Mufradat-ul-Quran - An-Noor : 59
وَ اِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْیَسْتَاْذِنُوْا كَمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
وَاِذَا : اور جب بَلَغَ : پہنچیں الْاَطْفَالُ : لڑکے مِنْكُمُ : تم میں سے الْحُلُمَ : (حد) شعور کو فَلْيَسْتَاْذِنُوْا : پس چاہیے کہ وہ اجازت لیں كَمَا : جیسے اسْتَاْذَنَ : اجازت لیتے تھے الَّذِيْنَ : وہ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ اللّٰهُ : اللہ واضح لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيٰتِهٖ : اپنے احکام وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ : جاننے ولاا، حکمت والا
اور جب تمہارے لڑکے بالغ ہوجائیں تو ان کو بھی اسی طرح اجازت لینی چاہیے جس طرح ان سے اگلے (یعنی بڑے آدمی) اجازت حاصل کرتے رہے ہیں اس طرح خدا تم سے اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
وَاِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَاْذِنُوْا كَـمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝ 0ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ۝ 0ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝ 59 بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ طفل الطِّفْلُ : الولدُ ما دام ناعما، وقد يقع علی الجمع، قال تعالی: ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا [ غافر/ 67] ، أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا[ النور/ 31] ، وقد يجمع علی أَطْفَالٍ. قال : وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ [ النور/ 59] ، وباعتبار النّعومة قيل : امرأة طِفْلَةٌ ، وقد طَفِلَتْ طُفُولَةً وطَفَالَةً ، والمِطْفَلُ من الظبية : التي معها طِفْلُهَا، وطَفَلَتِ الشمسُ : إذا همَّت بالدَّوْرِ ، ولمّا يستمکن الضَّحُّ من الأرضِ قال : وعلی الأرض غياياتُ الطَّفَلِ وأما طَفَّلَ : إذا أتى طعاما لم يدع إليه، فقیل، إنما هو من : طَفَلَ النهارُ ، وهو إتيانه في ذلک الوقت، وقیل : هو أن يفعل فِعْلَ طُفَيْلِ العرائسِ ، وکان رجلا معروفا بحضور الدّعوات يسمّى طُفَيْلًا ( طل) الطفل جب تک بچہ نرم و نازک رہے اس وقت تک اسے طفل کہاجاتا ہے یہ اصل میں مفرد ہے مگر کبھی بمعنی جمع بھی آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا[ غافر/ 67] پھر تم کو نکالتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو ۔ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا[ النور/ 31] یا ایسے لڑکوں سے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں ۔ طفل کی جمع اطفال آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ [ النور/ 59] اور جب تمہارے لڑکے بالغ ہوجائیں ۔ اور نرمونازک ہونے کے معنی کی مناسبت سے گداز بدن عورت کو طفلۃ کہاجاتا ہے ۔ اور طفلت طفولۃ وطفالۃ کے نرم ونازک ہونے کے ہیں ۔ اور جس ہرنی کے ساتھ اس کا بچہ ہوا سے مطفل کہاجاتا ہے طفلت الشمس اس وقت بولا جاتا ہے جس آفتاب نکلنے کو ہو اور ابھی تک اس کی دھوپ اچھی طرح زمین پر نہ پھیلی ہو ۔ شاعرنے کہا ہے ۔ ( الرمل) (293) وعلی الارض غیایات الطفل اور زمین پر تاحال صبح کا سوجھا کا موجود تھا ۔ اور طفل جس کے معنی ایسے کھانا میں شریک ہونا کے ہیں جس پر اسے ملایا نہ گیا ہو ، کے متعلق بعض نے کہا ہے کہ یہ طفل النھار سے ماخوذ ہے یعنی اس وقت آنا اور بعض نے کہا ہے کہ طفیل العرس ایک مشہور آدمی کا نام ہے جو بلا دعوت تقریبات میں شریک ہوجاتا تھا ۔ اور اسی سے طفل ہے جس کے معنی طفیلی بن کر جانے کے ہیں ۔ حلم الحِلْم : ضبط النّفس والطبع عن هيجان الغضب، وجمعه أَحْلَام، قال اللہ تعالی: أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلامُهُمْ بِهذا [ الطور/ 32] ، قيل معناه : عقولهم «5» ، ولیس الحلم في الحقیقة هو العقل، لکن فسّروه بذلک لکونه من مسبّبات العقل «6» ، وقد حَلُمَ «7» وحَلَّمَهُ العقل وتَحَلَّمَ ، وأَحْلَمَتِ المرأة : ولدت أولادا حلماء «8» ، قال اللہ تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] ، وقوله تعالی: فَبَشَّرْناهُ بِغُلامٍ حَلِيمٍ [ الصافات/ 101] ، أي : وجدت فيه قوّة الحلم، وقوله عزّ وجل : وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ [ النور/ 59] ، أي : زمان البلوغ، وسمي الحلم لکون صاحبه جدیرا بالحلم، ويقال : حَلَمَ «1» في نومه يَحْلُمُ حُلْماً وحُلَماً ، وقیل : حُلُماً نحو : ربع، وتَحَلَّمَ واحتلم، وحَلَمْتُ به في نومي، أي : رأيته في المنام، قال اللہ تعالی: قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف/ 54] ، والحَلَمَة : القراد الکبير، قيل : سمیت بذلک لتصوّرها بصورة ذي حلم، لکثرة هدوئها، فأمّا حَلَمَة الثدي فتشبيها بالحلمة من القراد في الهيئة، بدلالة تسمیتها بالقراد في قول الشاعر : 125- كأنّ قرادي زوره طبعتهما ... بطین من الجولان کتّاب أعجمي «2» وحَلِمَ الجلد : وقعت فيه الحلمة، وحَلَّمْتُ البعیر : نزعت عنه الحلمة، ثم يقال : حَلَّمْتُ فلانا : إذا داریته ليسكن وتتمکّن منه تمكّنک من البعیر إذا سكّنته بنزع القراد عنه «3» . ( ح ل م ) الحلم کے معنی ہیں نفس وطبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑ کنہ اٹھے اس کی جمع احلام ہے اور آیت کریمہ : ۔ کیا عقلیں ان کو ۔۔۔ سکھاتی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ احلام سے عقیں مراد ہیں اصل میں ھلم کے معنی متانت کے ہیں مگر چونکہ متانت بھی عقل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے حلم کا لفظ بول کر عقل مراد لے لیتے ہیں جیسا کہ مسبب بول کر سبب مراد لے لیا جاتا ہے حلم بردبار ہونا ۔ عقل نے اسے برد بار رہنا دیا ۔ عورت کا حلیم بچے جننا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] بیشک ابراہیم بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَبَشَّرْناهُ بِغُلامٍ حَلِيمٍ [ الصافات/ 101] تو ہم نے ان کو ایک نرم دل لڑکے کی خوشخبری دی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اس غلام ہیں قوت برداشت ۔۔۔۔۔۔ تھی اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ [ النور/ 59] اور جب تمہارے لڑکے بالغ ہوجائیں ' میں حلم کے معنی سن بلوغت کے ہیں اور سن بلوغت کو حلم اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس عمر میں طور عقل وتمیز آجاتی ہے کہا جاتا ہے ۔ حلم ( ن ) فی نومہ خواب دیکھنا مصدر حلم اور حلم مثل ربع بھی کہا گیا ہے ۔ اور ۔ یہی معنی تحلم واحتلم کے ہیں ۔ حلمت بہ فی نومی ۔ میں نے اسے خواب میں دیکھا ۔ قرآن میں ہے : ۔ قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف/ 54] انہوں نے کہا یہ تو پریشان سے خواب ہیں ۔ الحلمۃ بڑی چیچڑی ۔ کیونکہ وہ ایک جگہ پر جمے رہنے کی وجہ سے حلیم نظر آتی ہے اور سر پستان کو حلمۃ الثدی کہنا محض ہیت میں چیچڑی کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ اس مجاز کی دلیل یہ ہے کہ سر پستان کو قراد بھی کہہ دیتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) اس کے سینے پر پستانوں کے نشانات اسطرح خوشمنا نظر اتے ہیں کہ گویا کسی کاتب لے مٹی کی مہریں لگادیں ہیں چمڑے کو کیڑا الگ جانا ۔ حلمت البعیر میں نے اونٹ سے خیچڑ نکالے حلمت فلانا کسی پر قدرت حاصل کے لئے اس کے ساتھ مدارات سے پیش آنا تاکہ وہ مطمئن رہے جیسا کہ اونٹ سے چیچڑ دور کرنے سے اسے سکون اور راحت محسوس ہوتا ہے اور انسان اس پر پوری طرح قدرت پالیتا ہے استئذان : طلب الإذن، قال تعالی: إِنَّما يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ [ التوبة/ 45] ، فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ [ النور/ 62] . الاستئذن کے معنی اجازت طلب کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ { إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ } ( سورة التوبة 45) اجازت دہی لوگ مانگتے ہیں جو خدا پر اور پچھلے دن پر ایمان نہیں رکھتے ۔ { فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ } ( سورة النور 62) سو جب یہ لوگ تم سے کسی کام کے لئے ) اجازت مانگا کریں ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔
Top