Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 202
اُولٰٓئِكَ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَهُمْ : ان کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو كَسَبُوْا : انہوں نے کمایا وَاللّٰهُ : اور اللہ سَرِيْعُ : جلد الْحِسَابِ : حساب لینے والا
ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں لگتی
[ اُولٰٓئِکَ : وہ لوگ ہیں ] [ لَہُمْ : جن کے لیے ] [ نَصِیْبٌ : ایک حصہ ہے ] [ مِّمَّا : اس میں سے جو ] [ کَسَبُوْا : انہوں نے ] [ کمایا ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ سَرِیْعُ الْحِسَابِ : حساب لینے میں تیز ہے ] ن ص ب نَصَبَ (ف ۔ ض) نَصْبًا : (1) کسی چیز کو گاڑنا ‘ جمانا۔ (2) کسی کو تکلیف دینا۔ { وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ ۔ } (الغاشیۃ) ” اور پہاڑوں کی طرف (نہیں دیکھتے کہ) کیسے وہ جمائے گئے۔ “ نَصِبَ (س) نَصَبًا : محنت کرنا ‘ کوشش کرنا۔ اِنْصَبْ (فعل امر) : تو محنت کر ‘ کوشش کر۔ { فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ ۔ وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ ۔ } (الم نشرح : الانشراح) ” پس جب بھی آپ ﷺ فارغ ہوں تو آپ ﷺ محنت کریں اور اپنے رب کی طرف پھر رغبت کریں۔ “ نَاصِبٌ (اسم الفاعل) : محنت کرنے والا ‘ کوشش کرنے والا۔ { وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ ۔ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ ۔ } (الغاشیۃ) ” کچھ چہرے اس دن خوف زدہ ہونے والے ہیں ‘ عمل کرنے والے ‘ محنت کرنے والے۔ “ نَصَبٌ (اسم ذات) : مشقت ‘ تکلیف۔ { لَا یَمَسُّھُمْ فِیْھَا نَصَبٌ} (الحجر :48) ” نہیں پہنچے گی ان کو اس میں کوئی مشقت۔ “ نُصْبٌ (اسم ذات) : ایذا ‘ تکلیف۔ { اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ ۔ } (صٓ) ” کہ چھوا مجھ کو شیطان نے ایذا سے اور عذاب سے۔ “ نُصُبٌ ج اَنْصَابٌ (اسم ذات) : بھینٹ چڑھانے کی علامت کے لیے گاڑے ہوئے پتھر ‘ استھان ‘ بت۔{ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ } (المائدۃ :3) ” اور جو ذبح کیا گیا استھان پر۔ “{ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ} (المائدۃ :90) ” کچھ نہیں سوائے اس کے کہ نشہ اور جوا اور استھان اور پانسے نجاست ہیں۔ “ نَصِیْبٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر اسم المفعول کے معنی میں صفت) : گاڑا ہوا ‘ جمایا ہوا۔ پھر کسی چیز کے کسی کے لیے مقرر کردہ حصے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ (آیت زیر مطالعہ) س ر ع سَرُِعَ (س۔ ک) سَرَعًا اور سُرْعَۃً : کوئی کام تیزی سے کرنا ‘ جلدی کرنا۔ اَسْرَعُ (افعل التفضیل) : زیادہ تیز یا سب سے تیز۔ { وَھُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِیْنَ ۔ } (الانعام) ” اور وہ سب سے تیز حساب کرنے والا ہے۔ “ سَرِیْعٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : جلدی کرنے والا ‘ تیز۔ ( آیت زیر مطالعہ) سَارَعَ (مفاعلہ) سِرَاعًا : ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے جلدی کرنا ‘ سبقت کرنا۔{ وَیُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِط } (آل عمران :114) ” اور وہ لوگ باہم سبقت کرتے ہیں بھلائیوں میں۔ “ سَارِعْ (فعل امر) : تو سبقت کر۔ { وَسَارِعُوْآ اِلٰی مَغْفِرَۃٍ } (آل عمران :133) ” اور تم لوگ باہم سبقت کرو مغفرت کی طرف۔ “ ح س ب حَسَبَ (ن) حَسَبًا : گنتی کرنا ‘ شمار کرنا یعنی حساب رکھنا ‘ حساب کرنا۔ حَسِبَ (س۔ ح) حِسْبَانًا : خیال کرنا ‘ گمان کرنا۔ { اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ } (البقرۃ :214) ” کیا تم لوگوں نے گمان کیا کہ تم لوگ داخل ہو گے جنت میں ؟ “ حَاسِبٌ (اسم الفاعل) : حساب رکھنے والا ‘ حساب کرنے والا۔ اوپر لفظ ” اَسْرَعُ “۔ (الانعام :62) حَسِیْبٌ (فَعِیْلٌ کا وزن) : ہمیشہ اور ہر حال میں حساب کرنے والا۔ { وَکَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیْبًا ۔ } (النسائ) ” اور کافی ہے اللہ بطور حساب کرنے والے کے۔ “ حُسْبَانٌ (فُعْلَانٌ کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ) : (1) بےانتہا حساب رکھنے والا۔ (2) سخت پکڑ کرنے والا (حساب کے نتیجے میں) ‘ آفت۔ { وَجَعَلَ الَّـیْلَ سَکَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًاط } (الانعام :96) ” اور اس نے بنایا رات کو سکون اور سورج اور چاند کو حساب رکھنے والا۔ “{ وَیُرْسِلَ عَلَیْھَا حُسْبَانًا مِّنَ السَّمَآئِ } (الکہف :40) ” اور وہ بھیجے اس پر کوئی آفت آسمان سے۔ “ حَسْبُ (اسم فعل) : حساب کتاب میں پورا ‘ یعنی کافی۔ { حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ۔ } (آل عمران) ” کافی ہے ہم کو اللہ اور کیا ہی اچھا وکیل ہے ! “ حَاسَبَ (مفاعلہ) مُحَاسَبَۃً اور حِسَابًا : کسی سے کسی چیز کا حساب مانگنا ‘ حساب لینا۔ { وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ ط } (البقرۃ :284) ” اور اگر تم لوگ ظاہر کرو اس کو جو تمہارے جی میں ہے یا چھپائو اس کو ‘ اللہ حساب لے گا تم سے اس کا۔ “ اِحْتَسَبَ (افتعال) اِحْتِسَابًا : (1) اہتمام سے حساب مانگنا۔ (2) اہتمام سے خیال کرنا۔ { وَمَنْ یَّـتَّـقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّـہٗ مَخْرَجًا ۔ وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ ط } (الطلاق :2‘3) ” اور جو تقویٰ کرتا ہے اللہ کا وہ تو بناتا ہے اس کے لیے نکلنے کا ایک راستہ۔ اور وہ رزق دیتا ہے اس کو وہاں سے جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا۔ “ ترکیب : ” اُولٰٓـئِکَ “ مبتدأ ہے اور ” لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْا “ یہ پورا جملہ اس کی خبر ہے۔ اس جملہ میں ” نَصِیْبٌ“ مبتدأمؤخر نکرہ ہے۔ خبر محذوف ہے اور ” لَھُمْ “ قائم مقام خبر مقدم ہے ‘ جبکہ ” مِمَّا کَسَبُوْا “ متعلق خبر ہے۔ ” اَللّٰہُ “ مبتدأ اور مرکب اضافی ” سَرِیْعُ الْحِسَابِ “ اس کی خبر ہے۔ نوٹ (1) : سورة البقرۃ کی آیت 200 میں ان لوگوں کا ذکر تھا جو اپنی نیکی کا اجر دنیا میں مانگتے ہیں۔ وہاں پر بتادیا گیا کہ ایسے لوگوں کو آخرت میں کچھ نہیں ملے گا ‘ یعنی دنیا میں ملے گا یا نہیں ‘ اور ملے گا تو کتنا ‘ اس کا فیصلہ تو اللہ تعالیٰ اپنے علم اور حکمت سے کرے گا ‘ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ انہیں آخرت میں کچھ نہیں ملے گا۔ پھر آیت 201 میں ان لوگوں کا ذکر ہوا جو اپنی نیکی کا اجر دنیا اور آخرت ‘ دونوں جگہ مانگتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا ‘ اس کی وضاحت اس آیت میں کی گئی ہے کہ جو نیکی انہوں نے کمائی ہے اس کا کچھ حصہ انہیں دنیا میں ملے گا اور کچھ حصہ آخرت میں۔ اس بات کی مزید وضاحت ایک حدیث سے ہوتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے (ترجمہ نہیں) کہ ایک غازی ‘ جس نے صرف اللہ کی رضا کے لیے قتال میں حصہ لیا ‘ پھر مال غنیمت میں سے اپنا حصہ لیا ‘ اس نے اپنے اجر کا دو تہائی حصہ وصول کرلیا۔ یہ مسلم شریف کی حدیث ہے ۔ جو لوگ حدیث کے بغیر قرآن مجید سے ہی سب کچھ سمجھنا چاہتے ہیں وہ لوگ اپنی دلیل کے طور پر اس حدیث کو پیش کرتے ہیں کہ یہ حدیث آیت 201 سے ٹکراتی ہے ‘ یعنی اس کے خلاف ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنی قرآن فہمی کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے جس پر ان کا تکیہ ہے۔
Top