Mutaliya-e-Quran - Al-Faatiha : 2
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰہِ : اللہ کے لیے رَبِّ : رب الْعَالَمِينَ : تمام جہان
تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے
[ اَلْحَمْدُ : تمام حمد ][ لِلّٰهِ : اللہ کے لیے ہے ][ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ : جو تمام جہانوں کا پرورش کرنے والا ہے ] ح م د حَمِدَ یَحْمَدُ (س) حَمْدًا : محسن کی تعریف کرنا۔ حَامِدٌ (اسم الفاعل) : حمد کرنے والا ۔ { اَلتَّائِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحَامِدُوْنَ } (التوبۃ :112) ” توبہ کرنے والے ‘ عبادت کرنے والے ‘ حمد کرنے والے۔ “ مَحْمُوْدٌ (اسم المفعول) : حمد کیا ہوا۔ { عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا } (بنی اسرائیل ) ” قریب ہے کہ آپ کو پہنچا دے ‘ آپ کا رب ‘ حمد کیے ہوئے مقام پر۔ “ حَمَّدَ یُحَمِّدُ (تفعیل) تَحْمِیْدًا : محسن کی کثرت سے حمد کرنا۔ مُحَمَّدٌ (اسم المفعول) : کثرت سے حمد کیا ہوا ‘ حضور ﷺ کا نام۔ اَحْمَدُ (افعل التفضیل) : دوسروں یا سب سے بڑھ کر زیادہ حمد کرنے والا۔ { وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗ اَحْمَدُ } (الصف :6) ” اور بشارت دینے والا ایک رسول کی ‘ وہ آئیں گے میرے بعد ‘ ان کا نام احمد ہوگا ۔ “ حَمِیْدٌ(فعیل کا وزن اسم المفعول کے معنی میں) : ہمیشہ ہمیشہ سے حمد کیا ہوا۔ { اِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ} (البقرۃ) ” بیشک اللہ تعالیٰ غنی ہے ‘ حمید ہے۔ “ حَمْدٌ : حمد دراصل ایسی تعریف کو کہتے ہیں جو شکر کے جذبے کے ساتھ ہو۔ کوئی کام یا کوئی چیز جتنی زیادہ نقص اور عیب سے پاک ہوگی اتنی ہی زیادہ اس کی تعریف ہوگی۔ اس کے ساتھ اگر یہ احساس ہوجائے کہ وہ کام یا چیز ہمارے فائدے کے لیے ہے تو اب دل کی گہرائی سے ابلنے والا شکر کا جذبہ اس تعریف کے ساتھ شامل ہوجائے گا۔ یہ حمد ہے۔ اس کا پورا مفہوم ادا کرنے کے لیے اردو میں کوئی مناسب لفظ نہیں ہے۔ اس لیے اس کا مفہوم سمجھنے کے بعد لفظ حمد ہی استعمال کیا جائے اور اس کا ترجمہ کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اَلْحَمْدُ : اس پر لام تعریف نہیں بلکہ لام جنس لگا ہوا ہے۔ تمام جنس حمد یعنی حمد کی جتنی بھی صورتیں ممکن ہیں وہ سب اس لفظ میں شامل ہیں۔ اس لیے الحمد کا ترجمہ ہوگا تمام حمد۔ ترکیب :” اَلْحَمْدُ “ مبتدأہے۔ اس کی خبر ” ثَابِتٌ“ (ثابت ہے) یا واجب (واجب ہے) محذوف ہے۔ ” لِلّٰہِ “ مرکب جاری ہے اور قائم مقام خبر ہے۔ ترجمہ : نوٹ (1) : قرآن مجید میں سورتوں کے نام مرکب اضافی کی ترکیب میں لکھے ہیں۔ چناچہ سورة الفاتحۃ بھی مرکب اضافی ہے۔ فَتَحَ سے اسم الفاعل مؤنث فَاتِحَۃٌ بنتا ہے۔ اس لیے اس کا لفظی ترجمہ ہوگا ” کھولنے والی کی سورة “ لیکن اردو محاورہ کے لحاظ سے ہم کہیں گے ” کھولنے والی سورة “ نوٹ (2) : عربی میں ال بطور لام تعریف اور لام جنس دونوں طرح استعمال ہوتا ہے انہیں پہچاننے یعنی ان کے درمیان فرق کرنے کا کوئی قاعدہ نہیں ہے۔ غالباً اس کی و جہ یہ ہے کہ جملہ پر غور کرنے سے ان کا فرق از خود واضح ہوجاتا ہے اور ان کو پہچاننے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ مثلاً اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ پر لام تعریف مان کر ترجمہ کریں تو مطلب ہوگا کہ ایک مخصوص حمد اللہ کے لیے ہے تو باقی حمد کس کے لیے ہے ؟ جملہ بےمعنی ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ میں انسان پر لام تعریف مانیں تو مطلب ہوگا کہ ایک مخصوص انسان خسارے میں ہے۔ ایسی صورت میں آگے اِلَّا الَّذِیْنَ جمع کا صیغہ بےمعنی ہوجاتا ہے۔ معلوم ہوگیا کہ یہ بھی لام جنس ہے۔ نوٹ (3) : اوپر بات ہوئی کہ اَلْحَمْدُ کی خبر محذوف ہے۔ اس ضمن میں یہ بات سمجھ لیں کہ ہر زبان میں کسی جملے میں سے کچھ الفاظ حذف کردینے کا رواج ہے مثلاً ہم کہتے ہیں ” کون ہے ؟ “ ۔ یہاں لفظ ” آیا “ محذوف ہے۔ پورا جملہ ” کون آیا ہے ؟ “ کسی کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہاں ؟ اس میں الفاظ ” جا رہے ہو “ محذوف ہے۔ اسی طرح عربی میں بھی اور قرآن مجید میں بھی محذوفات ملیں گے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جہاں جی چاہے اور جو جی چاہے محذوف مان لیا جائے۔ محذوفات کا فیصلہ زبان کے محاورہ اور جملہ کے سیاق وسباق کے پیش نظر کیا جاتا ہے۔ مثلاً کون ہے ؟ میں اگر لفظ ” گیا “ محذوف مان کر مطلب نکالیں گے کہ کون گیا ہے ؟ تو یہ اردو محاورے کے خلاف ہوگا۔ نوٹ (4) : عربی میں مرکب جاری اور ظرف جملہ اسمیہ میں متعلق خبر بن کر آتے ہیں یعنی خبر کی وضاحت اور تشریح کرتے ہیں لیکن خود خبر نہیں بنتے۔ جملہ میں خبر اگر محذوف ہو تو پھر یہ قائم مقام خبر کہلاتے ہیں۔ مثلاً اَلرَّجُلُ مَوْجُوْدٌ فِی الْبَیْتِ میں فِی الْبَیْتِ متعلق خبر ہے۔ اور اَلرَّجُلُ فِی الْبَیْتِ میں فِی الْبَیْتِ قائم مقام خبر ہے۔ رَبَّ یَرُبُّ (ن) رَبًّـا : تربیت کرنا ‘ پرورش کرنا ‘ مالک ہونا۔ رَبٌّ جمع اَرْبَابٌ : تربیت کرنے والا (یہ مصدر ہے لیکن بطور اسم الفاعل بھی استعمال ہوتا ہے) ۔ رَبَّانِیٌّ جمع رَبَّانِیُّوْنَ : رب والا ‘ اللہ والا۔ { لَوْلَا یَنْھَاھُمُ الرَّبَّانِیُّوْنَ } (المائدۃ :63) ” کیوں نہیں منع کرتے ان کو اللہ والے لوگ۔ “ رَبِیْبَۃٌ جمع رَبَائِبُ : زیر تربیت سوتیلی بیٹی۔ { وَرَبَائِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ } (النسائ :23) ” اور تمہاری سوتیلی بیٹیاں جو تمہاری گودوں میں ہیں۔ “
Top