Mualim-ul-Irfan - Yaseen : 60
اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْكُمْ یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ١ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌۙ
اَلَمْ اَعْهَدْ : کیا میں نے حکم نہیں بھیجا تھا اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولاد آدم اَنْ : کہ لَّا تَعْبُدُوا : پرستش نہ کرنا الشَّيْطٰنَ ۚ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ : دشمن کھلا
کیا میں نے تم کو نہیں کہہ رکھا تھا اے بنی آدم ! کہ نہ عبادت کرنا شیطان کی ، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار و مشرکین کا رد اور روز محشر کا کچھ حال بیان فرمایا تھا۔ جب صور ثانی پھونکا جائے گا تو لوگ اپنی قبروں سے حساب کتاب کے لیے نکلیں گے۔ پھر ہر ایک کا محاسبہ ہوگا۔ ہر شخص کے لیے اس کے عقیدے اور عمل کے مطابق جزا یا سزا کا یصلہ ہوگا اور کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ پھر جن لوگوں کے لیے جنت کا فیصلہ ہوگا وہ نہایت ہی آرام و راحت میں ہوں گے اور انہیں ان کی ہر مطلوبہ چیز مہیا کی جائے گی۔ اس کے علاوہ ان پر ان کے پروردگار کی طرف سے سلام ہوگا۔ برخلاف اس کے اس روز مجرموں اور گنہگاروں کو حکم ہوگا کہ تم الگ ہو جائو اور اپنی علیحدہ صف بنالو۔ پھر ان کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ شیطان کی اطاعت مجرموں کی علیحدہ صف بندی کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ان سے مخاطب ہو کر فرمائے گا الم اعھد الیکم یبنی ادم اے اولاد آدم ! کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا یعنی تمہیں یہ بات نہیں سمجھائی تھی الا تعبدوا الشیطن کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا کیونکہ انہ لکم عدو مبین وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اللہ نے آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے بعد پوری اولاد آدم سے یہ کہہ دیا تھا کہ شیطان سے خبردار رہنا اور اس کے جھانسے میں نہ آنا ، یہ تمہیں ورغلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) سے اللہ نے خصوصی طور پر فرمایا تھا فقلنا یا دم ان ھذا عدو لک ولن فلا یخرجنکما من الجنۃ فتشقی (طہ 117) ہم نے کہا آدم ! یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے یہ کہیں تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے پھر تم مشقت میں پڑ جائو گے۔ پھر ساری اولاد آدم کو اللہ نے اپنے انبیاء کے ذریعے خبردار کردیا کہ شیطان سے بچتے رہنا ، انہ یرکم ھو و قبیلہ من حیث لا ترونھم (الاعرف 27) وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھ رہا ہے جہاں سے تم اسے نہیں دیکھ سکتے۔ وہ غیر مرئی مخلوق ہے وہ چھپ کر وار کرتا ہے لہٰذا اس کے بہکاوے میں نہ آنا۔ پھر شیطان نے بھی روز اول سے قسم کھا رکھی ہے کہ میں تیرے صراط مستقیم پر بیٹھوں گا۔ ثم لاتینھم من بین ایدیھم ومن خلفھم وعن ایمانھم وعن شمائلھم (الاعراف 17) میں تیرے بندوں کے آگے سے بھی آئوں گا اور پیچھے سے بھی ، دائیں سے بھی آئوں گا اور بائیں طرف سے بھی اور پھر ان کو گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ پھر دنیا کی طرف سے آکر بھی ان کو گمراہ کروں گا ، دین کی طرف سے بھی اور خواہشات کے راستے سے بھی۔ اسی لیے اللہ نے بار بار فرمایا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے لہٰذا اس سے بچ کر رہنا۔ اللہ نے فرمایا ایک تو میں تمہیں شیطان کے اغواء سے خبردار کیا تھا اور دوسری بات یہ کی تھی وان اعبدونی صرف میری ہی عبادت کرنا اور شیطان کی عبادت نہ کرنے لگنا ورنہ وہ تمہیں جہنم میں پہنچائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ انما یدعو حزبہ لیکونوا من اصحب السعیر (فاطر 6) وہ اپنے گروہ کو بلا رہا ہے تاکہ سب کو ساتھ لے کر جہنم میں جائے ، وہ اپنی جماعت کو بڑھانا چاہتا ہے تاکہ جہنم میں اس کے ساتھی زیادہ سے زیادہ ہوں۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں آگاہ کردیا تھا کہ شیطان کی دشمنی سے بچتے رہنا اور عبادت صرف میری کرنا ھذاصراط مستقیم وہی سیدھا راستہ ہے اسی پر چل کر تم دائمی نجات پاسکتے ہو۔ اگر اس راستے سے بھٹک گئے تو پھر تمہارا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ آگے اللہ نے شیطان کے اغواء سے مزید خبردار کیا ہے۔ ولقد اضل منکم جبلا کثیرا تحقیق اس شیطان نے تم میں سے بہت سی مخلوق کو بہکا رکھا ہے۔ جبلا کا معنی مخلوق ہے اس کا تلفظ جبلا اور جبلا بھی آتا ہے فرمایا افلم تکونوا تعقلون کیا تم اتنی بھی عقل نہیں رکھتے کہ اس کو اپنا دشمن سمجھتے ہوئے اس سے بچنے کی کوشش کرو۔ یہ کافر اور مشرک سب شیطان کے راستے پر چل رہے ہیں۔ آج بھی دنیا کی پانچ ارب کی آبادی میں سے چار ارب لوگ شیطان کے پجاری ہیں جب کہ بمشکل پانچواں حصہ توحید کو مانتا ہے۔ جب جزائے عمل کی منزل آئے گی تو شیطان کے ان پجاریوں سے کہا جائے گا۔ ھذہ جھنم التی کنتم توعدون یہی ہے وہ جہنم جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اللہ کے راستے کو چھوڑ کر شیطان کے راستے پر چلو گے تو پھر تمہارا یہی ٹھکانا ہوگا۔ لہٰذا صلوھا الیوم بما کنتم تکفرون آج اس میں داخل ہو جائو اس کفر کے بدلے میں جس کا ارتکاب تم کرتے رہے ، تم نے دنیا میں نصیحت کی بات نہ مانی اور شیطان کے نقش قدم پر چلتے رہے۔ دنیا کے امور میں تو بہت ہوشیار اور سمجھدار تھے لیکن ایمان کے بارے میں اتنے کمزور تھے کہ شیطان کے پیچھے لگے رہے۔ اب اس کفر کا خمیازہ جہنم کی صورت میں بھگتو۔ انسانی اعضاء کی شہادت بعض لوگ محاسبہ اعمال کے وقت کفر ، شرک اور معاصی سے انکار کردیں گے جیسے مشرکوں کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ وہ کہیں گے واللہ ربنا ما کنا مشرکین (الانعام 23) اللہ کی قسم ، ہم تو دنیا میں رہ کر شرک نہیں کیا۔ مگر ہر انسان کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے ، لوح محفوظ میں بھی درج ہے اور انسان کے نامہ اعمال میں بھی لکھا ہوا ہے۔ گویا انسان کا ہر عمل محفوظ رہتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ (ابن کثیر ص 577 ج 3 و طبری ص 24 ج 23) اتمام حجت کے لیے فرشتوں یا دیگر چیزوں کو بطور گواہ پیش کریں گے ، صحیح حدیث میں آتا ہے کہ بعض لوگ کہیں گے کہ ہم اپنے وجود کے سوا کسی دوسرے گواہ کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس وقت اللہ فرمائے گا۔ الیوم ختم علی افوامھم ان دن ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے۔ وتکلمنا ایدیھم تو ان کے ہاتھ ہمارے ساتھ کلام کریں گے وتشھدا رجلھم اور ان کے پائوں گواہی دیں گے بما کانوا یکسبون جو کچھ وہ کماتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ مجرموں کی زبان تو بند ہوجائے گی اور ان کے جسم کے اعضاء ہاتھ پائوں وغیرہ ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ کسی اچھے برے کام کے کرنے میں سب سے زیادہ دخل ہاتھوں کا ہوتا ہے چناچہ آدمی کے ہاتھ کہیں گے کہ اس شخص نے ہمارے ذریعہ فلاں برا کام کیا تھا اور پائوں گواہی دیں گے کہ ہمارے ساتھ چل کر یہ شخص فلاں غلط مقام پر گیا تھا۔ اس وقت گنہگار آدمی حیرت میں مبتلا ہوجائے گا کہ خود اس کے اعضاء وجوارح ہی اس کے خلاف گواہی دے رہے ہیں۔ پھر وہ جسم کے اعضاء سے مخاطب ہو کر کہے گا کہ میں نے تمہیں ہی سزا سے بچانے کے لیے جرم کا انکار کیا تھا مگر اب تم نے خود ہی یہ راز فاش کردیا ہے اب تمہارے بچنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہی۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ انسانوں کے اعمال کی حفاظت خود اللہ تعالیٰ نے مکمل طور پر کر رکھی ہے اور اس کا ہر قول اور فعل اس کے اعمالنامے میں درج ہو رہا ہے۔ یہ اعمالنامہ موت کے وقت انسان کے گلے میں لٹکا دیا جاتا ہے اور قیامت والے دن متعلقہ شخص کے سامنے پیش کرکے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اقرا کتبک کفی بنفسک الیوم علیک حسیبا (بنی اسرائیل 14) یہ تیرا اعمالنامہ ہے اسے خود ہی پڑھ لو۔ حساب کتاب کے لیے آج کے دن یہی دستاویز کافی ہے۔ چناچہ خواہ دنیا میں کوئی شخص پڑھا لکھا تھا یا ان پڑھ ، اپنا اعمال نامہ خود پڑھ سکے گا۔ اس وقت انسان خیال کرے گا کہ میرے اعمال تو میرے اعضاء کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہاتھ اور پائوں بھی گواہی دیں گے جیسا کہ میں نے بیان کردیا۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس خطہ زمین پر انسان نے کوئی اچھایا برا کام کیا ہوگا زمین کا وہ ٹکڑا بھی اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دے گا۔ وہاں کے ارد گرد کی چیزیں بھی شہادت دیں گی۔ چناچہ اذان والی حدیث میں آتا ہے کہ اذان کہنے والے شخص کے حق میں اس کے دائیں بائیں کے تمام شجر و حجر گواہی دیں گے ، اسی طرح حج کا تلبیہ پکارنے والے کے حق میں زمین کے آخری حصے تک کی تمام چیزیں گواہی دیں گی کہ مولا کریم ! اس شخص نے تیرا نام احترام کے ساتھ بلند کیا تھا۔ سورة حم السجدۃ میں آتا ہے حتی اذا ما جاء وھا شھد علیہم سمعھم وابصارھم وجلودھم بما کانوا یعملون جب مجرم لوگ اس مقام پر آجائیں گے تو ان کے کان آنکھیں اور کھالیں گواہی دیں گی اس کام کے متعلق جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔ وہ لوگ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم ہمارے خلاف کیسے گواہی دیتی ہو اور آج یہ قوت گویائی تمہیں کہاں سے حاصل ہوگئی تو وہ جواب دیں گی قالوا انطقنا اللہ الذی انطق کل شی وھو خلقکم اول مرۃ والیہ ترجعون کہ ہمیں اس اللہ نے قوت گویائی عطا کی ہے جس نے ہر چیز کو یہ قوت بخشی ہے۔ یہ وہی ذات ہے جس نے تمہیں بھی پیدا کیا اور پھر تم اس کی طرف لوٹ کر جانے والے ہو۔ بہرحال فرمایا کہ قیامت والے دن انکار کرنے والوں کے مونہوں پر مہر لگا دی جائے گی اور ان کے اعضاء وجوارح بول کر ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے وہ جس کو چاہے معاف کردے اور جس کو چاہے سزا دے دے۔ ولو نشاء لطمسنا علی اعینھم اور اگر ہم چاہیں تو نافرمانوں کی آنکھیں ہی ضائع کردیں فاسبقوا الصراط فانی یبصرون پھر وہ راستے کی طرف دوڑنا چاہیں گے مگر انہیں کچھ نظر نہ آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ایسے کرنے پر بھی قادر ہے۔ جب لوط (علیہ السلام) کی قوم پر سزا کا وقت آیا تو فرشتے کو حکم ہوا کہ اپنا پر ہلائو۔ جب ایسا کیا فطمسنا اعینھم (القمر 37) تو ہم نے ان کی آنکھیں ہی ضائع کردیں ، وہ سب اندھے ہوگئے ، یہاں بھی فرمایا کہ اگر ہم چاہیں تو مجرموں کو اندھا کردیں۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا ولو نشاء لمخنھم علی مکانتھم اور اگر ہم چاہیں تو ان کے ٹھکانوں پر ہی ان کی شکلیں مسخ کردیں ایسے واقعات پہلے بھی پیش آتے رہے ہیں۔ اللہ نے کئی نافرمان قوموں اور جماعتوں کی شکلیں بگاڑ کر بندر اور خنزیر بنا دیے۔ سورة المائدہ میں اہل کتاب کے متعلق فرمایا وجعل منھم القردۃ والخنازیر (آیت 60) کہ ان کو بندروں اور خنزیروں کی شکلوں میں تبدیل کردیا گیا۔ فرمایا ہم اس بات پر قدرت رکھتے ہیں کہ یہ لوگ جہاں بھی کھڑے یا بیٹھے ہوں وہیں ان کی شکلیں مسخ کردیں۔ فما استطاعوا مضیا ولا یرجعون پھر نہ وہ آگے چلنے کی طاقت رکھیں اور نہ واپس گھر جاسکیں۔ انہیں اتنی مہلت بھی نہ ملے کہ اگلی منزل تک پہنچ جائیں یا گھر والوں کو ہی بتاسکیں کہ ہم مبتلائے عذاب ہوچکے ہیں۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی کے متعلق بائبل کا بیان ہے کہ اللہ نے اسے پتھر کی شکل میں مسخ کردیا تھا۔ اسی طرح اساف اور نائلہ مرد و زن کے خانہ کعبہ میں زنا کا ارتکاب کیا تو اللہ نے ان کو پتھر بنا دیا اور وہ کافی عرصہ تک صفا اور مروہ پر عبرت کے لیے پڑے رہے۔ بعد میں شیطان نے لوگوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی کرکے ان کی پرستش شروع کرادی۔ بہرحال فرمایا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کی شکلیں مسخ کردیں۔ کیا یہ اتنی بات بھی نہیں سمجھتے کہ خدا قادر مطلق ہے۔ فرمایا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نمونہ ہے ومن نعمرہ ننکسہ فی الخلق جس کو ہم زیادہ عمر دے دیتے ہیں ان کو پیدائش میں الٹا کردیتے ہیں۔ افلا یعقلون کیا یہ لوگ اس بات میں غور و فکر نہیں کرتے ؟ ابتداء میں انسان بچہ ہوتا ہے۔ پھر جوان ہوتا ہے ، طاقت آتی ہے ، مگر جب بڑھاپے کا دور شروع ہوتا ہے تو تمام اعضاء آہستہ آہستہ مضمحل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اسی بات کے متعلق فرمایا ہے کہ جس کو ہم زیادہ عمر دیتے ہیں اسے پھر پیدائش کی حالت میں الٹ دیتے ہیں۔ سورة روم میں اللہ تعالیٰ نے اسی طرح بیان فرمایا ہے اللہ الذی خلقکم من ضعف ثم جعل من بعد ضعف قوۃ ثم جعل من بعد قوۃ ضعفا وشیبۃ (آیت 54) اللہ کی ذات وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا ، پھر کمزوری کے بعد قوت عطا کی ، پھر قوت کے بعد دوبارہ کمزوری اور بڑھاپا طاری کردیا۔ یہ حالات لوگوں کے لیے نشان عبرت ہیں اگر انسان انہی چیزوں میں غور کرے تو کفر ، شرک اور معاصی کا ارتکاب نہ کرے جگر مراد آبادی (رح) نے بھی کہا ہے۔ رخصت ہوئی شباب کے ہمراہ زندگی کہنے کی بات ہے کہ جئے جارہا ہوں میں بہرحال اللہ نے زندگی کے مختلف مراحل کو اپنی قدرت کی نشانی بیان فرمایا ہے۔ اگر لوگ پھر بھی اس کی توحید کو تسلیم نہ کریں تو وہ سزا دینے پر بھی قادر ہے۔
Top