Mufradat-ul-Quran - At-Tahrim : 12
وَ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَ كُتُبِهٖ وَ كَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ۠   ۧ
وَمَرْيَمَ : اور مریم ابْنَتَ عِمْرٰنَ : بیٹی عمران کی الَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ : وہ جس نے حفاظت کی فَرْجَهَا : اپنی شرم گاہ کی فَنَفَخْنَا : تو پھونک دیا ہم نے فِيْهِ : اس میں مِنْ رُّوْحِنَا : اپنی روح سے وَصَدَّقَتْ : اور اس نے تصدیق کی بِكَلِمٰتِ : کلمات کی رَبِّهَا : اپنے رب کے وَكُتُبِهٖ : اور اس کی کتابوں کی وَكَانَتْ : اور تھی وہ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ : فرماں بردار لوگوں میں سے
اور (دوسری) عمران کی بیٹی مریم کی جنہوں نے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور وہ اپنے پروردگار کے کلام اور اس کی کتابوں کو برحق سمجھتی تھیں اور فرماں برداروں میں سے تھیں۔
وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِيْہِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّہَا وَكُتُبِہٖ وَكَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ۝ 12 ۧ مریم مریم : اسم أعجميّ ، اسم أمّ عيسى عليه السلام» . حصن وتَحَصَّنَ : إذا اتخذ الحصن مسکنا، ثم يتجوّز به في كلّ تحرّز، وقوله تعالی: إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف/ 48] ، أي : تحرزون في المواضع الحصینة الجارية مجری الحصن ( ح ص ن ) الحصن تحصن کے اصل معنی نہ تو قلعہ کو مسکن بنا لینا کے ہیں مگر مجا زا ہر قسم کا بجاؤ حاصل کرنے پر لفظ بولا جاتا ہے ۔ اسی سے درع حصینۃ ( زرہ محکم ) اور فرس حصان ( اسپ نرو نجیب کا محاورہ ہے ۔ کیونکہ زرہ بدن کے لئے اور گھوڑا اپنے سوار کے لئے ایک طرح سے بمنزلہ قلعہ کسے ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف/ 48] صرف وہی تھوڑا سا رہ جائیگا جو تم احتیاط سے رکھ چھوڑو گے ۔ میں تحصنون سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ قلعے جیسی محفوظ جگہوں میں حفا ظت سے رکھ چھوڑو ۔ فرج الفَرْجُ والفُرْجَةُ : الشّقّ بين الشّيئين کفرجة الحائط، والفَرْجُ : ما بين الرّجلین، وكنّي به عن السّوأة، وکثر حتی صار کالصّريح فيه . قال تعالی: وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء/ 91] ، لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ [ المؤمنون/ 5] ، وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور/ 31] ، واستعیر الفَرْجُ للثّغر وكلّ موضع مخافة . وقیل : الفَرْجَانِ في الإسلام : التّرک والسّودان «1» ، وقوله : وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ [ ق/ 6] ، أي : شقوق وفتوق، قال : وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ [ المرسلات/ 9] ، أي : انشقّت، والفَرَجُ : انکشاف الغمّ. يقال : فَرَّجَ اللہ عنك، وقوس فَرْجٌ: انفرجت سيتاها، ورجل فَرْجٌ: لا يكتم سرّه، وفَرَجٌ: لا يزال ينكشف فرجه «2» ، وفَرَارِيجُ الدّجاج لانفراج البیض عنها، ودجاجة مُفْرِجٌ: ذات فراریج، والْمُفْرَجُ : القتیل الذي انکشف عنه القوم فلا يدری من قتله . (ر ج ) ' الفرج والفرجہ کے معنی دوچیزوں کے درمیان شگاف کے ہیں ۔ جیسے دیوار میں شگاف یا دونوں ٹانگوں کے درمیان کی کشادگی اور کنایہ کے طور پر فرج کا لفظ شرمگاہ پر بولا جاتا ہے اور کثرت استعمال کی وجہ سے اسے حقیقی معنی سمجھا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء/ 91] اور ان ( مریم ) کو ( بھی یاد کرو جنہوں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا ۔ لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ [ المؤمنون/ 5] اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور/ 31] اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں ۔ اور استعارہ کے طور سر حد اور ہر خطرہ کی جگہ کو فرج کیا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اسلامی دور حکومت میں فرجان کا لفظ ترک اور سوڈان پر بولا جاتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ [ ق/ 6] اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں ۔ میں فروج بمعنی شگاف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ [ المرسلات/ 9] اور جب آسمان پھٹ جائے ۔ میں فرجت بمعنی انشقت ہے یعنی جب آسمان شق ہوجائے گا ۔ الفرج کے معنی غم دور ہونیکے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ فرج اللہ عنک اللہ تجھ سے غم کو دور کرے اور قوس فرج اس کمان کو کہتے ہیں جس کے دونوں گوشے کشادہ ہوں ۔ جیسا کہ تانت سے علیدہ ہونے کی حالت میں اور جو شخص اپنا بھید نہ چھپائے اس کو فرج کہا جاتا ہے اور فرج اس شخص کو کہتے ہیں جس کی شرمگاہ پر ستر یعنی پردہ نہ ہو ۔ فراریج الدجامرغی کے چوزے کیونکہ وہ انڈوں سے نکتے ہیں اور چوزوں والی مرغی کو مفرج کہا جاتا ہے المفروج وہ قتیل جس سے لوگ دور ہوجائیں اور اس کے قاتل کا علم نہ ہوسکے ۔ نفخ النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ( نخ ) النفخ کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر/ 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔ روح الرَّوْحُ والرُّوحُ في الأصل واحد، وجعل الرّوح اسما للنّفس، وذلک لکون النّفس بعض الرّوح کتسمية النوع باسم الجنس، نحو تسمية الإنسان بالحیوان، وجعل اسما للجزء الذي به تحصل الحیاة والتّحرّك، واستجلاب المنافع واستدفاع المضارّ ، وهو المذکور في قوله : وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء/ 85] ، وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، وإضافته إلى نفسه إضافة ملك، وتخصیصه بالإضافة تشریفا له وتعظیما، کقوله : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج/ 26] ، ويا عِبادِيَ [ الزمر/ 53] ( رو ح ) الروح والروح دراصل ایک ہی ہیں ( روح کا اطلاق سانس پر ہوتا ہے اور سانس بھی چونکہ روح کا ایک جزء ہے اس لئے مجازا اسے روح کہہ دیا ہے جیسا کہ نوع کو اسم جنس سے تعبیر کرلیتے ہیں مثلا تسمیۃ الانسان بالحیوان اور کبھی روح کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جس کے ذریعہ زندگی حرکت منافع کا حصوال ومضرات سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء/ 85] اور تجھ سے روح کی حقیقت دریافت کرتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ یہ میرے پروردگار کا ایک حکم ہے وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] اور میں نے اس میں اپنی ( طرف سے ) روح پھونک دی ۔ میں روح کے یہی معنی مراد ہیں اور اللہ تعالٰیے کا اسے اپنی ذات کی طرف منسوب کرنا اضافت ملک کے طور پر ہے جس سے اس کی شرافت کا اظہار مقصود ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج/ 26] میں بیت کیا اضافت اپنی ذات کی طرف کی ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ويا عِبادِيَ [ الزمر/ 53] اے میرے بند و جنہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی ۔ میں عباد کی نسبت بھی یا متکلم ( ذات باری تعالیٰ ) کی طرف اضافت تشریفی ہے ۔ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد ﷺ ) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو قنت القُنُوتُ : لزوم الطّاعة مع الخضوع، وفسّر بكلّ واحد منهما في قوله تعالی: وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة/ 238] ، وقوله تعالی: كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم/ 26] قيل : خاضعون، وقیل : طائعون، وقیل : ساکتون ولم يعن به كلّ السّكوت، وإنما عني به ما قال عليه الصلاة والسلام : «إنّ هذه الصّلاة لا يصحّ فيها شيء من کلام الآدميّين، إنّما هي قرآن وتسبیح» وعلی هذا قيل : أيّ الصلاة أفضل ؟ فقال : «طول القُنُوتِ» أي : الاشتغال بالعبادة ورفض کلّ ما سواه . وقال تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً [ النحل/ 120] ، وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم/ 12] ، أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر/ 9] ، اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران/ 43] ، وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ [ الأحزاب/ 31] ، وقال : وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب/ 35] ، فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء/ 34] . ( ق ن ت ) القنوت ( ن ) کے معنی خضوع کے ساتھ اطاعت کا التزام کرنے کے ہیں اس بناء پر آیت کریمہ : وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة/ 238] اور خدا کے آگے ادب کھڑے رہا کرو ۔ میں برض نے قانیتین کے معنی طائعین کئے ہیں یعنی اطاعت کی ھالت میں اور بعض نے خاضعین یعنی خشوع و خضوع کے ساتھ اسی طرح آیت کریمہ كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم/ 26] سب اس کے فرمانبردار ہیں ۔ میں بعض نے قنتون کے معنی خاضعون کئے ہیں اور بعض نے طائعون ( فرمانبرادار اور بعض نے ساکتون یعنی خاموش اور چپ چاپ اور اس سے بالکل خاموش ہوکر کھڑے رہنا مراد نہیں ہے بلکہ عبادت گذاری میں خاموشی سے ان کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ( 87 ) کہ نماز ( تلاوت قرآن اور اللہ کی تسبیح وتحمید کا نام ہے اور اس میں کسی طرح کی انسانی گفتگو جائز نہیں ہے ۔ اسی بناء پر جب آپ سے پوچھا گیا کہ کونسی نماز افضل تو آپ ﷺ نے فرمایا ( 88 ) طول القنوت یعنی عبادت میں ہمہ تن منصروف ہوجانا اور اس کے ماسوا ست توجہ پھیرلینا قرآن میں ہے ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً [ النحل/ 120] بت شک حضرت ابراھیم لوگوں کے امام اور خدا کے فرمابنرداری تھے ۔ اور مریم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم/ 12] اور فرمانبرداری میں سے تھیں ۔ أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر/ 9] یا وہ جو رات کے وقتقں میں زمین پریشانی رکھ کر اور کھڑے ہوکر عبادت کرتا ہے ۔ اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران/ 43] اپنے پروردگار کی فرمانبرداری کرنا ۔ وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ [ الأحزاب/ 31] اور جو تم میں سے خدا اور اسکے رسول کی فرمنبردار رہے گی ۔ وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب/ 35] اور فرمانبرداری مرد اور فرمانبردار عورتیں ۔ فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء/ 34] تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں
Top