Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ١۫ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) لَا تَاْكُلُوْٓا : نہ کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بِالْبَاطِلِ : ناحق اِلَّآ : مگر اَنْ تَكُوْنَ : یہ کہ ہو تِجَارَةً : کوئی تجارت عَنْ تَرَاضٍ : آپس کی خوشی سے مِّنْكُمْ : تم سے َلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو اَنْفُسَكُمْ : اپنے نفس (ایکدوسرے) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : بہت مہربان
اے ایمان والو ! ایک دوسرے کے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھائو ، سوائے اس کے کہ آپس میں رضا مندی سے تجارت ہو۔ اور نہ قتل کرو ایک دوسرے کو ، بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ مہربان ہے
ربط آیات گزشتہ دروس میں محرمات نکاح اور ان محرمات کی حکمت کا تذکرہ ہوچکا ہے۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے پرانے لوگوں کے حالات اور دستور کی طرف بھی اشارہ کیا ، تاکہ ہمیں موجودہ شرائع الٰہیہ سے تقابل اور ترجیح کا موقع مل سکے اور معاملے کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ خداوند قدوس نے اس معاملہ میں انسان کی طبعی خواہشات کو ملحوظ خاطر رکھ کر اس کے لیے آسانی پیدا فرمادی ہے۔ اور انہیں پورا کرنے کا بہتر طریق کار بھی سمجھادیا ہے۔ چونکہ انسان فطرتاً کمزور پیدا کیا گیا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے تخفیف فرمادی ہے۔ محرمات نکاح کے مسئلہ میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی نفس میں ناحق طریقے سے تصرف کرنا حلاف نہیں ہے۔ لہٰذا جن عورتوں کے ساتھ نکاح حرام ہے ان میں تصرف باطل ہے تو جس طرح کسی جان میں ناحق تصرف جائر نہیں اسی طرح مال میں بھی شرعی احکام کے خلاف تصرف روا نہیں۔ اس سورة کی ابتداء میں بھی جانی اور مالی حقوق کا تذکرہ آچکا ہے۔ تخلیق انسانی کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے حق میں ناانصافی کرنے سے منع فرمایا۔ پھر عورتوں کے مہر کا ذکر کیا۔ وراثت کے احکام بیان ہوئے کہ یہ بھی مالی احکام ہیں۔ اب آج کے درس میں بھی اللہ تعالیٰ نے مالی اور جانی حقوق کا ذکر کیا ہے اور واضح فرمایا ہے کہ شرعی حکم کے بغیر نہ مال میں تصرف روا ہے اور نہ جان میں۔ مال میں ناجائز تصرف ارشاد ہوتا ہے یایھا الذین امنوا اے ایمان والو ! یہ خطاب خاص طور پر اہل ایمان کے لیے ہے ، لاتاکلو اموالکم بینانہ کھائو اپنے مالوں کو اپنے درمیان بالباطل باطل طریق سے ، اور اس سے مراد ناجائز اور حرام راستے ہیں۔ ہر وہ ذریعہ آمدنی جو شریعت نے حرام قرا ردیا ہے ، وہ باطل میں شمار ہوگا اس میں چوری ، ڈکیتی ، خیانت ، سود ، رشوت ، دھوکہ وغیرہ سب آجاتے ہیں۔ بیوع فاسدہ یعنی وہ خرید وفروخت جس سے شریعت نے منع فرمایا وہ بھی باطل میں شامل ہوگی۔ جن اشیاء کی تجارت مثلاً شراب ، مردار ، تصاویر ، مجسمے وغیرہ کی ممانعت آئی ہے ان کے ذریعے مال کا حصول بھی باطل ہے اس کے علاوہ بعض ایسے ہیں جن کو اختیار کرنے سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے جیسے گانا بجانا آلات لہو و لعب جوا وغیرہ سب امور باطلہ کی فہرست میں آتے ہیں ۔ تو اللہ نے فرمایا کہ ایک دوسرے کا مال باطل ذرائع سے مت کھائو۔ بعض اوقات کسی کا وراثت کا حق غصب کیا جاتا ہے۔ شراکتی کاروبار بھی ایک دوسرے کے حق میں خیانت ہوجاتی ہے فرمایا ات کل ذی حق حقہ ہر حقدار کو اس کا حق ادا کرو۔ اگر کسی طریقے سے دوسرے کے مال میں ناجائز تصرف ہوگا ، تو حرام ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے صریح الفاظ میں منع فرمادیا ہے کہ اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھائو۔ مفسر قرآن امام ابوبکر حصاص (رح) فرماتے ہیں کہ جس طرح دوسرے کا مال ناجائز طور پر کھانا یا استعمال کرنا روا نہیں ، اسی طرح اپنا مال بھی ناجائز اور باطل طریقے سے استعمال کرنا حرام ہے۔ اگر اپنا مال بھی کھیل تماشے میں لگادیا یا رسومات باطلہ کی نذر کردیا ، اسراف وتبذیر میں اڑادیا تو یہ بھی ناجائز ہے۔ تجارتی منافع البتہ ایک صورت ایسی ہے جس میں ایک دوسرے کا مال کھایا جاسکتا ہے۔ الا ان تکون تجارۃ اور وہ ہے ذریعہ تجارت ، تجارت کے ذریعے سے ایک فریق کو دوسرے فریق سے جو منافع حاصل ہوتا ہے اس کا استعمال جائز ہے اور پھر تجارت بھی ایسیعن تراض منکم جو باہمی رضا مندی سے کی جائے ، اور جو صحیح تجارت ہے وہ رضامندی سے ہی ہوسکتی ہے۔ اگر کوئی فریق تجارتی لین دین میں راضی نہ ہو تو وہ تجارت نہیں بلکہ زبردستی ہوگی جو کہ ناجائز ہے۔ تجارت کا مطلب ہی یہ ہے مبادلۃ المال بالمال بالتراضی یعنی مال کا بدلہ مال سے باہمی رضا مندی کے ساتھ کیا جائے۔ اس میں یقینا منافع حاصل ہوگا اور وہ مومن کے لیے شرعاً حلال ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ باہمی رضا مندی بھی اسی صورت میں روا ہے جب کہ تجارت شرعی حدود کے اندر ہو۔ اگر کوئی شخص سود یا رشوت کی رقم دوسرے فریق کی رضا مندی سے دیتا ہے یا لیتا ہے تو وہ لین دین جائز نہیں ہوگا۔ کیونکہ ان اشیاء کو تو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ ایسی رضا مندی کا کچھ اعتبار نہیں۔ البتہ تجارت میں منافع لینا جائز ہے ، اور اس کی کوئی تحدید نہیں۔ منافع کبھی زیادہ بھی ہوسکتا ہے اور کبھی کم۔ کبھی برابر سرابر تجارت کرنا پڑتی ہے اور کبھی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے ، بہرحال تجارت میں نفع کمانا جائز ہے۔ اس کے علاوہ کی کا مال استعمال کرنا جائز نہیں۔ ابودائود شریف میں حضور ﷺ کا فرمان موجود ہے۔ 1 ؎ ابودائود ص و احکام القرآن للجصاص ص 633 ج 3۔ (فیاض) لایحل مال امرء مسلم الا بطیب نفسہ کسی مسلمان کا مال اس وقت تک حلال نہیں جب تک وہ خوشی خاطر سے خود اس کی اجازت نہ دے ۔ غیر تجارتی ذرائع مال یہ امر قابل ذکر ہے کہ تجارت کے علاوہ بعض دیگر ذرائع بھی موجود ہیں جن سے کوئی مسلمان مال حاصل کرسکتا ہے۔ ان میں وراثت میں وصول ہونے والا مال ہے۔ اگر کوئی شخص دوسرے کو کوئی مال ہبہ کردے تو اس کے لیے حلال ہوجاتا ہے۔ یا کوئی کسی کو عطیہ دے دے یا صدقہ دے تو وہ مال بھی دوسرے کے تصرف میں آسکتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیت زیر درس میں صرف تجارت کا ذکر آیا ہے ، باقی ذرائع مال کی کیا حیثیت ہوگی۔ اس کے جواب میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اگرچہ تجارت کے علاوہ حصول مال کے دیگر ذرائع بھی موجود ہیں مگر یہاں پر تجارت کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ سب سے بڑا ذریعہ مال تجارت ہی ہے ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں کل مال تصرف کا اسی فیصد حصہ تجارت کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اور باقی بیس فیصد دیگر ذرائع سے۔ تجارت کو دنیا میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ انسانی تمدن میں یہ سب سے بڑا ذریعہ مبادلہ ہے۔ تجارتی لین دین مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک ہوتا رہتا ہے ایک ملک دوسرے سے تجارت کرتا ہے۔ ایک شہر کا مال دوسرے شہر میں جاتا ہے حتی کہ ایک محلے اور علاقے کا سامان دوسرے مقام پر تجارت کے ذریعے پہنچتا ہے۔ غرضیکہ پوری دنیا کی ضروریات زندگی ایک خطے سے دوسرے خطے میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ یہی تجارت ہے اور یہی سب سے بڑا ذریعہ حصول مال ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ باہمی رضا مندی کی تجارت کے علاوہ آپس میں باطل طریقے سے مال نہ کھائو۔ یہاں پر اکل کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنفی کھانے کا ہوتا ہے ، یعنی باطل طریقے سے مال نہ کھائو۔ مگر مال صرف کھایا ہی نہیں جاتا بلکہ یہ دیگر ضروریات یعنی پہننے ، رہائش ، سواری وغیرہ میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ تو کیا کھانے کے علاوہ دیگر امور میں باطل طریقے سے مال استعمال کیا جاسکتا ہے ؟ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ ضرورت زندگی میں انسان کے لیے کھانا سب سے اہم ضرورت ہے۔ باقی ضروریات کو کسی مدت تک ملتوی کیا جاسکتا ہے مگر کھانا ایک ایسی چیز ہے جس پر انسانی زندگی کا انحصار ہے ۔ شیخ سعدی (رح) بھی گلستان میں کہتے ہیں کہ انسان تکیے کے بغیر سو سکتا ہے ، بیوی کے بغیر گزارہ کرسکتا ہے ، پھول اور خوشبو کے بغیر بھی گزراوقات ہوسکتی ہے ، لیکن پیٹ ایسا ظالم ہے کہ جب تک اس میں کوئی چیز داخل نہ کریں ، گزارہ نہیں ہوتا۔ اسی لیے کہتے کہ دنیا پیٹ پر چلتی ہے پیٹ ہی کی خاطر انسان طرح طرح کے دھندے کرتا ہے۔ لہٰذا یہاں پر کھانے کا ذکر زندگی کی اہم ترین ضرورت ہونے کی وجہ سے کیا گیا ہے اسی طرح سود کو حرام کرتے وقت بھی فرمایا لاتاکلو لربو یعنی سود مت کھائو۔ حالانکہ سود کی رقم دیگر کاموں میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ مقصد یہی ہے کہ کھانے میں استعمال کی ہرچیز شامل ہے۔ گہوارہ امن ایک دوسرے کے مال میں عدم تصرف کا اللہ تعالیٰ نے ایسا پاکیزہ اصول بیان کردیا ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو پوری دنیا گہوارہ امن بن جائے۔ کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ ناجائز تصرف سے شروفساد کا دروازہ کھلتا ہے۔ حرص ، لالچ ، طمع ، خود غرضی ، نفس پرستی اور تعیش وغیرہ سب ناجائز تصرف کا ثمرہ ہیں۔ اگر مسلمان خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے ہوئے ناجائز تصرف سے باز آجائیں تو پوری سوسائٹی میں امن وامان قائم ہوجائے بہرحال فرمایا کہ ناجائز طریقوں سے مال اکٹھا نہ کرو بلکہ اس کے لیے جائز اور پسندیدہ ذرائع تلاش کرو۔ اللہ نے فرمایا واحل اللہ البیع وحرم الربو یعنی اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ لہٰذا انسان کو لازم ہے کہ وہ معیشت کے لیے حلال ذرائع اختیار کرے اور حرام راستوں سے بچ جائے۔ فتح مکہ کے موقع پر بھی حضور نبی کریم ﷺ نے اعلان کروایا تھا ان اللہ ورسولہ حرم بیع الخمر والمیتۃ والخنزیر والاصنام یعنی اللہ تعالیٰ نے مردار ، خنزیر ، شراب اور مجسموں کی خرید وفروخت کو حرام قرار دیا ہے۔ لہٰذا تجارت بھی ایسی کرنی چاہیے جس میں حرمت کا پہلو نہ پایا جائے۔ قتل نفس جس طرح مال میں ناجائز تصرف حرام ہے۔ اسی طرح جان میں بھی ناجائز تصرف حرام ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ولاتقتلوا انفسکم اور نہ قتل کرو اپنی جانوں کو ۔ یعنی ایک دوسرے کے قتل کے درپے مت ہو کہ یہ بھی حرام ہے اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ اور پھر انفسکم سے یہ بھی مراد ہے کہ کوئی شخص خود اپنی جان کو بھی تلف نہ کرے ، گویا خودکشی بھی حرام ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے جو شخص جس آلے کے ساتھ خودکشی کرے گا اسی آلے کے ذریعے اس کو جہنم میں سزا دی جائے گی۔ اگر کسی چھری یا دیگر تیز دھار آلے سے اپنے آپ کو ہلاک کیا ہے۔ تو دوزخ میں اسی سے ہلاک ہوتا رہے گا۔ اگر زہرکھایا ہے تو ہی زہر اس کو کھانے کو ملے گا ، اگر کوئی شخص اونچے مینار یادیوار سے چھلانگ لگاکر خودکشی کا مرتکب ہوتا ہے تو دوزخ میں اسے اونچی جگہ سے گرایا جائے گا غرضیکہ وہاں پر جزاجنس عمل سے ملے گی۔ مقصد یہ ہے کہ خودکشی بھی حرام ہے۔ اور کسی دوسرے آدمی کی جان لینا بھی قطعی حرام ہے۔ مگر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اہل اسلام بھی مال وجان میں تصرف کی پروا نہیں کرتے۔ صدر ایوب کے زمانے میں اسمبلی میں رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق صرف ایک صوبے میں تین سال کے عرصہ میں سولہ ہزار قتل ہوئے اور ایک ضلع میں ایک سال میں ایک ہزار قتل ہوئے۔ حالانکہ کسی ایک مسلمان کی جان کا اتلاف دنیا بھر کے نقصان سے بڑھ کر ہے۔ ابن ماجہ شریف کی روایت میں آتا ہے۔ 1 ؎ ابن ماجہ ص وترمذی 022 ج 2 (فیاض) زوال الدنیا اھون علی اللہ من قتل رجل مسلم یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان کا قتل پوری دنیا کے زوال سے بھاری ہے۔ مگر آج دنیا میں کیا ہورہا۔ معمولی معمولی باتوں پر قتل روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ علاوہ ازیں خودکشی کے واقعات بھی عام ہوچکے ہیں یہ جہالت اور نادانی کی انتہا ہے کہ انسان اپنی ہی جان کے درپے ہوجاتا ہے بمبئی میں میٹرک کے نتیجے کے موقع پر ساحل سمندر پر فوج متعین کردی جاتی ہے۔ تاکہ فیل ہونے والے طلباء کو خودکشی سے روکا جاسکے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے ، خودکشی کرنے والا آدمی آخرت میں سزا کا مستحق ہوجاتا ہے اسی لیے فرمایا ایک دوسرے کو ناحق قتل نہ کرو ، اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ مہربان ہے ان اللہ کان بکم رحیماً اللہ تعالیٰ نے تمہیں جان ومال کی حفاظت کے قوانین بتلادئیے ہیں ، ان پر عمل کرنے سے تمہارا اپناہی فائدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام امور سے آگاہ کردیا ہے جو تمہارے لیے دین ، دنیا ، برزخ اور آخرت کے لیے مفید ہیں اور وہ چیزیں بھی بتادیں جو تمہارے لیے مضر ہیں۔ اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ تم ان میں سے کون سی چیز کو اختیار کرتے ہو۔ ناجائز تصرف کی سزا فرمایا ومن یقعل ذلک جو شخص ایسا کام کرے گا مال وجان میں ناجائز تصرف کرے گا عدوانا تعدی کرتے ہوئے وظلماً اور زیادتی کرتے ہوئے۔ واضح رہے کہ قتل نفس عدوان میں آتا ہے۔ یہ شرک کے ساتھ اکبر الکبائر میں شمار ہوتا ہے اور مال میں ناجائز تصرف ظلم کہلاتا ہے تو فرمایا کہ جو شخص تعدی اور ظلم سے ناحق مال کھائے گا یا کسی کی جان لے گا۔ فسوف نصلیہ ناراً تو عنقریب ہم اس کو جہنم کی آگ میں داخل کریں گے۔ اگر وہ اس دنیا میں کسی نہ کسی طرح سزا سے بچ بھی گیا ، تو جہنم میں اس کے لیے ………ابدی سزا بہرحال اس کے انتظار میں ہے۔ وکان ذلک علی اللہ یسیراً اور دوزخ میں سزا دینا اللہ تعالیٰ کے لیے آسان ہے۔ یہ نہ سمجھنا کہ ہم مسلمان ہیں اور سزا سے بچ جائیں گے بلکہ جرم کی سزا ضرور ملے گی۔ بلکہ اکثر کسی شخص سے غلطی سے بھی قتل ہوجائے تو اس کے لیے بھی کفارہ ادا کرنا پڑے گا۔ توبہ کرنی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے خون بہا کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا زیادتی کرکے پھر بچ نکلنے کی کوئی صورت نہیں۔ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے جس نے تمہیں دین حق دیا۔ مغرور ہو کر اس کے احکام کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہمیشہ اس کی اطاعت کرنی چاہیے۔
Top