔ ہوا میں اڑنے والے ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر ہیں جو ہم فضا میں بلند ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ یہ نقل و حمل کے ذرائع میں سے تیز ترین ذریعہ ہیں اور ان کی وجہ سے پوری دنیا سمٹ کر رہ گئی ہے۔ علاوہ ازیں اب تو زمین کی فضائی حدود سے پار دوسرے سیاروں تک کے لیے پروازیں ہو رہی ہیں۔ بڑے بڑے راکٹوں اور فضائی گاڑیوں کی مدد سے انسان چاند تک پہنچ چکے ہیں اور آگے مریخ تک پہنچنے کے پروگرام بن رہے ہیں۔ غرضیکہ گزشتہ ایک صدی میں دیگر ضروریات زندگی کی طرح ذرائع نقل و حمل میں بھی بےتحاشا ترقی ہوئی ہے۔ یہ سب کچھ نوح (علیہ السلام) کی اولین کشتی کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں۔ زمین پر بڑھتی ہوئی ٹریفک اور اس سے خارج ہونے والے دھوئیں اور اسی طرح کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والے زہریلے مادہ نے ماحول کی آلودگی کا نیا مسئلہ پیدا کردیا ہے ابھی دو سال کی بات ہے کہ بھوپال کی ایک فیکٹری میں گیس کا سلنڈر پھٹنے سے ہزاروں آدمی متاثر ہوئے اور سینکڑوں کی تعداد میں موت کی آغوش میں چلے گئے روس میں ایٹمی تابکاری کے اخراج سے سینکڑوں آدمی ہلاک ہوگئے۔ اسی وجہ سے اب سائنس دان یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ماحول میں آلودگی پیدا کرنے والی صنعت کو زمین سے اٹھا کر فضا میں قائم کردیا جائے تاکہ لوگ کیمیائی مادوں کے نقصان سے بچ سکیں۔ بہرحال یہ ساری سواریاں اللہ کی قدرت کے نمونے ہیں جن کی طرف اس آیت میں اشارہ کردیا گیا ہے۔ حفاظت بذریعہ رحمت خداوندی فرمایا وان نشا لغرقھم اگر ہم چاہیں تو کشتیوں اور جہازوں کے سواروں کو پانی میں غرق کردیں۔ دنیان میں آئے دن غرقابی کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ چھوٹی کشتیوں کے علاوہ بعض بڑے بڑے جہاز بھی کسی حادثہ کا شکار ہو کر ڈوب جاتے ہیں۔ کبھی کسی چٹان سے کوئی جہاز ٹکرا گیا تو کبھی دو جہاز آپس میں ٹکرا گئے۔ بعض اوقات آگ لگ جاتی ہے اور کشتی یا جہاز ڈوب جاتا ہے۔ فرمایا اگر ہم کسی کو غرق کرنا چاہیں فلا صیرح لھم تو ان کی فریاد کو پہنچنے والا کوئی نہ ہو۔ ولاھم ینقذون اور نہ ہی وہ چھڑائے جاسکیں ، بھلا اللہ کی مشیت کے بغیر کون کسی کی مدد کرسکتا ہے اور مصیبت سے نجات دلاسکتا ہے ؟ اس سے توحید کا مسئلہ بھی سمجھ میں آتا ہے تم مصیبت کے وقت لاکھ کسی دیوی دیوتا ، کسی جن ، فرشتے ، زندہ یا مردہ انسان کو پکارو ، کوئی بھی تمہیں موت کے منہ سے نہیں بچاسکتا۔ الا رحمۃ منا ہماری مہربانی کے سوا کوئی نہیں بچاسکتا۔ جب ہم کسی کو بچانا چاہتے ہیں تو پھر اس کے لیے مافوق الاسباب سامان بھی مہیا کردیتے ہیں۔ فرمایا ومتاعا الی حین پھر ہم ایک مقررہ وقت تک فائدہ اٹھانے کی مہلت دے دیتے ہیں۔ اللہ نے ہر مخلوق کو ایک مقررہ وقت تک زندگی عطا کی ہے جس کے دوران وہ اس دنیا کی نعمتوں سے مستفید ہوتی رہتی ہے پھر جب وہ وقت آجاتا ہے تو تمام اسباب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور انسان ختم ہوجاتے ہیں۔ بہرحال ہر جاندار کی زندگی اللہ کی رحمت کی محتاج ہے۔ ارشاد ہوتا ہے واذا قیل لھم اتقوا اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ڈرو اس چیز سے ما بین ایدیکم وما خلفکم جو تمہارے آگے ہے اور جو تمہارے پیچھے ہے لعلکم ترحمون تاکہ تم پر رحم کیا جائے آگے سے مراد یہ ہے کہ تمہاری موت آنے والی ہے پھر قیامت برپا ہوگی اور حشر کا میدان قائم ہوگا۔ پھر وہاں حساب کتاب کی منزل آئے گی اور ہر ایک کے متعلق فیصلے ہوں گے ، اس سارے عمل سے ڈر جائو اور آنے والے وقت کے لیے تیاری کرلو۔ پیچھے رہ جانے والی دنیا ہے ، یہاں پر جو اعمال چھوڑے ہیں ان کو بھی دھیان میں لائو کہ اس دنیا میں رہ کر کیا کرتے رہے اور پھر سوچو کہ ان عقاید و اعمال کا کیا نتیجہ نکلنے والا ہے۔ اگر پیچھے برے اعمال چھوڑے ہیں تو ظاہر ہے کہ آخرت میں ان کا وبال بھی پڑے گا۔ لہٰذا اب وقت ہے کہ آنے والے وقت سے ڈر جائو۔ لوگوں کی اکثریت پر افسوس ہے کہ وہ نہ تو نشانات قدرت میں غور و فکر کرتے ہیں اور نہ ہی نجات کے لیے کوئی حیلہ کرتے ہیں۔ بلکہ فرمایا وماتاتیھم من ایۃ من ایت ربھم الا کانوا عنھا معرضین اور نہیں آئی ان کے پاس کوئی نشانی ان کے پروردگار کی نشانیوں میں سے مگر وہ کرنے والے ہی ہوتے ہیں جو بھی کوئی دلیل ، معجزہ یا حکم اللہ کی طرف سے آتا ہے یہ اس میں غور و فکر کرنے کی بجائے اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ ظاہر ہے ان نشانیوں میں توحید و رسالت کی بات ہوتی ہے یا وقوع قیامت اور محاسبہ اعمال کی نشاندہی ہوتی ہے مگر یہی چیزیں ان کے مزاج کے خلاف پڑتی ہیں۔ لہٰذا یہ ان سے کنی کترا جاتے ہیں۔ اللہ نے ان کی غفلت کا ذکر بھی کردیا ہے۔ اللہ نے ان ناہنجاروں کی ایک یہ خصلت بھی بیان فرمائی ہے واذاقیل لھم انفقوا مما رزقکم اللہ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی عطا کردہ روزی میں سے خرچ کرو۔ یعنی غریبوں ، محتاجوں ، یتیموں اور بیوائوں کا حق ادا کرو وقال الذین کفروا للذین امنوا تو کافر لوگ ایمان والوں سے کہتے ہیں افطعم من لو یشاء اللہ اطعمہ کیا ہم ایسے شخص کو کھلائیں جس کو اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو محتاج رکھنا ہی پسند کیا ہے تو ہم ان پر خرچ کرکے اللہ کی منشاء کے خلاف کام کیوں کریں ؟ مشرکین مکہ بھی یہی فلسفہ بیان کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ جب محتاجوں کی اعانت کرتے تو بڑے بڑے کافر اور مشرک کہتے کہ تم ان محتاجوں پر کیوں خرچ کرتے ہو ؟ آپ جواب دیتے کہ میرے مال میں اللہ نے ان کا حق بھی رکھا ہے ، لہٰذا میں خرچ کرتا رہوں گا۔ والذین فی اموالھم حق معلوم للسائل والمحروم (المعارج 25- 24) اللہ نے نیک لوگوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ انہیں اپنے مالوں میں سائلین اور محتاجوں کے حقوق معلوم ہیں لہٰذا وہ ان پر خرچ کرتے رہتے ہیں۔ کہتے تھے ان انتم الا فی ضلل مبین تم تو صریح گمراہی میں ہو جو اپنا مال ان ناداروں پر خرچ کرتے ہو جنہیں اللہ بھوکا رکھنا چاہتا ہے۔ تقسیم رزق کی حکمت اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں رزق کی تقسیم ایک خاص حکمت کے تحت کرتا ہے ، کسی کو کم دیتا ہے ، کسی کو مناسب حال اور کسی کو ضرورت سے زیادہ البتہ وہ کسی کو بالواسطہ عطا کرتا ہے اور کسی کو بلاواسطہ۔ اغنیاء کو بلاواسطہ دے کر حکم دیتا ہے کہ اس میں سے محتاجوں کی خدمت بھی کرو۔ اب امیر آدمی کے مال میں سے زکوٰۃ صدقات کی صورت میں جو غریب آدمی کو پہنچے وہ بالواسطہ ہوگیا اور ہے یہ بھی اللہ ہی کی عطا۔ البتہ مال میں کمی بیشی میں اللہ کی حکمت یہ ہے کہ وہ مال دے کر بھی آزماتا ہے اور اس سے محروم کرکے بھی آزمائش میں ڈالتا ہے۔ سورة الانبیاء میں ہزے ونبلوکم بالشر والخیر فتنۃ (آیت 35) ہم تمہیں برائی اور بھلائی ہر دو طریقوں سے آزماتے ہیں۔ وہ اغنیاء کو مال دے کر آزماتا ہے کہ وہ اس کے حقوق کس حد تک پورے کرتے ہیں اور غرباء کو محروم کرکے آزماتا ہے کہ وہ کس حد تک صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کیا وہ رزق حلال کی تلاش میں نکلتے ہیں یا چوری ، ڈاکہ اور دھوکہ دہی کا پیشہ اختیار کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کو امیر اور بعض لوگوں کو غریب رکھنے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ مخلوق کی معیشت کا دار و مدار اسی قسم کی تقسیم پر ہے اگر سب کے سب امیر ہی ہوتے تو پھر مزدوری کون کرتا ، کاشتکاری کون کرتا اور کارخانے کیسے چلتے اسی طرح اگر سارے کے سارے محتاج ہی ہوتے تو وہ اپنی احتیاج کس سے پوری کرتے ؟ اس طرح بھی تمدن کا نظام قائم نہیں رہ سکتا۔ چناچہ اللہ نے کسی کو کارخانے دار اور کسی کو مزدور بنا دیا ، کسی کو زمین کا مالک اور کسی کو کسان بنا دیا اور اس طرح دنیا کے تمدن کی گاڑی چل رہی ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ان انتم الا فی ضلل مبین کے الفاظ کفار و مشرکین کا نظریہ نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اپنے بندوں پر واضح کرنا چاہتا ہے کہ تم کیسی گمراہی کی باتیں کر رہے ہو ، حقیقت میں رازق تو ہر مخلوق کا اللہ تعالیٰ ہی ہے اس نے روزی رسانی کے مختلف ذرائع مقرر کر رکھے ہیں جن کے واسطے سے وہ ہر ایک کو اس کے حصے کا رزق پہنچا رہا ہے۔ تم اس کی حکمت کو نہیں جانتے۔ بعض لوگ ازراہ تعصب اور عناد کہتے تھے ویقولون متی ھذا الوعد ان کنتم صدقین اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو بتلائو کہ وقوع قیامت اور محاسبہ اعمال کا وعدہ کب پورا ہوگا۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ اپنی حماقت کی وجہ سے اس قسم کے سوال کر رہے ہیں۔ جب ہمارا وعدہ پورا ہونے کا وقت آئے گا تو ان کو گھڑی بھر بھی مہلت نہیں ملے گی۔ فرمایا ما ینظرون الا صیحۃ واحدۃ یہ لوگ نہیں انتظار کرتے مگر ایک ہی چیخ کا تاخذھم جو ان کو پکڑلے گی وھم یخصمون اس حالت میں کہ یہ آپس میں جھگڑا کر رہے ہونگے فرمایا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے دلائل میں غور و فکر کرنے کی بجائے تعصب اور عناد کی بنا پر غرور وتکبر والی بات کر رہے ہیں اور لایعنی سوال کرتے ہیں۔ جب ہماری گرفت آئے گی تو پھر کسی لمبے چوڑے لشکر کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ ان کے لیے ایک چیخ ہی کافی ہے جو ان کا کام تمام کردے گی۔ گزشتہ آیات میں حبیب نجار (رح) کا واقعہ بھی بیان ہوچکا ہے ان کانت الا صیحۃ واحدہ فاذا ھم خمدون (آیت 29) فرشتے نے ایک ہی چیخ ماری تو وہ نافرمان اس طرح ملیا میٹ ہوگئے جس طرح جلتے ہوئے کوئلے پانی ڈالنے سے بجھ جاتے ہیں۔ فرمایا جب خدا تعالیٰ کی گرفت آتی ہے تو پھر کسی کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملتا فلا یستطیعون توصیۃ پھر نہ تو وہ کوئی وصیت ہی کرسکتے ہیں کہ میرے بعد فلاں کام اس طرح کرلینا یا میرے مال کو اس طرح صرف کرنا بلکہ اتنا تو موقع نہیں ملتا ولا الی اھلھم یرجعون اور نہ ہی وہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آسکتے ہیں کہ ان سے کوئی بات ہی کرلیں کوئی شخص بازار میں ہو یا مکان میں ، کھیت میں ہو یا کارخانے میں دفتر میں ہو یا سفر کر رہا ہو ، جہاں کہیں بھی ہوتا ہے ، اللہ کی گرفت وہیں آجاتی ہے اور انہیں ذرہ بھر بھی مہلت نہیں ملتی۔ فرمایا قیامت کے متعلق پوچھ کر کیا یہ لوگ ایسے اچانک وقت کا انتظار کر رہے ہیں ؟
Top