Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 31
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا
اِنْ : اگر تَجْتَنِبُوْا : تم بچتے رہو كَبَآئِرَ : بڑے گناہ مَا تُنْهَوْنَ : جو منع کیے گئے عَنْهُ : اس سے نُكَفِّرْ : ہم دور کردیں گے عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہارے چھوٹے گناہ وَنُدْخِلْكُمْ : اور ہم تمہیں داخل کردیں گے مُّدْخَلًا : مقام كَرِيْمًا : عزت
اگر تم بچتے رہوگے ان بڑے گناہوں سے جن سے تم کو روکا گیا ہے تو ہم معاف کردیں گے تم کو تمہارے چھوٹے گناہ ، اور ہم داخل کریں گے تم کو بڑی عزت کے مقام میں
گزشتہ درس میں محرمات نکاح کا بیان ہوچکا ہے اس کے بعد اموال اور نفوس کے متعلق ارشاد ہوا کہ ایک دوسرے کے مال میں ناجائز تصرف مت کرو اور نہ ہی کسی کی جان تلف کرو۔ ہی بھی حرام ہے جو شخص تعدی اور ظلم کا ارتکاب کرے گا ، اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں داخل کرے گا۔ ایسا شخص مجرم تصور ہو کر سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔ ان دونوں چیزوں یعنی مال وجن میں ناجائز تصرف کبیرہ گناہ میں شمار ہوتا ہے۔ اسی نسبت سے اللہ تعالیٰ نے آج کے درس کی آیت میں بڑے بڑے گناہوں کا تذکرہ فرمایا ہے کہ جو شخص بڑے گناہوں سے بچتا رہے گا۔ اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے خود ہی معاف فرماتا رے گا اور جنت کے باعزت مقام میں داخل کرے گا۔ کبائر اور صغائر کبائر اور صغائر کی اصلاح قرآن وسنت میں کثرت سے استعمال ہوئی ہے کبائر سے مراد وہ بڑے گناہ ہیں جو بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ اور صغائر وہ چھوٹی چھوٹی لغزشیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ازخود ہی معاف فرمادیتے ہیں۔ بشرطیکہ انسان بڑے گناہوں سے بچتا رہے اور اعمال صالحہ انجام دیتا رہے۔ آج کی آیت کریمہ میں اللہ نے یہی قانون سمجھا یا ہے ارشاد ہوتا ہے ان تجتنبوا کبائر ماتنھون عنہ اگر تم ان کبائر سے اجتناب کرتے رہوگے جن سے منع کیا گیا ہے نکفر عنکم سیاتکم ہم معاف کردیں گے تمہاری چھوٹی موٹی خطائیں۔ البتہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کبیرہ گناہوں سے باز آئے تو پھر نہ صرف کبائر کی وجہ سے گنہگار ہوگا بلکہ چھوٹے گناہوں پر بھی موخذہ ہوگا۔ چھوٹی موٹی خطائیں اور لغزشیں تو انسان سے ہر آن صادر ہوتی رہتی ہیں تاہم اگر کبیرہ گناہ سے بچ گیا تو انشاء اللہ اس کی کامیابی کی امید ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہے کہ اس نے چھوٹے گناہوں کو ازخود معاف کردینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ بشرطیکہ انسان کبائر سے اجتناب کی شرط کو پورا کرے۔ اس ضمن میں حضور ﷺ کی بہت سی حدیثیں منقول ہیں۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا الجمعۃ الی الجمعۃ کفارۃ لما بینھما ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اگر انسان کبائر سے بچتا رہے تو دوسرے چھوٹے چھوٹے گناہ ان کی وجہ تک اگر انسان کبائر سے بچتا رہے تو دوسرے چھوٹے چھوٹے گناہ ان کی وجہ سے معاف ہوتے رہتے ہیں۔ نبی (علیہ السلام) نے ایسے ہی الفاظ ایک نماز سے دوسری نماز تک کے درمیانی عرصہ کے متعلق فرمائے کہ اللہ تعالیٰ دو نمازوں کے درمیان معمولی لغزشیں ان نمازوں کی برکت سے معاف فرمادیتا ہے سورة ہود میں بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ ان الحسنت یذھبن السیات ذلک ذکری للذکرین بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹاتی رہتی ہیں۔ یہ ایک یاد دہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو خدا تعالیٰ کو یاد کرنے والے ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے من توضا فحسن الوضو جس نے اچھی طرح وضو کیا یعنی فرائض ، سنن اور مستحبات کی رعایت کرتے ہوئے اور تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے اعلیٰ درجہ کا وضو کیا ، فرمایا خرجت خطایاہ من جسدہ اس کے تمام صغیرے گناہ اس کے جسم سے نکل جاتے ہیں یعنی اس کے ہاتھوں کے یا آنکھوں کے یا منہ کے چھوٹے چھوٹے گناہ خود بخود وضو کی برکت سے دھل جاتے ہیں۔ نیز آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر بندہ نفلی نماز پڑھتا ہے تو اس کے لیے جنت کے دروزے کھل جاتے ہیں۔ سات کبائر حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے 1 ؎ مسلم ص 41۔ ج 1 (فیاض) کہ حضور ﷺ نے فرمایا اجتنبوا سبع الموبقاتاے لوگو ! سات مہلک گناہوں سے بچنے کی کوشش کرو۔ ان میں سب سے پہلا گناہ اشراک باللہ ہے یعنی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا۔ یہ سب سے زیادہ مہلک گناہ ہے کفر اور شرک انسان کو تباہ کردیتے ہیں۔ فرمایا دوسرا بڑا گناہ قتل نفس ہے۔ کسی کی جان کو ناحق تلف کرنا۔ اس کے بعد سحر یا جادو کرنا ، یتیم کا مال کھانا ، لڑائی کے دن دشمن سے بھاگ جانا جب کہ دشمن کی تعداد مسلمانوں سے دگنی سے زیادہ نہ ہو۔ اگر دشمن کی تعداد دگنے سے زیادہ ہے تو پھر پیچھے ہٹ جانے سے انسان گنہگار نہیں ہوتا۔ اس کے بعد فرمایا بڑا گناہ قذف المحصنت یعنی پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانا ہے۔ عورتوں یا مردوں پر بدکاری کی تہمت لگانا اور ساتواں گناہ شہادت الزور یعنی جھوٹی گواہی دینا ہے یہ سب اکبر الکبائر میں شمار ہوتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک یا زیادہ گناہوں کے مرتکب کے لیے معافی نہیں جب تک وہ جیتے جی تو بہ نہ کرے۔ اور توبہ کی شرائط گزشتہ دروس میں گزرچکی ہیں۔ کبائر کا اصول امام غزالی (رح) اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ کبیرے گناہوں کی تعداد تو بہت زیادہ ہے تاہم اصولی طور پر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کبیرہ گناہ وہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں یا حضور نبی ﷺ کی زبان مبارک نے جہنم کی وعید فرمائی ہے گویا ایسا ہر جرم کبیرہ گناہ میں شامل ہوگا ، جس پر جہنم میں جانے کی وعید آئی ہے۔ فرمایا ہر ایسا گناہ بھی کبیرہ شمار ہوتا ہے جس کے ارتکاب پر اللہ تعالیٰ نے اپنے غضب کا اظہار فرمایا ہے کہ ایسا کرنے والے پر اللہ کا غضب اور ناراضگی ہو یا سخط اللہ علیہ کے الفاظ آتے ہوں۔ اس کا معنی بھی اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضگی ہے فرماتے ہیں کہ ہر وہ گناہ بھی کبیرہ ہے۔ جس کے مرتکب پر حد جاری کرنے کا حکم ہو جیسے چوری۔ زنا۔ قذف ، شراب نوشی وغیرہ ۔ امام غزالی (رح) فرماتے ہیں کہ ہر ایسا گناہ جس پر ایسی خرابی مرتب ہو جو کبیرہ گناہ پر مرتب ہوتی ہے تو وہ بھی کبیرہ گناہ شمار ہوگا۔ اگرچہ اس کا ذکر قرآن پاک میں موجود نہ ہو۔۔ کبائر کے تین گروہ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) کے ہمعصر اور ان کے شاگرد ہیں۔ بڑے پائے کے عالم ، نیک اور صالح آدمی تھے۔ آپ حضرت مرزا مظہر جان جاناں (رح) سے بیعت تھے جو کہ عالمگیر (رح) کے خالہ زاد بھائی اور بہت بڑے ولی اللہ تھے۔ قاضی صاحب نے دس جلدوں پر محیط تفسیر مظہری آپ ہی کے نام سے منسوب کی تھی۔ عربی زبان کی یہ نہایت معتبر تفسیر ہے۔ فارسی زبان میں فقہ کی معتبر کتاب مابدمنہ بھی آپ ہی کی تصنیف ہے جو کہ درس نظامی میں پڑھائی جاتی ہے۔ آپ زمانے کے بیہقی مشہور تھے جس طرح صدی ہجری کے امام بیہقی بڑے محدث ہوئے ہیں ، سنن کبریٰ جیسی عظیم کتاب لکھی ہے اسی طرح پانی پتی (رح) بھی بہت بڑے محدث اور فقیہ تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ کبائر کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ کبائر کا پہلا گروہ وہ ہے جس میں فکری خرابی پائی جاتی ہے اور انسان کا عقیدہ فاسد ہوجاتا ہے اس گروہ میں کفر ، شرک ، نفاق ، الحاد اور ارتداد وغیرہ جیسے بڑے گناہ شامل ہیں۔ قرآن پاک یا حضور ﷺ کے کسی ثابت شدہ فرمان کو غلط معنی پہنانے والا شخص بھی اسی زمرہ میں آتا ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی اسی قبیل سے ہے جس نے نبوی کا دعویٰ کیا ، اور قرآن پاک کے معانی الٹ پلٹ کیے۔ مولوی عبداللہ چکڑالوی نے حدیث کا انکار کیا۔ سرسید اہل حدیث کہلانے کے باوجود ایسا بگڑا کہ قرآن حکیم کی غلط تفسیر کی اور بدعقید گی پھیلائی۔ یہی حال موجودہ زمانے کے پرویز کا ہے۔ نیاز محمد فتح پوری بنیادی طورادیب تھا مگر عقیدہ اس کا بھی فاسد ہوگیا۔ عنایت اللہ مشرقی کی تنظیم خاکسار تو درست تھی۔ وہ مسلمانوں کے عہد رفتہ کو واپس لانا چاہتے تھے ۔ مگر عقیدہ صحیح نہیں تھا ، سات سو علماء نے اس کی گمراہی کا فتویٰ دیا۔ اس نے تذکرہ لکھا جس میں غلط مسائل بیان کیے ، ایمان کو کفر اور کفر کو ایمان کا درجہ دیدیا۔ اس قسم کے تمام لوگ کبیرے گناہوں کے پہلے گروہ سے متعلق ہیں جس میں فکری خرابی پائی جاتی ہے۔ کبائر کا دوسرا گروہ ظلم وتعدی سے تعلق رکھتا ہے۔ کسی کی جان تلف کردی ، کسی کی بےعزتی کی۔ اس کے مال کو نہ حق ضائع کیا یا اس پر قبضہ کرلیا ، یہ کبائر کے مرتکبین کا دوسرا گروہ ہے۔ اسی طرح تیسرے گروہ میں وہ کبائر آتے ہیں جن کا تعلق بندے اور خدا دونوں سے ہے۔ ان جرائم میں قتل نفس ، زنا ، چوری ، شراب نوشی ترک نماز و دیگر فرائض شامل ہیں۔ ان گناہوں کا مرتکب انسان بیک وقت اس بندے کا بھی مجرم ہوتا ہے جس کے ساتھ اس نے زیادتی کی اور اللہ تعالیٰ کا بھی جس کی اس نے صریح حکم میں نافرمانی کی۔ اعتقادی کبائر اس کے علاوہ بعض اعتقادی کبائر ہیں مثلاً کوئی شخص خدا تعالیٰ کی رحمت سے بالکل مایوس ہوجائے۔ اس کو الیاس من الرحمۃ کہتے ہیں۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا بیان قرآن کریم میں موجود ہے۔ ولاتایئسوا من روح اللہ انہ لا یایئس منروح اللہ الا القوم الکفرون آپ نے اپنے بیٹوں کو فرمایا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا کیونکہ اللہ کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوتے ہیں۔ اسی طرح امن کو بھی کفر سے تعبیر کیا گیا ہے کوئی شخص ایسا لاپروا ہوجائے کہ اسے آخرت کی فکرباقی نہ رہے اور وہ یہ سمجھنے لگے جائے کہ خدا مجھے کوئی سزا نہیں دے گا ، وہ جو چاہے کرتا پھرے ، یہ نظریہ بھی کفر ہے اور اس کا حامل کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے۔ بہرحال مفسرین نے کبائر کی بہت سی اقسام گنوائی ہیں۔ حضور ﷺ نے ان گناہوں کی بڑی تشریح فرمائی ہے۔ ان سے بچنا ضروری ہے۔ اگر انسان کبائر سے بچتا رہے تو چھوٹی موٹی خطائیں خود بخود معاف ہوتی رہتی ہیں۔ زنا کبیرہ گناہ ہے مگر غیر محرم عورت کی طرف دانستہ نظر اٹھانا صغیرہ گناہ ہے۔ کبیرہ گناہ میں فساد اور خرابی زیادہ واقع ہوتی ہے۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ ان کی وجہ سے اخلاق میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی حاصل ہوتی ہے ارتفاقات یعنی لوگوں کے معاشی طور طریقے سب بگڑ جاتے ہیں کبائر میں بہت زیادہ مفسدہ پایا جاتا ہے۔ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ بعض کبائر مثلاً کفر اور شرک ایسے ہیں کہ اگر زندگی میں توبہ نہیں کرے گا تو یہ معاف نہیں ہوں گے ان کے علاوہ جو باقی کبائر ہیں ، ان کا قانون یہ ہے کہ اگر توبہ کرے گا تو معاف ہوجائیں گے اور اگر ان کا مرتکب توبہ نہیں کرتا ، مگر دل میں ایمان موجود ہے تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے وہ چاہے تو اپنی مہر بانی سے معاف کردے یا کسی نبی یا ولی کی سفارش قبول کرکے معافی دے دے۔ البتہ عقیدے کے فساد کے متعلق اس کا واضح اعلان ہے ان اللہ لا یغفران یشرک بہ ویغفرمادون ذلک لمن یشا اللہ تعالیٰ شرک جیسے بڑے گناہ کو معاف نہیں کرے گا ، اس کے علاوہ جس کو چاہے معاف فرمادے ، یہ اس کی مشیت پر موقوف ہے۔ انسانی اعضا کے گناہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ نیک اور صالح لوگ وہ ہیں الذین یجتنبو کبائر الاثم والفوحش الا اللھم (سورۃ نجم) یعنی نیک اور صالح نیک وہ ہیں جو کبیرے گناہوں سے بچتے ہیں مگر لمم (یعنی کچھ آلودگی) لمم کا لفظ حدیث شریف میں بھی آیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا ان اللہ کتب علی ابن ادم حظہ من الزنا یعنی اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کے لیے زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے اور زنا کی بھی مختلف اقسام ہیں۔ فرمایا فزنا العین النظر یعنی آنکھ کا زنا یہ ہے کہ و ہ غیر محرم کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے۔ مرد ہو یا عورت اجنبی کی طرف نظر اٹھانے کی اجازت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورة نور میں فرمایا ہے کہ مومنوں سے کہہ دو یغضوا من ابصارھم وہ اپنی نگاہوں کو نیچے رکھیں اور عورتوں کے متعلق بھی یہی حکم ہے یغضضن من ابصارھن کہ وہ بھی اپنی نظریں پست رکھیں۔ ترمذی شریف کی روایت 1 ؎ ترمذی ص و احکام القرآن للجصاص 513 ج 3 وفتح القدیر ص 52/ ج 4 (فیاض) میں آتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا یاعلی لاتتبع النظرۃ النظرۃ اے علی ! پہلی نظر کے بعد دوسری نظر اٹھا کر نہ دیکھوفان لک الاولی ولیست لک الاخرۃ کیونکہ پہلی نظر تو معاف ہوگی ، دوسری معاف نہیں ہوگی۔ پہلی نظر اچانک ہوتی ہے مگر دوسری اختیار اور ارادے سے پڑتی ہے اس لیے اس کی معافی نہیں۔ اس کا مواخذہ ہوگا۔ الغرض ! آنکھ کا زنا بری نظر سے دیکھنا ہے اور زبان کا زنا اس ضمن میں گفتگو کرنا ہے۔ نفس انسان کا زنا یہ ہے کہ وہ اس کی تمنا کرتا ہے اور پھر اعضائے مستورہ کے ذریعے یا اس کی تصدیق کردیتا ہے یا تکذیب اگر زنا سے بچ گیا تو تکذیب ہوگئی وگرنہ حقیقی زنا کا مرتکب ہوگیا۔ حالانکہ اللہ نے فرمایا ہے لاتقربو الزنا زنا کے قریب نہ جائو۔ چوری نہ کرو کسی کو ناحق قتل نہ کرو ، کسی پر بہتان نہ باندھو۔ ان سب گناہوں کی تفصیل اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان فرمادی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے سباب المومن فسوق وقتالہ کفر یعنی ایک مومن کو گالی دینا نافرمانی اور کبیرہ گناہ ہے اور مسلمان کو ناحق قتل کرنا کفر ہے۔ مسلمان تو ایک دوسرے کی جان کے محافط ہوتے ہیں۔ البتہ کافر مسلمان کی جان کے درپے ہوتے ہیں یہ سب کبائر میں شامل ہیں۔ کل مثال گزرچکی ہے ولاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے مت کھائو۔ چوری ، خیانت ، سود ، رشوت ، فواحش کا ارتکاب اور فرائض نماز ، روزہ ، زکوۃ ، حج ، قربانی وغیرہ کی عدم ادائیگی سب کبائر میں شامل ہیں۔ اسی لیے فرمایا کہ اگر کبائر سے بچتے رہوگے تو چھوٹے چھوٹے گناہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے خود ہی معاف فرماتے رہیں گے۔ عزت کا مقام ایسے مصلحین کے متعلق فرمایا وندخلکم مدخلاً کریما ہم تمہیں عزت کے مقام میں داخل کریں گے یعنی پورے اعزاز کے ساتھ بڑے اعلیٰ مقام میں داخل کریں گے اور وہ یقینا اللہ تعالیٰ کا بہشت ہی ہوسکتا ہے۔ دوسرے مقام پر تحبرون کا لفظ آیا ہے یعنی تمہاری بڑی آئو بھگت ہوگی ، جو جنت میں پہنچ جائے گا اس کو ابدی فلاح حاصل ہوجائے گی عزت کے اس مقام میں جسمانی اور روحانی ہر قسم کی سہولتیں حاصل ہونگی ، جو شخص وہاں پہنچ گیا ، اس پاک خطے کا ممبر بن گیا اس کو بہت بڑی کامیابی حاصل ہوگئی جس کی تفصیلات قرآن پاک میں موجود ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے کبائر کا حکم بیان کردیا ہے کہ یہ بڑے مضر ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے انسان کی سوسائٹی اور روحانیت خراب ہوجاتی ہے ۔ خدا کا غضب نازل ہوتا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ اگر ان بڑے بڑے گناہوں سے بچتے رہوگے تو ہم چھوٹی چھوٹی خطائیں خود بخود معاف کردیں گے اور تمہیں عزت کے مقام میں داخل کریں گے۔
Top