Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 148
وَ اتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰى مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِیِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ١ؕ اَلَمْ یَرَوْا اَنَّهٗ لَا یُكَلِّمُهُمْ وَ لَا یَهْدِیْهِمْ سَبِیْلًا١ۘ اِتَّخَذُوْهُ وَ كَانُوْا ظٰلِمِیْنَ
وَاتَّخَذَ
: اور بنایا
قَوْمُ
: قوم
مُوْسٰي
: موسیٰ
مِنْۢ بَعْدِهٖ
: اس کے بعد
مِنْ
: سے
حُلِيِّهِمْ
: اپنے زیور
عِجْلًا
: ایک بچھڑا
جَسَدًا
: ایک دھڑ
لَّهٗ
: اسی کی
خُوَارٌ
: گائے کی آواز
اَلَمْ يَرَوْا
: کیا نہ دیکھا انہوں نے
اَنَّهٗ
: کہ وہ
لَا يُكَلِّمُهُمْ
: نہیں کلام کرتا ان سے
وَلَا يَهْدِيْهِمْ
: اور نہیں دکھاتا انہیں
سَبِيْلًا
: راستہ
اِتَّخَذُوْهُ
: انہوں نے بنالیا
وَ
: اور
كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ
: وہ ظالم تھے
اور بنا لیا موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے بعد اپنے زیورات سے ایک بچھڑا۔ وہ ایک جسم تھا جس کے لئے گائے کی آواز تھی۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ بیشک وہ نہیں کلام کرتا ان سے اور نہ ان کی راہنمائی کرتا ہے۔ انہوں نے اس کو معبود بنا لیا اور تھے وہ ظلم کرنے والے
ربط آیات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت اجابت کا ذکر ہورا ہے گزشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ بنی اسرائیل آپ کی رہنمائی میں مصر سے نکلے تھے انہوں نے بحیرہ قلزم کو پار کیا دشمن ہلاک ہوچکا تھا صحرائے سینا میں پہنچ کر خود قانون کا مطالبہ کیا موسیٰ (علیہ السلام) نے کتاب کے لیے دعا کی تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ کوہ طور پر اعتکاف بیٹھیں تو مقرر مدت کے بعد آپ کو کتاب کی صورت میں لائحہ عمل عطا کیا جائے گا طور پر چلتے وقت آپ نے اپنے بڑے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو اپنا نائب مقرر کیا تاکہ ان کی عدم موجودگی میں قوم کی قیادت کا فریضہ انجام دے سکیں اعتکاف کی تکمیل پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے اپنی رویت کی خواہش کا اظہار کیا تو اللہ نے فرمایا کہ اس جہان میں ایسا ممکن نہیں ہے اللہ نے نصیحت فرمائی کی ایسی خواہش نہ کریں جو ممکن نہیں اس کے بجائے اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسالت و نبوت کا جو بلند مقام عطا فرمایا ہے آپ اس پر اکتفا کریں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔ سونے کا بچھڑا جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) طور پر چلے گئے تو پیچھے قوم کے اکثر لوگ گمراہی میں مبتلا ہوگئے واتخذ قوم موسیٰ من بعدہ من حلیھم عجلاً اور بنالیا موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے آپ کے جانے کے بعد اپنے زیورات سے ایک بچھڑا دوسری سورتوں میں تفصیل موجود ہے کہ سامری نامی شخص نے یہ بچھڑا بنایا (اور تفسیری روایتوں میں ہے کہ ) پھر اس میں جبرائیل (علیہ السلام) کے نقش پا ، کی خاک ڈالی تو کرشمے کے طور پر وہ بولنے لگا یہ بچھڑا کیا تھا ؟ فرمایا جسداً لہ خوار سونے کو ڈھال کر بنایا گیا ایک جسم تھا جس کے اندر سے گائے کی آواز آتی تھی خوار گائے کی آواز کو کہا جاتا ہے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ بچھڑا اپنی مخصوص آواز میں بول رہا ہے جن زیورات کو ڈھال کر بچھڑا بنایا گیا تھا وہ اصلاً بنی اسرائیل کے لوگوں کی ملکیت نہ تھے بلکہ مصر سے چلتے وقت انہوں نے قبطیوں سے عاریۃً حاصل کیے تھے تورات میں آتا ہے کہ بنی اسرائیل نے قبطیوں سے کہا کہ وہ اپنے ایک مذہبی میلہ میں جا رہے ہیں لہٰذا آپ انہیں کچھ زیورات ادھا ردے دیں قبطیوں نے یہ زیورات خوشی سے ان کو دے دیے جنہیں لے کر وہ بحیرہ قلزم سے ہوتے ہوئے صحرائے سینا میں پہنچ گئے فرعونی تو سمندر میں غرق ہوچکے تھے اب یہ زیورات انہی کے قبضے میں تھے لہٰذا سامری کے کہنے پر انہوں نے وہ سارے زیورات اکھٹے کیے اور انہیں پگھلا کر ایک بچھڑا بنالیا جس سے بولنے کی آواز بھی آتی تھی بعض کہتے ہیں کہ بچھڑے کے منہ میں کرشمے والی مٹی ڈالنے سے وہ گوشت پوست کا بچھڑا بن کر بولنے لگا تھا مگر زیادہ تر خیال یہی ہے کہ وہ سونے کا بچھڑا تھا تاہم اس سے آواز آتی تھی۔ زیورات کی اباحت جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے جن زیورات سے بچھڑے کا مجسمہ بنایا گیا تھا وہ ان کی اپنی ملکیت نہ تھے بلکہ وہ قبطیوں سے عاریۃً لے کر گئے تھے مگر یہاں پر اللہ نے حلیھم یعنی ان کے زیورات فرمایا مفسرین اس سے یہ مسئلہ نکالتے ہیں کہ حربی کافروں کا مال مسلمانوں کے لیے مباح ہے اور مسلمانوں کا مال ان کے لیے جائز ہے مال غنیمت اور مال فے اسی اصول کے تحت جائز قرار پایا ہے جب کوئی کافر قوم مسلمانوں سے برسر پیکار ہو تو ان کا مال خواہ جنگ کے نتیجے میں حاصل ہو یا بغیر لڑائی کے وہ مسلمانوں کے لیے مباح ہوتا ہے قبطی چونکہ کافر تھے اور بنی اسرائیل پر مظالم بھی ڈھاتے تھے اس لیے ان سے حاصل کردہ زیورات مسلمانوں کی ملکیت بن چکے تھے اللہ نے اسی لیے حلیھم کہا ہے۔ سورۃ حشر میں مال فے کے متعلق آتا ہے للفقراء المہجرین الذین اخرجو من دیارھم یہ ان فقرا اور مہاجرین کے لیے ہے جنہیں اپنے گھروں سے نکال دیا گیا مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آنے والے سارے فقراء ہی تو نہیں تھے بلکہ ان میں تو صاحب مال لوگ بھی تھے مگر ہجرت کے بعد ان کے مال پر کفار مکہ نے قبضہ کرلیا لہٰذا یہ محتاج ہوگئے جب ایک دفعہ یہ مال کفار کے قبضہ میں چلا گیا تو پھر اس پر کافروں کا حق ملکیت تسلیم کرلیا گیا اور مسلمانوں نے فتح مکہ کے بعد بھی اسے واپس نہیں لیا حجتہ الوداع کے موقع پر جب حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کل آپ کہاں ٹھہریں گے سوال کرنے کا مقصد یہ جاننا تھا کہ کیا آپ اپنے چھوڑے ہوئے آبائی مکان میں قیام فرمائیں گے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا عقیل (حضرت علی ؓ کے بھائی جو ابھی اسلام نہیں لائے تھے) نے ہمارے لیے کوئی مکان چھوڑا بھی ہے جہاں ہم قیام کرسکیں ؟ مطلب یہ تھا کہ ہجرت کے بعد آپ کا مکان بھی وہ لوگ بیچ کر کھا گئے اب وہ ہمارا مکان نہیں رہا غرضیکہ جس طرح حربی کافروں کی جائیداد مسلمانوں کے لیے مباح ہے اس طرح مسلمانوں کا مال کافروں کے لیے مباح ہے چونکہ قبطیوں کے زیورات بنی اسرائیل کے قبضہ میں آچکے تھے اس لیے اللہ نے ان زیورات کو انہی کے زیورات کہا ہے یعنی وہ ان کے مالک بن چکے تھے۔ بچھڑے کی پرستش جب سونے کا بچھڑا تیار ہو کر بولنے لگا تو سامری نے بنی اسرائیل کو ورغلایا کہ دیکھو ! خدا تو یہ ہے اس کی پرستش کرو موسیٰ (علیہ السلام) تو بھول کر طور پر گئے ہیں تمہارے لیے یہی معبود کافی ہے چناچہ بچھڑے کے سامنے سجدے کرنے لگے اور اس کی نذر و نیاز شروع ہوگئی تو اللہ نے فرمایا کہ یہ کتنے بیوقوف لوگ ہیں اور کیسی حرکتیں کر رہے ہیں الم یروا انہ لا یکلمھم کیا یہ نہیں دیکھتے کہ یہ بچھڑا تو ان سے بات بھی نہیں کرسکتا بمحض ایک بےمعنی آواز نکل رہی ہے جس کی وجہ سے اسے الومہیت کا درہ دے دیا گیا ہے ولایھدیھم سبیلاً اور نہ ہی ان کی رہنمائی کرتا ہے وہ تو بیچارہ خود عاجز ہے یہ کیسے معبود ہوسکتا ہے۔ فرمایا اتخذوہ انہوں نے اس کو معبود بنالیا یہ مجسمہ سامری نے بنایا تھا وہ خود گمراہ تھا اور اس نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ سامری بنی اسرائیل کا فرد نہیں تھا بلکہ اس کا تعلق سمیری قوم سے تھا مگر منافقوں کی طرح بنی اسرائیل میں شامل ہوچکا تھا اور انہی میں شمار ہوتا تھا بعض فرماتے کہ تھا تو اسرائیلی مگر اس میں بگاڑ پیدا ہوچکا تھا وہ منافق تھا اور اس کا دل ایمان سے خالی تھا اس کے ورغلانے پر اسرائیلیوں نے بچھڑے کو معبود بنالیا وکانو ظلمین اور وہ بڑے بےانصاف تھے یہ ان کی غائت درجے کی حماقت تھی کہ خود ساختہ مجسمے کو معبود بنالیا محض بےجان ڈھانچے سے آواز نکلتی سن کر گمراہ ہوگئے اور خدا تعالیٰ کی شان اور عظمت کو فراموش کردیا جب انسان کا ذہن خراب ہونے پر آتا ہے تو پھر ایسی ہی بےوقوفی کی باتیں کرتا ہے سانپ جیسے موذی کیڑے کی پرستش کرنے والے ناگ پنچھمی بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں انسانوں ، پتھروں ، پانی ، بلیوں ، گائے ، بیل ، سورج ، چاند اور ستاروں کے پرستار بھی موجود ہیں اسرائیلیوں نے بھی یہی کیا کہ ایک بےجان بچھڑے کی پوجا کرنے لگے اسی لیے اللہ نے فرمایا یہ بڑے بےانصاف لوگ تھے جو حق تعالیٰ کی پرستش کرنے کی بجائے خود ساختہ چیز کے سامنے جھک گئے سورة طہٰ میں موجود ہے کہ اللہ کے نبی نے انہیں بڑا سمجھایا مگر انہوں نے آپ کی بات نہ مانی ، مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ سارے اسرائیل اس قباحت میں مبتلا نہیں ہوئے تھے ان میں اکثر توحید پر قائم رہے تھے تاہم بیس پچیس ہزار کے قریب ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے بچھڑے کو پوجنا شروع کردیا پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) واپس آئے اور انہوں نے سمجھایا تو اسرائیلیوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کی جیسا کہ سورة بقرہ میں آتا ہے اللہ تعالیٰ نے توبہ کی قبولیت کے لیی بہت بڑی شرط لگائی اور وہ یہ تھی کہ پوجا نہ کرنے والے بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کریں وہاں پر فاقتلو انفسکم کے الفاظ آتے ہیں پھر انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا باپ نے بیٹے کو قتل کیا بھائی نے بھائی کو مار ڈالا تو جب جاکر ان کی توبہ قبول ہوئی فتاب علیکم۔ قوم کی ندامت آگے ارشاد ہوتا ہے ولما سقط فی ایدیھم اور جب بنی اسرائیل نادم ہوئے سقط مجہول کا صیغہ ہے اور اس کا لفظی معنی ہے کہ جب وہ گرائے گئے اپنے ہاتھوں میں ۔ مطلب یہ ہے کہ غلط کام کرنے کی وجہ سے خود اپنی نظروں میں گرگئے جب کوئی آدمی نادم اور پشیمان ہوتا ہے تو اپنی گردن کو جھکا دیت ہے یا اپنے ہاتھوں کو دانتوں سے چباتا ہے کف افسوس ملتا ہے یہی حالت بنی اسرائیل کے ان لوگوں کی تھی جنہوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی جب وہ نادم ہوئے وراوا انھم قد ضلو اور انہوں نے دیکھ لیا یعنی سمجھ گئے کہ وہ تو گمراہ ہوچکے ہیں قالو لئن لم یرحمنا ربنا کہنے لگے اگر ہمارا پروردگار ہم پر رحم نہیں فرمائے گا ویغفرلنا اور ہمیں معاف نہیں کرے لنکونن من الخسرین تو یقیناً ہم نقصان اٹھانے والوں میں ہوں گے اس طرح گویا انہوں نے اپنی جہالت اور گمراہی کا اقرار کیا اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی اب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طور سے واپسی کا حال بھی بیان فرمایا ہے ولما رجع موسیٰ الیٰ قومہ غضبان آسفاً اور جب واپس آئے موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف غصے میں اور غمزدہ۔ اسف کو غضبان کی صفت بنایا جائے تو معنی ہوگا شدید غصے میں کیونکہ غضبان صفت مشبہ کا ضیغہ ہے اور اسفاً غم سے بھرے ہوئے یعنی سخت غمزدہ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو سخت افسوس اور غم ہوا کہ دیکھو چند دن کی بات تھی میں اپنے پیچھے نائب بھی چھوڑ کر گیا تھا مگر یہ لوگ پھر بھی شرک سے باز نہ آئے آپ نے نہایت افسوس کا اظہار کیا قال بسئما خلفتمونی من بعدی فرمایا میرے بعد تم نے میری نیابت بہت برے طریقے سے انجام دی اعجلتم امرربکم کیا تم نے جلد بازی کی اپنے رب کے حکم سے اللہ تعالیٰ کا حکم تو یہ تھا کہ چالیس رات کا اعتکاف بیٹھو تو تمہیں کتاب دوں گا مگر تم نے اتنے دن تک بھی انتظار نہ کیا اور بچھڑے کو معبود بنالیا۔ ہارون (علیہ السلام) کی سرزنش موسیٰ (علیہ السلام) نے غصے سے والقی الالواح تورات کی تختیاں پھینک دیں واخذ براس اخیہ یجرہ الیہ اور اپنے بھائی کا سرپکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے آپ نے غصے سے بےقابو ہو کر تختیاں بھی پھینک دیں اور سرزنش کے طور پر بھائی کے سر کو پکڑ کر کھینچا یہ دونوں کام اللہ کے نبی نے کیے جو کہ بظاہر نامناسب معلوم ہوتے ہیں بعض کام گناہ معلوم ہوتے ہیں مگر حقیقت میں وہ گناہ نہیں ہوتے اللہ کا نبی قوم کی طرف سے شرک کے ارتکاب پر بےقابو ہوگیا جس کی وجہ سے ان سے یہ دونوں کام سرزد ہوئے آپ نے اپنے بھائی کی توہین کی نیت سے ایسا نہیں کیا تاہم چونکہ آپ کی طبعیت جلالی تھی ہارون (علیہ السلام) امور نبوت میں آپ کے وزیر تھے اس لیے انہوں نے آپ کی موجودگی میں شرک کے ارتکاب پر سخت غم و غصہ کا اظہار کیا مطلب یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا مقصد بھائی کو تقصیر پر تنبیہ کرنا تھا ان کی توہین مقصود نہ تھی۔ بعض فرماتے ہیں کہ قوم کی گمراہی کی خبر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو پہاڑ پر ہی دے دی تھی کہ اس طرح سامری نے قوم کو شرک میں ملوث کردیا ہے اس وقت تختیاں بھی آپ کے پاس تھیں مگر وہاں آپ کو اتنا غصہ نہیں آیا مگر جب واپس آکر دیکھا کہ قوم بچھڑے کے گرد جمع ہے تو پھر آپ کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا آپ نے تختیاں پھینک دیں اور بھائی کو بھی سخت سرزنش کی۔ ہارون (علیہ السلام) کی وضاحت ہارون (علیہ السلام) تحمل مزاج تھے اپنے بھائی کی طرف سے سختی کا جواب اس طرح دیا قال ابن ام کہا اے میری ماں کے بیٹے ، آپ نے برادرانہ محبت و شفقت کے ساتھ نہایت نرمی سے خطاب کیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) سگے بھائی تھے آپ کی والدہ کا نام یوخا بذیا یوخانز تھا آپ بڑی ایماندار خاتون تھیں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ان کی تعریف بیان کی ہے تو آپ نے نہایت ترحم کے لہجے میں کہا ، اے میری ماں زادے ! میں نے قوم کو تبلیغ کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی بلکہ حتی الامکان ان کو شرک سے باز رکھنے کی کوشش کی ہے مگر بات یہ ہے ان القوم استضعفونی میری قوم نے مجھے کمزور خیال کیا اور میری بات نہ مانی دوسری جگہ موجود ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے کہا ، اے لوگو ! خدا کا خوف کھائو ، تم کس گندگی میں مبتلا ہوگئے ہو ، میری بات سنو ، پروردگار تو وہی رحمان و رحیم ہے تم کس کو معبود بنا رہے ہو ؟ کچھ غور و فکر کرو ، مگر قوم نے ایک نہ سنی وکادوا یقتلوننی اور قریب تھا کہ وہ مجھے جان سے مار ڈالتے ہیں میں نے اپنی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں کی یہ سب کچھ ان کا اپنا کیا دھرا ہے دوسری جگہ موجود ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے بھائی سے کہا کہ جب تم نے دیکھا کہ یہ شرک میں مبتلا ہوگئے ہیں تو آپ ان سے علیحدگی اختیار کرلیتے تو ہارون (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ یہ میں نے ایسا اس لیے نہیں کیا کہ واپس آکر آپ یوں نہ کردیں ” فرقت بین بنی اسرائیل “ (طہٰ ) کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفریق ڈال دی تھی ان کی دو پارٹیاں بنا دی ہیں فرمایا میں نے اس مصلحت کے تحت مخلص اہل ایمان کو شرک کرنے والوں سے علیحدہ نہیں کیا۔ ہارون (علیہ السلام) نے مزید عرض کیا فلا تشمت بی الاعداء مجھے سرزنش کرکے تو دشمنوں کو خوش نہ کرو لوگ دیکھیں گے تو جگ ہنسائی ہوگی کہ دونوں بھائی لڑ پڑے ہیں آپ ایسی بات نہ کریں ، قوم کی گمراہی میں مجھے مورد الزام نہ ٹھہرائیں ولاتجعلنی مع القوم الظلمین اور مجھے ظالموں میں شامل ہ کریں اگر میں نے کوئی تقصیر کی ہوتی تو ان کے ساتھ شامل ہوجاتا مگر اس معاملے میں ان کا ہرگز ساتھی نہیں ہوں میں نے تو تبلیغ کا پورا پورا حق ادا کردیا مگر انہوں نے مجھے کمزور خیال کیا اور مجھے قتل کرنے کی دھمکیاں دیں سارا قصور انہی کا ہے میں اس معاملے میں بےقصور ہوں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا جب موسیٰ (علیہ السلام) کی تسلی ہوگئی کہ قوم کی گمراہی میں ہارون (علیہ السلام) کا کسی طرح بھی قصور نہیں ہے تو آپ نے فوراً اللہ رب العزت کی طرف رجوع کیا قال رب اغفرلی عرض کیا اے پروردگار ! مجھے معاف کردے ولاحی اور میرے بھائی کو بھی معاف فرما دے میں جان گیا ہوں کہ اس نے قصداً کوئی کوتاہی نہیں کی لہٰذا اسے بھی معاف کردے۔ وادخلنا فی رحمتک اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کرے وانت ارحم الرحمین اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ آپ نے دیکھ لیا کہ اللہ کا نبی شرک کے معاملہ میں کتنا حساس ہوتا ہے اسے کفر اور شرک سے کس قدر نفرت ہوتی ہے یہ معاملہ پیش آیا تو موسیٰ (علیہ السلام) برداشت نہ کرسکے تورات کی تختیاں پھینک دیں اور بھائی کو سرزنش کی جب معاملہ صاف ہوگیا تو اپنے لیے اور بھائی کے لیے اللہ سے معافی کی درخواست کی۔
Top