Mufradat-ul-Quran - Al-Kahf : 17
وَ تَرَى الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَ اِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ هُمْ فِیْ فَجْوَةٍ مِّنْهُ١ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ١ؕ مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ١ۚ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا۠   ۧ
وَتَرَى : اور تم دیکھو گے الشَّمْسَ : سورج (دھوپ) اِذَا : جب طَلَعَتْ : وہ نکلتی ہے تَّزٰوَرُ : بچ کر جاتی ہے عَنْ : سے كَهْفِهِمْ : ان کا غار ذَاتَ الْيَمِيْنِ : دائیں طرف وَاِذَا : اور جب غَرَبَتْ : وہ ڈھل جاتی ہے تَّقْرِضُهُمْ : ان سے کترا جاتی ہے ذَاتَ الشِّمَالِ : بائیں طرف وَهُمْ : اور وہ فِيْ : میں فَجْوَةٍ : کھلی جگہ مِّنْهُ : اس (غار) کی ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیاں مَنْ : جو۔ جسے يَّهْدِ : ہدایت دے اللّٰهُ : اللہ فَهُوَ الْمُهْتَدِ : پس وہ ہدایت یافتہ وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلْ : وہ گمراہ کرے فَلَنْ تَجِدَ : پس تو ہرگز نہ پائے گا لَهٗ : اس کے لیے وَلِيًّا : کوئی رفیق مُّرْشِدًا : سیدھی راہ دکھانے والا
اور جب سورج نکلے تو تم دیکھو کہ (دھوپ) ان کے غار سے داہنی طرف سمٹ جائے اور جب غروب ہو تو ان سے بائیں طرف کترا جائے اور وہ اس کے میدان میں تھے۔ یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے۔ جس کو خدا ہدایت دے وہ ہدایت یاب ہے اور جس کو گمراہ کردے تو تم اسکے لیے کوئی دوست راہ بتانے والا نہ پاؤ گے۔
وَتَرَى الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ كَہْفِہِمْ ذَاتَ الْيَمِيْنِ وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُہُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَہُمْ فِيْ فَجْــوَۃٍ مِّنْہ ُ ۝ 0ۭ ذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ ۝ 0ۭ مَنْ يَّہْدِ اللہُ فَہُوَالْمُہْتَدِ۝ 0ۚ وَمَنْ يُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ وَلِيًّا مُّرْشِدًا۝ 17ۧ شمس الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] ، وقال : الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها . ( ش م س ) الشمس کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔ طلع طَلَعَ الشمسُ طُلُوعاً ومَطْلَعاً. قال تعالی: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه/ 130] ، حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] ، والمَطْلِعُ : موضعُ الطُّلُوعِ ، حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف/ 90] ، وعنه استعیر : طَلَعَ علینا فلانٌ ، واطَّلَعَ. قال تعالی: هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات/ 54] ، فَاطَّلَعَ [ الصافات/ 55] ، قال : فَأَطَّلِعَ إِلى إِلهِ مُوسی[ غافر/ 37] ، وقال : أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم/ 78] ، لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص/ 38] ، واسْتَطْلَعْتُ رأيَهُ ، وأَطْلَعْتُكَ علی كذا، وطَلَعْتُ عنه : غبت، والطِّلاعُ : ما طَلَعَتْ عليه الشمسُ والإنسان، وطَلِيعَةُ الجیشِ : أوّل من يَطْلُعُ ، وامرأةٌ طُلَعَةٌ قُبَعَةٌ «1» : تُظْهِرُ رأسَها مرّةً وتستر أخری، وتشبيها بالطُّلُوعِ قيل : طَلْعُ النَّخْلِ. لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] ، طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات/ 65] ، أي : ما طَلَعَ منها، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] ، وقد أَطْلَعَتِ النّخلُ ، وقوسٌ طِلَاعُ الكفِّ : ملءُ الكفِّ. ( ط ل ع ) طلع ( ن ) الشمس طلوعا ومطلعا کے معنی آفتاب طلوع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه/ 130] اور سورج کے نکلنے سے پہلے ۔۔۔۔۔ تسبیح وتحمید کیا کرو ۔ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔ اور مطلع کے معنی ہیں طلوع ہونیکی جگہ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف/ 90] یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایسے لوگوں پر طلوع کرتا ہے ۔۔۔۔۔ اسی سے استعارہ کے طور طلع علینا فلان واطلع کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں کسی کے سامنے ظاہر ہونا اور اوپر پہنچ کر نیچے کی طرف جھانکنا قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات/ 54] بھلا تم اسے جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو اتنے میں وہ خود جھانکے گا ۔ فَاطَّلَعَ [ الصافات/ 55] پھر اوپر جاکر موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو دیکھ لوں ۔ أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم/ 78] کیا اس نے غیب کی خبر پالی ۔ لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص/ 38] تاکہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کی طرف چڑھ جاؤں ۔ استطعت ( میں نے اس کی رائے معلوم کی ۔ اطلعت علٰی کذا میں نے تمہیں فلان معاملہ سے آگاہ کردیا طلعت عنہ میں اس سے پنہاں ہوگیا ( اضداد الطلاع ہر وہ چیز جس پر سورج طلوع کرتا ہو یا ( 2 ) انسان اس پر اطلاع پائے طلعیۃ الجیش ہر اول دستہ امرء ۃ طلعۃ قبعۃ وہ عورت جو بار بار ظاہر اور پوشیدہ ہو اور طلوع آفتاب کی مناسبت سے طلع النخل کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی درخت خرما کے غلاف کے ہیں جس کے اندر اس کا خوشہ ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] جن کا گا بھاتہ بتہ ہوتا ہے طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات/ 65] ان کے شگوفے ایسے ہوں گے جیسے شیطانوں کے سر ۔ وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] اور کھجوریں جن کے شگوفے لطیف ونازک ہوتے ہیں ۔ الطلعت النخل کھجور کا شگوفے دار ہونا ۔ قو س طلاع الکھف کمان جس سے مٹھی بھر جائے ۔ زور الزَّوْرُ : أعلی الصّدر، وزُرْتُ فلانا : تلقّيته بزوري، أو قصدت زوره، نحو : وجهته، ورجل زَائِرٌ ، وقوم زَوْرٌ ، نحو سافر وسفر، وقد يقال : رجل زَوْرٌ ، فيكون مصدرا موصوفا به نحو : ضيف، والزَّوَرُ : ميل في الزّور، والْأَزْوَرُ : المائلُ الزّور، وقوله : تَتَزاوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ [ الكهف/ 17] ، أي : تمیل، قرئ بتخفیف الزاي وتشدیده «1» وقرئ : تَزْوَرُّ «2» . قال أبو الحسن : لا معنی لتزورّ هاهنا، لأنّ الِازْوِرَارَ الانقباض، يقال : تَزَاوَرَ عنه، وازْوَرَّ عنه، ورجلٌ أَزْوَرُ ، وقومٌ زَوَّرٌ ، وبئرٌ زَوْرَاءُ : مائلة الحفر وقیل لِلْكَذِبِ : زُورٌ ، لکونه مائلا عن جهته، قال : ظُلْماً وَزُوراً [ الفرقان/ 4] ، وقَوْلَ الزُّورِ [ الحج/ 30] ، مِنَ الْقَوْلِ وَزُوراً [ المجادلة/ 2] ، لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ [ الفرقان/ 72] ، ويسمّى الصّنم زُوراً في قول الشاعر : جاء وا بزوريهم وجئنا بالأصم لکون ذلک کذبا ومیلا عن الحقّ. ( ز و ر ) الزور ۔ سینہ کا بالائی حصہ اور زرت فلانا کے معنی ہیں میں نے اپنا سینہ اس کے سامنے کیا یا اس کے سینہ کا قصد ( کیا اس کی ملا قات کی ) جیسا کہ وجھتہ کا محاورہ ہے یعنی اس کے سامنے اپنا چہرہ کیا یا اس کے چہرہ کا قصد کیا رجل زائر : ملاقاتی ۔ زائر کی جمع زور آتی ہے جیسا کہ سافر کی جمع سفر مگر کبھی رجل زور بھی آجاتا ہے اس صورت میں یہ مصدر ہوتا ہے جیسا کہ ضعیف کا لفظ ہے نیز الزور کے معنی سینہ کے ایک طرف جھکا ہونا کے ہیں اور جس کے سینہ میں ٹیٹرھا پن ہو اسے الازور کہتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ تَتَزاوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ [ الكهف/ 17] کے معنی یہ ہیں کہ سورج ان کے غار سے ایک طرف کو ہٹ کر نکل جاتا ہے یہاں تز اور میں حرف زاد پر تشدید بھی پڑھی جاتی ہے اور بغیر تشدید کے بھی اور بعض نے تزور ( افعال ) پڑھا ہے مگر الحسن ؓ فرماتے ہیں یہ قرات یہاں موزوں نہیں ہے کیونکہ الازورار کے معنی ہیں منقبض ہونا ۔ کہا جاتا ہے تز اور عنہ وازور عنہ اس نے اس سے پہلو تہی کی ۔ اس سے ایک جانب ہٹ گیا اور جس کنویں کی کھدائی میں ٹیڑھا پن ہوا سے بئر زوراء کہا جاتا ہے ۔ اسی سے جھوٹ کو الزور کہتے میں کیونکہ وہ بھی جہت راست سے ہٹا ہوا ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ ظُلْماً وَزُوراً [ الفرقان/ 4] ظلم اور جھوٹ سے ۔ وقَوْلَ الزُّورِ [ الحج/ 30] جھوٹی بات سے ۔ مِنَ الْقَوْلِ وَزُوراً [ المجادلة/ 2] اور جھوٹی بات کہتے ہیں ۔ لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ [ الفرقان/ 72] وہ جھوٹی شہادت نہیں دیتے ۔ اور شاعر کے قول ۔ جاء وا بزوريهم وجئنا بالأصموہ اپنے وہ جھوٹے خدا لے کر آگئے اور ہم اپنے بہادر سردار کو میں زور کے معنی بت کے ہیں کیونکہ بت پرستی بھی جھوٹ اور حق سے ہٹ جانے کا نام ہے ۔ غرب الْغَرْبُ : غيبوبة الشّمس، يقال : غَرَبَتْ تَغْرُبُ غَرْباً وغُرُوباً ، ومَغْرِبُ الشّمس ومُغَيْرِبَانُهَا . قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، وقد تقدّم الکلام في ذكرهما مثنّيين ومجموعین «4» ، وقال : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] ، وقال : حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف/ 86] ، وقیل لكلّ متباعد : غَرِيبٌ ، ولكلّ شيء فيما بين جنسه عدیم النّظير : غَرِيبٌ ، وعلی هذا قوله عليه الصلاة والسلام : «بدأ الإسلام غَرِيباً وسیعود کما بدأ» «5» وقیل : العلماء غُرَبَاءُ ، لقلّتهم فيما بين الجهّال، والغُرَابُ سمّي لکونه مبعدا في الذّهاب . قال تعالی: فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة/ 31] ، وغَارِبُ السّنام لبعده عن المنال، وغَرْبُ السّيف لِغُرُوبِهِ في الضّريبة «6» ، وهو مصدر في معنی الفاعل، وشبّه به حدّ اللّسان کتشبيه اللّسان بالسّيف، فقیل : فلان غَرْبُ اللّسان، وسمّي الدّلو غَرْباً لتصوّر بعدها في البئر، وأَغْرَبَ الساقي : تناول الْغَرْبَ ، والْغَرْبُ : الذّهب «1» لکونه غَرِيباً فيما بين الجواهر الأرضيّة، ومنه : سهم غَرْبٌ: لا يدری من رماه . ومنه : نظر غَرْبٌ: ليس بقاصد، و، الْغَرَبُ : شجر لا يثمر لتباعده من الثّمرات، وعنقاء مُغْرِبٌ ، وصف بذلک لأنه يقال : کان طيرا تناول جارية فَأَغْرَبَ «2» بها . يقال عنقاء مُغْرِبٌ ، وعنقاء مُغْرِبٍ بالإضافة . والْغُرَابَانِ : نقرتان عند صلوي العجز تشبيها بِالْغُرَابِ في الهيئة، والْمُغْرِبُ : الأبيض الأشفار، كأنّما أَغْرَبَتْ عينُهُ في ذلک البیاض . وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر/ 27] ، قيل : جَمْعُ غِرْبِيبٍ ، وهو المُشْبِهُ لِلْغُرَابِ في السّواد کقولک : أسود کحلک الْغُرَابِ. ( غ رب ) الغرب ( ن ) سورج کا غائب ہوجانا غربت نغرب غربا وغروبا سورج غروب ہوگیا اور مغرب الشمس ومغیر بانھا ( مصغر ) کے معنی آفتاب غروب ہونے کی جگہ یا وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] وہی ) مشرق اور مٖغرب کا مالک ہے ۔ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] وہی دونوں مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ ان کے تثنیہ اور جمع لانے کے بحث پہلے گذر چکی ہے ۔ نیز فرمایا : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] کہ نہ مشرق کی طرف سے اور نہ مغرب کی طرف ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف/ 86] یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے جگہ پہنچا ۔ اور ہر اجنبی کو غریب کہاجاتا ہے اور جو چیز اپنی ہم جنس چیزوں میں بےنظیر اور انوکھی ہوا سے بھی غریب کہہ دیتے ہیں ۔ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا (58) الاسلام بدء غریبا وسعود کمابدء کہ اسلام ابتداء میں غریب تھا اور آخر زمانہ میں پھر پہلے کی طرح ہوجائے گا اور جہلا کی کثرت اور اہل علم کی قلت کی وجہ سے علماء کو غرباء کہا گیا ہے ۔ اور کوے کو غراب اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ بھی دور تک چلا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کو ابھیجا جو زمین کریدٹے لگا ۔ اور غارب السنام کے معنی کو ہاں کو بلندی کے ہیں کیونکہ ( بلندی کی وجہ سے ) اس تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے اور غرب السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں کیونکہ تلوار بھی جسے ماری جائے اس میں چھپ جاتی ہے لہذا ی مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ پھر جس طرح زبان کو تلوار کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے اسی طرح زبان کی تیزی کو بھی تلوار کی تیزی کے ساتھ تشبیہ دے کر فلان غرب اللسان ( فلاں تیز زبان ہے ) کہاجاتا ہے اور کنوئیں میں بعد مسافت کے معنی کا تصور کرکے ڈول کو بھی غرب کہہ دیا جاتا ہے اور اغرب الساقی کے معنی ہیں پانی پلانے والے ڈول پکڑا اور غرب کے معنی سونا بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی دوسری معدنیات سے قیمتی ہوتا ہے اور اسی سے سھم غرب کا محاورہ ہے یعنی دہ تیر جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ کدھر سے آیا ہے ۔ اور بلا ارادہ کسی طرف دیکھنے کو نظر غرب کہاجاتا ہے اور غرب کا لفظ بےپھل درخت پر بھی بولا جاتا ہے گویا وہ ثمرات سے دور ہے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عنقاء جانور ایک لڑکی کو اٹھا کر دوردروازلے گیا تھا ۔ اس وقت سے اس کا نام عنقاء مغرب اوعنقاء مغرب ( اضافت کے ساتھ ) پڑگیا ۔ الغرابان سرینوں کے اوپر دونوں جانب کے گڑھے جو ہیت میں کوے کی طرح معلوم ہوتے ہیں ۔ المغرب گھوڑا جس کا کر انہ ، چشم سفید ہو کیونکہ اس کی آنکھ اس سفیدی میں عجیب و غریب نظر آتی ہے ۔ اور آ یت کریمہ : وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر/ 27] کہ غرابیب کا واحد غربیب ہے اور اس کے معنی کوئے کی طرح بہت زیادہ سیاہ کے ہیں جس طرح کہ اسود کحلک العراب کا محاورہ ہے ۔ ( یعنی صفت تاکیدی ہے اور اس میں قلب پایا جاتا ہے اصل میں سود غرابیب ہے ۔ قرض القَرْضُ : ضرب من القطع، وسمّي قطع المکان وتجاوزه قَرْضاً ، كما سمّي قطعا . قال : وَإِذا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 17] ، أي : تجوزهم وتدعهم إلى أحد الجانبین، وسمّي ما يدفع إلى الإنسان من المال بشرط ردّ بدله قَرْضاً ، قال : مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً [ البقرة/ 245] ، وسمّي المفاوضة في الشّعر مُقَارَضَةً ، والقَرِيضُ للشّعر، مستعار استعارة النّسج والحوک . ( ق ر ض ) القرض ( کرتا ) یہ قطع کی ایک قسم ہے پھر جس طرح کسی جگہ سے گزر نے اور تجاوز کر نیکے لئے قطع المکان کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اس طرح قرض المکان بھی کہتے بھی ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 17] اور جب غروب ہو تو اس سے بائیں طرف کترا جائے ۔ یعنی غروب کے وقت انہیں ایک جانب چھوڑتا ہو اگزر جاتا ہے ۔ اور قرض اس مال کو بھی کہتے ہیں جو کسی کو اس کی ضرورت پوری کرنے کے لئے دیا جائے اس شرط پر کہ وہ واپس مل جائیگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً [ البقرة/ 245] کوئی ہے خدا کو قرض حسنہ دے ؟ اور شعر گوئی ۔۔۔ کو بھی مقارضۃ کہا جاتا ہے اور شعر کو بطور استعارہ قریض کہا جاتا ہے جس طرح کہ تسبیح اور حو ک کے الفاظ اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ فجا قال تعالی: وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ [ الكهف/ 17] ، أي : ساحة واسعة، ومنه : قوس فِجَاءٌ وفَجْوَاءٌ: بان وتراها عن کبدها، ورجل أَفْجَى بيّن الفجا، أي : متباعد ما بين العرقوبین . (ج و ) الفجوۃ دوچیزوں کے درمیان کشادگی ۔ کھلی جگہ قرآن میں ہے : وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ [ الكهف/ 17] اور وہ اس کے میدان میں تھے یعنی وسیع میدان میں تھے ۔ اسی سے قوس فجاء وفجواء ہے یعنی کمان جو کھینچی ہوئی حالت میں ہو ۔ رجل افجیٰ جس کے دونوں پنڈلیوں کے درمیان فاصلہ ہو ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ رشد الرَّشَدُ والرُّشْدُ : خلاف الغيّ ، يستعمل استعمال الهداية، يقال : رَشَدَ يَرْشُدُ ، ورَشِدَ «5» يَرْشَدُ قال : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] ( ر ش د ) الرشد والرشد یہ غیٌ کی ضد ہے اور ہدایت کے معنی استعمال ہوتا ہے اور یہ باب نصرعلم دونوں سے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] تاکہ وہ سیدھے رستے پر لگ جائیں ۔
Top