Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 36
وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙ
وَاعْبُدُوا
: اور تم عبادت کرو
اللّٰهَ
: اللہ
وَلَا تُشْرِكُوْا
: اور نہ شریک کرو
بِهٖ
: اس کے ساتھ
شَيْئًا
: کچھ۔ کسی کو
وَّ
: اور
بِالْوَالِدَيْنِ
: ماں باپ سے
اِحْسَانًا
: اچھا سلوک
وَّ
: اور
بِذِي الْقُرْبٰى
: قرابت داروں سے
وَالْيَتٰمٰي
: اور یتیم (جمع)
وَالْمَسٰكِيْنِ
: اور محتاج (جمع)
وَالْجَارِ
: ہمسایہ
ذِي الْقُرْبٰى
: قرابت والے
وَالْجَارِ
: اور ہمسایہ
الْجُنُبِ
: اجنبی
وَالصَّاحِبِ بالْجَنْۢبِ
: اور پاس بیٹھنے والے (ہم مجلس)
وَ
: اور
ابْنِ السَّبِيْلِ
: مسافر
وَمَا
: اور جو
مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ
: تمہاری ملک (کنیز۔ غلام
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
لَا يُحِبُّ
: دوست نہیں رکھتا
مَنْ
: جو
كَانَ
: ہو
مُخْتَالًا
: اترانے والا
فَخُوْرَۨا
: بڑ مارنے والا
اور اللہ کی عبادت کرو ، اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور قرابتداروں کے ساتھ اور یتیموں کے ساتھ اور مسکینوں کے ساتھ اور قریب والے ہمسائے کے ساتھ اور اجنبی ہمسائے کے ساتھ اور پاس بیٹھنے والے کے ساتھ اور مسافر کے ساتھ اور کہ جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہیں ، ان کے ساتھ بیشک اللہ تعالیٰ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو بڑائی کرنے والا ہے اور فخر کرتا ہے
ربط آیات سورۃ کی ابتداء سے یہاں تک حقوق ہی کا بیان آ رہا ہے پہلے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے حقوق بیان فرمائے پھر یتیموں کے حقوق کا تذکرہ کیا۔ مالی حقوق کے طور پر وراثت کے حقوق اور ورثایٔ کے حصص بیان کیے۔ نکاح اور محرمات نکاح کا ذکر ہوا۔ پھر معاشرتی مسائل آئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مرد عورتوں پر نگران یا محافظ ہیں ، ان پر عظیم ذمہ داری عاید ہوتی ہے۔ اگر نگران صحیح ہوگا تو اس کے ماتحت بھی درست ہوں گے اور اگر نگران ہی خرابی کا شکار ہوگا تو زیردست بھی ویسے ہی ہوں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر عورتوں کے ساتھ اختلاف ہوجائے تو اسے کس طرح نپٹانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا طریقہ بتایا اور باقاعدہ قانون مقرر فرمادیا۔ اب آج کے درس کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے س بسے پہلے اس بنیادی چیز کا ذکر کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ عبادت صرف اسی کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا جائے۔ اگر انسان کی یہ بنیاد درست ہوجائے تو آگے تمام معاملات درست ہوجائیں گے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنا حق بیان کرنے کے بعد باقی حقوق کی تفریع بیان فرمائی ہے۔ عبادت صرف اللہ کی ہو ارشاد ہوتا ہے واعبدو اللہ اللہ کی عبادت کرو۔ یہ بنیاد ہے۔ اگر تمام لوگ صرف اللہ ہی کی عبادت کرنے لگیں تو باقی تمام حقوق خود بخود درست ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کا خالق ، محسن اور مربی ہے۔ اگر اسی کے حقوق میں کوتاہی روا رکھی گئی تو پھر باقی مخلوق کا حق کیسے ادا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ جب بنیاد ہی کمزور ہوگی تو اس پر مضبوط عمارت کیسے تعمیر ہو سکتی ہے لہٰذا سب سے پہلے اس بنیادی عنصر کا ذکر کیا ، لوگو اللہ کی عبادت کرو۔ امام بیضاوی (رح) اور دیگر مفسرین نے عبادت کا مطلب یہ بیان کیا ہے۔ اقصیٰ غایۃ التذل والخصوع یعنی انتہائی درجے کی عاجزی اور نیازمندی کے اظہار کا نام عباد ت ہے اور یہ عمل کبھی نیت سے ہوتا ہے ، کبھی مال سے کبھی قول سے اور کبھی عمل سے۔ یہ انتہائی عاجزی اور نیازمندی مافوق الاسباب ہستی کا تصور رکھتے ہوئے محض اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مختص ہے اس کے علاوہ کسی کے ساتھ روا نہیں۔ جب عبادت صرف اللہ کے لیے خاص ہوگئی تو پھر غیر اللہ کے ساتھ ایسا معاملہ کسی طرح بھی روا نہیں۔ اگرچہ یہ بات خود بخود ذہن میں آتی ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے یہاں پر تاکیداً یہ بھی فرما دیا ولاتشرکوا بہ شیئًا اس مالک الملک کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ ۔ خالق اور واجب الوجود شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے اور واجب الوجود ہونے میں تو کسی کو شک و شبہ نہیں اور نہ ہی ان دو صفات میں اللہ کے ساتھ کوئی شرک کرتا ہے۔ البتہ شرک ہوتا ہے عبادت میں اور تدبیر میں۔ پوری نوع انسانی میں سے دہریوں کی قلیل تعداد کے علاوہ تمام مذاہب کے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ خالق صرف اللہ ہی کی ذات ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی خالق نہیں۔ کافر ، مشرک ، یہودی ، نصرانی ، ہندو ، سکھ ، چینی ، بدھ مجوسی کسی سے پوچھ کر دیکھو لو کہ ہر چیز کا خالق کون ہے ؟ سب کہیں گے۔ کہ خالق تو صرف اللہ ہے۔ اللہ خالق کل شیئٍ انسان ، حیوان ، چرند ، پرند ، کیڑے مکوڑے سب کو کس نے پیدا کیا ؟ اللہ نے زمین ، آسمان ، سیارے ، ستارے ، چاند ، سورج کا پیدا کرنے والا کون ہے ؟ سب کہیں گے اللہ ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے میں کسی کو کلام نہیں۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے واجب الوجود ہونے کا تعلق ہے۔ اس میں بھی سب لوگ متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا وجودخود بخود ہے ، یہ کسی کا وجود ضروری ہو اور جو واجب الوجودہو۔ لفظ اللہ کا معنی ہی یہ ہے واجب الوجود مستجمح لجمیع صفات الکمال مبرأٌ عن النقص والزوال یعنی وہ واجب الوجود ہے اور تمام صفات کمال کا جامع ہے ، وہ نقص اور زوال سے پاک ہے۔ جب لفظ اللہ بولا جاتا ہے تو یہ ساری حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے۔ فارسی میں اللہ کے لیے خدا کا لفظ ہے جس کا مفہوم بھی یہی ہے کہ ایسی ہستی جو خود بخود موجود اور قائم ہے ، کسی کی محتاج نہیں ، بلکہ سب اس کے محتاج ہیں۔ لہٰذا واجب الوجود بھی اللہ ہی کی ذات ہے ۔ شرک فی العبادات بلکہ سب اس کے محتاج ہیں۔ لہٰذا واجب الوجود بھی اللہ ہی کی ذات ہے جیسا کہ پہلے عرض کیا شرک عبادت اور تدبیر میں ہوتا ہے۔ لوگ اللہ کے سوا غیر کی عبادت کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ عبادت بھی صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے نخصک بالعبادۃ ہم تیری ہی ذات کو عبادت کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں ایاک نعبد کا بھی یہی مطلب ہے کہ صرف تیریہی عبادت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا باقی ہر چیز مخلوق ہے اور مخلوق واجب الوجود نہیں ہوتی عبادت کے لائق صرف وہ ذات ہے جو خالق اور واجب الوجود ہے۔ تمام صفات کاملہ کی جامع اور نقص اور زوال سے پاک ہے۔ وہ صرف ذات خداوندی ہے۔ ملاء اعلیٰ سے لے کر ملاء سافل تک ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے ، ہم جس نظام شمسی میں رہتے ہیں اس کا خالق بھی وہی ہے اور اس کے علاوہ جتنے بھی جہان ہیں۔ سیارے اور ستارے ہیں ان سب کا خالق بھی اللہ ہی ہے۔ اسی لیے تو ہر صاحب عقل انسان اقرار کرتا ہے کہ اے مولا کریم نعبدک ولا نعبد غیرک ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہیں کرتے۔ نہ کوئی اس لائق ہے۔ سب فانی ہیں نہ ان کا اپنا وجود ہے۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں کتنے ہی لوگ ہیں جو عبادت میں شرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ غایت درجے کی تعظیم جو صرف خدا تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے ، وہ غیروں کے سامنے کرتے ہیں کوئی بت کے سامنے گڑگڑاتا ہے ، کوئی قبر پر سجدہ ریز ہوجاتا ہے۔ کوئی ستاروں اور سیاروں کی پوجا کرتا ہے۔ انتہائی عجز و انکساری جو خالص اللہ کے لیے روا ہے ، وہی نیازمندی ، مافوق الاسباب ہستی تصور کرتے ہوئے جب غیر اللہ کے لیے پیش کردی تو انسان مشرک بن گیا۔ اللہ کے علاوہ اگر کسی کو نافع اور ضار سمجھ لیا جائے اور پھر اس کی خوشنودی کے لیے اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے نیاز کے طور پر خرچ کیا جائے۔ اور یہ سمجھا جائے کہ اگر نیاز نہیں دیں گے تو نقصان ہوجائے گا ، یا کم از کم برکت سے محروم ہوجائیں گے ، تو یہ مال میں شرک ہوگا۔ مال بھی صرف اسی ذات کی خوشنودی کے لیی خرچ کیا جاسکتا ہے جس نے اس مال کو اور اس خرچ کرنے والے کو بھی پیدا کیا پھر جب یہی چیز مخلوق کے لیے روا رکھی گئی ، تو ایسا کرنے والا شرک کا مرتکب ہوگیا۔ شرک کے ارتکاب عمل کے ذریعے بھی ہوتا ہے۔ جیسے اللہ کے سوا کسی مخلوق کو سجدہ کر دے۔ اسی طرح کسی کو مشکل کشا ، حاجت روا ، اور بگڑی بنانے والا سمجھنا یا کسی کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ صفات کمال کا حامل ہے۔ اسے ہر چیز کا علم ہے اور وہ محیط کل ہے ، یہ سب شرکیہ عقیدے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی ذات کے سوا نہ کوئی عالم الغیب ہے اور نہ محیط کل ، اس معاملہ میں ملاء اعلیٰ کے مقربین ، انبیاء کرام ، شہداء عظام اور عام صالحین سب برابر ہیں۔ اللہ کی صفاتِ مختصہ میں کسی کا کچھ حصہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ خالق ہے اور باقی سب مخلوق۔ افمن یخلق کمن لایخلق کیا پیدا کرنے والے اور نہ پیدا کرنے والا برابر ہو سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں لہٰذا عبادت کے لائق صرف ذات الٰہی ہے۔ اگر کوئی شخص اس کے علاوہ کسی دوسرے کے ساتھ وہی عقیدہ رکھے گا جو خدا کے ساتھ روا ہے تو یہی شرک فی العبادت ہے۔ شرک فی التدبیر شرک کی دوسری قسم یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کے سوا غیروں کو بھی تدبیر کنندہ ماننے لگے۔ من یدبر الامر من السماء الی الارض آسمان کی بلندیوں سے لے کر زمین کی پستیوں تک کون تدبیر کرتا ہے ؟ جواب یہی آئیگا کہ وہی وحدہٗ لاشریک مدبر ہے۔ اس کے ساتھ تدبیر میں بھی کوئی شریک نہیں۔ معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا تدبیر کنندہ صرف اللہ ہے۔ مگر کتنے افسوس کا مقام ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی لوگ غیر اللہ کو مدبر مانتے ہیں حالانکہ یہ زمانہء جاہلیت کا عقیدہ ہے۔ آج بھی نجومی ستاروں کو مدبر مانتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں۔ نفع نقصان ، انقلابات اور ماجریات یومیہ ستاروں سے وابستہ کی جاتی ہیں اور یہی شرک فی التدبیر ہے۔ مشرکین لات ، مناۃ اور عزیٰ وغیرہ کو تدبیر کنندہ جانتے تھے اور آج یہی چیز لوگ اہل قبور کے ساتھ منسوب کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ سب سے بڑا مدبر تو اللہ تعالیٰ ہی ہے تاہم ان کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ اللہ نے چھوٹے چھوٹے آگے مدبر مقرر کر رکھے ہیں۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو دنیا کے بادشاہوں یا حکومتوں پر قیاس کرتے ہیں۔ جس طرح کوئی حکومت اپنے اعمال یا ناظمین مقرر کرتی ہے ، ان کا خیال ہے کہ اسی طرح اللہ نے بھی اپنے نائبین مقرر کر رکھے ہیں اور ان کے ذمہ بعض امور لگا دیے ہیں جنہیں وہ تفویض شدہ اختیارات کے تحت انجام دیتے رہتے ہیں۔ مشرکین بعض نیک اور صالح لوگوں کے متعلق یہ تصور رکھتے ہیں کہ چونکہ وہ اللہ کے مطیع اور فرمانبردار ہیں اس لیے اللہ ان پر الوہیت کی چادر ڈال دیتا ہے اور کچھ اختیرات ان کو تفویض کردیتا ہے۔ یہ سخت مشرکانہ عقیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی نبی ، ولی ، شہید یا صالحین میں سے کسی کو کوئی اختیار نہیں دیتا کہ وہ جو چاہے کرتا پھرے کسی کی بگڑی بنا دے یا کسی کی حاجت روائی کر دے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ حی اور قیوم ہے وہ ہر ایک کی حاجت روائی اور مشکل کشائی براہ راست کرتا ہے وہ قدرت تامہ کا مالک ہے۔ ہر ایک کی ضرورت کو جانتا ہے کیونکہ علیم کل ہے۔ ہر ایک کی حاجت روائی بھی کرتا ہے۔ بعض لوگ اللہ کی صفات میں اس کا شریک بناتے ہیں۔ غیر اللہ کو مختار مطلق تصور کرلیا۔ یا فلاں حاضر و ناظر ہے ، وہ علیم کل ہے ذرے ذرے سے واقف ہے۔ یہ سب شرکیہ عقائد ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے تاکیداً فرما دیا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو ولا تشرکوا بہ شیئًا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ۔ اگر تمہارا عقیدہ توحید مضبوط رہا اور شرک سے پاک رہا تو تمہارے تمام اعمال کی بنیاد پختہ ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کے بعد پھر تم حقوق العباد بھی ادا کرسکو گے۔ لامحالہ تمہاری نظر قیامت پر ہوگی اور اس جہان کی بازپرس پر تمہارا یقین ہوگا۔ حضرت معاذ ؓ کی حدیث میں موجود ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا معاذ ! کیا جانتے ہو کہ اللہ کا حق مخلوق پر کیا ہے۔ عرض کیا ، حضور ! اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ، آپ نے فرمایا اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے۔ ان یعبدوہ ولا یشرکو بہ شیئًا یہ کہ عبادت خالص اللہ کی کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ پھر فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ مخلوق کا حق اللہ پر کیا ہے۔ پھر عرض کیا ، حضور ! اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ نبی کریم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مخلوق کا حق اللہ پر بذاتہٖ تو کچھ نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے خود یہ حق لے رکھا ہے کہ جب اس کی مخلوق اس کی عبادت کریگی اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بنائے گی تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو دوزخ میں نہیں ڈالے گا۔ والدین کے حقوق اب حقوق العباد کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے والدین کے حقوق کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وبالوالدین احساناً ماں باپ کے ساتھ احسان کرو۔ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ۔ اولاد اور والدین کا سب سے قریبی تعلق ہوتا ہے والدین اولاد کے محسن ہوتے ہیں اور بغیر کسی معاوضہ کے احسان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں اولاد کے لیے محبت ڈال دی ہے۔ اس لیے وہ اولاد کے ساتھ مشفقانہ سلوک کرتے ہیں لہٰذا اولاد پر لازم ہے کہ وہ والدین کے ساتھ بہترین سلوک کریں اور انہیں قولی یا فعلی طور پر کسی قسم کی ایذا نہ پہنچائیں۔ جائز امور میں ان کی اطاعت کریں ، ضرورت کے وقت ان کی مالی مدد کریں ، جسمانی طور پر انہیں راحت پہنچائیں ، حتیٰ کہ والدین اگر کافر بھی ہوں تو بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ان کا عقیدہ تو اختیار نہ کریں البتہ وصاحبھما فی الدنیا معروفاً مگر دنیا میں ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ۔ دیگر مستحقین فرمایا والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ وبذی القربیٰ قرابتداروں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ ماں باپ کے بعد بہن ، بھائی ، چچا اور دیگر عزیز و اقارب ہیں ان کا بھی حق ہے۔ والدین کے واسطہ سے جس قدر کوئی قریبی ہے اسی قدر اس کا حق بھی مقدم ہے۔ آگے فرمایا والیتمیٰ یتیموں کے حقوق ادا کرو۔ ان کے سرپردستِ شفقت رکھو ، ان کی ہر ممکن اعانت کرو والمسکین اور ایسے نادار لوگ جو محنت کے باوجود معاشی طور پر پست ہیں ، ان کے جائز اخراجات آمدنی سے کم ہیں ، وہ تمہارے حسن سلوک کے مستحق ہیں ان کا بھی خیال رکھو۔ اللہ نے ان کا حق بھی تمہارے ذمہ رکھا ہے۔ پڑوسی کے حقوق حقوق ہی کے ضمن میں فرمایا ذی القربیٰ قرابتدار پڑوسیوں کا خیال رکھو۔ اگر پڑوسی رشتہ دار بھی ہے تو اس کا دہرا حق ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا حضور ! پڑوسی کا حق کہاں تک ہے۔ آپ نے فرمایا چالیس گھروں تک سب تمہارے پڑوسی ہیں ان کا تم پر حق ہے۔ صحیحین کی حدیث میں آتا ہے۔ ما زال جبریل یوصینی بالجار حتی طنت انہ سیورثہ جبریل (علیہ السلام) نے اللہ کی جانب سے مجھے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی اتنی تاکید کی کہ مجھے خیال ہوا شاید خدا تعالیٰ پڑوسیوں کو وراثت میں شریک کر دے گا۔ والجارِ الجنبِ اور اجنبی یا دور کے پڑوسی کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیا ہے کہ وہ بھی تمہاری مہربانی کے مستحق ہیں والصاحب بالجنب اور پاس بیٹھنے والے بھی اچھے سلوک کا حق رکھتے ہیں۔ ہم جماعت طالب علم ہیں۔ کسی فیکٹری یا دفتر میں اکٹھے کام کرتے ہیں۔ دکان پر بیٹھے ہیں۔ کہیں سفر کے دوران ریل گاڑی ، ہوائی جہاز یا بحری جہاز میں ہم سفر ہیں ، فرمایا یہ سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حق رکھتے ہیں۔ ہر صاحب استطاعت حسب ضرورت دوسرے کی مدد کرے۔ وابن السبیل اور کوئی مسافر ہو خواہ مہمان ہو یا اجنبی ، اسے بھی اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو اس کا بھی تم پر حق ہے اس کی مناسب اعانت کرو۔ و ما ملکت ایمانکم اور وہ لوگ بھی تمہارے حسن سلوک کے مستحق ہیں جو تمہارے داہنے ہاتھ کی ملکیت یعنی زر خرید خلام ہیں۔ غلام کے متعلق حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اس کی طاقت سے زیادہ اس سے کام نہ لو۔ اور اگر کوئی مشکل کام اس کے سپرد کرو تو اس کا ہاتھ بٹاؤ ۔ جو خود کھاتے ہو ان کو بھی کھلاؤ اور جو خود پہنتے ہو ، ان کو بھی پہناؤ ، ورنہ آگے چل کر مؤاخذہ ہوگا۔ اب غلامی کا سلسلہ تو نہیں ہو ، ان کو بھی پہناؤ ، ورنہ آگے چل کر مؤاخذہ ہوگا۔ اب غلامی کا سلسلہ تو نہیں ہے تاہم اس سے نجی نوکر چاکر ، ملازم وغیرہ بھی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ وہ لوگ تمہاری خوش اخلاقی اور حسن سلوک کے حقدار ہیں۔ ذریعہ فلاح اس ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام متعلقین کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا ہے۔ اگر اس ایک آیت پر ہی اہل اسلام عمل کرلیں تو دنیا سے شرو فساد ختم ہوجائے اور دین دنیا میں فلاح نصیب ہوجائے۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ جس طرح لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے حقوق کو ادا نہیں کیا ، شرک کفر اور بدعات جاری کردی ہیں ، اسی طرح حقوق العباد کے معاملہ میں بھی دور جا پڑے ہیں۔ نہ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ہیں اور نہ پڑوسیوں کا خیال کرتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی بجائے دل شکنی کی جاتی ہے۔ ان کے دروازے پر جاکر گالی گلوچ ، اور شور و شربرپا کیا جاتا ہے۔ پتنگ بازی کے لیے چھتوں پر چڑھ جاتے ہیں ، آج کل ریکارڈنگ کی نئی مصیبت آگئی ہے پڑوس میں کوئی بیمار ہے۔ کوئی طالب علم مطالعہ میں مصروف ہے۔ کوئی عبادت گزار اللہ اللہ کرنا چاہتا ہے ، مگر انہیں خدا کا خوف نہیں ہے ، دوسرے کا احساس تک نہیں۔ اب مسجدیں بھی اس شورو غل میں شامل ہوگئی ہیں۔ وقت بےوقت سپیکر کھول کر غزلیں اور نعتیں شروع کردی جاتی ہیں اور پھر اسے کار ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے حالانکہ یہ مخلوق خدا کو ایذا پہنچائی جا رہی ہے حضور ﷺ کا فرمان ہے لا تؤذوالمومنین ، لا توذوالمسلمین اہل اسلام کو چھاپہ مارنا کونسی نیکی ہے۔ اگر کسی کو آرام کے وقت آرام میسر نہیں ، عبادت میں انہماک حاصل نہیں ہو رہا ، بیمار کی نیند میں خلل آ رہا ہے ، تو ایسی نیکی کا کیا فائدہ حضرت مولانا سید اغصر حسین دیوبندی (رح) ہمارے بزرگوں میں سے ہیں۔ ان کا معمول تھا کہ گھر میں آم کھائے ہیں تو ان کے چھلکے خود دور جا کر پھینک آتے تھے کہ کہیں پڑوسی کو تکلیف نہ ہو ، نامعلوم انہیں یہ چیز میسر ہے یا نہیں۔ صاحب توفیق ہونے کے باوجود آپ کچے مکان میں رہتے تھے لوگ کہتے تھے کہ آپ اچھا مکان تعمیر کرلیں۔ فرمایا اللہ نے توفیق تو بیشک دی ہے مگر میرے پڑوسیوں کے مکان کچے ہیں اگر میں نے پختہ مکان بنا لیا تو محلے والوں کو تکلیف ہوگی۔ پہلے دارالعلوم میں جا کر درس دیتے تھے جب زیادہ ضعیف ہوگئے تو طلبا کو گھر بلانے لگے۔ آپ طلبا کو ایک ایک چھتری بھی خرید کر دے دیتے تھے کہ انہیں آنے جانے میں تکلیف نہ ہو۔ غرور سے بیزاری فرمایا ان اللہ لا یحب من کان مختالاً فخورا بیشک اللہ تالیٰ نہیں پسند کرتا اترانے والے اور بڑائی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کو عجز و انکساری محبوب ہے ، وہ مغرور آدمی کو پسند نہیں فرماتا۔ جس شخص کے دل میں عاجزی ہوگی اسے خدا تعالیٰ کی عبادت کا صحیح تصور بھی ہوگا ، وہ وحدانیت کا شیدائی اور شرک سے بیزار ہوگا۔ ایسا شخص اللہ کے حقوق بھی ادا کرے گا اور مخلوق کے حقوق سے بھی عہدہ برآمد ہوگا۔ جو شخص مال ، دولت ، جاہ اور اقتدار کی وجہ سے مغرور ہوگا وہ کسی کا حق ادا نہیں کریگا۔ ایسا مغرور اور شیخی بھگارنے والا شخص اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں۔ ایسے لوگ انسانیت کے دشمن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بنیادی مسئلہ سمجھادیا ہے کہ عاجزی والا شخص ہی حقوق کو ادا کرسکتا ہے اگر انسان میں عجز نہیں غرور وتکبر ہے تو کوئی کام درست نہیں ہوگا۔
Top