Mualim-ul-Irfan - At-Talaaq : 12
اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ١ؕ یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ١ۙ۬ وَّ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا۠   ۧ
اَللّٰهُ الَّذِيْ : اللہ وہ ذات ہے خَلَقَ سَبْعَ : جس نے پیدا کیا سات سَمٰوٰتٍ : آسمانوں کو وَّمِنَ الْاَرْضِ : اور زمین میں سے مِثْلَهُنَّ : انہی کی مانند يَتَنَزَّلُ : اترتا ہے الْاَمْرُ : حکم بَيْنَهُنَّ : ان کے درمیان لِتَعْلَمُوْٓا : تاکہ تم جان لو اَنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ عَلٰي كُلِّ : اوپر ہر شَيْءٍ : چیز کے قَدِيْرٌ : قادر ہے وَّاَنَّ اللّٰهَ : اور بیشک اللہ تعالیٰ نے قَدْ اَحَاطَ : تحقیق گھیر رکھا ہے بِكُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز کو عِلْمًا : علم کے اعتبار سے
اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے پیدا کیے ہیں سات آسمان اور زمین میں سے بھی ان کی مثل۔ اترتا ہے حکم ان کے درمیان تاکہ تم جان لو کہ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور بیشک اللہ نے احاطہ کررکھا ہے ہر چیز کا علم کے ساتھ
ربط آیات : اس سورة مبارکہ میں مسلمانوں کے عائلی قوانین من جملہ نکاح ، طلاق ، عدت ، عدت کے اعتبار سے عورتوں کی قسمیں اور عدت کی مدت ، دوران عدت رہائش اور خرچہ کا مسئلہ اور اولاد کی پرورش وغیرہ بیان ہونے ہیں۔ اللہ نے تاکید فرمائی ہے کہ ان احکام پر عمل کرتے رہو اور خلاف ورزی نہ کرو۔ پھر اللہ نے سابقہ امتوں کی مثال بیان فرمائی ، جنہوں نے اللہ کے احکام اور اس کے رسولوں کے فرامین سے انکار کیا ، غرور وتکبر کیا تو اللہ نے ان کو دنیا میں ہی محاسبہ کرکے ان کو ہلاک کیا اور پھر آخرت کی دائمی سزا آگے آنے والی ہے ، فرمایا اے عقلمندو اللہ سے ڈرجائو ، اللہ نے تمہاری طرف قرآن کی صورت میں نصیحت نامہ نازل کیا ہے اور ایک رسول بھیجا ہے جو تمہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے جو کہ تمام مسائل کی پوری طرح وضاحت کرتی ہیں اور ان پر ایمان لاتے اور نیک اعمال انجام دینے والوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتی ہیں۔ پھر اللہ نے ایمان اور اعمال صالحہ کا انجام بھی بیان فرمایا کہ ایسے لوگوں کو ابدی جنتوں میں داخل کیا جائے گا اور ان کو وہاں بہت اچھی روزی نصیب ہوگی۔ اللہ کی صفت خلق : اب سورة کی آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کاملہ میں سے صفت خلق ، قدرت تامہ ، اور علم محیط کا تذکرہ فرمایا ہے ، اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ساتھ اس کی صفات کی پہچان بھی ضروری ہے ، جن کے بغیر انسان ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتا۔ تو یہاں پہلی صفت خلق کا ذکر کیا ہے۔ اللہ الذی خلق سبع سموت ، اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے ہیں۔ کسی چیز کی تخلیق کے ضمن میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی چار صفات یکے بعد دیگرے کام کرتی ہیں۔ سب سے پہلی صفت ابداع یا فاطر ہے یعنی کسی چیز کو بغیر آلے ، نمونے اور مادے کے پیدا کرنا۔ مثلاً فرمایا بدیع السموت والارض (الانعام 102) یا فرمایا فاطر……… والارض (یوسف 101) یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا جب کہ اس سے پہلے نہ کوئی مادہ موجود تھا۔ نہ نمونہ اور نہ ہی آلہ جس کے ذریعے ان کو تخلیق کیا گیا۔ فرماتے ہیں کہ دوسرے نمبر پر اللہ کی صفت خلق آتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایک چیز سے دوسری چیز بنادینا۔ مثلاً زمین کو تو اللہ نے صفت ابداع کے ذریعے بغیر مادے کے پیدا کیا۔ اب اس زمین کی مٹی سے آدم (علیہ السلام) کا پتلا تیار ہوا جیسے فرمایا خلقہ من تراب (آل عمران 59) یہ اللہ تعالیٰ کی صفت خلق کا کام ہے۔ اسی طرح وخلق الجان من مارج من نار (الرحمن 15) جنات کو شعلہ مارنے والی آگ سے پیدا کیا۔ آگ کا مادہ پہلے موجود تھا۔ جس سے جنات جیسی مخلوق پیدا کی ۔ ہم روز مرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ گٹھلی سے درخت اور بیج سے اناج پیدا ہوتا ہے۔ یہ سب اللہ کی صفت خلق کا کرشمہ ہے۔ پھر جب کوئی چیز تیار ہوجاتی ہے تو اس کا قیام ، ترقی تنزل ، موت وحیات وغیرہ صفت تدبیر کا کام ہے۔ اللہ کا فرمان ہے یدبر…………………الارض (الم السجدۃ 5) آسمان کی بلندیوں میں سے لے کر زمین کی پستیوں تک ہر چیز کی تدبیر اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔ اس کے بعد چوتھی صفت تدلی آتی ہے شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ انسان کو شکم مادر میں پیدا کرتا ہے۔ تو اس میں روح ڈالتا ہے۔ جس میں اس کی تجلی اعظم کا عکس بھی پڑتا ہے۔ اس کو تدلی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چونکہ انسان کو روح اور اس میں پڑنے والی تدلی عالم بالا سے آتی ہے ، اس لئے اس کی کشش ہمیشہ اوپر کی طرف ہوتی ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں انسان پر مادیت کا خول چڑھا ہوا ہے اور اس کی حالت ایسی بےہوشی کی سی ہے۔ جیسے کسی کو کلوروفارم سونگھا دیا گیا ہو۔ جس طرح کلوروفارم زدہ آدمی کو آپریشن کے دوران ہونے والی تکلیف کا احساس نہیں ہوتا اسی طرح انسان کو اس دنیا کی زندگی میں تدلی کی کشش کا احساس نہیں ہوتا۔ جس طرح کلوروفارم کا اثر زائل ہونے پر انسان کو تکلیف کا احساس ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح جب انسان سے یہ مادی خول اتر جاتا ہے یعنی اس کی موت واقع ہوجاتی ہے تو پھر اسے تدلی کی کشش محسوس ہونے لگتی ہے۔ پھر اگر اس نے دنیا میں رہ کر اچھے کام نہیں کیے تو اس کی کشش نیچے کی طرف ہوتی ہے اور اس طرح اوپر اور نیچے کی کشمکش میں سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہرحال تخلیق اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ اس کا فرمان ہے اللہ خالق کل شیء (الزمر 63) بلکہ ہر چیز کا حقیقی خالق وہی ہے ۔ اللہ نے ہر چیز کو کمال اعتدال کے ساتھ پیدا کیا ہے ، اور اس کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے ایک انسان کی تخلیق کو ہی دیکھ لیں۔ اللہ نے کیسی حسین و جمیل صورت عطا فرمائی ہے اور تمام اعضاء اپنے اپنے مقام پر اپنی قدرت کاملہ کے ساتھ فٹ کیے ہیں۔ اللہ نے اس کو تمام ظاہری اور باطنی قوی عطا فرمائے ہیں اور عقل ، دماغ اور فہم جیسی بیش قیمت نعمتیں عطا فرمائی ہیں خود اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے لقد …………………تقویم (التین 4) ہم نے انسان کو بہترین تقویم میں پیدا کیا ہے۔ سات آسمانوں کی تخلیق : بہرحال فرمایا کہ اللہ کی ذات وہ ہے جس نے سات آسمانوں کو پیدا کیا۔ سورة الملک میں ہے کہ یہ آسمان آگے پیچھے نہیں بلکہ الذی …………………طباقا (آیت 3) اللہ کی ذات وہ ہے جس نے سات آسمان تہ بہ تہ پیدا فرمائے اور پھر ان ساتوں کے اوپر بہشت ہے۔ ساتوں آسمانوں سے اوپر سدرہ المنتہیٰ ہے جو عالم خلق اور عالم امر کا سنگم ہے فرمایا عندھا…………المعاوی (النجم 15) اس کے پاس ہی جنت ہے۔ معراج والی حدیث سے بھی ثابت ہے کہ آپ ساتوں آسمانوں کو عبور کرکے سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔ غرضیکہ اللہ نے ساتوں آسمان اوپر نیچے بنائے ہیں۔ بعض احادیث میں آسمانوں کی بلندی کے متعلق آتا ہے کہ ایک آسمان سے دوسرے آمان تک پانچ سو سال کی مسافت ہے اور خود ہر آسمان کی اپنی موٹائی بھی پانچ سو سال کی مسافت کے برابر ہے۔ اس سال سے کون سے سال مراد ہیں ، اس کی تشریح معلوم نہیں ، البتہ ان کا طبقات کی صورت میں ہونا نص قرآنی سے ثابت ہے۔ سات زمینوں سے متعلق تحقیق : سات آسمانوں کی تخلیق کے تذکرے کے بعد فرمایا ومن الارض مثلھن ، اور زمین سے بھی ان (آسمانوں) کی مثل تخلیق کی۔ مفسرین کرام نے اسی سلسلہ میں بہت بحث کی ہے کہ آیا زمین کی آسمانوں کے ساتھ مثال تعداد کی بنا پر دی گئی ہے یا مسطح ہونے کی وجہ سے۔ قرآن پاک میں آسمانوں کے ساتھ مثال تعداد کی بنا پر دی گئی ہے یا مسطح ہونے کی وجہ سے۔ قرآن پاک میں آسمان و زمین کی تخلیق کا ذکر بیشمار مقامات پر اکٹھا آیا ہے۔ مگر ہر جگہ آسمانوں کو جمع اور زمین کو مفرد کے صیغے کے ساتھ بیان کیا گیا ہے پورے قرآن پاک میں یہ واحد آیت ہے جو زمین کی ایک سے زیادہ تعداد پر دلالت کرتی ہے۔ البتہ بعض احادیث اور بعض آثار سے زمینوں کے ساتھ ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ حضرت صہیب ؓ حضور ﷺ کے مشہور صحابی ہیں ۔ یہ وہی صہیب ؓ ہیں جو حضرت عمر ؓ کے بھائی بنے ہوئے تھے ، آپ کا جنازہ بھی انہوں نے پڑھا اور پھر آپ کی شہادت کے بعد تین دن تک قائم مقام خلیفہ بھی رہے۔ حصمن حصین اور حدیث کی بعض دوسری کتابوں میں حضرت صہیب ؓ کی ایک دعا منقول ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔ اللھم رب السموت السبع وما اظللن ، اے سات آسمانوں کے پروردگار اور جس پر یہ سایہ افگن ہیں۔ ورب الارضین السبع وما اقللن۔ اور اے ساتوں زمینوں کے پروردگار اور جن چیزوں کو یہ اٹھاتی ہیں۔ ورب الشیطین وما اضللن۔ اور اے شیطانوں کے پروردگار اور جن کو وہ گمراہ کرتے ہیں۔ ورب الریاح وما ذرین فانا نسلک خیر ھذہ القریۃ (ص 265) اور اے ہوائوں کے پروردگار اور جن چیزوں کو وہ اڑاتی ہیں ، ہمارے لئے اس بستی میں بہتری بنادے۔ گویا اس دعا میں سات زمینوں کا ذکر موجود ہے۔ مسلم شریف میں حضرت سعید بن زید ؓ کا واقعہ آتا ہے جو کہ عشرہ مبشرہ ؓ میں سے ہیں۔ آپ کے خلاف کسی عورت نے دعویٰ دائر کردیا کہ انہوں نے اس عورت کی زمین پر ناجائز قبضہ کررکھا ہے۔ اس وقت مروان مدینہ کا گورنر تھا۔ اس نے آپ کو عدالت میں طلب کیا۔ جب آپ سے دعویٰ کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے کہا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ میں اس عورت کی زمین پر ناجائز قبضہ کروں حالانکہ میں نے خود حضور ﷺ کی زبان مبارک سے سن رکھا ہے۔ کہ جو شخص کسی کی بالشت بھر زمین بھی ناجائز قبضے میں رکھے گا ، قیامت والے دن ساتوں زمینوں کا اتنا حصہ اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا جسے وہ سخت تکلیف اٹھا کر کھینچے گا۔ یہ سن کر مروان نے مقدمہ ہی خارج کردیا اور کہا کہ اس مقدمہ میں مجھے کسی گواہ کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر حضرت سعید ؓ نے اس عورت کو بدعا دی کہ اگر یہ جھوٹی ہے تو خدا تعالیٰ اس کو اس کے گھر میں ہی ہلاک کرے اور آنکھوں سے نابینا بنادے۔ آپ ؓ کی یہ دعا قبول ہوئی اور وہ عورت اندھی ہوگئی اور پھر اپنے گھر کے کنوئیں میں گر کر ہلاک ہوگئی۔ اس حدیت میں بھی سات زمینوں کا ذکر موجود ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے اثر میں ایک مشکل حدیث ہے جس نے امت میں بڑا اشکال پیدا کیا ہے۔ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں کہ تمہاری زمین جیسی اور بھی سات زمینیں ہیں ہر زمین میں حضرت آدم (علیہ السلام) جیسے آدم ، موسیٰ (علیہ السلام) جیسے موسیٰ ، عیسیٰ (علیہ السلام) جیسے عیسیٰ اور محمد رسول اللہ ﷺ جیسے محمد ہیں۔ اس حدیث کی تشریح حضرت مولان محمد قاسم نانوتوی (رح) نے اپنی کتاب ” تحذیر الناس “ میں کی ہے صاحب تفسیر روح المعانی سید محمود آلوسی بغدادی (رح) نے اس کو اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے اس حدیث میں اشکال یہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ تو صرف حضور خاتم النبیین ہیں ، پھر آپ جیسے محمد ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ اس کی تشریح میں علامہ آلوسی بغدادی (رح) فرماتے ہیں کہ اول تو یہی بات واضح نہیں کہ جن دوسری زمینوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ تعداد میں واقعی اتنی ہیں ، اور ہیں تو پھر ان کی مخلوق کیسی ہے ؟ کیا دوسری زمینوں کی مخلوق انسانوں جیسی ہے یا کوئی اور قسم کی مخلوق ہے۔ اگر وہ مخلوق انسانوں جیسی نہیں تو پھر ان کے حالات بھی انسانوں سے مختلف ہوں گے ، اور جہاں تک انسانی مخلوق کا تعلق ہے تو یہ تو آدم (علیہ السلام) سے لے کر قیامت تک اسی زمین پر آباد رہیں گے علامہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح تمہاری یہ زمین ہے ، اسی طرح دوسری زمینیں بھی ہیں۔ اور جس طرح اس زمین میں ممتاز شخصیات ہوئی ہیں ایسی ہی ممتاز شخصیات دوسری زمینوں پر بھی ہیں مطلب یہ کہ حضرت محمد ، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ تو نہیں البتہ ان جیسی ممتاز شخصیات ہیں۔ نیز فرماتے ہیں کہ یہ مفہوم اخذ کرنے میں کیا حرج ہے ؟ مفسر ابو سعود (رح) لکھتے ہیں کہ حضرت نافع ؓ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے پوچھا کہ آیا اس زمین کے نیچے بھی کوئی مخلوق آباد ہے ، تو انہوں نے فرمایا ، وہاں ، مگر وہ مخلوق انسانوں ، جنوں یا ملائکہ جیسی نہیں ہے۔ کیونکہ آدمیت اور انسانیت کے لئے صرف یہی زمین مخصوص ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ اس آیت میں آسمانوں اور زمین کی مشیت کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح آسمان مسطح یعنی چپٹے ہیں۔ اسی طرح زمین بھی چپٹی ہے۔ حقیقت میں زمین مسطح نہیں بلکہ گول ہے مگر اپنے بہت بڑے حجم کی وجہ سے چپٹی معلوم ہوتی ہے۔ اللہ نے بھی فرمایا ہے والارض …… …………(الذریت 48) اور ہم نے زمین کو بطور فرش بچھا دیا ہے ، اور ہم کیا ہی اچھے ہیں بچھانے والے ان حضرات کا خیال ہے آسمانوں اور زمین کی مثلیت سطحیت میں ہے نہ کہ تعداد میں ۔ بعض فرماتے ہیں کہ سات زمینوں سے سات طبقات مراد ہیں جو کہ یہ ہیں (1) آگ (2) آگ اور دیگر مادوں کا مرکب (3) پانی (4) زمہریر (5) ہوا (6) عام مٹی (7) گیلی مٹی۔ صاحب تفسیر کبیر لکھتے ہیں کہ ممکن ہے سات زمینوں سے اقالیم سبعہ یعنی سات ولائتیں مراد ہیں۔ ہر اقلیم کی آب وہوا مختلف ہے ۔ ہم دوسری یا تیسری اقلیم میں رہتے ہیں۔ اسی طرح شمال اور جنوب کی طرف مختلف اقالیم ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ سات زمینوں سے اسی زمین کے بڑے بڑے حصے مراد ہیں جن کو براعظم کہا جاتا ہے۔ ان کی تعداد بھی سات ہے۔ (1) براعظم ایشیا (2) براعظم یورپ (3) براعظم افریقہ (4) براعظم آسٹریلیا (5) براعظم شمالی امریکہ (6) براعظم جنوبی امریکہ (7) براعظم انٹار کٹکا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ہوسکتا ہے سات زمینوں سے سات سیارے مراد ہوں جو ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔ ان میں زمین ، چاند ، زحل ، مریخ ، زہرہ ، مشتری ، عطاردل شامل ہیں (موجودہ سائنسدانوں نے کل گیارہ کروں کا ذکر کیا ہے ۔ جس میں مذکورہ سات کے علاوہ باقی ، یورینس ، سورج نیچیون اور پلوٹو کو بھی شامل کیا گیا ہے (سواتی) ان میں سے چاند پر تو انسان پہنچ چکے ہیں اور مریخ کے متعلق معلومات اکٹھی کی جارہی ہیں۔ ہاں پر بھی زمین کی طرح پہاڑ ، بادل اور موسمی حالات ہیں۔ چاند پر تو کسی مخلوق کا پتہ نہیں چل سکا۔ ہوسکتا ہے کہ مریخ پر کوئی مخلوق آباد ہو مگر وہ انسان نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ انسان تو صرف اسی زمین پر آباد ہیں۔ ممکن ہے ملائکہ یا جنات کی مانند کوئی مخلوق ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سات زمینیں آسمانوں کی طرح اوپر نیچے ہوں مگ رہمارے علم میں نہ ہو کیونکہ کائنات کی ہر چیز تو انسان کے علم میں نہیں ہے۔ چناچہ صحیح بات یہی ہے کہ جس چیز کی قرآن نے مکمل تفصیل بیان نہیں کی اسکے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔ اسی لئے بعض مفسرین فرماتے ہیں ابھموا کما ابھمہ اللہ ، جن چیزوں کو اللہ نے مبہم چھوڑ دیا ہے تم بھی ان کو مبہم ہی رہنے دو ، زیادہ کرید نہ کرو۔ ایسی چیزوں کے متعلق تم سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔ البتہ اگر ایسی کوئی چیز احکام کے قبیل سے ہے تو اس کی وضاحت کی جائے گی تاکہ حلال حرام اور جائز ناجائز میں امتیاز ہوسکے۔ مگر حقائق سے تعلق رکھنے والی چیزوں کی حقیقت معلوم کرنا ہر انسان کے لئے نہ ضروری ہے اور نہ اس کے بس میں ہے۔ حکم کا نزول : فرمایا اللہ کی ذات وہ ہے جس نے سات آسمانوں کو پیدا کیا ، اور زمین میں سے ان کی مانند۔ یتنزل الامر بینھن وہ نازل کرتا ہے حکم ان کے درمیان ، حکم کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تشریعی اور دوسرا تکوینی ، کائنات میں پیدائش ، اموات ، تمام تغیرات اور تصرفات اللہ تعالیٰ کے تکوینی حکم کے مطابق ظاہر ہوتے ہیں۔ اور تشریعی احکام میں عقائد ، اعمال ، اخلاق ، معاشرت ، حلال و حرام اور جائز وناجائز سے متعلق احکام ہوتے ہیں۔ اس سرزمین پر شرعی احکام حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضور خاتم النبیین ﷺ تک کتابوں اور صحیفوں کی صورت میں نازل ہوتے رہے ہیں۔ تو یہاں پر نزول حکم سے دونوں قسم کے احکام مراد ہوسکتے ہیں جن کے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کو آسمانوں اور زمین اتارتا ہے۔ اور اس نزول احکام سے مراد یہ ہے لتعلموا ان اللہ علی کل شیء قدیر تاکہ تم جان لو کہ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت خلق کے بعد اس آیت میں یہ دوسری صفت قدرت تامہ کا ذکر ہوا ہے۔ گویا خدا تعالیٰ کی اس صفت پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کائنات میں جو بھی تغیر وتبدل کرنا چاہے اس کے راستے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں سن سکتی وہ قادر مطلق ہے اور ہر چیز اس کی قدرت کے تابع ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف ہر چیز پر قادر ہے بلکہ وان اللہ قد احاط بکل شیء علما ، بیشک اس نے ہر چیز کا علم کے ساتھ احاطہ کر رکھا ہے۔ کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ موجود ہے علم الغیب والشھادۃ وہ چھپی ہوئی اور ظاہر سب چیزوں کو جانتا ہے۔ یہ مخفی کا ذکر انسانوں کے اعتبار سے ہے وگرنہ اللہ تعالیٰ سے تو ذرے کے برابر بھی کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ اس سائنسی دور میں سائنس دانوں نے بڑی بڑی معلومات حاصل کی ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے کلی علم کے مقابلے میں اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ سائنسدان جس قدر مطالعہ کرتے ہیں ، مزید انکشافات ہوتے ہیں۔ غرضیکہ ہر چیز کا علم محیط صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہوے۔ انسانوں کا علم محدود ہے ، لہٰذا ان کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی صفات کاملہ پر ایمان لائیں ، اس کے نازل کردہ شرعی احکام کو تسلیم کرکے ان پر عمل کریں کہ اسی میں ان کی نجات ہے اور اسی پر آخرت کی فلاح کا دارومدار ہے۔ واللہ اعلم باالصواب۔
Top