Mufradat-ul-Quran - Al-Kahf : 45
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا
وَاضْرِبْ : اور بیان کردیں لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلَ : مثال الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی كَمَآءٍ : جیسے پانی اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے اس کو اتارا مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان فَاخْتَلَطَ : پس مل جل گیا بِهٖ : اس سے ذریعہ نَبَاتُ الْاَرْضِ : زمین کی نباتات (سبزہ) فَاَصْبَحَ : وہ پھر ہوگیا هَشِيْمًا : چورا چورا تَذْرُوْهُ : اڑاتی ہے اس کو الرِّيٰحُ : ہوا (جمع) وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے پر مُّقْتَدِرًا : بڑی قدرت رکھنے والا
اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کردو (وہ ایسی ہے) جیسے پانی جسے ہم نے آسمان سے برسایا تو اس کے ساتھ زمین کی روئیدگی مل گئی پھر وہ چورا چورا ہوگئی کہ ہوائیں اسے اڑاتی پھرتی ہیں اور خدا تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ ہَشِيْمًا تَذْرُوْہُ الرِّيٰحُ ۝ 0ۭ وَكَانَ اللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا۝ 45 ضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] ، ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] ، دنا اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا خلط الخَلْطُ : هو الجمع بين أجزاء الشيئين فصاعدا، سواء کانا مائعين، أو جامدین، أو أحدهما مائعا والآخر جامدا، وهو أعمّ من المزج، ويقال اختلط الشیء، قال تعالی: فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ [يونس/ 24] ، ويقال للصّديق والمجاور والشّريك : خَلِيطٌ ، والخلیطان في الفقه من ذلك، قال تعالی: وَإِنَّ كَثِيراً مِنَ الْخُلَطاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ [ ص/ 24] ، ويقال الخلیط للواحد والجمع، قال الشاعر : 147- بان الخلیط ولم يأووا لمن ترکوا«1» وقال : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ، أي : يتعاطون هذا مرّة وذاک مرّة، ويقال : أخلط فلان في کلامه : إذا صار ذا تخلیط، وأخلط الفرس في جريه كذلك، وهو كناية عن تقصیره فيه . ( خ ل ط ) الخلط ( ن ) کے معنی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے اجزا کو جمع کرنے اور ملا دینے کے ہیں عام اس سے کہ وہ چیزیں سیال ہون یا جامد یا ایک مائع ہو اور دوسری جامد اور یہ مزج سے اعم ہے کہا جاتا ہے اختلط الشئی ( کسی چیز کا دوسری کے ساتھ مل جانا ) قرآن میں ہے :۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ [يونس/ 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ ۔۔ مل کر نکلا ۔ خلیط کے معنی دوست پڑوسی یا کاروبار میں شریک کے ہیں ۔ اسی سے کتب فقہ میں خلیطان کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کا مال اکٹھا ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ نَّ كَثِيراً مِنَ الْخُلَطاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ [ ص/ 24] اور اکثر شرکاء ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں ۔ اور خلیط کا لفظ واحد اور جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ع ( بسیط) (143) ابان الخلیط ولم یاو والمن ترکوا ساتھی جدا ہوگئے اور انہوں نے جن کو چھوڑا ان پر رحم نہ کھایا ۔ قرآن میں ہے :۔ خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو جلا دیا تھا ۔ یعنی نیک اور بد دونوں قسم کے عمل کرتے رہے محاورہ ہے :۔ اخلط فلان فی جلامہ ( فلاں نے بکواس کی ) اخلط الفرس فی جریہ ۔ گھوڑے کا دوڑنے میں کو تا ہی کرنا ۔ نبت النَّبْتُ والنَّبَاتُ : ما يخرج من الأرض من النَّامِيات، سواء کان له ساق کا لشجر، أو لم يكن له ساق کالنَّجْم، لکن اختَصَّ في التَّعارُف بما لا ساق له، بل قد اختصَّ عند العامَّة بما يأكله الحیوان، وعلی هذا قوله تعالی: لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ/ 15] ومتی اعتبرت الحقائق فإنّه يستعمل في كلّ نام، نباتا کان، أو حيوانا، أو إنسانا، والإِنْبَاتُ يستعمل في كلّ ذلك . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس/ 27- 31] ( ن ب ت ) النبت والنبات ۔ ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنہ دار ہو جیسے درخت ۔ یا بےتنہ جیسے جڑی بوٹیاں لیکن عرف میں خاص کر نبات اسے کہتے ہیں ہیں جس کے تنہ نہ ہو ۔ بلکہ عوام تو جانوروں کے چاراہ پر ہی نبات کا لفظ بولتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ/ 15] تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں ۔ میں نبات سے مراد چارہ ہی ہے ۔ لیکن یہ اپانے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر پڑھنے والی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور بناتات حیوانات اور انسان سب پر بولاجاتا ہے ۔ اور انبات ( افعال ) کا لفظ سب چیزوں کے متعلق اسستعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس/ 27- 31] پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا ور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھے باغ ور میوے ور چارہ ۔ هشم الْهَشْمُ : کسر الشیء الرّخو کالنّبات . قال تعالی: فَأَصْبَحَ هَشِيماً تَذْرُوهُ الرِّياحُ [ الكهف/ 45] ، فَكانُوا كَهَشِيمِ الْمُحْتَظِرِ [ القمر/ 31] يقال : هَشَمَ عظمه، ومنه : هَشَمْتُ الخبز، قال الشاعر : عمرو العلا هَشَمَ الثّريد لقومه ... ورجال مكّة مسنتون عجاف «2» والْهَاشِمَةُ : الشّجّة تَهْشِمُ عظم الرأس، واهْتَشَمَ كلّ ما في ضرع الناقة : إذا احتلبه ويقال : تَهَشَّمَ فلان علی فلان : تعطّف . ( ھ ش م ) الھشم ۔ اصل میں سوکھی یا نرم چیز کے توڑنے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَأَصْبَحَ هَشِيماً تَذْرُوهُ الرِّياحُ [ الكهف/ 45] پھر وہ چورا چورا ہوگئی کہ ہوائیں اسے اڑاتی پھرتی ہیں ۔ فَكانُوا كَهَشِيمِ الْمُحْتَظِرِ [ القمر/ 31] تو وہ ایسے ہوگئی جسیے باڑ والے کی سوکھی اور ٹوٹی ہوئی باڑ ۔ اور ہڈی وغیرہ ( سخت چیز ) کے توڑنے پر ھشم بولاجاتا ہے اور اسی سے ھشمت الخبز کا محاورہ ہے ۔ جس کے معنی سوکھی روٹی کو توڑ کر ثرید بنانے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے عمرو العلا ھشم الثرید لقومہ ورجال مکۃ مسنتون عجاف عمر والعلا نے خشک سالی نے زمانہ میں اپنی قوم کو ثرید کھلایا جب کہ مکہ مکرمہ کے سردار قحط سالی کی وجہ سے دبلے ہو رہے تھے ۔ ھا شمۃ سر کا زخم جس سے کھو پڑی کی ہڈی ٹوٹ جائے ۔ اھتشم کل مافی صد ع الناقۃ اونٹنی کے پستانوں سے تمام دودھ نچوڑ لیا محاورہ ہے ۔ تھثم فلان علٰی فلان کسی پر مہر بان ہونا ۔ ذرو ذِرْوَةُ السّنام وذُرَاه : أعلاه، ومنه قيل : أنا في ذُرَاكَ ، أي : في أعلی مکان من جنابک . والمِذْرَوَان : طرفا الأليتين، وذَرَتْهُ الرّيح تَذْرُوهُ وتَذْرِيهِ. قال تعالی: وَالذَّارِياتِ ذَرْواً [ الذاریات/ 1] ، وقال : تَذْرُوهُ الرِّياحُ [ الكهف/ 45] ، والذُّرِّيَّة أصلها : الصّغار من الأولاد، وإن کان قد يقع علی الصّغار والکبار معا في التّعارف، ويستعمل للواحد والجمع، وأصله الجمع، قال تعالی: ذُرِّيَّةً بَعْضُها مِنْ بَعْضٍ [ آل عمران/ 34] ، وقال : ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنا مَعَ نُوحٍ [ الإسراء/ 3] ، وقال : وَآيَةٌ لَهُمْ أَنَّا حَمَلْنا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ [يس/ 41] ، وقال : إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة/ 124] ، وفي الذُّرِّيَّة ثلاثة أقوال : قيل هو من : ذرأ اللہ الخلق «4» ، فترک همزه، نحو : رويّة وبريّة . وقیل : أصله ذرويّة . وقیل : هو فعليّة من الذّرّ نحو قمريّة . وقال (أبو القاسم البلخيّ ) «5» : قوله تعالی: وَلَقَدْ ذَرَأْنا لِجَهَنَّمَ [ الأعراف/ 179] ، من قولهم : ذریت الحنطة، ولم يعتبر أنّ الأوّل مهموز . ( ذر و ) ذروۃ السنام وذراہ ۔ کوہان کا بلند حصہ ۔ اسی سے محاورہ ہے ان فی ذراک میں تیری جناب میں باعزت ہوں ( میں تیری پناہ میں ہوں ) المذراوان سرین کے دونوں کنارے ( ولا واحد لہ ) ذرتہ الریح تذروہ وتذریہ ۔ ہوا کا کسی چیز کو بکھیرد ینا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَالذَّارِياتِ ذَرْواً [ الذاریات/ 1] بکھیر نے والیوں کی قسم جو اڑا کر بکھیر دیتی ہیں ۔ تَذْرُوهُ الرِّياحُ [ الكهف/ 45] کہ ہوائیں اسے اڑاتی پھرتی ہیں ۔ الذریۃ کے اصل معنی چھوٹی اولاد کے ہیں مگر عرف میں مطلق اولاد پر یہ لفظ بولاجاتا ہے ۔ اصل میں یہ لفظ جمع ہے مگر واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذُرِّيَّةً بَعْضُها مِنْ بَعْضٍ [ آل عمران/ 34] ان میں سے بعض بعض کی اولاد تھے ۔ ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنا مَعَ نُوحٍ [ الإسراء/ 3] اے ان لوگوں کی اولاد جن کو ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں ) سوار کیا تھا ۔ وَآيَةٌ لَهُمْ أَنَّا حَمَلْنا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ [يس/ 41] اور ایک نشانی ان کے لئے یہ ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا ۔ إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة/ 124] میں تم کو لوگوں کا پیشوا بناؤنگا ۔ انہوں نے کہا کہ پروردگار ) میری اولاد سے بھی ۔ ذریۃ کے اصل میں تین اقوال ہیں ۔ (1) بعض کے نزدیک یہ ذراء اللہ الخلق سے ہے یعنی اصل میں مہموز اللام ہے مگر کثرت استعمال کے سبب دویۃ وبریۃ کی طرح ہمزہ کو ترک کردیا گیا ہے ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ذرویۃ بروزن فعلیہ تھا اور ذر سے مشتق ہے ۔ جیسے قریۃ قر سے (3) ابوالقاسم البلخی کہتے ہیں ۔ کہ آیت کریمہ ؛۔ وَلَقَدْ ذَرَأْنا لِجَهَنَّمَ [ الأعراف/ 179] اور ہم نے ۔۔ جہنم کے لئے پیدا کئے ۔ میں ذرانا ذریت الحنطۃ سے مشتق ہے جس کے معنی گندم کو اساون کرنے کے ہیں گویا وہ اسے بھی مہموز نہیں سمجھتے ۔
Top