Mualim-ul-Irfan - At-Talaaq : 8
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا وَ رُسُلِهٖ فَحَاسَبْنٰهَا حِسَابًا شَدِیْدًا١ۙ وَّ عَذَّبْنٰهَا عَذَابًا نُّكْرًا   ۧ
وَكَاَيِّنْ : اور کتنی ہی مِّنْ قَرْيَةٍ : بستیوں میں سے عَتَتْ : انہوں نے سرکشی کی عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا : اپنے رب کے حکم سے وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسولوں سے فَحَاسَبْنٰهَا : تو حساب لیا ہم نے اس سے حِسَابًا : حساب شَدِيْدًا : سخت وَّعَذَّبْنٰهَا : اور عذاب دیا ہم نے اس کو عَذَابًا نُّكْرًا : عذاب سخت
اور بہت سی بستیاں ہیں جو آگے نکل گئیں اپنے پروردگار کے حکم سے اور اس کے رسولوں کے حکم سے۔ پس ہم نے محاسبہ کیا ان کو سخت محاسبہ ، اور ہم نے سزا دی ان کو سخت سزا
ربط آیات : پچھلی آیات میں اللہ نے عورتوں کے نکاح ، طلاق اور عدت وغیرہ سے متعلق عائلی قوانین بتائے اور ان کی پابندی کرنے کا حکم دیا۔ فرمایا ان احکام کی خلاف ورزی نہ کرو ورنہ تمہارے لئے مشکلات پیدا ہوں گی اب اللہ نے بطور عبرت یاد دلایا کہ جن لوگوں نے نافرمانی کی ، دیکھو ! اللہ نے انہیں کس طرح نیست ونابود کیا۔ نافرمان قوموں کی تباہی : ارشا د ہوتا ہے وکاین من قریۃ عتت عن امر ربھا و رسلہ ، بہت سی بستیاں ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے تجاوز کیا ، اور اس کے رسولوں کی اطاعت سے بھی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا۔ فحاسبنھا حسابا شدیداً پس ہم نے ان کا سخت محاسبہ کیا وعذبنھا عذاباً نکرا اور ان کو سخت سزا میں مبتلا کیا۔ فرمایا فذاقت وبال امرھا پس انہوں نے اپنے کام کی سزا کا مزا چکھا وکان عاقبۃ امرھا خسرا ، اور ان کے معاملے کا انجام نقصان میں رہا ۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زندگی جیسی قیمتی پونجی عطا کی تھی اور اس کے ساتھ عقل و شعور جیسی نعمت دی مگر انہوں نے اس پونجی کو برباد کردیا ، اور اس کے نتیجے میں کفر ، شرک برائیاں اور نافرمانیاں خرید لیں۔ اس کی پاداش میں بعض اقوام پر دنیا میں بھی سزا آئی اور ان کا انجام کار بڑے خسارے والا ثابت ہوا۔ اللہ نے ان کو دنیا میں سزا دے کر معاملہ ختم نہیں کردیا ، بلکہ آخرت میں اعداللہ لھم عذابا شدیدا ، ان کے لئے سخت عذاب بھی تیار کررکھا ہے۔ یہ خطاب نزول قرآن کے زمانے کے لوگوں کے علاوہ ساری نبی نوع انسان سے ہے اس سے پہلے اللہ نے عائلی قوانین کے طور پر نکاح ، طلاق ، عدت اور خرچے وغیرہ کے احکام بیان فرما کر خبردار کیا ہے کہ اگر دنیا اور آخرت میں بہتری چاہتے ہو تو ان قوانین کی پابندی اختیار کرو ، ورنہ تمہارا انجام بھی سابقہ نافرمان قوموں سے مختلف نہیں ہوگا۔ اس آیت میں اللہ نے بہت سی بستیوں کا ذکر کیا ہے۔ قرآن کے دوسرے مقامات پر نافرمان قوموں کے طور پر قو م عاد ، قوم ثمود ، قوم صالح ، قوم ابراہیم ، قوم شعیب ، قوم فرعون ، قوم لوط وغیرہ کا نام آتا ہے۔ اللہ نے ان کو دنیا میں بھی تباہ و برباد کیا اور آخرت کی دائمی سزا تو بہرحال ان کو بھگتنی پڑے گی۔ تو فرمایا کہ ان اقوام کے انجام سے عبرت حاصل کرو اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے باز آجائو۔ شیطان کی اطاعت : امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں ورب اقلیم غلبت علیہ طاعۃ الشیطن وصادر اھلہ کمثل النفوس البھیمیۃ ، بہت ملکوں پر شیطان کی اطاعت غالب آجاتی ہے ، اور وہاں کے لوگ درندہ صفت بن جاتے ہیں۔ کبھی اللہ تعالیٰ ان کو موقع پر ہی سزا دے دیتا ہے اور کبھی اس کو موخر کردیتا ہے کہ جو چاہو کرلو ، میں جب چاہوں گا تمہیں پکڑ لوں گا۔ جانوروں کی مثال اس لئے دی ہے کہ جس طرح جانوروں کا کام صرف کھانا ، پینا اور جفتی کرنا ہے۔ اسی طرح انسان بھی انہی کاموں میں منہمک ہو کر آخرت کو بھول جاتے ہیں ، اور کھیل تماشے ، عریانی ، فحاشی اور دیگر شیطانی کاموں میں مصروف رہتے تھے۔ یہ لوگ حق و باطل کے امتیاز سے عاری ہوجاتے ہیں اور حلال و حرام سے بےنیاز ہوجاتے ہیں۔ جہاں سے چاہتے ہیں کماتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں خرچ کرتے ہیں۔ وہ اس معاملہ میں کوئی پابندی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ من مانی کرتے ہیں ، اور یہی شیطان کی اطاعت۔ پچھلی سورتوں میں گزر چکا ہے کہ مدینے کے اطراف میں کئی یہودی بستیاں تھیں جن کے باشندے اسلام کے خلاف ہمیشہ سازشیں کرتے رہتے تھے ان پر بھی اللہ کی گرفت آئی ، کچھ مارے گئے اور کچھ جلاوطن ہوئے۔ ان کے مکانات باغات اور زمینوں پر مسلمان قابض ہوگئے ، اور اس طرح انہیں اسی دنیا میں سزا ملی مگر اللہ نے فرمایا کہ ان کے لئے آخرت میں شدید عذاب تیار ہے۔ خوف خدا کی تلقین : اللہ تعالیٰ کی وعیدکا یہ اسلوب ہے کہ نافرمان قوموں کی تباہی کا ذکر کرکے لوگوں کو عبرت دلائی جاتی ہے۔ یہاں بھی فرمایا فاتقوا اللہ یا ولی الالباب ، اے عقل مندو ! اللہ سے ڈر جائو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی سابقہ نافرمان قوموں کے نقش قدم پر چل کر اللہ تعالیٰ کی سزا کے مستوجب بن جائو۔ فرمایا ومن یتق……………………سیاتہ (الطلاق 5) جو شخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ڈر جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کی سابقہ کوتاہیاں معاف فرمادے گا۔ یہاں بھی فرمایا کہ اے عقلندوں ! اللہ کی نافرمانی سے ڈر جائو۔ اللہ تعالیٰ تمام قوتوں کا سرچشمہ اور قدرتوں کا مالک ہے ، اس کی مخالفت نہ کرو۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ یادرکھو ! کہ خدا تعالیٰ وقتی طور پر ڈھیل تو دیتا رہتا ہے ۔ مگر کسی نافرمان کو چھوڑتا نہیں بلکہ مقررہ وقت پر گرفت کرلیتا ہے اور لوگوں کو علم بھی نہیں ہوتا کہ گرفت کی کون صورت پیش آنے والی ہے۔ اللہ سے ڈرنے کا مطلب یہی ہے کہ لوگ کفر ، شرک نفاق اور معاصی ترک کردیں اور اس کی مقرر کردہ حدود کی پابندی کریں۔ پہلے بھی گزر چکا ہے فاتقوا اللہ ما استطعتم (التغابن 16) جہاں تک ہوسکے نافرمانی سے بچ جائو ، اگر کوئی غلطی ہوگئی ہے تو اس کی تلافی کرو ، توبہ کرو ، حقدار کا حق ادا کرو کہ عقل مندی کا یہی تقاضا ہے۔ سورة آل عمران میں بھی فرمایا ہے وما یذکر الا اولو الالباب (آیت 7) عقلمند لوگ ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ فرمایا جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اولئک………………اضل (الاعراف 179) وہ جانوروں کی مثل ہیں۔ بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں۔ جانوروں کو تو اللہ نے عق و شعور سے محروم رکھا ہے ، اس لئے وہ اسے استعمال نہیں کرسکتے۔ مگر انسانوں کو تو اللہ نے اس قیمتی جوہر سے مزین کیا ہے۔ اگر پھر بھی یہ اس جوہر سے مستفید نہیں ہوتے تو یہ جانوروں سے بھی برے ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ اے عقلمندو ! خدا تعالیٰ سے ڈر جائو۔ پھر فرمایا کہ صحیح عقلمند وہ لوگ ہیں الذین امنوا جو اللہ تعالیٰ کی ذات ، اس کی صفات ، کتب سماویہ ، ملائکہ مقربین جزائے عمل ، تقدیر پر ایمان لاتے ہیں۔ عقل کا فائدہ اسی صورت میں ہوگا کہ انسان اپنے خالق اور مالک کو پہچان لے۔ قرآن بطور نصیحت : فرمایا قد انزل اللہ الیکم ذکرا ، اللہ نے تمہاری طرف ایک نصیحت نازل کی ہے۔ مفسرین ذکر سے جبرائیل (علیہ السلام) ، قرآن اور مطلق نصیحت بھی مراد لیتے ہیں۔ تاہم صحیح بات یہی ہے کہ ذکر سے مراد نصیحت نامہ ہے جو اللہ نے قرآن کی صورت میں بنی نوح انسان کو ہدایت کے لئے نازل فرمایا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) ، قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) اور بعض دیگر مفسرین یہی مفہوم بیان کرتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ اس نصیحت نامے کے ساتھ رسولا یتلوا علیکم آیت اللہ ایک رسول بھی بھیجا ہے جو تمہیں اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے ۔ بعض فرماتے ہیں کہ ذکرا اور رسولا کے درمیان لفظ ارسل مخدوف ہے۔ چناچہ معنی یہی بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے طرف ایک نصیحت نامہ نازل کیا ہے اور ایک رسول بھیجا ہے ، یا اللہ نے تمہاری طرف ذکر کرنے والا رسول بھیجا ہے جو تمہیں اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے ، یہ معنی بھی ہوسکتا ہے ، تاہم پہلا معنی زیادہ راجح ہے۔ فرمایا اللہ کا رسول جو آیتیں تمہیں پڑھ کر سناتا ہے مبینت وہ بالکل واضح ہیں اور ان میں کسی قسم کا اشتباہ نہیں ہے۔ اس نصیحت نامے کے دلائل اور احکام بڑے واضح ہیں۔ قرآن نے اکثر وبیشتر اعتقادی مسائل کھول کر بیان کردیے ہیں تاہم بعض چیزوں کی ایک جگہ اجمال کے ساتھ ذکر کیا ہے تو دوسری جگہ وضاحت کردی ہے پھر بعض چیزیں ایسی بھی ہیں کہ جن کی وضاحت اللہ نے اپنے نبی کے ذمے لگادی ہے۔ چناچہ بہت سے مسائل سنت رسول سے حل ہوتے ہیں۔ پھر اللہ نے بعض چیزوں کی وضاحت امت کے اہل علم پر چھوڑ دی ہے۔ جیسے فرمایا لعلمہ………… …منھم (النساء 83) لہٰذا جو باتیں عام لوگوں کی سمجھ میں نہ آئیں انہیں اہل علم کے سامنے پیش کرنا چاہیے جو غور وفکر کرکے ان کا حل پیش کردیں گے۔ قرآن کی وضاحت کے سارے طریقے درست ہیں۔ ظلمت سے نور کی طرف : فرمایا اللہ کی طرف سے نازل کردہ آیات کا مقصد یہ ہے لیخرج الذین امنوا وعملوا الصلحت من الظلمت الی النور ، تاکہ ایمان لانے اور اچھے اعمال انجام دینے والوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئے ، کفر ، شرک ، بدعت ، نفاق ، اور معاصی سب اندھیرے ہیں ، اور ایمان اور توحید روشنی ہے ایمان کے بغیر انسان اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کو نہیں پہچان سکتا۔ وہ عالم بالا کے متعلق صحیح تصور قائم نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسے جنت و دوزخ اور برزخ کا ادراک ہوسکتا ہے ہاں جو شخص اللہ اور اس کے نبی کے فرمان کے مطابق صحیح طریقے سے ایمان لاتا ہے اس کے دل میں روشنی اور بصیرت پیدا ہوتی ہے۔ گویا قرآن کی آیات انسان کو کفر سے نکال کر ایمان کی طرف لاتی ہیں ، اس کے دل میں شرک کی بجائے توحید آتی ہے اور بدعت کی بجائے سنت کا عمل دخل ہوجاتا ہے۔ جنت میں داخلہ : فرمایا ومن یومن باللہ ویعمل صالحا ، جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے اور پھر نیک اعمال بھی انجام دیتا ہے۔ ایمان کا مطلب یہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو وحدہ لاشریک مانتا ہے اور جانتا ہے کہ وہ علیم کل ، قادر مطلق اور تمام قوتوں کا سرچشمہ ہے۔ اچھے اعمال میں سب سے پہلے ارکان اربعہ نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج ہیں ، اس کے بعد جہاد ، قربانی ، تبلیغ ، تعلیم و تعلم ، صدقہ خیرات ، غریبوں ، یتیموں ، بیوائوں کی خبر گری ہے۔ محتاج اعزہ و اقارب کی اعانت ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا یدخلہ جنت تجری من تحتھا الانھر ، کہ اللہ تعالیٰ انہیں بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے سامنے نہریں بہتی ہیں۔ خلدین فیھا ایدا ، اس میں ہمیشہ رہیں گے اور کبھی بھی وہاں سے نکالے نہیں جائیں گے اور نہ ہی وہاں کی نعمتیں کم ہوں گی۔ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا قداحسن اللہ لہ رزقا ، کہ اللہ نے ان کے لئے بڑی بہتر روزی بنائی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے اللہ نے فرمایا ہے کہ میں نے جنت میں ایسی نعمتیں تیار کررکھی ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہیں اور نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ وہ دل میں کھٹکی ہیں۔ اعدرت لعباد الصالحین یہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے تیار کی ہیں اس کا مصداق سورة السجدۃ آیت 17 میں ہے ۔ فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین جزآء بما کانوا یعملون۔
Top