Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 36
وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙ
وَاعْبُدُوا : اور تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ وَلَا تُشْرِكُوْا : اور نہ شریک کرو بِهٖ : اس کے ساتھ شَيْئًا : کچھ۔ کسی کو وَّ : اور بِالْوَالِدَيْنِ : ماں باپ سے اِحْسَانًا : اچھا سلوک وَّ : اور بِذِي الْقُرْبٰى : قرابت داروں سے وَالْيَتٰمٰي : اور یتیم (جمع) وَالْمَسٰكِيْنِ : اور محتاج (جمع) وَالْجَارِ : ہمسایہ ذِي الْقُرْبٰى : قرابت والے وَالْجَارِ : اور ہمسایہ الْجُنُبِ : اجنبی وَالصَّاحِبِ بالْجَنْۢبِ : اور پاس بیٹھنے والے (ہم مجلس) وَ : اور ابْنِ السَّبِيْلِ : مسافر وَمَا : اور جو مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : تمہاری ملک (کنیز۔ غلام اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا مَنْ : جو كَانَ : ہو مُخْتَالًا : اترانے والا فَخُوْرَۨا : بڑ مارنے والا
اور اللہ کی عبادت کرو ، اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور قرابتداروں کے ساتھ اور یتیموں کے ساتھ اور مسکینوں کے ساتھ اور قریب والے ہمسائے کے ساتھ اور اجنبی ہمسائے کے ساتھ اور پاس بیٹھنے والے کے ساتھ اور مسافر کے ساتھ اور کہ جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہیں ، ان کے ساتھ بیشک اللہ تعالیٰ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو بڑائی کرنے والا ہے اور فخر کرتا ہے
ربط آیات سورۃ کی ابتداء سے یہاں تک حقوق ہی کا بیان آ رہا ہے پہلے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے حقوق بیان فرمائے پھر یتیموں کے حقوق کا تذکرہ کیا۔ مالی حقوق کے طور پر وراثت کے حقوق اور ورثایٔ کے حصص بیان کیے۔ نکاح اور محرمات نکاح کا ذکر ہوا۔ پھر معاشرتی مسائل آئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مرد عورتوں پر نگران یا محافظ ہیں ، ان پر عظیم ذمہ داری عاید ہوتی ہے۔ اگر نگران صحیح ہوگا تو اس کے ماتحت بھی درست ہوں گے اور اگر نگران ہی خرابی کا شکار ہوگا تو زیردست بھی ویسے ہی ہوں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر عورتوں کے ساتھ اختلاف ہوجائے تو اسے کس طرح نپٹانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا طریقہ بتایا اور باقاعدہ قانون مقرر فرمادیا۔ اب آج کے درس کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے س بسے پہلے اس بنیادی چیز کا ذکر کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ عبادت صرف اسی کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا جائے۔ اگر انسان کی یہ بنیاد درست ہوجائے تو آگے تمام معاملات درست ہوجائیں گے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنا حق بیان کرنے کے بعد باقی حقوق کی تفریع بیان فرمائی ہے۔ عبادت صرف اللہ کی ہو ارشاد ہوتا ہے واعبدو اللہ اللہ کی عبادت کرو۔ یہ بنیاد ہے۔ اگر تمام لوگ صرف اللہ ہی کی عبادت کرنے لگیں تو باقی تمام حقوق خود بخود درست ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کا خالق ، محسن اور مربی ہے۔ اگر اسی کے حقوق میں کوتاہی روا رکھی گئی تو پھر باقی مخلوق کا حق کیسے ادا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ جب بنیاد ہی کمزور ہوگی تو اس پر مضبوط عمارت کیسے تعمیر ہو سکتی ہے لہٰذا سب سے پہلے اس بنیادی عنصر کا ذکر کیا ، لوگو اللہ کی عبادت کرو۔ امام بیضاوی (رح) اور دیگر مفسرین نے عبادت کا مطلب یہ بیان کیا ہے۔ اقصیٰ غایۃ التذل والخصوع یعنی انتہائی درجے کی عاجزی اور نیازمندی کے اظہار کا نام عباد ت ہے اور یہ عمل کبھی نیت سے ہوتا ہے ، کبھی مال سے کبھی قول سے اور کبھی عمل سے۔ یہ انتہائی عاجزی اور نیازمندی مافوق الاسباب ہستی کا تصور رکھتے ہوئے محض اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مختص ہے اس کے علاوہ کسی کے ساتھ روا نہیں۔ جب عبادت صرف اللہ کے لیے خاص ہوگئی تو پھر غیر اللہ کے ساتھ ایسا معاملہ کسی طرح بھی روا نہیں۔ اگرچہ یہ بات خود بخود ذہن میں آتی ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے یہاں پر تاکیداً یہ بھی فرما دیا ولاتشرکوا بہ شیئًا اس مالک الملک کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ ۔ خالق اور واجب الوجود شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے اور واجب الوجود ہونے میں تو کسی کو شک و شبہ نہیں اور نہ ہی ان دو صفات میں اللہ کے ساتھ کوئی شرک کرتا ہے۔ البتہ شرک ہوتا ہے عبادت میں اور تدبیر میں۔ پوری نوع انسانی میں سے دہریوں کی قلیل تعداد کے علاوہ تمام مذاہب کے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ خالق صرف اللہ ہی کی ذات ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی خالق نہیں۔ کافر ، مشرک ، یہودی ، نصرانی ، ہندو ، سکھ ، چینی ، بدھ مجوسی کسی سے پوچھ کر دیکھو لو کہ ہر چیز کا خالق کون ہے ؟ سب کہیں گے۔ کہ خالق تو صرف اللہ ہے۔ اللہ خالق کل شیئٍ انسان ، حیوان ، چرند ، پرند ، کیڑے مکوڑے سب کو کس نے پیدا کیا ؟ اللہ نے زمین ، آسمان ، سیارے ، ستارے ، چاند ، سورج کا پیدا کرنے والا کون ہے ؟ سب کہیں گے اللہ ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے میں کسی کو کلام نہیں۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے واجب الوجود ہونے کا تعلق ہے۔ اس میں بھی سب لوگ متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا وجودخود بخود ہے ، یہ کسی کا وجود ضروری ہو اور جو واجب الوجودہو۔ لفظ اللہ کا معنی ہی یہ ہے واجب الوجود مستجمح لجمیع صفات الکمال مبرأٌ عن النقص والزوال یعنی وہ واجب الوجود ہے اور تمام صفات کمال کا جامع ہے ، وہ نقص اور زوال سے پاک ہے۔ جب لفظ اللہ بولا جاتا ہے تو یہ ساری حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے۔ فارسی میں اللہ کے لیے خدا کا لفظ ہے جس کا مفہوم بھی یہی ہے کہ ایسی ہستی جو خود بخود موجود اور قائم ہے ، کسی کی محتاج نہیں ، بلکہ سب اس کے محتاج ہیں۔ لہٰذا واجب الوجود بھی اللہ ہی کی ذات ہے ۔ شرک فی العبادات بلکہ سب اس کے محتاج ہیں۔ لہٰذا واجب الوجود بھی اللہ ہی کی ذات ہے جیسا کہ پہلے عرض کیا شرک عبادت اور تدبیر میں ہوتا ہے۔ لوگ اللہ کے سوا غیر کی عبادت کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ عبادت بھی صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے نخصک بالعبادۃ ہم تیری ہی ذات کو عبادت کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں ایاک نعبد کا بھی یہی مطلب ہے کہ صرف تیریہی عبادت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا باقی ہر چیز مخلوق ہے اور مخلوق واجب الوجود نہیں ہوتی عبادت کے لائق صرف وہ ذات ہے جو خالق اور واجب الوجود ہے۔ تمام صفات کاملہ کی جامع اور نقص اور زوال سے پاک ہے۔ وہ صرف ذات خداوندی ہے۔ ملاء اعلیٰ سے لے کر ملاء سافل تک ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے ، ہم جس نظام شمسی میں رہتے ہیں اس کا خالق بھی وہی ہے اور اس کے علاوہ جتنے بھی جہان ہیں۔ سیارے اور ستارے ہیں ان سب کا خالق بھی اللہ ہی ہے۔ اسی لیے تو ہر صاحب عقل انسان اقرار کرتا ہے کہ اے مولا کریم نعبدک ولا نعبد غیرک ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہیں کرتے۔ نہ کوئی اس لائق ہے۔ سب فانی ہیں نہ ان کا اپنا وجود ہے۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں کتنے ہی لوگ ہیں جو عبادت میں شرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ غایت درجے کی تعظیم جو صرف خدا تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے ، وہ غیروں کے سامنے کرتے ہیں کوئی بت کے سامنے گڑگڑاتا ہے ، کوئی قبر پر سجدہ ریز ہوجاتا ہے۔ کوئی ستاروں اور سیاروں کی پوجا کرتا ہے۔ انتہائی عجز و انکساری جو خالص اللہ کے لیے روا ہے ، وہی نیازمندی ، مافوق الاسباب ہستی تصور کرتے ہوئے جب غیر اللہ کے لیے پیش کردی تو انسان مشرک بن گیا۔ اللہ کے علاوہ اگر کسی کو نافع اور ضار سمجھ لیا جائے اور پھر اس کی خوشنودی کے لیے اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے نیاز کے طور پر خرچ کیا جائے۔ اور یہ سمجھا جائے کہ اگر نیاز نہیں دیں گے تو نقصان ہوجائے گا ، یا کم از کم برکت سے محروم ہوجائیں گے ، تو یہ مال میں شرک ہوگا۔ مال بھی صرف اسی ذات کی خوشنودی کے لیی خرچ کیا جاسکتا ہے جس نے اس مال کو اور اس خرچ کرنے والے کو بھی پیدا کیا پھر جب یہی چیز مخلوق کے لیے روا رکھی گئی ، تو ایسا کرنے والا شرک کا مرتکب ہوگیا۔ شرک کے ارتکاب عمل کے ذریعے بھی ہوتا ہے۔ جیسے اللہ کے سوا کسی مخلوق کو سجدہ کر دے۔ اسی طرح کسی کو مشکل کشا ، حاجت روا ، اور بگڑی بنانے والا سمجھنا یا کسی کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ صفات کمال کا حامل ہے۔ اسے ہر چیز کا علم ہے اور وہ محیط کل ہے ، یہ سب شرکیہ عقیدے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی ذات کے سوا نہ کوئی عالم الغیب ہے اور نہ محیط کل ، اس معاملہ میں ملاء اعلیٰ کے مقربین ، انبیاء کرام ، شہداء عظام اور عام صالحین سب برابر ہیں۔ اللہ کی صفاتِ مختصہ میں کسی کا کچھ حصہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ خالق ہے اور باقی سب مخلوق۔ افمن یخلق کمن لایخلق کیا پیدا کرنے والے اور نہ پیدا کرنے والا برابر ہو سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں لہٰذا عبادت کے لائق صرف ذات الٰہی ہے۔ اگر کوئی شخص اس کے علاوہ کسی دوسرے کے ساتھ وہی عقیدہ رکھے گا جو خدا کے ساتھ روا ہے تو یہی شرک فی العبادت ہے۔ شرک فی التدبیر شرک کی دوسری قسم یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کے سوا غیروں کو بھی تدبیر کنندہ ماننے لگے۔ من یدبر الامر من السماء الی الارض آسمان کی بلندیوں سے لے کر زمین کی پستیوں تک کون تدبیر کرتا ہے ؟ جواب یہی آئیگا کہ وہی وحدہٗ لاشریک مدبر ہے۔ اس کے ساتھ تدبیر میں بھی کوئی شریک نہیں۔ معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا تدبیر کنندہ صرف اللہ ہے۔ مگر کتنے افسوس کا مقام ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی لوگ غیر اللہ کو مدبر مانتے ہیں حالانکہ یہ زمانہء جاہلیت کا عقیدہ ہے۔ آج بھی نجومی ستاروں کو مدبر مانتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں۔ نفع نقصان ، انقلابات اور ماجریات یومیہ ستاروں سے وابستہ کی جاتی ہیں اور یہی شرک فی التدبیر ہے۔ مشرکین لات ، مناۃ اور عزیٰ وغیرہ کو تدبیر کنندہ جانتے تھے اور آج یہی چیز لوگ اہل قبور کے ساتھ منسوب کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ سب سے بڑا مدبر تو اللہ تعالیٰ ہی ہے تاہم ان کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ اللہ نے چھوٹے چھوٹے آگے مدبر مقرر کر رکھے ہیں۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو دنیا کے بادشاہوں یا حکومتوں پر قیاس کرتے ہیں۔ جس طرح کوئی حکومت اپنے اعمال یا ناظمین مقرر کرتی ہے ، ان کا خیال ہے کہ اسی طرح اللہ نے بھی اپنے نائبین مقرر کر رکھے ہیں اور ان کے ذمہ بعض امور لگا دیے ہیں جنہیں وہ تفویض شدہ اختیارات کے تحت انجام دیتے رہتے ہیں۔ مشرکین بعض نیک اور صالح لوگوں کے متعلق یہ تصور رکھتے ہیں کہ چونکہ وہ اللہ کے مطیع اور فرمانبردار ہیں اس لیے اللہ ان پر الوہیت کی چادر ڈال دیتا ہے اور کچھ اختیرات ان کو تفویض کردیتا ہے۔ یہ سخت مشرکانہ عقیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی نبی ، ولی ، شہید یا صالحین میں سے کسی کو کوئی اختیار نہیں دیتا کہ وہ جو چاہے کرتا پھرے کسی کی بگڑی بنا دے یا کسی کی حاجت روائی کر دے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ حی اور قیوم ہے وہ ہر ایک کی حاجت روائی اور مشکل کشائی براہ راست کرتا ہے وہ قدرت تامہ کا مالک ہے۔ ہر ایک کی ضرورت کو جانتا ہے کیونکہ علیم کل ہے۔ ہر ایک کی حاجت روائی بھی کرتا ہے۔ بعض لوگ اللہ کی صفات میں اس کا شریک بناتے ہیں۔ غیر اللہ کو مختار مطلق تصور کرلیا۔ یا فلاں حاضر و ناظر ہے ، وہ علیم کل ہے ذرے ذرے سے واقف ہے۔ یہ سب شرکیہ عقائد ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے تاکیداً فرما دیا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو ولا تشرکوا بہ شیئًا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ۔ اگر تمہارا عقیدہ توحید مضبوط رہا اور شرک سے پاک رہا تو تمہارے تمام اعمال کی بنیاد پختہ ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کے بعد پھر تم حقوق العباد بھی ادا کرسکو گے۔ لامحالہ تمہاری نظر قیامت پر ہوگی اور اس جہان کی بازپرس پر تمہارا یقین ہوگا۔ حضرت معاذ ؓ کی حدیث میں موجود ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا معاذ ! کیا جانتے ہو کہ اللہ کا حق مخلوق پر کیا ہے۔ عرض کیا ، حضور ! اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ، آپ نے فرمایا اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے۔ ان یعبدوہ ولا یشرکو بہ شیئًا یہ کہ عبادت خالص اللہ کی کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ پھر فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ مخلوق کا حق اللہ پر کیا ہے۔ پھر عرض کیا ، حضور ! اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ نبی کریم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مخلوق کا حق اللہ پر بذاتہٖ تو کچھ نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے خود یہ حق لے رکھا ہے کہ جب اس کی مخلوق اس کی عبادت کریگی اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بنائے گی تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو دوزخ میں نہیں ڈالے گا۔ والدین کے حقوق اب حقوق العباد کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے والدین کے حقوق کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وبالوالدین احساناً ماں باپ کے ساتھ احسان کرو۔ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ۔ اولاد اور والدین کا سب سے قریبی تعلق ہوتا ہے والدین اولاد کے محسن ہوتے ہیں اور بغیر کسی معاوضہ کے احسان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں اولاد کے لیے محبت ڈال دی ہے۔ اس لیے وہ اولاد کے ساتھ مشفقانہ سلوک کرتے ہیں لہٰذا اولاد پر لازم ہے کہ وہ والدین کے ساتھ بہترین سلوک کریں اور انہیں قولی یا فعلی طور پر کسی قسم کی ایذا نہ پہنچائیں۔ جائز امور میں ان کی اطاعت کریں ، ضرورت کے وقت ان کی مالی مدد کریں ، جسمانی طور پر انہیں راحت پہنچائیں ، حتیٰ کہ والدین اگر کافر بھی ہوں تو بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ان کا عقیدہ تو اختیار نہ کریں البتہ وصاحبھما فی الدنیا معروفاً مگر دنیا میں ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ۔ دیگر مستحقین فرمایا والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ وبذی القربیٰ قرابتداروں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ ماں باپ کے بعد بہن ، بھائی ، چچا اور دیگر عزیز و اقارب ہیں ان کا بھی حق ہے۔ والدین کے واسطہ سے جس قدر کوئی قریبی ہے اسی قدر اس کا حق بھی مقدم ہے۔ آگے فرمایا والیتمیٰ یتیموں کے حقوق ادا کرو۔ ان کے سرپردستِ شفقت رکھو ، ان کی ہر ممکن اعانت کرو والمسکین اور ایسے نادار لوگ جو محنت کے باوجود معاشی طور پر پست ہیں ، ان کے جائز اخراجات آمدنی سے کم ہیں ، وہ تمہارے حسن سلوک کے مستحق ہیں ان کا بھی خیال رکھو۔ اللہ نے ان کا حق بھی تمہارے ذمہ رکھا ہے۔ پڑوسی کے حقوق حقوق ہی کے ضمن میں فرمایا ذی القربیٰ قرابتدار پڑوسیوں کا خیال رکھو۔ اگر پڑوسی رشتہ دار بھی ہے تو اس کا دہرا حق ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا حضور ! پڑوسی کا حق کہاں تک ہے۔ آپ نے فرمایا چالیس گھروں تک سب تمہارے پڑوسی ہیں ان کا تم پر حق ہے۔ صحیحین کی حدیث میں آتا ہے۔ ما زال جبریل یوصینی بالجار حتی طنت انہ سیورثہ جبریل (علیہ السلام) نے اللہ کی جانب سے مجھے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی اتنی تاکید کی کہ مجھے خیال ہوا شاید خدا تعالیٰ پڑوسیوں کو وراثت میں شریک کر دے گا۔ والجارِ الجنبِ اور اجنبی یا دور کے پڑوسی کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیا ہے کہ وہ بھی تمہاری مہربانی کے مستحق ہیں والصاحب بالجنب اور پاس بیٹھنے والے بھی اچھے سلوک کا حق رکھتے ہیں۔ ہم جماعت طالب علم ہیں۔ کسی فیکٹری یا دفتر میں اکٹھے کام کرتے ہیں۔ دکان پر بیٹھے ہیں۔ کہیں سفر کے دوران ریل گاڑی ، ہوائی جہاز یا بحری جہاز میں ہم سفر ہیں ، فرمایا یہ سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حق رکھتے ہیں۔ ہر صاحب استطاعت حسب ضرورت دوسرے کی مدد کرے۔ وابن السبیل اور کوئی مسافر ہو خواہ مہمان ہو یا اجنبی ، اسے بھی اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو اس کا بھی تم پر حق ہے اس کی مناسب اعانت کرو۔ و ما ملکت ایمانکم اور وہ لوگ بھی تمہارے حسن سلوک کے مستحق ہیں جو تمہارے داہنے ہاتھ کی ملکیت یعنی زر خرید خلام ہیں۔ غلام کے متعلق حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اس کی طاقت سے زیادہ اس سے کام نہ لو۔ اور اگر کوئی مشکل کام اس کے سپرد کرو تو اس کا ہاتھ بٹاؤ ۔ جو خود کھاتے ہو ان کو بھی کھلاؤ اور جو خود پہنتے ہو ، ان کو بھی پہناؤ ، ورنہ آگے چل کر مؤاخذہ ہوگا۔ اب غلامی کا سلسلہ تو نہیں ہو ، ان کو بھی پہناؤ ، ورنہ آگے چل کر مؤاخذہ ہوگا۔ اب غلامی کا سلسلہ تو نہیں ہے تاہم اس سے نجی نوکر چاکر ، ملازم وغیرہ بھی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ وہ لوگ تمہاری خوش اخلاقی اور حسن سلوک کے حقدار ہیں۔ ذریعہ فلاح اس ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام متعلقین کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا ہے۔ اگر اس ایک آیت پر ہی اہل اسلام عمل کرلیں تو دنیا سے شرو فساد ختم ہوجائے اور دین دنیا میں فلاح نصیب ہوجائے۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ جس طرح لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے حقوق کو ادا نہیں کیا ، شرک کفر اور بدعات جاری کردی ہیں ، اسی طرح حقوق العباد کے معاملہ میں بھی دور جا پڑے ہیں۔ نہ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ہیں اور نہ پڑوسیوں کا خیال کرتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی بجائے دل شکنی کی جاتی ہے۔ ان کے دروازے پر جاکر گالی گلوچ ، اور شور و شربرپا کیا جاتا ہے۔ پتنگ بازی کے لیے چھتوں پر چڑھ جاتے ہیں ، آج کل ریکارڈنگ کی نئی مصیبت آگئی ہے پڑوس میں کوئی بیمار ہے۔ کوئی طالب علم مطالعہ میں مصروف ہے۔ کوئی عبادت گزار اللہ اللہ کرنا چاہتا ہے ، مگر انہیں خدا کا خوف نہیں ہے ، دوسرے کا احساس تک نہیں۔ اب مسجدیں بھی اس شورو غل میں شامل ہوگئی ہیں۔ وقت بےوقت سپیکر کھول کر غزلیں اور نعتیں شروع کردی جاتی ہیں اور پھر اسے کار ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے حالانکہ یہ مخلوق خدا کو ایذا پہنچائی جا رہی ہے حضور ﷺ کا فرمان ہے لا تؤذوالمومنین ، لا توذوالمسلمین اہل اسلام کو چھاپہ مارنا کونسی نیکی ہے۔ اگر کسی کو آرام کے وقت آرام میسر نہیں ، عبادت میں انہماک حاصل نہیں ہو رہا ، بیمار کی نیند میں خلل آ رہا ہے ، تو ایسی نیکی کا کیا فائدہ حضرت مولانا سید اغصر حسین دیوبندی (رح) ہمارے بزرگوں میں سے ہیں۔ ان کا معمول تھا کہ گھر میں آم کھائے ہیں تو ان کے چھلکے خود دور جا کر پھینک آتے تھے کہ کہیں پڑوسی کو تکلیف نہ ہو ، نامعلوم انہیں یہ چیز میسر ہے یا نہیں۔ صاحب توفیق ہونے کے باوجود آپ کچے مکان میں رہتے تھے لوگ کہتے تھے کہ آپ اچھا مکان تعمیر کرلیں۔ فرمایا اللہ نے توفیق تو بیشک دی ہے مگر میرے پڑوسیوں کے مکان کچے ہیں اگر میں نے پختہ مکان بنا لیا تو محلے والوں کو تکلیف ہوگی۔ پہلے دارالعلوم میں جا کر درس دیتے تھے جب زیادہ ضعیف ہوگئے تو طلبا کو گھر بلانے لگے۔ آپ طلبا کو ایک ایک چھتری بھی خرید کر دے دیتے تھے کہ انہیں آنے جانے میں تکلیف نہ ہو۔ غرور سے بیزاری فرمایا ان اللہ لا یحب من کان مختالاً فخورا بیشک اللہ تالیٰ نہیں پسند کرتا اترانے والے اور بڑائی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کو عجز و انکساری محبوب ہے ، وہ مغرور آدمی کو پسند نہیں فرماتا۔ جس شخص کے دل میں عاجزی ہوگی اسے خدا تعالیٰ کی عبادت کا صحیح تصور بھی ہوگا ، وہ وحدانیت کا شیدائی اور شرک سے بیزار ہوگا۔ ایسا شخص اللہ کے حقوق بھی ادا کرے گا اور مخلوق کے حقوق سے بھی عہدہ برآمد ہوگا۔ جو شخص مال ، دولت ، جاہ اور اقتدار کی وجہ سے مغرور ہوگا وہ کسی کا حق ادا نہیں کریگا۔ ایسا مغرور اور شیخی بھگارنے والا شخص اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں۔ ایسے لوگ انسانیت کے دشمن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بنیادی مسئلہ سمجھادیا ہے کہ عاجزی والا شخص ہی حقوق کو ادا کرسکتا ہے اگر انسان میں عجز نہیں غرور وتکبر ہے تو کوئی کام درست نہیں ہوگا۔
Top