Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 104
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ اِلَى الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَا١ؕ اَوَ لَوْ كَانَ اٰبَآؤُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ شَیْئًا وَّ لَا یَهْتَدُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمْ : ان سے تَعَالَوْا : آؤ تم اِلٰى : طرف مَآ : جو اَنْزَلَ اللّٰهُ : اللہ نے نازل کیا وَاِلَى : اور طرف الرَّسُوْلِ : رسول قَالُوْا : وہ کہتے ہیں حَسْبُنَا : ہمارے لیے کافی مَا وَجَدْنَا : جو ہم نے پایا عَلَيْهِ : اس پر اٰبَآءَنَا : اپنے باپ دادا اَوَلَوْ كَانَ : کیا خواہ ہوں اٰبَآؤُهُمْ : ان کے باپ دادا لَا : نہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہوں شَيْئًا : کچھ وَّلَا يَهْتَدُوْنَ : اور نہ ہدایت یافتہ ہوں
اور جب کہا جاتا ہے ان لوگوں سے کہ آئو اس چیز کی طرف جس کو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے اور آئو رسول کی طرف وہ کہتے ہیں ہمارے لئے کافی ہے وہ چیز جس پر پایا ہے ہم نے اپنے آبائو اجداد کو اگرچہ ان کے آبائو اجداد نہ جانتے ہوں کسی چیز کو اور نہ ہدایت پاتے ہو۔
ربط آیات گزشتہ آیات میں فضول اور لایعنی باتوں کے متعلق سوال کرنے سے منع فرمایا گیا تھا ، کیونکہ اگر نزول قرآن کے زمانے میں ایسی باتوں کے متعلق پوچھا جائے تو ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کا جواب قرآن پاک میں نازل کر دے اور پھر وہ تمہیں ناگوار گزرے اور تم اس پر عمل نہ کرسکو۔ اگر ایسا ہی ہوا تو تمہارے لئے سخت بدنامی کا باعث ہوگا۔ فرمایا تم سے پہلی قوموں نے بھی بعض بیہودہ سوالات کئے اور پھر ان پر عمل نہ کرسکے اور سخت مشکل میں مبتلا ہوئے ، لہٰذا تم بھی کہیں ان کی روش پر نہ چل نکلنا پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے خود ساختہ محرمات کی تردید بھی فرمائی کہ انہوں نے اپنے باطل خیالات کے ذریعے بعض حلال جانوروں کو اپنے اوپر حرام …ٹھہرا لیا تھا اور ان کو معبود ان باطلہ کے نام پر چھوڑ دیتے تھے فرمایا کہ اللہ نے حرمت کا ایسا کوئی حکم انہیں نہیں دیا بلکہ وہ خود اللہ پر افتراء باندھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بحیرہ ، سائبہ ، وصیط اور حام کا تذکرہ کر کے فرمایا کہ ان بدبختوں نے از خود اپنے اوپر ان جانوروں کا دودھ سواری اور دیگر خدمات حرام کر رکھے تھے اور اسے اللہ کی طرف منسوب کرتے تھے کہ اس نے ایسا حکم دیا ہے فرمایا یہ محض جھوٹ اور شرکیہ باتیں ہیں ان میں سے اکثر عقل سے خالی لوگ ہیں کیونکہ ان کے باطل عقائد کو تو عقل بھی تسلیم نہیں کرتی۔ دعوت الی القرآن : - اب آج کی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ … نے مشرکین کے بعض دیگر باطل عقائد کا ذکر کیا ہے اور ان مشرکانہ رسوم کا رد فرمایا ہے جو انہوں نے خود وضع کر رکھی تھیں مگر انہیں اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ارشاد ہوتا ہے واذا قیل ل ھم جب ان سے کہا جاتا ہے۔ تعالوا الی ما انزل اللہ آئو اس چیز کی طرف جس کو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے اور وہ ہے قرآن پاک جیسی عظیم الشان کتاب جو منجانب اللہ نازل ہوئی ہے اور جس میں ہدایت روشنی اور بصیرت کی باتیں ہیں۔ اس میں اول سے آخری تک حق کے سوا کچھ نہیں۔ لہٰذا اس کی طرف رجوع کریں۔ تمہارے تمام دنیاوی اور اخروی مسائل کا حل اسی کتاب میں موجود ہے۔ اس کے برخلاف تم نے جو بحیرہ ، سائبہ وغیرہ محرمات ٹھہرا رکھے ہیں۔ انکی حقیقت کچھ نہیں ہے۔ بلکہ قرآن پاک سے پوچھو کہ کون سی چیز حلال ہے اور کون سی حرام ہے۔ ” ونزلنا علیک الکتب تبیاناً لکل شی ئً یہ اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے اور اس میں ہر چیز کی وضاحت ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قانون حلت و حرمت میں از خود دخل اندازی نہ کرو کیونکہ حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ قرآن پاک تبیاناً لکل شیء من الحلال و الحرام اس میں حلت و حرمت کی مکمل وضاحت موجود ہے ، لہٰذا اسی کے احکام پر عمل کرنے میں تمہاری نجات ہے اس میں جنت تک پہنچنے اور دوزخ سے بچنے کے لئے مکمل لائحہ عمل موجود ہے۔ رسول بحیثیت شارح قرآن فرمایا پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن پاک کی طرف آئو اور دوسری یہ کہ والی الرسول اور رسول کی طرف آئو۔ رسول حامل قرآن ہونے کی حیثیت سے خود اس پر عمل کرتا ہے ، اس کی وضاحت کرتا ہے اور اس کی جزیات (Bye Laws) بتلاتا ہے۔ لہٰذا رسول کی طرف رجوع بھی ضروری ہے۔ رسول کی وضاحت کے بغیر قرآن پاک پر من و عن عمل کرنا تمہارے لئے ممکن نہیں ہے لہٰذا تم پہلے قرآن کو تسلیم کرو اور پھر اس کی تشریح حامل قرآن سے پوچھو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ چیز رسول کے فرئاض منصبی میں داخل کردی ہے۔ ” لتبین للناس ما نزل الیھم (نحل) کہ آپ لوگوں کے سامنے نازل شدہ چیز کو واضح طور پر بیان کردیں۔ قرآن پاک کا خود اپنے متعلق بیان ہے ” کتب احکمت ایتہ “ اس کی آیات محکم ہیں ثم فضیلت من لدن حکیم خبیر “ (ہود) پھر ان کی تشریح بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان سے کردی ہے۔ فرمایا ” ثم ان علینا بیانہ (تیمہ) “ یعنی قرآن کا نازل کرنا بھی ہمارے ذمے ہے اور پھر اس کی تشریح و توضیح بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ اس کی حفاظت کے بھی ہم خود ذمہ دار ہیں۔ لہٰذا فرمایا آئو قرآن پاک کی طرف اور اللہ کے رسول کی طرف خدا اور رسول کی اطاعت مخلوق میں سے ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت اس لحاظ سے فرض عین ہے کہ وہ خلاق ، مالک ، آقا ، رب اور الہ ہے۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے تحب اللہ تم اللہ سے اس لئے محبت رکھو کہ وہ تمہیں انعام دیتا ہے۔ وہ تمہارا منعم حقیقی اور محسن حقیقی ہے لہٰذا تمام مخلوق خصوصاً انسان پر لازم ہے کہ وہ اس کا شکریہ ادا کرے اور اس کی اطاعت بجا لائے اور اس کے احکام سے سرتابی نہ کرے۔ اسی طرح رسول کی اطاعت اس کی رسالت کی وجہ سے ہر انسان پر فرض ہے ۔ خود قرآن نے فرمایا ہے ” من یطع الرسول فقد اطع اللہ (نسائ) جس شخص نے رسول کی اطاعت کی ، اس نے گویا خدا تعالیٰ کی اطاعت کی۔ رسول کے لفظ میں یہ ساری حقیقت پوشیدہ ہے کہ رسول کی اطاعت مرسل کی اطاعت کی مانند ہے۔ اسی سورة میں پہلے گزر چکا ہے ” یا یھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک “ اے رسول اپنے رب کی طرف سے نازل کردہ ہر چیز کو آگے پہنچا دیں۔ مطلب یہ کہ رسول اللہ ہی کا پیغام مخلوق تک پہنچاتا ہے لہٰذا اس کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے مترادف ہی ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام کی وضاحت اولاً اپنے نبی کی زبان سے کرائی ہے اسی لئے امام شافعی ، شاہ ولی اللہ ، مولانا رشید احمد گنگوہی اور یدگر علماء و محققین اور مفسرین فرماتے ہیں کہ صحیح سند کے ساتھ ثابت ہونے والی تمام احادیث قرآن کی شرح ہیں اور خود قرآن ان کا متن ہے۔ بہرحال فرمایا کہ قرآن پاک کی طرف آئو اور اللہ کے رسول کی طرف آئو۔ دوسرے مقام پر فرمایا قل اطیعوا اللہ والرسول کہہ دیجیے خدا اور رسول کی اطاعت کرو فان لولوا فان اللہ لا یحب الکفرین (آل عمران) اگر تم روگردانی کرو گے تو اللہ تعالیٰ کفر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ گویا اللہ اور رسول سے روگردانی کفر ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا و ان تطیعوہ تھتدوا (سورۃ نور) اگر رسول کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جائو گے۔ وہ ہادی برحق ہے۔ قرآن پاک کی تشریح کرتا ہے ، لہٰذا اس کی بات کو مانو اور خود ساختہ رسوم کو ترک کر دو ۔ یہ سب کفر ، شرک ، بدعت اور معصیت کی باتیں ہیں۔ فتنہ انکار حدیث اب یہ بات واضح ہوچکی کہ رسول کی اطاعت بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح اللہ کی اطاعت کیونکہ رسول کی تشریح کے بغیر احکام الٰہی کا سمجھنا اور ان پر عمل کرنا مشکل ہے ۔ اور رسول کی اطاعت کے لئے رسول کی حدیث پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اب جو کوئی حدیث کا انکار کرتا ہے ، وہ دماغ نے فتور میں مبتلا ہے۔ ایسا خص منکر حدیث ہی نہیں ، منکر قرآن بھی ہے پرویزی ، چکڑالوی وغیرہم کا انکار حدیث سے مقصد بہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ آپ کے صحابہ کرام اور ائمہ دین کی بیان کردہ تشریح کو قرآن سے الگ کردیا جائے اور اس کی جگہ اپنی من مانی تو ضیح کو رائج کردیا جائے۔ اسی مذموم مقصد کے تحت پرویز نے اللہ کا معنی قانون کیا ہے۔ گویا اللہ کی اطاعت سے مراد قانون کی اطاعت ہے ۔ یہ تو کفر اور الحاد ہے جو اس کے دماغ میں بھرا ہوا ہے۔ اللہ کا معنی اگر قانون کیا جائے تو پھر اللہ کی ذات کہاں گئی شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ ایک ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان بھی یہ تصور رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ایک ذات ہے۔ اس کا وجود ہے اور اس کی صفات ہیں اسی لئے ہر مسلمان جب سبحان اللہ کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی ذات تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے۔ بہرحال یہ حدیث کے انکار کی وجہ ہے کہ ذات خداوندی کا تصور بھی مٹانے کی کوشش ہو رہی ہے اور پھر یہیں پر بس نہیں کی بلکہ خود ساختہ معنوں کو رواج دینے کے لئے لغات قرآن کے نام سے خود ساختہ لغت بھی بنا دی ہے تاکہ اپنی مرضی سے کانٹ چھانٹ کر جو معنی اپنی دماغی اختراع کے مطابق ہو ، اسے لغت میں لکھ دیا جائے اور پھر اسے قرآن پاک پر چسپاں کردیا جائے۔ اولی اللہ یا مشروط یہاں پر قرآن اور حدیث کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی دعوت دی گئی ہے۔ اور سورة نساء ہیں اولی الامر کی اطاعت کا بھی حکم موجود ہے۔ امام ابوبکر جصاص فرماتے ہیں کہ اولی الامر میں مسلمان حکام بھی آتے ہیں اور علماء اور فقہاء بھی۔ ان کی اطاعت تبلیغ سات کی وجہ سے ضروری ہے۔ اور مسلمان حکام کی اطاعت اسی لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے دین کو نافذ کرنے والے ہیں۔ البتہ حکام وقت ہوں یا علما و فقہاء بزرگ ہوں یا پیرو مرشد ان سب کی اطاعت مطلق نہیں بلکہ خدا اور اس کے رسول کے حکم کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر ان کی بات خدا اور رسول کے حکم کے مطابق ہوگی تو تسلیم کی جائے گی ورنہ ٹھکرا دی جائے گی۔ کیونکہ ان سے غلطی کا امکان ہے برخلاف اس کے اللہ کی مطلق اطاعت اس لئے ہے کہ وہاں غلطی کا کوئی امکان نہیں اور رسول کی مطلق اطاعت اس لئے کہ وہ کوئی غلط حکم نہیں دیتا۔ اگر کسی معاملہ کے سمجھنے میں غلطی ہوجائے یا کوئی خط یا لغزش ہوجائے تو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے فوراً اصلاح کردیتا ہے۔ لہٰذا نبی کا ہر حکم بھی واجب التعمیل ہے۔ آبائو اجداد کی اندھی تقلید فرمایا کہ جب مشرکین کو کہا اجتا ہے کہ اس چیز کی طرف آئو جو اللہ نے نازل کی ہے اور رسول کی طرف آئو قالوا حسبنا ما وجدنا ملید آبائونا تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ ہمارے لئے وہی کچھ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے آبائو اجداد کو پایا۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں کسی کتاب یا شریعت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم تو اپنے باپ دادا کے مذہب پر قائم رہیں گے۔ ان کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ ہمارے آبائو اجداد بڑے بڑے چوہدری ، داتا اور پنچ تھے۔ ان کی مجلسوں میں اہم فیصلے ہوتے تھے وہ کیا نالائق اور بیوقوف تھے جو ہم ان کے رسم و رواج اور طور طریقے کو ترک کردیں ؟ ہمارے لئے تو ان کا اتباع ہی کافی ہے اور یہی وہ دلیل ہے جو اکثر مشرکین اپنے جاہلانہ تصور کے حق میں دیتے رہے ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ انسان اکثر تین قسم کے حجابات میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یعنی حجاب طبع ، حجاب رسم اور حجاب سوء معرفت فرماتے ہیں کہ حجاب طبع سے مراد یہ ہے کہ انسان خواہشات نفسانیہ کے پیچھے لگ جائے اور وہی کرے جو اس کا دل چاہے۔ نیز کھانے پینے اور آرام طلبی میں مصروف رہے۔ حجاب رسم یہ ہے کہ انسان اپنے آبائو اجداد برادری اور قبیلہ کے رسم و رواج میں مبتلا رہے۔ ایسا شخص اپنی زندگی جیسی قیمتی پونجی انہی رسومات باطلہ کی نذر کر دیات ہے اور حق کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ پھر جب اس دنیا سے جاتا ہے تو آنکھ کھلتی ہے۔ اس وقت وہ اپنے آپ کو بالکل خالی دامن پاتا ہے۔ پھر اسے احساس ہوتا ہے کہ جس چیز پر ناجت کا دار و مدار تھا ، اس کی طرف تو اس نے اپنی زندگی میں توجہ نہ دی۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں حجاب سوء معرفت یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کو مانے مگر غلط طریقے سے ۔ یہود و نصاریٰ بدھہ ہندو وغیرہ سب خدا تعالیٰ کو کسی نہ کسی طریقے پر مانتے ہیں مگر ماننے کا وہ طریقہ غلط ہے جس کی وجہ سے ان کا ماننا بھی انکار کے مترادف ہے۔ بعض لوگ شرک یا تشبیہ میں مبتلا ہوتے ہیں شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ یہ مہلک بیماریاں ہیں۔ شرک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات یا اس کی صفات میں غیر اللہ کو بھی شامل کرلیتے ہیں۔ یعنی اللہ کی صفات مختصہ غیروں میں بھی تسلیم کرتے ہیں اور تشبیہ یہ ہے کہ انسانوں کی صفات اللہ تعالیٰ میں ثابت کرتے ہیں۔ جیسے یہ عقیدہ رکھنا کہ اتخذ اللہ ولدا العیاذ باللہ اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے۔ گویا اس بیماری میں مبتلا لوگ اللہ تعالیٰ کا مثیل یا ندیا مقابل یا بیٹا بنا لیتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ان تینوں حجابوں سے بہت کم لوگ بچ کر نکلتے ہیں۔ بہرحال کسی بھی کام کو دین کی طرف لوٹانے کی بجائے اپنے آبائو اجداد ہی کو معیار بنا لینا جاہلانہ تقلید ہے۔ یہ انسان کو معصیت سے بڑھ کر شرک تک لے جاتی ہے۔ فرمایا یہ مشرک اور بدعتی لوگ اپنے خود ساختہ افعال کی دلیل صرف یہ پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بڑوں کو اسی طریقے پر پایا ہے۔ ان کے پاس نہ کوئی عقلی دلیل ہوتی ہے نہ نفلی اور نہ ہی وہ مشاہدہ کی بنیاد پر کوئی جواز پیش کرسکتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا یہ لوگ اپنے باپ دادا کو دلیل بناتے ہیں اولم کان آبائو ھم ولا یعلمون شیئاً ۔ اگرچہ ان کے آبائو اجداد کچھ نہ جانتے ہوں یعنی جاہل مطلق ہوں ولا یھتدون اور نہ ہی وہ ہدایت کے راستے پر ہوں۔ فرمایا کہ اس سے بڑھ کر گمراہی کیا ہو سکتی ہے کہ جاہل اور غیر ہدایت یافتہ آبائو اجداد کی تقلید میں خود بھی اسی گڑھے میں جا گرے۔ شاہ عبدالقادر محدث فرماتے ہیں کہ اگر باپ دادا کے متعلق وثوق سے علم ہو کہ وہ حق کے تابع اور صاحب علم تھے تو پھر ان کی راہ پکڑے اگر ایسا نہیں ہے تو سراسر گمراہی میں مبتلا ہونیوالی بات ہے۔ یہی اندھی تقلید ہے جو انسان کو بالآخر شرک اور کفر میں مبتلا کر کے جہنم میں جانے کا ذریعہ بن جائے گی آج بھی لوگ اپنی متبد عانہ رسوم کے جواز میں خاندانی رسم و رواج اور بڑوں کے عمل کو پیش کرتے ہیں ، وہ گمراہی میں مبتلا ہیں کسی بھی عمل کے لئے کتاب و سنت سے دلیل کی ضرورت ہے صحابہ کرام کے عمل کو پیش کرو۔ اگر وہاں بھی نہ ملے تو ائمہ دین سے دریافت کرو۔ امام ابوحنیفہ کا فتویٰ لائو۔ محمد ثین کا قول پیش کرو ، امام شافعی ، مالک اور احمد کیا کہتے ہیں۔ امام بخاری ، مسلم ، ترمذی اور نسائی کی کیا تحقیق ہے۔ اگر ان میں سے کوئی دلیل بھی نہیں ہے اور محض بڑوں کی دیکھا دیکھی کر رہے ہو تو سمجھ لو کہ صریح گمراہی میں مبتلا ہو۔ اگر فلاح چاہتے ہو تو اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن ہو جائو۔ یہی وہ شاہراہ ہے جو تمہیں جنت تک لے جائیگی۔ جائز تقلید آبائو اجداد کی اندھی تقلید کے برخلاف اگر اہل علم کی تقلید اس بناء پر کی جائے کہ وہ قرآن پاک اور شریعت مطہرہ کو بہتر طور پر جانتے ہیں تو ایسی تقلید کی اجازت ہے ، ائمہ دین اور علماء و فقہاء کی تقلید محض اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ قرآن و سنت کو بہتر جاننے والے ہیں۔ لہٰذا امام ابوحنیفہ کی تقلید مشرکانہ تقلید نہیں ہے بلکہ بالکل جائز ہے۔ وہ ہم سے زیادہ صاحب علم تھے اور مسائل شرعیہ کا حل بہتر طور پر پیش کرتے تھے۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں کہ جاہلانہ تقلید میں بعض غلط کار صوفیوں کا بھی حصہ ہے جب انہیں قرآن و سنت کی بات بتائی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے بزرگوں کے طریقے پر چلیں گے۔ ہم تو مشائخ کے کہنے پر عمل کریں گے۔ یہ بھی مشرکانہ تقلید میں آتا ہے۔ صحیح تقلید یہ ہے کہ اللہ اور رسول کی بات کو مقدم رکھا جائے۔ جو چیز اس کے مطابق ہے اسے قبول کرلیا جائے اور اگر کوئی شیخ قرآن و سنت کے خلاف کہتا ہے تو وہ شیطانی اور گمراہی کی بات ہوگی۔ اسے رد کردیا جائے گا۔ شاہ اسماعیل شہید فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اس کا پیر غلط بات کرتا ہے تو اس کی بیعت سے تو الگ نہ ہو بلکہ اس کی اصلاح کی کوشش کرے اور اس کی صورت یہ ہے کہ دوسرے سے کہلوائے کہ یہ بات غلط ہو رہی ہے اور اپنے پیر کے حق میں دعا بھی کرے کہ صراط مستقیم پر قائم ہے اور پیر صاحب نے کہنے پر غلط بات کو خود اختیار نہ کرے ، ایک صاحب نے بتایا کہ ایک پیر زادہ صاحب گلے کی بیماری میں مبتلا ہوگئے حکیم صاحب نے مشورہ دیا کہ خضاب لگانے سے آپ کی بیماری میں اضافہ ہوا ہے لہٰذا لست ترک کردیں کہنے لگے یہ تو میں نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ میرے حضرت صاحب نے حکم دے رکھا ہے کہ خضاب لگایا کروں۔ اب اگر شریعت بھی کالا خضاب لگانے سے منع کرے تو یہ صاحب اپنے شیخ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ یہی جاہلانہ تقلید ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ تاہم آئمہ دین ، علماء و فقہاء کی تقلید اس لحاظ سے جائز ہے کہ انہیں قرآن و سنت پر بہت دسترس حاصل ہے اور وہ بہتر طریقے پر راہنمائی کرنے کے اہل ہیں۔
Top