Mutaliya-e-Quran - Al-Kahf : 64
قَالَ ذٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ١ۖۗ فَارْتَدَّا عَلٰۤى اٰثَارِهِمَا قَصَصًاۙ
قَالَ : اس نے کہا ذٰلِكَ : یہ مَا كُنَّا نَبْغِ : جو ہم چاہتے تھے فَارْتَدَّا : پھر وہ دونوں لوٹے عَلٰٓي : پر اٰثَارِهِمَا : اپنے نشانات (قدم) قَصَصًا : دیکھتے ہوئے
موسیٰؑ نے کہا "اسی کی تو ہمیں تلاش تھی" چنانچہ وہ دونوں اپنے نقش قدم پر پھر واپس ہوئے
[قَالَ : انھوں (علیہ السلام) نے کہا ] [ذٰلِكَ مَا : یہ وہ ہے جس کو ] [كُنَا نَبْغِ : ہم تلاش کر رہے تھے ] [فَارْتَدَّا : پھر وہ دونوں لوٹے ] [عَلٰٓي اٰثَارِهِمَا : اپنے نقوش قدم پر ] [قَصَصًا : پیچھا کرتے ہوئے ] (آیت۔ 64) ۔ نَبْغِ مجزوم نہیں ہے کیونکہ یہاں مضارع کو مجزوم کرنے والا کوئی عامل نہیں ہے۔ اس لئے یہ دراصل مضارع نَبْغِیْ ہی ہے۔ اس جگہ اس کو نَبْعِ لکھنا قرآن مجید کا مخصوص املا ہے۔ نوٹ۔ 1: یہ قصّہ سنانے سے مقصود کفار اور مؤمنین دونوں کو ایک اہم حقیقت سے آگاہ کرنا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ نگاہ دنیا میں بظاہر جو کچھ دیکھتی ہے، اس سے غلط نتائج اخذ کرلیتی ہے کیونکہ اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی وہ مصلحتیں نہیں ہوتیں جن کو ملحوظ رکھ کر وہ کام کرتا ہے۔ ظالموں کا پھلتا پھولنا اور بےگناہوں کا تکلیف میں مبتلا ہونا وغیرہ وہ مناظر ہیں جن سے عام طور پر ذہنوں میں الجھنیں اور غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ کافر ان سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہاں جس کا جو جی چاہے کرتا رہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ مومن اس طرح کے واقعات کو دیکھ کر دل شکستہ ہوتے ہیں اور بسا اوقات ایمان تک متزلزل ہوجاتے ہیں۔ ایسے ہی حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی (علیہ السلام) کو اپنے کارخانۂ مشیت کا پردہ اٹھا کر اس کی ایک جھلک دکھائی تھی تاکہ انھیں معلوم ہوجائے کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے کیسے کن مصلحتوں سے ہو رہا ہے اور کس طرح واقعات کا ظاہر ان کے باطن سے مختلف ہوتا ہے۔ حضرت موسٰی (علیہ السلام) کو یہ واقعہ کب اور کہاں پیش آیا، اس کی کوئی تصریح قرآن نے نہیں کی۔ البتہ جب ہم خود اس قصے کی تفصیلات پر غور کرتے ہیں تو دو باتیں صاف سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ مشاہدات حضرت موسٰی (علیہ السلام) کو ان کی نبوت کے ابتدائی دور میں کرائے گئے ہوں گے۔ کیونکہ آغاز نبوت میں ہی انبیاء (علیہم السلام) کو اس طرح کی تعلیم و تربیت درکار ہوا کرتی ہے۔ دوسرے یہ کہ حضرت موسٰی (علیہ السلام) کو ان مشاہدات کی ضرورت اس زمانے میں پیش آئی ہوگی جبکہ بنی اسرائیل کو بھی اسی طرح کے حالات سے سابقہ پیش آ رہا ہوگا جن سے مسلمان مکۂ معظمہ میں دوچار تھے۔ جس بندے سے حضرت موسٰی (علیہ السلام) کی ملاقات ہوئی تھی، ان کا نام معتبر احادیث میں خضر بتایا گیا ہے۔ اس لئے ان لوگوں کے اقوال کسی التفات کے مستحق نہیں ہیں جو اسرائیلی روایات سے متاثر ہو کر حضرت الیاس (علیہ السلام) کی طرف اس قصّہ کو منصوب کرتے ہیں۔ ان کا قول نہ صرف اس بنا پر غلط ہے کہ نبی ﷺ کے ارشاد سے متصادم ہوتا ہے بلکہ اس بنا پر بھی سراسر لغو ہے کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) حضرت موسٰی (علیہ السلام) کے کئی سو برس بعد پیدا ہوئے ہیں۔ حضرت موسٰی (علیہ السلام) کے خادم کا نام بھی قرآن میں نہیں بتایا گیا البتہ بعض روایات میں ذکر ہے کہ وہ حضرت یوشع بن نون تھے جو بعد میں حضرت موسٰی (علیہ السلام) کے خلیفہ ہوئے۔ (تفہیم القرآن)
Top