Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 44
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَةَ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَؕ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يَشْتَرُوْنَ : مول لیتے ہیں الضَّلٰلَةَ : گمراہی وَيُرِيْدُوْنَ : اور وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ تَضِلُّوا : بھٹک جاؤ السَّبِيْلَ : راستہ
کیا نہیں دیکھا تو نے ان لوگوں کی طرف جن کو دیا گیا کچھ حصہ کتاب سے ، خریدتے ہیں گمراہی ار ادہ کرتے ہیں کہ تم بھی سیدھے راستے سے گمراہ ہو جاؤ
ربط آیات اہل کتاب کی برائیوں کا تذکرہ گزشتہ آیات میں بھی گزر چکا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے وراثت کے مسائل اور محرکات نکاح بیان کیے۔ پھر معاشرتی مسائل کی تشریح ، اہل کتاب کے مال و علم میں بخل اور دوسروں کو بخل کی ترغیب کا بیان تھا۔ اس کے بعد نیکی بدی کا انجام اور قیامت کے محاسبے کا تذکرہ ہوا۔ درمیان میں اللہ تعالیٰ نے خاص مناسبت سے نماز کا ذکر کیا کہ نشے اور جنابت کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ ۔ پھر پانی کی عدم موجودگی میں طہارت کے لیے تیمم کا طریقہ بتلایا اور اب ان آیات میں پھر اہل کتاب کی مکاری اور اسلام دشمنی کا ذکر فرمایا ہے ، اس تذکرہ کے دو بنیادی مقاصد ہیں۔ ایک مقصد تو یہ ہے کہ اہل اسلام کو باور کرایا جائے کہ یہود و نصاریٰ ان کے دشمن ہیں ، وہ ہمیشہ نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں لہٰذا مسلمانوں کو محتاط رہ کر دشمن سے اپنا دفاع کرنا چاہیے۔ اہلِ کتاب مسلمانوں کے اسی طرح ازلی ابدی دشمن ہیں جس طرح شیطان پوری نسل انسانی کا دشمن ہے اور اللہ تعالیٰ نے ابر بار اس کے شر سے محفوظ رہنے کی تلقین کی ہے۔ اہلِ کتاب کے تذکرے کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اہل اسلام یہود و نصاریٰ میں پائی جانے والی بیماریوں ، بخل ، حسد ، تحریف ، کمتانِ حق وغیرہ سے محتاط رہیں تاکہ یہود ونصاریٰ کی طرح یہ بیماریاں ان میں بھی پیدا نہ ہوجائیں۔ اہل کتاب کی علمی خامیاں ارشاد باری تعالیٰ ہے الم تر کیا آپ نے نہیں دیکھا۔ یہ علمی ردیت ہے اور مطلب یہ ہے کہ کیا آپ کو معلوم نہیں ہوا۔ الی الذین اوتوا نصیباً من الکتب کہ وہ لوگ جنہیں دیا گیا کتاب کا کچھ حصہ ، نصیباً کا لفظ نکرہ ہے اور اس کا معنی کچھ حصہ ہے اس کے دو معانی ہو سکتے ہیں۔ کتاب کے کچھ حصے سے ایک تو یہ مراد ہو سکتی ہے کہ یہود و نصاریٰ کے کتاب الٰہی کے صرف الفاظ ہی باقی ہیں اور یہ لوگ ان الفاظ کے معانی تک رسائی حاصل نہیں کرتے۔ یعنی زبان سے کتاب کے الفاظ ادا کرتے ہیں مگر نہ تو دل سے ان احکام کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی ان پر عمل کرتے ہیں ۔ یہ بہت بڑی گمراہی ہے کہ کسی چیز پر بظاہر ایمان ہو مگر عملی طور پر اس کی مخالفت کی جائے۔ یہ بیماری اب اہل کتاب سے نکل کر مسلمانوں میں بھی پھیل چکی ہے۔ مسلمانوں کی حالت بھی اب یہ ہے کہ قرآن پاک کے الفاظ تو تلاوت کرتے ہیں ، مگر نہ تو ان الفاظ کے معانی جانتے ہیں اور نہ ان پر عمل کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص کسی قانون کا مطلب ہی نہیں سمجھتا تو اس پر عمل کیا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اشارتاً اہل اسلام کو بھی سمجھایا کہ اگر تم بھی یہودیوں کی طرح محض الفاظ ہی کو دہراتے رہے تو پھر ان کی طرح تمہیں بھی فلاح نصیب نہیں ہو سکتی۔ نصیباً من الکتب کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اہل کتاب کے پاس ان کی کتاب کی کچھ یعنی چند ایک باتیں ہی سلامت ہیں باقی سب کچھ انہوں نے خود اپنے ہاتھوں بگاڑ دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کی کتاب کو تبدیل کردیا ہے ، اس میں تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں۔ تاہم کچھ نہ کچھ باتیں ضرور ان کے پاس موجود ہیں جو تحریف کی دست برد سے محفوظ اور اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ہیں۔ عیسائیوں کے بڑے بڑے پادری آج بھی تسلیم کرتے ہیں کہ انجیل مقدس میں تین ہزار سے زیادہ اغلاط موجود ہیں ۔ یہ انہی پادریوں کی تحریف کا نتیجہ ہے۔ بہرحال تحریف سے محفوظ کچھ حصہ کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد مبارک بھی موجود ہے کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنے کی سزا آج بھی موجود ہے۔ تورات میں یہ بھی موجود ہے کہ جو شخص اپنی پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے وہ جان سے مارا جائے گا۔ اس قسم کے احکام اب بھی موجود ہیں مگر یہ لوگ معنوی تحریف کی بناء پر ان پر عمل سے قاصر ہیں بہرحال نصیباً کا مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب کی کتب میں سے کچھ نہ کچھ حصہ اب بھی ان کے پاس موجود ہے۔ مگر ان کا عمل وہ ہے جس کا تذکرہ آیت کے اگلے حصّے میں آ رہا ہے۔ مکروہ عزائم فرمایا ان لوگوں کی حالت یہ ہے یشترون الضللۃ ایمان اور توحید قبول کرنے کی بجائے گمراہی خریدتے ہیں۔ گویا احکام الٰہی میں تحریف کر کے خود بھی گمراہ ہوئے ہیں ویریدون ان تضلوا السبیل اور تمہیں بھی گمراہ کرنا چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو خبردار کیا ہے کہ اہل کتاب کے مکروہ عزائم سے ہوشیار رہیں تاکہ وہ تمہیں بھی گمراہ نہ کردیں۔ وہ تمہیں صراط مستقیم پر گامزن نہیں دیکھنا چاہتے۔ اسی سورة کے پانچویں رکوع میں پہلے بھی ان کی اس قبیح حرکت کا تذکرہ ہوچکا ہے۔ ویرید الذین یتبعون الشہوات ان تمیلوا میلاً عظیماً کہ خواہشات کے پجاری تمہیں اصل راستے سے دور لے جانا چاہتے ہیں ، لہٰذا ان کی مکاریوں سے خبردار رہیں۔ اہل ایمان کو گمراہ کرنے کے لیے یعنی ان کو ان کے دین سے بیزار کرنے کے لیے اہل کتاب اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کو قرآن پاک کی تعلیمات سے ہٹانے اور نبی آخر الزماں سے ان کا تعلق منقطع کرنے کے لیے ان کی پوری مشینری حرکت میں ہے۔ اس معاملہ میں اہل ہنود بھی یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ ہیں تاہم اس معاملہ میں یہودی سب سے بڑھے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خصوصی مذمت بیان فرمائی ہے ہر ملک میں اہل کتاب کی مشنریاں موجود ہیں جن کے ذریعے وہ سکول اور ہسپتال قائم کرتے ہیں اور پھر جذبہ خدمت کا اظہار کر کے اہل ایمان کو اپنے دام میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے مذموم عزائم کا تذکرہ مختلف انداز میں مختلف سورتوں میں موجود ہے۔ مشرقی علوم سے واقف مغربی ممالک کے باشندے مستشرق کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ مشرقی علوم یعنی عربی ، فارسی وغیرہ سیکھ کر اسلامی علوم کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر ریسرچ یعنی تحقیق کے نام پر قرآن و حدیث کی تفاسیر شائع کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے یورپ اور امریکہ میں تحقیقاتی کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں جو بظاہر قرآن و سنت پر تحقیق کرتے ہیں اور مسلمانوں پر احسان جتلاتے ہیں کہ وہ ان کے لیے علمی میدان صاف کر رہے ہیں مگر درپردہ مسلمانوں میں گمراہی پھیلا رہے ہیں۔ ایسی الٹی سیدھی تعبیریں کرتے ہیں جن سے مسلمان اپنے دین سے بیزار ہوجائیں اس ضمن میں انہوں نے لغت (Dictionary) کو بھی تختہ مشق بنایا ہے اور الفاظ کے غلط معانی شائع کرکے مسلمانوں پر شب خون مارنے کی سعی کی ہے۔ عربی انگریزی ڈکشنری میں انہوں نے عیسیٰ کا معنی ابن اللہ (خدا کا بیٹا) کیا ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔ چونکہ عیسائیوں کا اپنا عقیدہ یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اس لیے انہوں نے یہی معنی ڈکشنری میں لکھ دیا ہے تاکہ ڈکشنری کا مطالعہ کرنے والے لوگوں کے ذہنوں میں بھی یہی معنی راسخ ہوجائے اور اس طرح وہ اپنے عقیدے اور دین سے دور ہوجائیں۔ اسی لیے فرمایا کہ جن لوگوں کو کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا ہے وہ خود بھی گمراہی کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور تمہیں بھی صراط مستقیم سے بھٹکا دینا چاہتے ہیں۔ خدا پر بھروسہ فرمایا واللہ اعلم باعدآئکم اللہ تعالیٰ تمہارے ان دشمنوں کو خوب جانتا ہے۔ اگر تمہارا یقین اللہ مالک الملک پر مضبوط رہا اور تم حق بات پر جمے رہے تو پھر تمہیں کوئی خطرہ نہیں و کفی باللہ ولیاً اور اللہ کافی ہے کارسازی کرنے والا۔ تم اسی کو کارساز سمجھتے ہوئے صراط مستقیم پر چلتے رہو اسی پر بھروسہ رکھو وکفی باللہ نصیراً اور کافی ہے اللہ مددگار۔ اگر خدا کی مدد پر بھروسہ رکھو گے ، اپنے دین پر قائم رہو گے تو کوئی دشمن تمہیں زک نہیں پہنچا سکتا۔ یہ اصول کی بات ہے کہ دشمن کا وار اسی وقت کارگر ہوگا جب تم اپنے دین سے پھسل جاؤ گے ، خدا تعالیٰ کی ذات پر اعتماد کمزور پڑجائے گا ، اعتقاد بگڑ جائے گا ، اور گناہ کا ارتکاب کرنے لگو گے۔ ہاں ! و من یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً جو اللہ سے ڈرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ضرور کوئی نہ کوئی راستہ بنادیتا ہے۔ لہٰذا اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کے دین پر قائم رہتے ہوئے دشمنانِ دین کا مقابلہ کرو۔ دیکھو ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں کہاں کہاں کامیابی عطا کی۔ بدر وحنین میں کیسے اسباب پیدا کیے ، تبوک ، یرموک اور قادسیہ کی جنگوں میں مسلمانوں کی کس طرح مدد فرمائی ، جب تک مسلمان اللہ کے دین پر قائم رہے اللہ تعالیٰ کی نصرت شامل حال رہی۔ مگر جب ان میں بگاڑ پیدا ہوگیا تو بڑی بڑی سلطنتیں ختم ہوگئیں ، خلافت اڑ گئی اور مسلمان برطانیہ ، امریکہ اور روس سے مغلوب ہو کر رہ گئے۔ ہر جگہ ذلت و خواری کا منہ دیکھنا پڑا۔ آج ہماری حالت بھی یہودیوں سے کسی طرح کم نہیں۔ عقائد بگڑ چکے ہیں۔ اللہ کی عظیم کتاب کے الفاظ کا احترام ضرور ہے مگر نہ اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ کوئی عمل ہے تحریف کلمات گزشتہ آیات میں گزر چکا ہے کہ یہودی اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ فضل کو چھپا جاتے ہیں۔ فضل سے مراد وہ مال و دولت بھی ہے جسے بخل کی وجہ سے چھپاتے ہیں اور وہ علم بھی جسے وہ اپنی ضد اور عناد کی بناء پر دوسروں تک نہیں پہنچاتے۔ اب یہاں پر یہودیوں کی تحریف کلمات کی خصلت بیان ہو رہی ہے من الذین ھادو یہودیوں میں سے بعض لوگ ایسے ہیں۔ یحرفون الکلم عن مواضعہ جو کلمات کو ان کے مواقع سے تبدیل کردیتے ہیں۔ یہودیوں نے اپنے حسد ، بغض ، عناد کی بناء پر اور چوہدراہٹ کے تحفظ کی خاطر کتاب میں تحریف کی ، عیسائیوں نے بھی اپنی کتاب کے ساتھ یہی سلوک کیا۔ مکہ کے مشرکین نے بھی اسی لیے رسول آخر الزمان کا انکار کیا کہ ایمان لے آنے سے ان کی برتری ختم ہوجاتی تھی ، انہیں اطاعت کرنا پڑتی تھی یہود و نصاریٰ آج بھی اپنی اسی پرانی ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔ اور نہ صرف خود قبول اسلام سے انکاری ہے بلکہ دوسروں کو بھی اپنے دین سے برگشتہ کرنا چاہتے ہیں۔ بہرحال انہوں نے اپنی کتاب میں ہر اس مقام پر تحریف کی جس میں اسلام کی حقانیت اور نبی آخر الزمان کی آمد کی پیشگوئیاں موجود تھیں۔ عیسائیوں نے انجیل مقدس سے فار قلیط کا لفظ ہی حذف کردیا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا لفظ ڈال دیا۔ سریانی زبان کا فارقلیط اور عربی کا احمد ہم معنی الفاظ ہیں۔ چونکہ حضور ﷺ کی آمد کی پیش گوئیاں انجیل میں موجود تھیں ، اس لیے انہوں نے یہ لفظ ہی اڑا دیا عیسیٰ (علیہ السلام) تو اپنے ہر وعظ میں فرماتے تھے انی رسول اللہ الیکم میں اللہ کا رسول ہوں مصدقاً لما بین یدی من التوریۃ میں اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں ” ومبشراً بدسولٍ یاتی من بعدی اسمہ احمد اور اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت دینے والا ہوں جن کا نام نامی اور اسم گرامی احمد ہوگا ، بہرحال عیسائیوں نے یہ لفظ ہی اڑا دیا تاکہ نہ یہ نام ہوگا اور نہ انہیں آخری نبی پر ایمان لانا پڑے گا ، یہ تحریف کی بدترین مثا ل ہے۔ لفظی ہیرا پھیری یہ تو ان کی اپنی کتاب میں تحریف کرنے کا تذکرہ تھا۔ اب آگے اللہ تعالیٰ نے ان کے اس ناروا سلوک کا تذکرہ کیا ہے جو وہ حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ کرتے تھے۔ ارشاد ہے۔ ویقولون سمعنا جب نبی (علیہ السلام) کی مجلس میں آ کر بیٹھتے ہیں اور ان کے فرمودات سنتے ہیں تو زبان سے کہتے ہیں ، ہم نے سن لیا۔ مگر ان کی بدبختی کی انتہا یہ ہے کہ زبانی اقرار کے ساتھ ہی دل میں کہتے ہیں وعصینا اور ہم نہیں مانیں گے۔ یعنی ان احکام کی تعمیل ہم سے نہیں ہو سکتی۔ علاوہ ازیں جب وہ خود حضور ﷺ سے مخاطب ہوتے تو کہتے واسمع یعنی آپ سنیں غیر مسمعٍ اور نہ سنائے جائیں۔ اس قسم کے ذومعنی الفاظ بول کر وہ لوگ بظاہر تو اہل ایمان کی عزت افزائی کرتے تھے مگر ان کے دلوں میں عناد کی خباثت ہوتی تھی واسمع غیر مسمعٍ ایک معنی تو یہ ہے کہ حضور ! آپ ہماری بات سنیں اور آپ کو اپنی مرضی کے خلاف کوئی بات نہ سنائی جائے۔ گویا آپ کی عزت و احترام کرتے تھے کہ دین حق کا بول بالا ہو اور اس کے خلاف کوئی بات آپ تک نہپ ہنچے۔ مگر ان کے دل میں یہ مفہوم ہوتا تھا کہ آپ ہماری بات تو سن لیں مگر آپ نہ سنائے جائیں یعنی آپ کے کان ہی ضائع ہوجائیں جن سے آپ کوئی بات سن سکیں۔ غیر مسمعٍ کا توہین آمیز یہ مطلب بھی ان کے ذہن میں ہوتا تھا کہ آپ کوئی اچھی بات نہ سن سکیں۔ اس طرح گویا وہ بددعائیہ کلمات بھی کہتے تھے۔ وراعنا لیاً بالسنتہم وہ بدبخت اپنی زبانوں کو موڑ کر راعنا کا لفظ بھی بولتے تھے کہ حضور ! ہماری رعایت کریں یعنی ہماری طرف توجہ فرمائیں مگر ان کے دل میں عبرانی زبان کا راعن ہوتا تھا جس کا معنی احمق ہے۔ اس کے علاوہ عربی میں راعی چرواہے کو بھی کہتے ہیں گویا وہ زبان کو گھما کر لفظ کو بگاڑ دیتے تھے جس سے وہ ذومعنی بن جاتا تھا اور وہ اپنی خباثت کا اظہار کرلیتے تھے۔ یہ لفظ پہلے سورة بقرہ میں بھی گزر چکا ہے ” لاتقولوا راعنا “ یعنی حضور ﷺ کو مخاطب کرنے کے لیے راعنا کا لفظ استعمال نہ کرو بلکہ اس کی بجائے وقولو الظرنا کہو ہماری طرف نظر کریں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اہل کتاب حضور ﷺ کی شان میں اس قسم کی گستاخی کرتے تھے۔ لہٰذا اہل ایمان کو اس قسم کے ذومعنی الفاظ استعمال کرنے سے منع فرمادیا۔ دین پر نکتہ چینی فرمایا یہودیوں کی ایک بری خصلت یہ بھی ہے وطعناً فی الدین دین میں طعن کرتے ہیں۔ اسلام کے احکام پر نکتہ چینی کرتے ہیں مثلاً محرمات نکاح کے سلسلے میں جب تمام حرام رشتوں کی وضاحت ہوئی تو یہودی کہنے لگے دیکھو جی ! مسلمانوں کا دین پھوپھی کی بیٹی سے تو نکاحکو جائز قرار دیتا ہے مگر بھتیجی سے نکاح حرام کیا ہے۔ جب تیمم کا مسئلہ بیان ہوا تو کہنے لگے کہ مسلمانوں نے نیا طریقہ نکالا ہے۔ اگر پانی نہ ملے تو مٹی مل لیا کرو۔ بھلا یہ طہارت ہے یا نجاست۔ بہرحال وہ لوگ دین میں طعن کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” قاتلوا ائمۃ الکفر انہم لا ایمان لہم “ بڑے بڑے کافر بےایمان ہیں۔ لہٰذا ان سے مقابلہ اور جنگ کرو۔ ” طعنوا فی دینکم “ یہ تمہارے دین میں طعن کرتے ہیں ، عیب جوئی کرتے ہیں یہ کام آج کے ائمہ الکفر بھی بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ یورپین مشنریاں ہنود اور یہود ہمیشہ دین حق کی عیب جوئی میں لگے رہتے ہیں۔ تعدد ازواج پر یہ لوگ ہمیشہ معترض رہے۔ کہ دیکھو ! اسلام عیاش پرست مذہب ہے۔ اس میں چار شادیوں کی اجازت ہے ، وغیرہ وغیرہ لعنت کے مستحق اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی ترک کر کے دین اسلام کو قبول کرلیتے۔ ولو انہم قالوا اور اگر وہ یوں کہتے سمعنا واطعنا ہم نے سن لیا اور ہم اسے مانیں گے واسمع آپ ہماری بات سنیں وانظرنا اور ہماری طرف دیکھیں لکان خیراً لہم تو ایسا کہنا ان کے لیے بہتر ہوتا واقوم اور زیادہ درست ہوتا مگر افسوس کہ انہوں نے ایسا نہ کیا ، جس کا نتیجہ یہ ہوا ولکن لعنہم اللہ بکفرہم کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کی۔ لعنت کا معنی بعد من الرحمۃ یعنی اللہ کی رحمت سے دوری ہے۔ ایمان لانے سے انکار کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و بخشش سے دور ہوگئے۔ انہوں نے کلام الٰہی کو حق نہ مانا۔ رسول کی تکذیب کی۔ ان کے اخلاق بگڑ گئے تھے۔ عقل الٹ گئی تھی ، اس لیے تمام کام خلاف عقل و فہم انجام دیتے تھے کلام الٰہی کو تبدیل کیا فلا یومنون الا قلیلاً پس وہ نہیں ایمان لاتے مگر بہت تھوڑے۔ حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں مدینے کے گرد و نواح میں یہودیوں کے دس بڑے عالم تھے۔ جن میں سے صرف ایک اسلام قبول کرسکے حضور نے فرمایا اگر یہ سارے کے سارے ایمان لے آتے تو روئے زمین پر موجود تمام یہودی حلقہ بگوش اسلام ہوجاتے۔ مگر جیسا کہ یہاں فرمایا بہت قلیل لوگ ایمان لائے۔ یہ لوگ اس وقت بھی مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے تھے اور آج بھی دنیا میں اسی پالیسی پر گامزن ہیں اور یہ مسلمانوں سے صرف اسی صورت میں راضی ہو سکتے ہیں کہ مسلمان اپنا دین چھوڑ کر ان کے دین میں مدغم ہوجائیں۔ سورۃ بقرہ میں گزر چکا ہے ” ولن ترضی عنک الیہود ولا النصری حتی تتبع ملتہم “ یہودی اور عیسائی آپ سے کبھی خوش نہیں ہوں گے۔ جب تک آپ ان کا دین نہ اختیار کرلیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ ان دشمنانِ دین سے ہمیشہ ہوشیار رہنا ، یہ دین دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ یہ مسلمانوں کے ابدی دشمن ہیں۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ یہ لوگ نزول مسیح تک اس قسم کی ریشہ دوانیاں کرتے رہیں گے ، لہٰذا ان سے محتاط رہیں۔
Top