Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 160
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَ بِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَثِیْرًاۙ
فَبِظُلْمٍ : سو ظلم کے سبب مِّنَ : سے الَّذِيْنَ هَادُوْا : جو یہودی ہوئے (یہودی) حَرَّمْنَا : ہم نے حرام کردیا عَلَيْهِمْ : ان پر طَيِّبٰتٍ : پاک چیزیں اُحِلَّتْ : حلال تھیں لَهُمْ : ان کے لیے وَبِصَدِّهِمْ : اور ان کے روکنے کی وجہ سے عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ كَثِيْرًا : بہت
پس بوجہ ظلم کرنے ان لوگوں کے جو یہودی ہوئے ہم نے ان پر پاکیزہ چیزیں حرام قرار دیں جو حلال تھیں اور بوجہ ان کے اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنے کے بہت سے لوگوں کو
ربط آیات گزشتہ کئی دروس سے اہل کتاب کی خرابیوں کا تذکرہو رہا ہے اور یہدرس بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ اہل کتاب نے عناد کی وجہ سے کہا کہ اگر آپ اللہ کے نبی ہیں تو کتاب یکبارگی کیوں نہیں لے آتے ، جیسا کہ پہلے نبی لائے۔ اس اعتراض کا حقیقی جواب تو اگلے رکوع میں آئے گا ، تاہم گزشتہ درس میں ہے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو تسلی دی کہ آپ اہت کتاب کے فضول اعتراضات سے دل برداشتہ نہ ہوں ، اس ضدی قوم نے آپ سے پہلے انبیاء پر اس سے بھی بڑے بڑے سوال کیے۔ انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے رویت الٰہی کا مطالبہ کیا ، اللہ تعالیٰ نے انہیں فوراً سزا دی اور ایک بجلی آئی جس نے انہیں جلا کر ہلاک کردیا ، پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ن دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندگی عطا کی اللہ نے یہودیوں کی یہ خباثت بھی بیان فرمائی کہ واضح دلائل دیکھنے کے باوجود انہوں نے بچھڑے کی پوجا کی اور کفارے کے طور پر ستر ہزار آدمیوں کو قتل کیا گیا۔ ان لوگوں نے اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کیا اور آخر میں حضرت مریم پر بہتان باندھا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو (العیاذ باللہ) ولدالزنا کہا۔ انہوں نے فخریہ یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہوں نے مسیح (علیہ السلام) کو قتل کردیا ہے ، حالانکہ وہ نہ تو آپ کو قتل کرسکے اور نہ سولی پر چڑھا سکے۔ بلکہ یہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ ہو کر رہ گیا اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دوبازہ نزول کی طرف بھی اشارہ کیا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ اس زمانے میں یہود و نصاریٰ میں سے کوئی شخص بھی حضرت مسیح (علیہ السلام) پر ایمان لائے بغیر نہیں رہے گا ، کیونکہ جو ایمان نہیں لائے گا۔ وہ ہلاک ہوجائے گا۔ ھلال و حرام آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو دی جانیوالی اس سزا کا ذکر کیا ہے۔ جس کے مطابق ان پر بعض حلال چیزیں حرام قرار دے دی گئی تھیں۔ ارشاد ہوتا ہے فیظلمٍ من الذین ھادوا یہودیوں کے ظلم یعنی گناہوں کی پاداش میں حرمنا علیہم طیبتٍ اُحلت لہم ہم نے ان پر پاکیزہ چیزیں حرام قرار دیدیں جو ان کے لیے حلال تھیں۔ اور ظلم سے مراد اہل کتاب کی وہ خرابیاں ہیں جن کا تذکرہ گزشتہ دروس سے چلا آ رہا ہے۔ کسی چیز کی حرمت دو وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ حرام چیز میں کوئی ایسی خرابی پائی جاتی ہے جو جسمانی یا روحانی لحاظ سے انسان کے لیے مضر ہوتی ہے لہٰذا مصلحتاً اسے حرام قرار دے دیا جاتا ہے۔ اور یا پھر کوئی حلال چیز محض سزا کے طور پر کسی قوم پر حرام کردی جاتی ہے۔ آج کے درس میں اس قسم کی حرمت ہی کا تذکرہ ہے۔ جسمانی نقصانات اگلی سورة مائدہ میں حلال و حرام کا تفصیل سے ذکر ہے۔ وہاں پر طیبات کو حلال قرار دیا گیا ہے اور پھر بھیمۃ الانعام یعنی مویشیوں کو حلال قرار دیا ہے ، ان کا گوشت اور دودھ حلال ہیں کیونکہ ان جانوروں یعنی گائے ، بھینس ، بھیڑ ، بکری ، اونٹ وغیرہ کا مزاج انسانی مزاج کے مطابق ہوتا ہے۔ برخلاف اس کے درندے جو انسانی مزاج سے مطابقت نہیں رکھتے ، انہیں حرام قرار دیا گیا ہے۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے نھیٰ رسول اللہ ﷺ عن الدواء الخبیث یعنی حضور نبی کریم (علیہ السلام) نے خبیث دوا کے استعمال سے منع فرمایا ہے۔ مثلاً سنکھیا یا کوئی دوسری زہر دوائے خبیث ہے۔ حضور نے اس کے ذریعے علاج کرنے سے منع فرما دیا کہ اس کا استعمال انسانی مزاج کے بالکل خلاہے۔ اس کی معمولی مقدار بھی انسان کے معدے ، جگر اور مثانے کو زخمی کردیتی ہے۔ خون جاری ہوجاتا ہے۔ جسم میں ورم آجاتا ہے اور پھر تمام جسمانی نظام درہم برہم ہو کر مریض کی ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے۔ چونکہ زہر انسانی جسم کے لیے مضر ہے ، لہٰذا اس کے استعمال سے منع فرما دیا گیا حضور ﷺ نے گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت دی مگر گدھے کے گوشت سے منع فرما دیا۔ گدھے کا گوشت انسانی جسم سے مطابقت نہیں رکھتا ، جو شخص کھائے گا بلید الطبع ہوجائے گا۔ اس میں گدھے جیسی صفات پیدا ہوں گی۔ اسی طرح درندوں کا گوشت بھی حرام ہے۔ جو شخص شیر ، چیتا ، ریچھ ، گیدڑ ، بلی ، کتا وغیرہ کا گوشت استعمال کرے گا ، اس میں وہی صفات پیدا ہوجائیں گی جو قومیں درندوں کا گوشت کھاتی ہیں ان میں ان جیسی صفات ہی پیدا ہوتی ہیں۔ ابو داؤد شریف کی روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے چیتے کی کھال سے تیار کیے گئے مصلے پر بیٹھنے سے منع فرما دیا اگرچہ وہ دباغت شدہ ہو۔ وجہ یہ ہے کہ ایسی کھال استعمال کرنے والے میں تکبر جیسی قبیح صفت پیدا ہوگی جو کہ ہمارے اخلاف کے لیے سخت مضر ہے۔ برخلاف اس کے اونٹ ، گائے ، بھیڑ بکری کی کھال کے مصلے پر بیٹھنا جائز ہے کہ یہ جانور انسانی طبائع سے مطابق رکھتے ہیں۔ روحانی نقصانات اللہ تعالیٰ نے بعض چیزیں روحانی نقصانات کی وجہ سے حرام قرار دی ہیں جیسے مردار ، دم مسفوح ، خنزیر کا گوشت اور نذر بغیر اللہ۔ مردار کی حرمت میں یہ وجہ کار فرما ہے کہ اس کا گوشت کھانے سے انسان میں سستی اور کاہلی پیدا ہوتی ہے نیز نیکی کے کام اور عبادت میں نشاط پیدا نہیں ہوتا ، یہ اس کا روحانی نقصان ہے اسی طرح رگوں سے نکلنے والے خون میں یہ خرابی ہے کہ اسے استعمال کرنے والے آدمی میں درندگی کے اوصاف پیدا ہوجاتے ہیں شیر ، ریچھ وغیرہ جانور کا خون ہی پیتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں اس قدر زندگی پائی جاتی ہے۔ خنزیر گندگی کھانے والا جانور ہے۔ اس کا گوشت کھانے والے آدمی میں بھی گندگی ہی پیدا ہوگی۔ اس کے علاوہ یہ جانور بےغیرت بھی ہے ، لہٰذا اس کا گوشت کھانے والے بھی بےغیرتی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ انگریز اور سکھ خنزیر کا گوشت کھاتے ہیں لہٰذا یہ دونوں قومیں بےغیرتی میں ملوث ہیں۔ حضور ﷺ نے گندگی کھانے والے جانور (جلالہ) کا گوشت مکرہ تحریمی میں شمار کیا ہے جو گائے یابھیڑ وغیرہ گندگی کھانے لگے اس کا حکم یہ ہے کہ اسے دس دن تک باندھ کر گندگی سے حفاظت کی جائے تو پھر اس کا گوشت کھانے کے قابل ہوگا اس طرح اگر مرغ بھی گندگی کھانے لگے تو اسے تین دن تک روک کر پھر اس کا گوشت کھایا جاسکتا ہے۔ چوتھی چیز غیر اللہ کے نام کی نذر بھی حرام ہے ” وما اہل بہ لغیر اللہ “ اس کے استعمال سے بھی روحانی نجاست پیدا ہوتی ہے جسے اعلیٰ روحانیت کے حامل لوگ بھی محسوس کرتے ہیں۔ نذیر بغیر اللہ کی اشیاء کھانا ، دودھ ، گوشت وغیرہ اگرچہ بظاہر حلال ہیں مگر جب یہ پاکیزہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی بجائے کسی پیر فقیر جن یا فرشتے کی خوشنودی کے لیے موسوم کی جائیں تو ان کے کھانے سے انسان کی روح ناپاک ہوجاتی ہے گویا یہ روحانی طور پر مضر ہیں۔ حرمت بطور سزا ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جن محرمات کا ذکر کیا ہے وہ چیزیں یہودیوں پر بطور سزا حرام قرار دی گئی تھیں۔ ان ضدی اور شرارتی لوگوں نے بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب کیا ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر احکام بھی سخت نازل فرمائے۔ بچھڑے کی پوجا اور پھر بنی اسرائیل کی توبہ کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ انہوں نے شرک جیسے ظلم عظیم کا ارتکاب کیا تو اللہ تعالیٰ نے قبولیتِ توبہ کی کڑی شرط لگا دی کہ تمام مشرکین کو تہ تیغ کردیا جائے۔ چناچہ ایسا ہی کیا گیا۔ اسی طرح اللہ نے ان کی قباحتوں کی وجہ سے ان پر بعض پاکیزہ چیزیں بھی حرام قرار دے دیں۔ اللہ تعالیٰ نے کثرت سے پائے جانے والے شتر مرغ ان کے لیے حرام کردیے۔ اونٹ اور دیگر حلال جانوروں کی چربی حرام قرار دے دی۔ وہ صرف ہڈیوں یا آنتوں کے ساتھ ملی ہوئی چربی تو استعمال کرسکتے تھے مگر گوشت کے ساتھ لگی ہوئی چربی ان کے لیے حرام تھی۔ یہ ان کے لیے بڑا دشوار حکم تھا مگر اللہ نے فرمایا کہ یہ ان کے اپنے جرائم کی وجہ سے سزا کے طور پر کرنا پڑا۔ صراطِ مستقیم میں رکاوٹ فرمایا یہودیوں کے ظلم کی وجہ سے ان کے لیے بعض پاکیزہ چیزیں حرام کردی گئیں وبصدہم عن سبیل اللہ کثیراً اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنا بھی یہودیوں کے جرائم میں سے ہے اور ان کے لیے بعض حلال چیزوں کی حرمت کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں یہ لوگ ایڑی چوٹی کا زور لگاتے تھے کہ کسی طرح لوگ اسلام قبول نہ کریں بلکہ کفر و ضلالت کے دام فریب میں ہی پھلے رہیں۔ آج تک یہودیوں کا یہی وطیرہ ہے۔ لوگوں کو صراط مستقیم سے روکنے میں تمام اقوامِ عالم سے پیش پیش ہیں۔ انہوں نے دنیا بھر میں سازشوں کا جال پھیلار کھا ہے ۔ ہنود تو ان کے مقابلے میں بھی نہیں۔ یہ لوگ لٹریچر اور فلموں کے ذریعے دین حق کی قبولیت سے روکتے ہیں ، مال خرچ کرتے ہیں ، عورتوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ سکول اور ہسپتال بناتے ہیں۔ ان تمام سکیموں کا واحد مقصد یہ ہے کہ کسی طرح قرآن پاک کی تعلیم سے بہروز نہ ہو سکیں اور نہ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلّم کے مشن پر گامزن ہو سکیں۔ اسی لیے فرمایا کہ یہودیوں کی سزا کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ لوگوں کی کثیر تعداد کو صراط مستقیم سے روکتے ہیں۔ سود خوری فرمایا واخذہم الربو وقدنھو عنہ اور سود لینے کی وجہ سے حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا ہے بنکنگ سسٹم کے موجد اور سود خوری کے امام بھی یہی لوگ ہیں ان لوگوں نے سود کا طریقہ ایجاد کر کے ساری دنیا کو اس لعنت میں گرفتار کردیا ہے۔ سود پہلی شریعتوں میں بھی حرام تھا اور آج بھی حرام ہے۔ مگر یہ لوگ اسے مسلسل کھا رہے ہیں واکلہم اموال الناس بالباطل اور لوگوں کا مال بالکل طریقے سے کھانے کی وجہ سے یہ لوگ مستحق لعنت ٹھہرے۔ سود خوری بذات خود مال ہڑپ کرنے کا باطل ترین ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ دھوکہ ، فریب اور من مانے جو ازات کے ذریعے ناحق مال کھانا ان کی عادت قدیمہ ہے۔ سورة آلِ عمران میں گزر چکا ہے ” لیس علینا فی الامین سبیلٌ “ یعنی امیوں کا مال ہمارے لیے ہر طرح مباح ہے اسے ناجائز طریقے سے کھانے میں بھی کوئی گناہ نہیں۔ حالانکہ اللہ نے فرمایا یہ لوگ جھوٹے ہیں ، کسی کا مال ناحق کھانا اللہ کے دین اور شریعت میں قطعاً روا نہیں اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ کا قطعی حکم موجود ہے۔ ” لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل “ یعنی ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ مگر لوگوں نے ناجائز طریقے سے مال ہڑپ کرنے کے کتنے طریقے ایجاد کرلیے ہیں۔ خوشی غمی کی رسومات ، جھوٹے تعویز گنڈے اور سحر سب مال کھانے کے باطل ذرائع ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا واعتدنا للکفرین منہم عذاباً الیماً ہم نے منکرینِ دین و شریعت کے لیے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ وہ اللہ کے ہاں پکڑے جائیں گے۔ حق پرست لوگ مجرمین کا حال بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حق پرست مومنین کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ گزشتہ سورة میں بھی گزر چکا ہے ” لسوا سوائ “ سب لوگ برابر نہیں ہوتے۔ اہلِ کتاب میں بھی بعض حق پرست لوگ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ باطل پرستوں کی فہرست سے نکل جاتے ہیں اور حق کو قبول کرلیتے ہیں۔ فرمایا لکن الرسخون فی العلم منہم مگر جو لوگ علم میں پختہ کار ہوتے ہیں۔ حضور ﷺ کے زمانے میں حضرت عبداللہ بن سلام ؓ اور ان کے بعض رفقا نے ایمان قبول کیا ، وہ لوگ صحیح معنوں میں اہل علم تھے۔ والمومنون اور کچھ ایسے ایمان والے بھی ہوتے ہیں یومنون بما انزل الیک جو اس چیز پر ایمان لاتے ہیں کو آپ پر نازل کی گئی یعنی قرآن پاک وما انزل من قبلک اور اس چیز پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ سے پہلے نازل کی گئی یعنی تمام کتب سماویہ۔ اور ایمان کی تکمیل بھی ہوتی ہے جب تمام انبیاء اور تمام کتب پر ایمان لایا جائے۔ تمام شرائع الٰہیہ کو تسلیم کیا جائے ، تاہم عمل صرف آخری شریعت اور کتاب ہی پر کیا جائے گا۔ فرمایا قابل تعریف ہیں وہ حق پرست لوگ جو علم میں پختہ اور تمام کتب سماویہ پر ایمان لانے والے ہیں ان کے علاوہ والمقیمین الصلوٰۃ جو نماز قائم کرنے والے ہیں کیونکہ تعلق باللہ قائم کرنے کے لیے نماز ایک بہترین ذریعہ ہے۔ انسان نماز خدا کی بارگاہ میں پیش ہوتا ، مناجات کرتا ہے۔ اور اعضاء جوارح سے اس کی تعظیم بجا لاتا ہے۔ پھر فرمایا والموتون الذکوۃ اور زکواۃ ادا کرنے والے لوگ بھی قابل آفرین ہیں۔ نماز کے ساتھ تعلق باللہ قائم ہوتا ہے تو زکوٰۃ کے ذریعے مخلوق کے ساتھ تعلق اور ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ اللہ کے بندوں کی خیرخواہی کے لیے زکوٰۃ کی ادائیگی فرائض میں سے ہے۔۔ سورة توبہ کی آیت انما الصدقت للفقراء …الخ انہی امور خیر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ فرمایا وہ لوگ بھی قابل تعریف ہیں والمومنون باللہ جو اللہ پر ایمان لانے والے ہیں والیوم الاخر اور قیامت کے دن پر بھی ان کا ایمان ہے جزائے عمل کو تسلیم کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا اولیک سنویتہم اجراً عظیماً ایسے لوگوں کو ہم عنقریب اجرِ عظیم سے مالا مال کریں گے۔ ایسے لوگ چاہے یہودیت سے آئے ہوں یا انصرانیت کی گود سے ، اگر وہ علم میں پختہ کار ہیں۔ تمام کتب سماویہ پر ایمان لاتے ہیں ، نماز ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں۔ روز آخرت پر ان کا ایمان ہے تو وہ لوگ لائق تعریف اور مستحق اجر ہیں۔
Top