Mualim-ul-Irfan - Yaseen : 77
اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَ : نہیں دیکھا الْاِنْسَانُ : انسان اَنَّا خَلَقْنٰهُ : کہ ہم نے پیدا کیا اس کو مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے فَاِذَا : پھر ناگہاں هُوَ : وہ خَصِيْمٌ : جھگڑالو مُّبِيْنٌ : کھلا
کیا نہیں دیکھتا انسان کہ بیشک ہم نے پیدا کیا ہے اس کو ایک قطرہ آب سے ، پس اچانک وہ بڑا جھگڑنے والا ہے
ربط آیات گزشتہ دروس میں قرآن کریم کی حقانیت اور صداقت کا ذکر ہوا۔ پھر اللہ نے توحید کے عقلی دلائل دیے جن میں غور و فکر کرکے انسان اللہ کی وحدانیت اور اس کی قدرت کو سمجھ سکتے ہیں۔ یہی دلائل وقوع قیامت کے لیے بھی کافی ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ کو تسلی دی کہ آپ کفار و مشرکین کی بیہودہ باتوں سے غمگین نہ ہوں ، ہم ان کے ظاہر و باطن کو جانتے ہیں اور ان کے عقائد و اعمال کا ضرور بدلہ دیں گے۔ اب آج کے درس میں بھی اللہ نے اپنی وحدانیت اور اپنی قدرت پر دلائل پیش کیے ہیں اور ساتھ ساتھ مشرکین کا رد فرمایا ہے۔ انسان کی پیدائش ارشاد ہوتا ہے اولم یر الانسان انا خلقنہ من نطفۃ کیا انسان نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے ایک قطرہ آب سے پیدا کیا۔ نطفہ شفاف پانی کو کہتے ہیں اور اس سے مراد انسان کا مادئہ تولید ہے جو انسان کی پیدائش کا ذریعہ بنتا ہے۔ سورة سجدۃ میں فرمایا ہے ثم جعل نسلہ من ماء مھین (آیت 8) ہم نے انسان کی تخلیق مٹی سے کی اور پھر اس کی نسل کو حقیر پانی سے چلایا جو پیشاب کی طرح ناپاک ہے اور اگر کسی کپڑے یا جسم کو لگ جائے تو دھوئے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔ سورة الطارق میں ہے فلینظر الانسان مم خلق انسان غور کرے کہ اسے کی چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ خلق من ماء دافق اسے اچھلنے والے پانی سے تخلیق کیا گیا ہے یخرج من بین الصلب والترائب جو سینے اور پسلی کی ہڈیوں کے درمیان سے خارج ہوتا ہے مطلب یہ کہ اگر انسان اپنی پیدائش میں ہی غور کرلے تو اس کا تمام غرور وتکبر ختم ہوجائے اور وہ اللہ کے معاملات میں حجت بازی نہ کرے۔ دوبارہ زندگی پر جھگڑا فرمایا کہ ہم نے تو انسان کو ایک حقیر قطرہ آب سے پیدا کیا فاذاھو خصیم مبین مگر اچانک وہ بڑا جھگڑالو بنا ہوا ہے۔ اسے تو اپنی پیدائش کو دیکھ کر ہی وحدانیت کا قائل ہوجانا چاہئے تھا مگر وہ وقوع قیامت اور دلائل قدرت کے انکار میں طرح طرح کی حجت بازی کرتا ہے وضرب لنا مثلا اور ہمارے سامنے طرح طرح کی مثالیں بیان کرتا ہے ونسی خلقہ اور اپنی تخلیق کو بھول جاتا ہے کہ وہ کس نے کن ذرائع سے کی۔ فرمایا انسان ایسا ناعاقبت اندیش ہے کہ وہ دوبارہ زندگی کے متعلق یہ دلیل پیش کرتا ہے قال من یحی العظام وھی رمیم اور کہتا ہے کہ ان ہڈیوں کو کون دوبارہ زندہ کرے گا جب کہ یہ بھربھری ہوجائیں گی۔ بعض مشرکین بوسیدہ ہڈیوں کو ہاتھ سے مسل کر کہتے تھے کہ کیا یہ ہڈیاں دوبارہ زندگی سے آشنا ہوں گی جو چورہ چورہ ہو کر خاک میں مل جاتی ہیں ؟ سورة سجدۃ میں اللہ نے مشرکین کا یہ بیان نقل کیا ہے۔ وقالوا اذا ضللنا فی الارض انا لفی خلق جدیدہ (آیت 10 کیا جب ہم گل سڑ کر مٹی میں رل مل جائیں گے تو پھر دوبارہ پیدائش میں ظاہر ہوں گے ؟ سورة النزعت میں بھی ہے اذا کنا عظاما نخرہ (آیت 11) جب ہماری ہڈیاں بھربھری ہوجائیں گی تو کیا ہمیں دوبارہ حیات نصیب ہوگی ؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے اللہ نے انسان کو قوت گویائی بخشی ہے مگر وہ اسی قوت کو بروئے کار لا کر اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے اور اس کی توحید کا اقرار کرنے کی بجائے اس کے معاملات میں جھگڑا کرتا ہے۔ اللہ نے فرمایا اے پیغمبر ! قل آپ ان سے کہہ دیں کہ تم ان بوسیدہ ہڈیوں میں حیات کے عود کر آنے کو بعید خیال کرتے ہو ، مگر یاد رکھو ! یحیھا الذی انشاھا اول مرۃ ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی دفعہ پیدا کیا تھا جب کہ ان کا کوئی مادہ بھی موجود نہ تھا اب جب کہ ایک چیز وجود میں آچکی ہے اور تم تسلیم کرتے ہو کہ اللہ نے قطرئہ آب کو خون میں تبدیل کیا پھر اس کا گوشت بنایا ، اس میں ہڈیاں پیدا کیں اور ان کے اوپر گوشت چڑھایا اور پھر پورے جسم کی حفاظت کے لیے اس کے اوپر کھال پیدا کی۔ اس کا ہر ہر عضو نہایت موزوں طریقے سے اپنی اپنی جگہ پر فٹ کیا اور فرمایا لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم (التین 4) ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں تخلیق کیا۔ تو فرمایا کہ جس خدا نے سب کچھ پہلی مرتبہ کیا کیا وہ اس کا اعادہ کرنے پر قادر نہیں ؟ حقیقت یہ ہے وھو بکل خلق علیم کہ وہ ہر پیدائش کو خوب جانتا ہے ، اسکے علم سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔ درختوں سے آگ کی مثال اللہ نے یہی بات ایک مثال کے ذریعے بھی سمجھائی ہے الذی جعل لکم من الشجر الاحضر نارا اللہ کی ذات وہ ہے جس نے تمہارے لیے سبز درختوں سے آگ پیدا فرمادی۔ مطلب یہ ہے کہ ہرے بھرے درخت ہوتے ہیں جن کے تنے ، شاخوں اور پتوں میں کافی مقدار میں رطوبت ہوتی ہے مگر یہ درخت خشک ہو کر جلانے کے کام آتے ہیں۔ بعض فرماتے ہیں کہ سبز درخت سے مراد متضاد چیزیں ہیں۔ عرب میں دو قسم کے درخت ہوتے تھے ، ایک کا نام مرخ اور دوسرے کا عفار تھا۔ ان دونوں درختوں کی لکڑیوں کو آپس میں رگڑنے سے بالکل اسی طرح آگ نکلتی تھی جس طرح چقاق کے دو پتھر رگڑنے سے آگ نکلتی ہے یا گھوڑے کے سم پتھروں سے ٹکرانے سے چنگاریاں نکلتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ سب درختوں سے آگ پیدا کرسکتا ہے وہ بوسیدہ ہڈیوں میں حیات بھی پیدا کرسکتا ہے۔ جب سبز درختوں سے آگ اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے فاذا انتم منہ توقدون تو اچانک تم اس سے سلگاتے ہو اور یہی آگ کھانا پکانے کے لیے استعمال میں لاتے ہو۔ مصر کے جدید علوم کے ماہر مفسر قرآن طنطاوی (رح) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے (تفسیر الجواہر للطنطاوی ص 154 ج 17 تا ص 162 ج 17) کہ اللہ نے درخت کے سبز پتوں کو عجیب حکمت کے تحت تخلیق کیا ہے۔ سورج کی روشنی کے دوران درختوں کے پتے آکسیجن جیسی زندگی بخش گیس اپنے اندر جذب کرتے رہتے ہیں۔ ہر سانس کے ذریعے انسانی جسم میں یہی آکسیجن جاتی ہے جس سے اس کا خون صاف ہوتا رہتا ہے اور اسکی زندگی قائم رہتی ہے۔ اگر یہی سانس تھوڑی دیر کے لیے رک جائے تو انسانی زندگی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ چناچہ جب کوئی مریض سخت لاغر ہوجاتا ہے اور وہ معمول کے مطابق سانس لینے کی قوت بھی نہیں رکھتا تو پھر اس کے جسم میں مصنوعی طریقے سے سلنڈر کے ذریعے آکسیجن پہنچائی جاتی ہے۔ بہرحال درخت دن کے وقت آکسیجن اپنے تنوں کے ذریعے اندر کھینچتے ہیں اور رات کو کاربن ڈائی آکسائیڈجیسی زہریلی گیس باہر نکالتے ہیں ، اسی لیے تجربہ کار لوگ رات کو درختوں کے نیچے سونے سے منع کرتے ہیں۔ آکسیجن ایک تیز گیس ہے جس میں آتشیں مادہ بھی پایا جاتا ہے اور آکسیجن کے بغیر آگ بھی نہیں جل سکتی ، تو گویا اللہ نے درختوں میں آکسیجن کا ذخیرہ کردیا ہے جس کی وجہ سے یہ آگ پکڑ لیتے ہیں۔ اسی طرح پانی میں بھی دو گیسیں پائی جاتی ہیں یعنی آکسیجن اور ہائیڈروجن۔ گویا قدرت نے پانی میں بھی آگ کا مادہ رکھا ہے۔ تو اللہ نے درخت کی مثال بیان فرمائی ہے اور اپنی قدرت کا شاہکار ذکر کیا ہے کہ وہ سبز درختوں سے آگ پیدا کرسکتا ہے تو کیا بوسیدہ ہڈیوں میں دوبارہ زندگی نہیں لاسکتا ؟ ضرور لاسکتا ہے اور وہ ایسا کرکے رہے گا۔ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا بیان اس انداز میں کیا ہے۔ او لیس الذی خلق السموت والارض بقدر علی ان یخلق مثلھم کیا آسمان و زمین کو پیدا کرنے والی ذات ان جیسے اور پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے ؟ خدا نے تو آسمان ، زمین اور پہاڑوں جیسی بڑی بڑی چیزیں پیدا کردی ہیں تو وہ ان لوگوں جیسی شکل و صورت والے دوسرے لوگ کیوں نہیں پیدا کرسکتا۔ کسی چیز کو پہلی دفعہ پیدا کرنا تو ذرا مشکل ہوتا ہے جب کہ پہلے سے اس کا نمونہ بھی موجود نہ ہو ، مگر جب ایک انسان کو پیدا کردیا اور پھر اس نے پچاس سو سال عمر بھی گزاری ہو تو اس کا دوبارہ پیدا کرنا کچھ مشکل نہیں ہوسکتا۔ دوسری جگہ فرمایا کہ تم ہر روز مشاہدہ کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ مختلف رنگ و نسل کے لوگ پیدا کر رہا ہے۔ نباتات ، حیوانات ، اور جمادات کو پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا وہ انہی لوگوں کو انہی اجسام اور انہی شکل و صورت کے ساتھ دوبارہ پیدا کرنے پر بھی یقینا قادر ہے فرمایا بلی کیوں نہیں وھو الخلق العلیم وہ تو سب سے بڑا پیدا کرنے والا اور علیم ہے اس کے لیے یہ کام کون سا مشکل ہے۔ علیم سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ انسانی جسم میں پائے جانے والے تمام عنصر کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے ، لہٰذا وہ ان سب کو دوبارہ جمع کرکے انسان کو اپنے سامنے لاکھڑا کرے گا۔ قیامت کا انکار تو بیوقوفی کی بات ہے ، البتہ کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ ابھی قیامت برپا کیوں نہیں کردیتا اور پھر لوگوں کو دوبارہ زندہ کیوں نہیں کردیتا تو یہ اس کی حکمت اور مصلحت کے خلاف ہے۔ اس نے ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ ہر فرد کی زندگی کا ایک وقت مقرر ہے اور اسی طرح ساری کائنات کے لیے بحیثیت مجموعی بھی ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ آئے گا تو یہ سارا نظام تبدیل کرکے نیا نظام قائم کیا جائے گا۔ پھر حساب کتاب ہوگا اور جزائے عمل کی منزل آئے گی۔ اس وقت تمام انسان دوبارہ انہی اجسام کے ساتھ اللہ کے حضور پیش ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ فرمایا ، اللہ تعالیٰ قدرت تامہ کا مالک ہے انما امرہ اذا اراد شیا ان یقول لہ کن جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے یعنی کسی کام کو انجام دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے ہوجا فیکون پس وہ ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جس وقت جس شکل و صورت ، جس وصف اور جس مرتبے کی چیز تخلیق کرنا چاہتا ہے وہ چیز فوراً وجود میں آجاتی ہے ، پھر تاخیر نہیں ہوتی۔ پھر آخر میں فرمایا فسبحن الذی بیدہ ملکوت کل شئی پس پاک ہے اللہ تعالیٰ کی ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اقتدار ہے۔ ملکوت ملک کا مبالغہ ہے اور مطلب ہے مکمل اقتدار ، اختیار یا بادشاہی تو ہر چیز کا اقتدار اسی ذات کے پاس ہے جو ہر عیب ، نقص اور کمزوری سے پاک ہے اور ہر اس شرک سے منزہ ہے جس کو مشرک لوگ اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ والیہ ترجعون اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جائو گے۔ گویا تمام امور کی انتہا بھی اللہ ہی کی ترف ہے پہلے سورة فاطر کی ابتداء میں بھی گزرچکا ہے والی اللہ ترزجع الامور (آیت 4) تمام کام لوٹ کر اسی اللہ کی طرف ہی جاتے ہیں۔ انسانوں کو بھی اسی عدالت میں پہنچنا ہے۔ جہاں محاسبہ ہوگا اور اگر ایمان اور توحید کو اختیار نہ کیا تو سخت گرفت آئے گی کیونکہ کوئی چیز اللہ کے دست قدرت سے باہر نہیں ہے ، وہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے۔ سورة کے آخری حصہ میں اس کا خلاصہ دوبارہ آگیا ہے۔ قرآن پاک کی حقانیت و صداقت ، توحید اور وقوع قیامت کے دلائل اور رسالت کا کچھ حصہ بھی ضمناً آگیا ہے۔
Top