Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 166
لٰكِنِ اللّٰهُ یَشْهَدُ بِمَاۤ اَنْزَلَ اِلَیْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ١ۚ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ یَشْهَدُوْنَ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ
لٰكِنِ : لیکن اللّٰهُ : اللہ يَشْهَدُ : گواہی دیتا ہے بِمَآ : اس پر جو اَنْزَلَ : اس نے نازل کیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف اَنْزَلَهٗ : وہ نازل ہوا بِعِلْمِهٖ : اپنے علم کے ساتھ وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے يَشْهَدُوْنَ : گواہی دیتے ہیں وَكَفٰي : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًا : گواہ
لیکن اللہ گواہی دیتا ہے اس چیز کی جس کو اس نے اتارا آپ کی طرف۔ اس کو اپنے علم کے ساتھ اتارا ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں ، اور کافی ہے اللہ تعالیٰ گواہی کے اعتبار سے
ربط آیات گزشتہ دروس میں گزر چکا ہے کہ ” یسئلک اھل الکتب “…الخ یعنی یہودی آپ پر سوال کرتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مکمل کتاب کیوں نہیں لاتے ، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) لائے۔ اس اعتراض کے اللہ تعالیٰ نے دو طریقوں سے جواب دیتے ہیں۔ پہلا جواب الزامی تھا اور حضور ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا تھا ، کہ یہ لوگ ضدی اور عنادی ہیں ، ان کا مقصود ہر حالت میں یہ ہے کہ پیغمبر آخر الزماں اور قرآن پاک پر ایمان نہ لایا جائے یہ ان کی قومی عاد ت ہے انہوں نے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بھی سوال کیا تھا کہ ہم ایمان نہیں لائیں گے جب تک اللہ تعالیٰ کو خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ بدسلوکی کا تذکرہ بھی کیا ان کی والدہ پر زنا کا الزام لگایا اور خود انہیں قتل کرنے کی سازش کی۔ یہودیوں کے اعتراض کا دوسرا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا ” انا اوحینا الیک “… الخ یعنی ہم نے آپ پر بھی اسی طرح وحی نازل فرمائی ہے۔ جس طرح آپ سے پہلے نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد آنے والے انبیاء (علیہم السلام) پر وحی نازل کی گئی اس استدلال سے مقصود یہ تھا کہ تمام انبیاء و رسل پر نزول وحی کی نوعیت یکساں ہے تو پھر کیا ہے کہ یہ لوگ پہلے انبیاء کو تو تسلیم کرتے ہیں مگر آپ کی نبوت کا انکار کر رہے ہیں اور پھر یہ بھی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح تمام انبیاء کو ان کی کتابیں یک مشت نہیں دی گئیں۔ بعض پیغمبروں پر وقتاً فوقتاً وحی نازل ہوتی رہی اور تھوڑی تھوڑی کر کے کتابیں نازل ہوئیں۔ اسی طرح نبی آخر الزمان پر بھی وقفے وقفے سے وحی نازل ہو کر کتاب کی تکمیل ہوتی رہی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کو یکشمت نازل نہ کرنے کی حکمت بھی سورة فقران میں بیان فرمائی ” کذلک لنثبت بہ فوادک ورتلنہ ترتیلاً “ قرآن پاک کا تدریجاً نزول آپ کے دل کی پختگی کے لیے ہے۔ جو شخص سبقاً سبقاً تعلیم حاصل کرتا ہے اس میں پختگی پیدا ہوتی ہے اور وہ بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیتا ہے ، سب کچھ یکدم پڑھنے سے اچھی طرح یاد نہیں ہو سکتا لہٰذا اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کو تھوڑا تھوڑا کر کے نازل فرمایا تاکہ یہ اچھی طرح ذہن نشین ہو کر قیامت تک کے لیی مشعل راہ بن سکے۔ تھوڑا تھوڑا پڑھنے میں یہ سہولت بھی ہوتی ہے کہ اس دوران پیدا ہونے ولاے شکوک و شبہات کی تشریح بھی ہوتی رہتی ہے اور اس طرح انسانی ذہن اسے مکمل طور پر قبول کرلیتا ہے۔ قرآن پاک کے نزول کا یہ تدریجی عمل تیئس سال میں مکمل ہوا۔ باقی انبیا (علیہم السلام) پر بھی فوقتاً فوقتاً وحی نازل ہوتی رہی ہے ان میں سے بعض انبیاء کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کردیا ہے اور بعض کا نہیں کیا ، اس کی تفصیلات بھی گزشتہ درس میں بیان ہوچکی ہے۔ بہرحال تمام انبیاء و رسل پر اجمالی طور پر ایمان لانا ضروری ہے اگرچہ قابل عمل شریعت آخری نبی کی آخری شریعت اور اللہ کی آخری کتاب ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ سارے نبی مبشر اور منذر ہوتے ہیں۔ لوگوں کو نیکی پر خوشخبری سنانا اور برائی کے انجام سے ڈرانا ان کے فرائض منصبی میں شامل ہوتا ہے تاکہ کل قیامت کو کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ اسے اللہ تعالیٰ کے احکام کا علم نہیں ہوسکا ، بلکہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم اور بستی کی طرف انبیا بھیج کر ان پر اپنی حجت تمام کردی۔ لغت نبی آخر الزمان مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہودیوں کا ایک گروہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا ، مجھے یقین ہے کہ تم مجھے اللہ کا رسول تسلیم کرتے ہو مگر اس کا اظہار کیوں نہیں کرتے ؟ یہودی اپنے پرانے تعصب اور عناد کی وجہ سے کہنے لگے ، بخدا ! ہم نہیں جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ ہم آپ میں رسولوں والی کوئی علامت نہیں پاتے۔ اسی طرح ایک موقع پر مشرکین نے بھی یہودیوں سے کہا کہ تم لوگ اہل علم ہو۔ بھلا بتاؤ کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم دعویٰ نبوت میں سچے ہیں ؟ وہاں پر بھی انہوں نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور آپ میں پائی جانے والی علاماتِ نبوت کا صاف انکار کر گئے اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی اس ضد کا تذکرہ مختلف مقامات پر کیا ہے کہ یہ لوگ نبی آخر الزمان کو اچھی طرح پہچاننے کے باوجود آپ کی رسالت کا مسلسل انکار کرر ہے ہیں۔ حالانکہ آپ کی علامات ان کی اپنی کتابوں میں ابھی تک موجود ہیں اگرچہ ان کتابوں میں بہت سی تحریف ہوچکی ہے۔ ان میں حسد کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اللہ کا آخری نبی بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسماعیل میں کیوں آیا ہے۔ اس اعتراض کا جواب بھی قرآن کے مختلف مقامات پر آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے ساتھ کوئی معاہدہ تو قائم نہیں کر رکھا تھا کہ تمام کے تمام انبیاء انہی کے خاندان سے آئیں گے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ ” یختص برحمتہ من یشائ “ وہ جیسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے مخصوص کرلیتا ہے اس میں کسی کی خواہش اور آرزو کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت میں یہ بات ازل سے طے ہوچکی تھی کہ نبی آخر الزماں بنی اسماعیل میں سے آئے گا اور اس کا تذکرہ خود تورات میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا تھا کہ میں تیرے بھای بندوں میں ایک رسول برپا کروں گا جس کے منہ میں اپنا کلام ڈالوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہی بات نزول قرآن کی ابتدائی سورتوں میں بھی بیان فرما دی ” انا ارسلنا الیکم رسولاً شاہداً علیکم کما ارسلنا الیٰ فرعون رسولاً “ ہم نے تمہاری طرف اسی طرح رسول مبعوث فرمایا جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کی طرف بھیجی یہی چیز تورات میں بھی بیان کی گئی ہے مگر یہودی اس کو بھی چھپا جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورة اعراف میں ان کے کتمانِ حق کی قلعی اس طرح کھولی ہے۔ ” الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجدونہ مکتوباً عندہم فی التورنۃ والانجیل “ یہ لوگ نبی آخر الزمان کا لقب ” اُمی “ اور۔ آپ کی نشانیاں اپنی کتابوں میں موجود پاتے ہیں ، اسکے باوجود ایمان نہیں لاتے بلکہ مسلسل انکار کر رہے ہیں۔ ایک موقع پر مشرکین مکہ نے یہودیوں سے پوچھا تھا کہ یہ بتاؤ ، ہمارا دین اچھا ہے یا وہ دین جو محمد صلی اللہ علیہ وسلّم پیش کرتے ہیں تو انہوں نے اس وقت بھی اپنی دیرینہ خباثت کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا تھا کہ تمہارا دین بہتر ہے۔ پہلے سورة بقرہ میں بھی گزر چکا ہے ” یعرفونہ کما یعرفون ابناء ہم “ یعنی یہ لوگ حضور ﷺ کو اپنی اولاد کی طرح پہچانتے تھے مگر یہ لوگ عناد اور ضد کی وجہ سے آپ پر ایمان نہ لائے۔ قرآن کی حقانیت اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا ہے کہ اے پیغمبر (علیہ السلام) ! یہ لوگ قرآن پاک کی حقانیت تسلیم کریں یا نہ کریں لکن اللہ یشھد بما انزل الیک مگر اللہ تعالیٰ اس چیز کی گواہی ضرور دیتا ہے جو آپ پر نازل ہوئی ہے قرآن پاک کی سچائی کی ایک دلیل یہ بھی ہے انزلہ بعلمہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے علم کے ساتھ اتارا ہے۔ علم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے کہ وہ علیم کل ہے۔ ابو عبدالرحمن سلمی (رح) حدیث کے راوی اور بڑے بزرگ آدمی ہوئے ہیں۔ ان کے متعلق امام ابن کثیر (رح) نے نقل کیا ہے کہ جب ان کے سامنے کوئی شخص قرآن پاک کی تلاوت کرتا تو کہتے اخذت بعلم اللہ تم نے اللہ تعالیٰ کا علم حاصل کرلیا ہے۔ اب تم سے افضل دنیا میں کوئی نہیں الابعملٍ ہاں جو اس پر عمل کریگا ، وہ تجھ سے بہتر ہوگا ، مقصد یہ کہ قرآن پاک اللہ کا علم ہے جس نے اسے حاصل کرکے اس پر عمل کیا وہ افضل ترین آدمی ہے۔ اس عظیم کتاب کے مطابق اللہ نے فرمایا قسم ہے اس عزت والے قرآن کی نیز یہ بھی فرمایا ! اے پیغمبر ! بیشک یہ کتاب آپ کے لیے اور آپ کی قوم کے لیے باعث شرف ہے اور یہی وہ چیز ہے جسے اللہ نے اپنے علم کے ساتھ نازل کیا۔ آگے فرمایا والملیکۃ یشھدون اللہ کے فرشتے بھی اس کی حقانیت کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی وہ مقدس مخلوق ہے جس کی تعداد خود اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ موجود ہے ” قل ای شیً اکبر شہادۃ قل اللہ شہیداً بینی وبینکم “ سب سے بڑی گواہی تو خدا تعالیٰ کی ہے۔ خدا تعالیٰ شہادت دیتا ہے کہ یہ سچی کتاب ہے۔ توحید کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ کی گواہی کا ذکر آتا ہے۔ یعنی اللہ ، اس کے فرشتے اور انصاف پر قائم رہنے والے صاحب عقل لوگ بھی گواہی دیں گے کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں۔ اسی طرح قرآن پاک کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ کی گواہی اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ آخری کتاب اپنے آخری نبی پر اپنے علم سے اتاری۔ اس کے علوم ، معارف اور حقائق کا ذخیرہ اتنا وسیع ہے کہ بڑے سے بڑا انسان بھی اس کی کسی چیز پر حاوی نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یوں کہیں کہ پروردگار ! میرے علم میں اضافہ فرما کفار کی گمراہی قرآن پاک کی حقانیت کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا ذرا کفار کا حال بھی سن لیجئے۔ ان الذین کفروا جن لوگوں نے کفر کیا اور کفر کا معنی انکار ہے جو کہ بدترین چیز ہے۔ جس نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، اس کی کتاب ، اس کے ملائکہ ، اس کے انبیاء اس کی صفت یا قیامت کا انکار کیا۔ اور اس سے مراد یہودی ہیں جو صاف کہتے ہیں کہ ہم نبی آخر الزمان کو نہیں پہچانتے گویا آخری نبی اور آخری شریعت کا نہ صرف خود انکار کرتے ہیں بلکہ وصداواعن سبیل اللہ دوسروں کو بھی اللہ کے راستے سے روکتے ہیں مختلف قسم کی سازشیں کرتے ہیں کہ کس طرح لوگ اسلام قبول نہ کریں۔ راستے کا پتھر اس آیت کریمہ میں یہودیوں کی طرف اشارہ ہے کہ وہ خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی قبولیتِ حق سے روکتے ہیں۔ مگر آج جب ہم اپنے گردو پیش پر نظر ڈالتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ آج خود مسلمان اسلام کے راستے میں سب سے بڑا پتھر ہے۔ انگریز نو مسلم محمد پکھتال (رح) نے مدارس میں اپنی تقریر کے دوران کہا تھا کہ میرا دنیا بھر کا مشاہدہ ہے کہ خود مسلمان اسلام کے راستے کا سنگ گراں ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر مسلمان توحید کے بجائے شرک اور سنت کے بجائے بدعت پر عمل پیرا ہونگے ، کفر کے شعار کو اپنائیں گے تو لوگ اسلام سے متنفر نہیں ہوں تو کیا ہوگا۔ مسلمان کے لیے تو لازم تھا کہ وہ اسلام کی حفاظت کرتا۔ جاپان کے ایک نو مسلم پروفیسر ہشام سے دریافت کیا گیا کہ تمہارے اسلام لانے کی کیا وجہ بنی ، تو کہنے لگا ، میں مسلمانوں کے کردار کو دیکھ کر مسلمان نہیں ہوا ، بلکہ خوش قسمتی سے مجھے قرآن پاک کا نسخہ میسر آ گیا جسے پڑھ کر مجھے یقین آ گیا کہ اسلام سچا مذہب ہے۔ البتہ مسلمان خود جھوٹے ہیں۔ منکرین کے لیے سزا فرمایا ان الذین کفروا و ظلموا جن لوگوں نے انکار کیا اور زیادتی کی۔ کفر و شرک کا راستہ اختیار کیا اللہ تعالیٰ ان کو معاف نہیں کریگا اور نہ ان کو راستہ بتلائے گا جب تک کوئی شخص فسق و فجور میں مبتلا ہو ، باطل طریقے پر اڑا ہوا ہو۔ اسے صراط مستقیم کی طرف راہنمائی حاصل نہیں ہوسکتی۔ بلکہ الا طریق جہنم اسے تو جہنم کا راستہ ہی میسر آئے گا۔ ایما ن بالرسول یہودیوں کا کردار بیان کرنے کے بعد اگلی آیات میں نصاریٰ کا ذکر بھی آ رہا ہے۔ البتہ درمیان میں اللہ تعالیٰ نے پوری بنی نوع انسان کو خطاب کیا ہے خواہ اس کا تعلق کسی مذہب اور عقیدے سے ہو۔ ارشاد ہوتا ہے اے لوگو ! تمہارے پاس اللہ کا رسول حق بات لے کر آ گیا ہے تمہارے رب کی طرف سے۔ پس ایمان لے آؤ کہ اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔ اللہ کا آخری رسول تمہارے پاس اللہ کا آخری پیغام (قرآن پک) لیکر آیا ہے۔ جو تمہاری فلاح کا حتمی پروگرام ہے اگر اس پروگرام پر عمل پیرا ہوجاؤ گے تو دنیا میں بھی کامیابی نصیب ہوگی اور آخرت کی فلاح تو بہرحال تمہارے مقدر میں ہے ۔ مولانا شیخ الہند (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ پیغمبر (علیہ السلام) پر نازل ہونے والی چیز کا ماننا فرض ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔
Top