Mufradat-ul-Quran - Al-Maaida : 90
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والو اِنَّمَا الْخَمْرُ : اس کے سوا نہیں کہ شراب وَالْمَيْسِرُ : اور جوا وَالْاَنْصَابُ : اور بت وَالْاَزْلَامُ : اور پانسے رِجْسٌ : ناپاک مِّنْ : سے عَمَلِ : کام الشَّيْطٰنِ : شیطان فَاجْتَنِبُوْهُ : سو ان سے بچو لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تُفْلِحُوْنَ : تم فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! شراب اور جوا اور بت اور پا سے (یہ سب) ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں۔ سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝ 90 خمر أصل الخمر : ستر الشیء، ويقال لما يستر به : خِمَار، لکن الخمار صار في التعارف اسما لما تغطّي به المرأة رأسها، وجمعه خُمُر، قال تعالی: وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ [ النور/ 31] والخَمْر سمّيت لکونها خامرة لمقرّ العقل، وهو عند بعض الناس اسم لكلّ مسكر . وعند بعضهم اسم للمتخذ من العنب والتمر، لما روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «الخمر من هاتین الشّجرتین : النّخلة والعنبة» ( خ م ر ) الخمر ( ن ) اصل میں خمر کے معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں اسی طرح خمار اصل میں ہر اس چیز کو کہاجاتا ہے جس سے کوئی چیز چھپائی جائے مگر عرف میں خمار کا لفظ صرف عورت کی اوڑھنی پر بولا جاتا ہے جس کے ساتھ وہ اپنے سر کو چھپاتی ہے ۔ اس کی جمع خمر آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ [ النور/ 31] اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں ۔ کہاجاتا ہے ۔ الخمر ۔ شراب ۔ نشہ ۔ کیونکہ وہ عقل کو ڈہانپ لیتی ہے بعض لوگوں کے نزدیک ہر نشہ آور چیز پر خمر کا لفظ بولا جاتا ہے اور بعض کے نزدیک صرف اسی چیز کو خمر کہا جاتا ہے ۔ جو انگور یا کھجور سے بنائی گئ ہو ۔ کیونکہ ایک روایت میں ہے (122) الخمر من ھاتین الشجرتین التخلۃ و العنبۃ ( کہ خمر ( شراب حرام صرف وہی ہے جو ان دو درختوں یعنی انگور یا کھجور سے بنائی گئی ہو ۔ يسر اليُسْرُ : ضدّ العسر . قال تعالی: يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق/ 7] ، وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف/ 88] ، فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات/ 3] ( ی س ر ) الیسر کے معنی آسانی ار سہولت کے ہیں یہ عسر کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے ۔ اور سختی نہیں چاہتا ۔ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق/ 7] خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا ۔ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف/ 88] بلکہ اس سے نرم بات کہیں گے ۔ فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات/ 3] پھر نر می سے چلتی ہیں ۔ نصب نَصْبُ الشیءِ : وَضْعُهُ وضعاً ناتئاً كنَصْبِ الرُّمْحِ ، والبِنَاء والحَجَرِ ، والنَّصِيبُ : الحجارة تُنْصَبُ علی الشیءِ ، وجمْعُه : نَصَائِبُ ونُصُبٌ ، وکان للعَرَبِ حِجَارةٌ تعْبُدُها وتَذْبَحُ عليها . قال تعالی: كَأَنَّهُمْ إِلى نُصُبٍ يُوفِضُونَ [ المعارج/ 43] ، قال : وَما ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ [ المائدة/ 3] وقد يقال في جمعه : أَنْصَابٌ ، قال : وَالْأَنْصابُ وَالْأَزْلامُ [ المائدة/ 90] والنُّصْبُ والنَّصَبُ : التَّعَبُ ، وقرئ : بِنُصْبٍ وَعَذابٍ [ ص/ 41] و ( نَصَبٍ ) وذلک مثل : بُخْلٍ وبَخَلٍ. قال تعالی: لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر/ 35] وأَنْصَبَنِي كذا . أي : أَتْعَبَنِي وأَزْعَجَنِي، قال الشاعرُ : تَأَوَّبَنِي هَمٌّ مَعَ اللَّيْلِ مُنْصِبٌوهَمٌّ نَاصِبٌ قيل : هو مثل : عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ والنَّصَبُ : التَّعَبُ. قال تعالی: لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . وقد نَصِبَ فهو نَصِبٌ ونَاصِبٌ ، قال تعالی: عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية/ 3] . والنَّصِيبُ : الحَظُّ المَنْصُوبُ. أي : المُعَيَّنُ. قال تعالی: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء/ 53] ، أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ [ آل عمران/ 23] ، فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ [ الشرح/ 7] ويقال : نَاصَبَهُ الحربَ والعَداوةَ ، ونَصَبَ له، وإن لم يُذْكَر الحربُ جَازَ ، وتَيْسٌ أَنْصَبُ ، وشَاةٌ أو عَنْزَةٌ نَصْبَاءُ : مُنْتَصِبُ القَرْنِ ، وناقةٌ نَصْبَاءُ : مُنْتَصِبَةُ الصَّدْرِ ، ونِصَابُ السِّكِّين ونَصَبُهُ ، ومنه : نِصَابُ الشیءِ : أَصْلُه، ورَجَعَ فلانٌ إلى مَنْصِبِهِ. أي : أَصْلِه، وتَنَصَّبَ الغُبارُ : ارتَفَع، ونَصَبَ السِّتْرَ : رَفَعَهُ ، والنَّصْبُ في الإِعراب معروفٌ ، وفي الغِنَاءِ ضَرْبٌ منه ( ن ص ب ) نصب الشئیء کے منعی کسی چیز کو کھڑا کرنے یا گاڑ دینے کے ہیں مثلا نیزے کے گاڑنے اور عمارت یا پتھر کو کھڑا کرنے پر نصب کا لفظ بولا جاتا ہے اور نصیب اس پتھر کو کہتے ہیں جو کسی مقام پر ( بطور نشان کے ) گاڑ دیا جاتا ہے اس کی جمع نصائب ونصب آتی ہے ۔ جاہلیت میں عرب جن پتھروں کی پوجا کیا کرتے اور ان پر جانور بھینٹ چڑہا یا کرتے تھے ۔ انہیں نصب کہا ۔ جاتا تھا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَأَنَّهُمْ إِلى نُصُبٍ يُوفِضُونَ [ المعارج/ 43] جیسے وہ عبارت کے پتھروں کی طرف دوڑتے ہیں ۔ نیز فرمایا : ۔ وَما ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ [ المائدة/ 3] اور وہ جانور بھی جو تھا ن پر ذبح کیا جائے ۔ اس کی جمع انصاب بھی آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالْأَنْصابُ وَالْأَزْلامُ [ المائدة/ 90] اور بت اور پا سے ( یہ سب ) ناپاک کام اعمال شیاطین سے ہیں ۔ اور نصب ونصب کے معنی تکلیف ومشقت کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر/ 35] ایذا اور تکلیف میں ایک قراءت نصب بھی ہے اور یہ بخل وبخل کی طرح ہے قرآن میں ہے : ۔ یہاں نہ ہم کو رنج پہنچے گا ۔ وانصبنی کذا کے معنی کسی کو مشقت میں ڈالنے اور بےچین کرنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 427 ) تاو بنی ھم مع اللیل منصب میرے پاس رات کو تکلیف وہ غم بار بار لوٹ کر آتا ہے ۔ اور عیشۃ راضیۃ کی طرح ھم ناصب کا محاورہ بھی بولا جاتا ہے ۔ النصب کے معنی مشقت کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] اس سفر سے ہم کو بہت تھکان ہوگئی ہے ۔ اور نصب ( س ) فھو نصب وناصب کے معنی تھک جانے یا کسی کام میں سخت محنت کرنے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية/ 3] سخت محنت کرنے والے تھکے ماندے ۔ فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ [ الشرح/ 7] تو جب فارغ ہوا کرو ۔ تو عبادت میں محنت کیا کرو النصب کے معنی معین حصہ کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء/ 53] کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ [ آل عمران/ 23] بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا ۔ اور ناصبۃ الحر ب والعدۃ ونصب لہ کے معنی کسی کے خلاف اعلان جنگ یا دشمنی ظاہر کرنے کے ہیں ۔ اس میں لفظ حر ب یا عداوۃ کا حزف کر نا بھی جائز ہے تئیس انصب وشاۃ او عنزۃ نصباء کھڑے سینگوں والا مینڈ ھایا بکری ۔ ناقۃ نصباء ابھرے ہوئے سینہ والی اونٹنی نصاب السکین ونصبۃ کے معنی چھری کے دستہ ہیں ۔ اور اسی سے نصاب الشئی کا محاورہ ہے جس کے معنی اصل الشئی ہیں ۔ تنصب الغبار غبار کا اڑنا نصب الستر پر دہ اٹھانا نصب ( اعراب زبر کو کہتے ہیں اور نصب ایک قسم کا راگ بھی ہے ۔ زلم ( الأزلام) ، جمع زلم بفتح الزاي وضمّها مع فتح اللام وهو القدح بکسر القاف، اسم جامد لسهم لا ريش له ولا نصل . رجس الرِّجْسُ : الشیء القذر، ، والرِّجْسُ يكون علی أربعة أوجه : إمّا من حيث الطّبع، وإمّا من جهة العقل، وإمّا من جهة الشرع، وإمّا من کلّ ذلک کالمیتة، فإنّ المیتة تعاف طبعا وعقلا وشرعا، والرِّجْسُ من جهة الشّرع : الخمر والمیسر، وقیل : إنّ ذلک رجس من جهة العقل، وعلی ذلک نبّه بقوله تعالی: وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة/ 219] ، لأنّ كلّ ما يوفي إثمه علی نفعه فالعقل يقتضي تجنّبه، وجعل الکافرین رجسا من حيث إنّ الشّرک بالعقل أقبح الأشياء، قال تعالی: وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة/ 125] ، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ [يونس/ 100] ، قيل : الرِّجْسُ : النّتن، وقیل : العذاب ( ر ج س ) الرجس پلید ناپاک جمع ارجاس کہا جاتا ہے ۔ جاننا چاہیے کہ رجس چار قسم پر ہے ( 1 ) صرف طبیعت کے لحاظ سے ( 2 ) صرف عقل کی جہت سے ( 3 ) صرف شریعت کی رد سے ( 4 ) ہر سہ کی رد سے جیسے میتہ ( مردار سے انسان کو طبعی نفرت بھی ہے اور عقل و شریعت کی در سے بھی ناپاک ہے رجس جیسے جوا اور شراب ہے کہ شریعت نے انہیں رجس قرار دیا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ چیزیں عقل کی رو سے بھی رجس ہیں چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة/ 219]( مگر ) فائدہ سے ان کا گناہ ( اور نقصان ) بڑھ کر ۔ میں اسی معنی پر تنبیہ کی ہے کیونکہ جس چیز کا نقصان اس کے نفع پر غالب ہو ضروری ہے کہ عقل سلیم اس سے مجتنب رہنے کا حکم دے اسی طرح کفار کو جس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ شرک کرتے ہیں اور شرک عند العقل قبیح ترین چیز ہے جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة/ 125] اور جس کے دلوں میں نفاق کا روگ ہے تو اس ( سورت ) نے ان کی ( پہلی ) خباثت پر ایک اور خباثت پڑھادی ۔ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ [يونس/ 100] اور خدا ( شرک وکفر کی ) نجاست انہیں لوگون پر ڈالتا ہے جو ( دالائل وحدانیت ) میں عقل کو کام میں نہیں لاتے ۔ بعض نے رجس سے نتن ( بدبو وار ) اور بعض بت عذاب مراد لیا ہے عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو اجتناب ورجل جَنِبٌ وجَانِبٌ. قال عزّ وجل : إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] ، وقال عزّ وجل : وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ [ الحج/ 30] ، واجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] عبارة عن تركهم إياه، فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ المائدة/ 90] ، وذلک أبلغ من قولهم : اترکوه . قال تعالیٰ في النار : وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى الَّذِي يُؤْتِي مالَهُ يَتَزَكَّى [ اللیل/ 17- 18] ، وذلک إذا أطلق فقیل : جنب فلان فمعناه : أبعد عن الخیر، وذلک يقال في الدعاء في الخیر، وقوله عزّ وجل : وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم/ 35] ، من : جنبته عن کذا أي : أبعدته، وقیل : هو من جنبت الفرس، كأنما سأله أن يقوده عن جانب الشرک بألطاف منه وأسباب خفيّة . الاجتناب ( افتعال ) بچنا ، یکسو رہنا ، پہلو تہی کرنا ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جس سے تم کو منع کیا جاتا ہے ۔ اجتناب رکھو گے ۔ الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم/ 32] جو ۔۔۔ بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ [ الحج/ 30] اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو ۔ اور آیت کریمہ :۔ واجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] میں بتوں سے اجتناب کے معنی ہیں کہ انہوں نے طاغوت کی عبادت یکسر ترک دی اس طرح وہ طاغوت سے دور رہے ۔ نیز فرمایا :۔ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ المائدة/ 90] سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ ۔ اور یہ یعنی اجتنبوا بنسیت اترکوہ کے زیادہ بلیغ ہے ۔ جنب بنوفلان بےشیر شدن قوم جنب فلان خیرا ۔ فلاں خیر سے محروم ہوگیا ۔ جنب شر ا ۔ وہ شر سے دور رہا ۔ چناچہ قرآن میں نار جہنم کے متعلق ہے :۔ وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى الَّذِي يُؤْتِي مالَهُ يَتَزَكَّى [ اللیل/ 17- 18] اور جو بڑا پرہیزگار ہے وہ اس ( نار) سے بچالیا جائے گا ۔ جو اپنا مال دیتا ہ تاکہ پاک ہو ۔ لیکن اگر مطلق یعنی بغیر کسی متعلق کے جنب فلان ؛ کہا جائے تو اس کے معنی خیر سے محروم ہونا ہی ہوتے ہیں ۔ اسی طرح دعائے خیر کے لئے بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم/ 35] اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے کہ بتوں کی برستش کرنے لگیں بچائے رکھ ۔ فلح والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] (ل ح ) الفلاح فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔
Top